• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا محمد ابراہيم مير سيالکوٹي رحمہ اللہ اور تحريک پاکستان

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
مولانا محمد ابراہيم مير سيالکوٹي رحمہ اللہ اور تحريکِ پاکستان

برصغير پاک و ہند کي اہلحديث تاريخ ميں ايک طويل عرصہ ايسا گزرا ہے کہ جب ان کا کوئي اہم جلسہ، کوئي کانفرنس، کوئي بلند پايہ علمي و ديني مجلس اور کوئي محفل مناظرہ شيخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسري رحمہ اللہ ( م 1948 ء ) مولانا ابوالقاسم سيف بنارسي رحمہ اللہ( م 1949ء ) اور امام العصر مولانا محمد ابراہيم مير سيالکوٹي رحمہ اللہ( م 1956 ء ) کے بغير مکمل نہ ہوتي تھي۔ يہ تينوں علمائے کرام اپنے علم و فضل، جلالت شان، ذوق تحقيق، وسعت مطالعہ، اور تحرير و تقرير ميں صاحب کمال اور فن مناظرہ ميں امام تسليم کئے جاتے تھے۔
مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ کثير المطالعہ عالم تھے۔ تفسير، حديث، فقہ، اصول فقہ، تاريخ و سير، ادب و لغت، فلسفہ اور تقابل اديان وغيرہ علوم سے متعلق ان کا دائرہ بہت وسيع تھا۔ برصغير ( پاک و ہند ) ميں اسلام اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وسلم کے خلاف ہر اٹھنے والے فتنے کا تحرير و تقرير سے مقابلہ کيا۔ تفسير قرآن ميں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔
مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ کا حافظہ بہت قوي تھا۔ قدرت کي طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پيدا ہوئے تھے۔ آپ نے قرآن مجيد ايک ماہ رمضان المبارک ميں زباني ياد کر ليا تھا۔ دن کو روزہ کي حالت ميں ايک پارہ ياد کرتے تھے۔ اور رات کو بلاتکلف اسے تراويح ميں سنا ديتے تھے۔ آپ نے اپني تصنيف ” نجم الہديٰ“ کے ديباچہ ميں اس کا ذکر کيا ہے۔
قيمتي مطالعہ ان کا سرمايہ علم تھا۔ عربي و فارسي کي بلند پايہ کتابيں ان کے زير مطالعہ رہتي تھيں۔ ان کا کتب خانہ برصغير کے چوٹي کے کتب خانوں ميں شمار ہوتا تھا۔ يہ کتب خانہ آج بھي محفوظ ہے۔ اور علامہ پروفيسر ساجد مير امير مرکزي جمعيت اہلحديث پاکستان جو مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ کے پوتے ہيں کي تحويل ميں ہے۔
مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ بلند پايہ عالم اور مناظر ہونے کے ساتھ ساتھ ملکي سياست سے بھي پوري طرح باخبر تھے اور عالمي سياست پر بھي ان کي معلومات وسيع تھيں۔ برصغير ( پاک و ہند ) کي تمام قومي و ملي اور سياسي و غير سياسي تحريکات سے مکمل واقفيت تھي۔ اور ہر تحريک کے قيام اور پس منظر سے آگاہ تھے۔ اور ہر تحريک کے بارے ميں اپني ايک ناقدانہ رائے رکھتے تھے۔
1916ءميں مسلم ليگ سے وابستہ ہوئے اور اپنے انتقال1956 ءتک مسلم ليگ ہي سے وابستہ رہے۔ 1930ءکے اجلاس مسلم ليگ الہ آباد جس کي صدارت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے فرمائي تھي۔ شريک ہوئے اور 1940 ءکے اجلاس لاہور جس ميں قرارداد پاکستان منظور ہوئي تھي۔ مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ نے شرکت کي تھي۔ تحريک پاکستان کي تائيد کے سلسلہ ميں پورے برصغير کا دورہ کيا۔ اور مسلمانوں کو تحريک پاکستان سے روشناس کرايا۔ تحريک پاکستان کے سلسلہ ميں بے شمار مضامين روزنامہ نوائے وقت لاہور ميں لکھے۔ جو بعد ميں ” پيغام ہدايت“ اور ” تائيد مسلم ليگ“ کے نام سے کتابي صورت ميں شائع ہوئے۔
مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ شروع ہي سے دوقومي نظريہ کے حامي تھے۔ دوقومي نظريہ کي حمايت ميں مضامين بھي لکھے، تقريريں بھي کيں اور واضح الفاظ ميں اس کا پرچار بھي کيا کہ مسلمانوں کي بقاءاسي ميں ہے کہ وہ اپنا عليحدہ خطہ برصغير ميں بنائيں۔ مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ نے تحرير و تقرير دونوں طرح مسلم ليگ کي تنظيم اور قيام پاکستان کے لئے جدوجہد کي۔
جب جمعية العلماءہند نے قيام پاکستان کي مخالفت کي اور دوقومي نظريہ کے بجائے متحدہ قوميت کا نعرہ لگايا۔ تو مولانا محمدابراہيم مير سيالکوٹي رحمہ اللہ نے مولانا شبير احمد عثماني رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر ” جمعية علمائے اسلام“ کے نام سے ايک جماعت بنائي۔ اس جماعت کي تشکيل کا مقصد قيام پاکستان تھا۔ جمعية علماءاسلام کا پہلا تاسيسي اجلاس اکتوبر 1945 ءميں کلکتہ ميں ہوا۔ اور اس کي صدارت مولانا محمد ابراہيم سيالکوٹي رحمہ اللہ نے کي۔ مولانا شبير احمد عثماني رحمہ اللہ ناسازي طبع کے سبب شريک نہ ہو سکے۔ مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ نے ” تمدن و معاشرت اسلاميہ“ کے عنوان سے صدارتي خطبہ ارشاد فرمايا۔ جس ميں کتاب و سنت کي روشني ميں آزاد خود مختار مملکت کے قيام کے لئے پاکستان کو اسلاميان ہند کي سياسي، اقتصادي، معاشرتي، ديني اور ملي ضرورت قرار ديا۔ اور اس کے ساتھ ہندو ذہنيت کا پوسٹ مارٹم کيا۔ اور گاندھي جي کے تعصب اور اس کے کردار کو بھي بے نقاب کيا۔
مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ کا يہ خطبہ کلکتہ کے ” عصر جديد“ کي اشاعت نومبر 1954ءميں شائع ہوا۔ بعد ميں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فيڈريشن نے کتابي صورت ميں چھاپ کر وسيع پيمانے پر تقسيم کيا۔
مولانا ابوالقاسم سيف بنارسي رحمہ اللہ کا شمار برصغير کے ممتاز علمائے اہلحديث ميں ہوتا ہے، سياسي اعتبار سے کانگرس سے وابستہ تھے۔ انہوں نے قيام پاکستان کے سلسلہ ميں دوقومي نظريہ کے بجائے متحدہ قوميت کي حمايت کي۔ اور اس سلسلہ ميں ايک مضمون اخبار ميں شائع کرايا۔ مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ نے فورا اپنے دوست کے مضمون کا جواب ديا۔ اور قيام پاکستان کے خلاف اعتراضات کو غير حقيقت پسندانہ قرار ديتے ہوئے ثابت کيا کہ اہل اسلام کي قوميت کي بنياد دين اسلام ہے۔ مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ کا يہ مضمون ” روزنامہ احسان لاہور“ ميں دسمبر 1945 ءميں شائع ہوا۔
1946ءکے انتخابات ميں جو قيام پاکستان کے نام پر لڑے گئے تھے متحدہ قوميت کے حامي علماءمولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ اور مولانا حسين احمد مدني رحمہ اللہ قيام پاکستان کي مخالفت ميں پيش پيش تھے۔ دوسري طرف مولانا محمد ابراہيم مير سيالکوٹي رحمہ اللہ اور مولانا شبير احمد عثماني رحمہ اللہ دو قومي نظريہ کے حامي اور متحدہ قوميت کے مخالف تھے۔ مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ اور مولانا عثماني رحمہ اللہ نے پورے ملک کا دورہ کيا جس کا نتيجہ يہ ہوا کہ دو قومي نظريہ کے حامي علماءکامياب رہے۔ اور مسلم ليگ نے قيام پاکستان کے نام پر اليکشن ميں بھاري اکثريت حاصل کي۔
پروفيسر حکيم عنائت اللہ نسيم سوہدروي رحمہ اللہ برصغير ( پاک و ہند ) کے نامور اديب اور طبيب حاذق تھے۔ اور برصغير کي سياست ميں ان کو خاصا دخل تھا۔ مولانا ظفر علي خاں رحمہ اللہ کے ديرينہ رفيق تھے۔ ان کو برصغير کي بے شمار سياسي، علمي، ديني اور ادبي شخصيات سے اپني زندگي ميں ملنے کا اتفاق ہوا۔
مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ کے بارے ميں فرمايا کرتے تھے کہ:
” ميں نے مولانا محمد ابراہيم مير سيالکوٹي جيسا جيد عالم دين اور وسيع معلومات رکھنے والا عالم نہيں ديکھا۔ سياسي اعتبار سے مسلم ليگ سے وابستہ تھے۔ مسلم ليگ کي تائيد اور قيام پاکستان کي حمايت ميں ان کے مضامين نوائے وقت لاہور ميں شائع ہوئے۔ ان مضامين کے مطالعہ سے يہ بات روز روشن کي طرح واضح ہوتي ہے کہ مولانا محمد ابراہيم مير کٹر مسلم ليگي تھے۔ اور دوقومي نظريہ کے تحت حامي تھے۔ ان کا خطبہ صدارت ” تمدن و معاشرت اسلاميہ“ ايک سنگ ميل کي حيثيت رکھتا ہے۔ “
[/QUOTE
]مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ 1875ء ميں سيالکوٹ ميں پيدا ہوئے۔ ان کے والد سيٹھ غلام قادر رحمہ اللہ کا شمار سيالکوٹ کے روسا ميں ہوتا تھا۔ سيٹھ غلام قادر گو خود عالم نہيں تھے۔ مگر علمائے کرام کي صحبت کے شائق تھے۔ علمائے کرام کو گھر بلاتے۔ ان کے ارشادات عاليہ سے مستفيض ہوتے۔ اور ان کي ميزباني کا شرف حاصل کرتے تھے۔

مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ نے ہوش سنبھالا۔ تو انہيں مشن ہائي سکول ميں داخل کرا ديا گيا۔ جہاں سے آپ نے ميٹرک کا امتحان پاس کيا۔ اس کے بعد مرے کالج سيالکوٹ ميں داخل ہو گئے۔ 1896ءميں آپ نے ايف اے کا امتحان پاس کيا کالج ميں علامہ اقبال آپ کے کلاس فيلو تھے۔

سيٹھ غلام قادر کے استاد پنجاب حافظ عبدالمنان وزير آبادي رحمہ اللہ سے ديرينہ تعلقات تھے۔ حافظ صاحب نے سيٹھ غلام قادر کو مشورہ ديا کہ آپ ابراہيم کو ديني تعليم دلوائيں۔ سيٹھ غلام قادر نے حافظ صاحب کے مشورہ کو قبول کيا۔ اور محمد ابراہيم کو حافظ صاحب رحمہ اللہ کے سپرد کر ديا۔ مولانا محمد ابراہيم نے ديني تعليم کا آغاز مولانا ابوعبداللہ عبيداللہ غلام حسن سيالکوٹي رحمہ اللہ سے کيا۔ اس کے بعد جملہ علوم اسلاميہ کي تحصيل محدث وزير آبادي رحمہ اللہ سے کي۔ اس کے بعد شيخ الکل مولانا سيد محمد نذير حسين محدث دہلوي رحمہ اللہ کي خدمت ميں حاضر ہوئے۔ اور ان سے تفسير، حديث اور فقہ ميں استفادہ کيا۔ مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ حضرت محدث دہلوي رحمہ اللہ کے آخري دور کے شاگرد ہيں۔

فراغت تعليم کے بعد واپس سيالکوٹ تشريف لائے اور ” دارالحديث“ کے نام سے ايک ديني مدرسہ قائم کيا۔ اور درس و تدريس کا سلسلہ شروع کيا۔ آپ سے بيسيوں علماءنے استفادہ کيا۔ آپ کے مشہور تلامذہ مولانا محمد اسمٰعيل سلفي رحمہ اللہ ( گوجرانوالہ ) مولانا عبدالمجيد خادم سوہدروي رحمہ اللہ ، مولانا عبداللہ ثاني امرتسري رحمہ اللہ اور مورخ اہلحديث مولانا محمد اسحاق بھٹي حفظہ اللہ شامل ہيں۔ مولانا محمد ابراہيم مير رحمہ اللہ بلند پايہ مناظر، مفسر، مبلغ، محقق، مؤرخ اور مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ ايک نامور مصنف بھي تھے۔ آپ کي تصانيف کي تعداد ايک سو کے قريب ہے۔

مولانا سيالکوٹي رحمہ اللہ نے12جنوري 1956ءکو سيالکوٹ ميں وفات پائي حضرت العلام مجتہد العصر مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑي رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائي۔ راقم آثم کو بھي جنازہ ميں شرکت کي سعادت حاصل ہے۔

مقالہ نگار: عبد الرشيد عراقی
 
Top