• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی منانے والوں کا ایک عجیب فلسفہ

شمولیت
دسمبر 25، 2014
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
13
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ










میلاد النبی منانے والوں کا ایک عجیب فلسفہ






بعض احباب کا میلاد النبی منانے پر ایک عجیب فلسفہ ہے اور اسکی دلیل میں کھینچ تان کر صحابہ کے ثابت شدہ یا غیر ثابت شدہ واقعات کو میلاد النبی کے خاص جز میں لانا غیر منتقی دلیل ہے. اس سے قطع نظر کہ وہ واقعات صحیح روایات سے ثابت تھے یا کہ ضعیف، جو کہ یقینا تحقیق کی بھٹی سے گزرنے کے بعد ہی پتا چل سکے گا، مگر پھر بھی اصولا ایک علمی ذہن رکھنے والا عامی بھی شائد ان سے متاثر نہ ہوسکے. ہاں ایک مقلد، آنکھیں بند کر کسی عنصر پر چلنے والا یا کند ذہن ضرور متاثر ہو جاۓ.

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی تین جز پر مشتمل ہے یعنی عبادت، معاملات اور دنیاوی ضروریات. اکثر احباب یہ نہیں سمجھتے اور ایک اصل کو دوسرے میں مکس کر کے کم فہم احباب کو اپنے لکھنے کی صلاحیات کی بابت مائکروفون، موبائیل، چاۓ، قرآن کی تلاوت، غائبانہ نماز جنازۃ، میلاد النبی، جلسے جلوس وغیرہ کا ایک ہی صف میں ذکر کر کے ایک غلط سوچ وفکر میں ڈال دیتے ہیں. آیے ان تینوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ فتح مکہ کے موقع پر اس آیت کے نازل ہونے سے ہمارا دین مکمل ہوچکا ہے اور نہ تو اسمیں کچھ شامل ہوسکتا ہے نہ کچھ نکالا جاسکتا ہے. اللہ نے فرمایا:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا .."ۚ

اس آیت کا مفہوم وترجمہ:
آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا.."

حوالہ: سورة المائدة:3


اب عبادت و معاملات اور دنیاوی ضرورت کو سمجھتے ہیں. ان تینوں کو قرآن والسنۃ کی کسوٹی پر تولیں تو کبھی انکا عمل جائز ومباح اور کبھی بدعت ہوگا مگر اس اصول کو سمجھنے کے بعد جس کا میں ذکر کیے دیتا ہوں. یاد رکھیں کہ عبادت کے معاملہ میں دیکھا جاۓ گا کہ کب قرآن والسنۃ نے وہ عمل کرنے کا حکم دیا. مثلا ایک شخص آذان سے قبل درود ابراھیمی پڑھنا چاہتا ہے کیا شریعت نے کچھ ایسا حکم دیا؟ تو جواب نفی میں ہے گویا یہ عمل آذان سے قبل بدعت ہے بلکہ شریعت نے صحیح مسلم، رقم: 384 میں آذان کے بعد درود ابراہیمی کا حکم دیا. اسی طرح معاملات و دنیاوی ضروریات میں دیکھنا ہوگا کہ شریعت نے کیا اسکو کہاں نہ کرنے کا حکم دیا؟ اس میں ھم چاۓ، مائکروفون، موبائیل کی مثال لے لیتے ہیں. کیا حلال چائے نہ پینے یا موبائیل کو حلال ضروریات کے لیے استعمال پر شریعت نے روکا؟ تو جواب نفی میں ہے گویا انکا حلال استعمال مباح وجائز ہے. اگر ایک مسجد میں مائیکروفون اسلیے استعمال کیا جاۓ کہ آواز دور تک پہنچ جاۓ تو یہ معاملات میں ہے اور شریعت نے اس پر منع نہیں کیا اور اسکا استعمال جائز ہے مگر دوسری طرف اگر وہ ہی مائیکرفون جو مسجد میں آذان کے استعمال کی نیت یہ ہو کہ اسکے استعمال سے ثواب حاصل ہوگا تو اسکو عبادات میں شامل کر دیا گیا گویا اب یہ بدعت ہوگیی کیوں کہ عبات میں مائیکرفون کا استعمال کسی قرآن کی آیت یا حدیث میں مشروع نہیں.







.​
آخر میں ہم میلاد النبی کے بارے میں یہ کہیں اگر سب کچھ اکیڈیمک اور مفروضی حالت میں ایسا مان لیا جاۓ کہ میلاد النبی کے جلسے جلوس و تقریبات میں کچھ غیر اخلاقی اور غیر شرعی نہیں کیا جاتا نہ ہی شرکی نعتوں کا تکرار ہوتا ہے نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مبالغہ آمیز کیفیت ہوتی ہے حتی کے میلاد منانے میں جو مشرکین کی شباہت ہے من تشبہ بقوم فھو منھم اس حسن درجہ کی روایت کو بھی ایک سائڈ پر کر دیا جاۓ، تب بھی ھم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کیے گے اعمال کیا اس لیے بدعت قرار نہیں پاتے ہیں کیونکہ اوپر بیان کیے گیے عبادت کے اصول کے خلاف ہیں؟ یعنی جب آپ میلاد النبی ثواب کی نیت سے مناتے ہیں جو یقینا مناتے ہیں تو اسکے مندرجات عبادت سے منسلک ہوۓ اور قرآن والسنۃ یہ عمل ایک خاص طرح سے کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا جس طرح کے آجکل رائج ہے، جسکا مؤجد مظفر کوکپری اور عمر بن دحیہ تھا، بلکہ ھمیں جن چیزوں کا حکم دیتا ہے اور جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنتوں سے محبت دل میں راسخ ہونے کا ثبوت ہوگا

اللہ نے فرمایا:

لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة لمن کان يرجوا الله واليوم الآخروذکر الله کثيرا

سورة الاحزاب: 21

اس آیت کا مفہوم وترجمہ:
يقينا تمہارے لئے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالى كى اور قيامت کے دن كى توقع رکھتا ہو، اور بکثرت اللہ تعالى کو ياد کرتا ہو.


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی ہے تو ان چند سنتوں کو اپنی زندگی میں لاگو کرو:


اللہ کی توحید کو ماننا، ہر قسم کے شرک سے برآءت کرنا، نیک اعمال کی دعوت دینا، لمبی داڑھی چھوڑنا، عورتوں کا غیر محرم مردوں سے سخت حجاب و پردہ کرنا، مردوں کا متواتر 5 وقت مسجد میں نماز پڑھنا، اپنے مال پر سال میں ایک دفعہ زکوۃ دینا، مردوں کا اپنے پانچوں کا ٹخنوں سے بلند رکھنا، جھوٹ بالکل نہ بولنا،رشوت نہ لینا، سود خوری سے کلی اجتناب، اپنے دین اور دنیا کہ ہر عمل میں امانت داری، مسواک سے محبت، دین اور دنیا کا علم حاصل کرنا، مسلمان حکام کی اتباع کرنا وغیرہ وغیرہ

ورنہ صرف شرکیہ یا غیر شرکیہ نعتیں پڑھنے، نعرے لگانے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر انگوٹھے چومنے کا نام ہی محبت ہے تو اللہ ایسی بے عملی محبت سے بچا کر رکھے.
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم میں شرعیت کی فقہ اور سمجھ اور بدعات سے دوری میں ہماری مدد فرماۓ، آمین.
 
Top