اسطرح کے دونوں اسکرپٹ رائٹر اور کیمرہ مینوں کا گٹھ جوڑ آج کل ٹیلی ویژن پر چلائے جانے والے ایک اشتہار میں نظر آ رہا ہے۔ ایک لڑکی باپ کو ناراض کر کے کرکٹ کھیلنے جاتی ہے، ماں اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر اسے اجازت دیتی ہے۔
اوریا صاحب نے جس اشتہار کا مختصرا ذکر کیا ہے ، فیس بک کے ایک معروف لکھاری ، عابی مکھنوی صاحب نے اسے مکمل تحریر کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے :
اشتہار کا لفظ بہ لفظ اسکرپٹ
ماں : سارہ جا رہی ہے دیکھیں کرکٹ اُس کی زندگی ہے کھیلنے دیں اُسے !!
باپ : میں نے کہا نا لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں !!
منظر بدلتا ہے
ماں سارہ سے : ساری تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
سارہ : جی امی !!
ماں : جانے سے پہلے ایک بار ابو سے بات کرتے جانا !!
سارہ :ابو سے بات نہیں کی جا سکتی امی صرف سُنی جا سکتی ہے !! آپ خیال رکھیں میں چلتی ہوں خُدا حافظ !!
منظر بدلتا ہے ماں فون پر بیٹی سے
ماں : ہیلووووو
سارہ کھیل کے میدان سے !! جی امی السلام علیکم !!
ماں : وعلیکم السلام !! ٹریننگ کیسی چل رہی ہے سارہ بیٹا !!
سارہ : بہت اچھی چل رہی ہے امی !! آپ کو پتا ہے کل فائنل سیلیکشن ہے !! تھوڑی نروس ہوں پر بہت مزہ آ رہا ہے !! ( سارہ کو اُس کی کوچ آواز لگاتی ہے ) اچھا امی میں چلتی ہوں ۔ میں رات میں آپ کو سارے فوٹوز بھیجتی ہوں !!
ماں : سارہ اپنا خیال رکھنا بیٹا !!
سارہ : چلیے اللہ حافظ !!!
(سارہ اپنی تمام تر نسوانیت کے ہمراہ پریکٹس میں مشغول ہو جاتی ہے !! )
رات ماں کواُس کے موبائل پر سارہ کی پریکٹس کی تصاویر موصول ہوتی ہیں ماں خوشی سے نڈھال ہو جاتی ہے !! بیڈ پر دراز سارہ کے باپ کو خوشی خوشی دکھانے کی کوشش کرتی ہے !! سنگدل باپ بے اعتنائی سے کروٹ بدل کر سو جاتا ہے )
منظر بدلتا ہے !! ماں زیر لب دعاؤں کے ساتھ اپنے موبائل پر ٹیم میں فائنل سیلیکشن پانے والی لڑکیوں کی فہرست دیکھ رہی ہے !! ماں کی نظر سارہ کے نام پر پڑتی ہے !! اور وہ خوشی سے چیخ اُتھتی ہے اور ساتھ ہی سارہ کے ابو کی انٹری بھی ہوتی ہے !!
سارہ کے ابو : کیا ہوا !!!!
سارہ کی ماں طنزیہ نظروں سے سارہ کے ابو کو دیکھتی ہے اور خوشی سے چیختے ہوئے پڑوسیوں کو اطلاع دینے بھاگ پڑتی کہ فلاں فلاں !!! سارہ کا سیلیکشن ہو گیا ہے پاکستان کرکٹ ٹیم میں !!!
پڑوسیوں کے جوابی نعرے گُونجتے ہیں !!!
مُبارک ہو !!! مُبارک ہو !!!
سارہ کے ابو بے چارگی سے سارا منظر دیکھتے ہیں !!
منظر بدلتا ہے !!
سارہ کے ابو گلی سے گزر رہے ہیں !!! ایک بوڑھا اُن کو روک کر اُن سے ہاتھ ملاتا ہے اور دُعا دیتا ہے "" اقبال صاحب (یا جو بھی نام وہ لیتا ہے) !! مُبارک ہو !! اللہ سارہ جیسی بیٹی سب کو دے !!! محلے کا نام روشن کر دیا اُس نے !! ""
منظر بدلتا ہے !! سارہ کی ماں وڈیو چیٹ پر سارہ سے بات کر رہی ہے !!
ماں : افطار کی تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
سارہ : جی امی ہو گئی !! ہم سب نے مِل کے کی ہے !! سارہ اپنی ماں سے اپنی ساتھی کھلاڑیوں کا تعارف کرواتی ہے !! امی یہ سلمہ ہے ، یہ تحریم اور یہ عدیلہ !! سب سارہ کی امی کو سلام کرتی ہیں !!
سارہ کی ماں !! وعلیکم السلام بیٹا جیتے رہو!! خوش رہو !!
سارہ : امی آپ کو پتا ہے کل ہمارا پہلا میچ ہے !!
ماں : جیت تمھاری ہو گی انشاء اللہ !!
سارہ : انشاء اللہ !! اور افطار کا وقت ہو جاتا ہے !!!
منظر بدلتا ہے !!!
پاکستان آسٹریلیا کے خلاف کھیل رہا ہے !! سارہ باؤلر ہے !! آستڑیلیا کو چار رنز درکار ہیں !! سارہ آتی ہے !! پوری قوم دم سادھے دعاؤں میں مشغول ہے !! سارہ بال پھینکتی ہے !! اور مخالف بیٹسمین کو کلین بولڈ کر دیتی ہے !! سارہ کی ماں ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے خوشی سے چیخ پڑتی ہے !! سارہ جیت گئی !! سارہ جیت گئی !! سارہ کے ابو کی منظر میں انٹری ہوتی ہے !! شرمندہ چہرے کے ساتھ !! سارہ کے ابو چشمہ اُتارتے ہیں !! شرمندگی کے آنسو اپنی آنکھوں سے صاف کرتے ہیں !!
شاعر جوش میں اتا ہے اور جِنگل یعنی اشتہاری گانا شروع ہو جاتا ہے !!!
ننھی سی ایک کلی تھی
میری اُنگلی پکڑ چلی تھی
چھوڑ کے ہاتھ مِرا
مُجھے وہ چلنا سکھا گئی
ننھی سی ہممم ننھی سی چلنا سکھا گئی !! چلنا سکھا گئی !!
گانا پس منظر میں چلا جاتا ہے
سارہ کو اُس کے موبائل پر امی کی کال موصول ہوتی ہے !!
سارہ جوش سے : ہیلو امی ہم جیت گئے !! آپ نے دیکھا !!
فون سارہ کے ابو تھام چُکے ہوتے ہیں "" میں ابو بول رہا ہوں بیٹا !! مبارک ہو !!
اسٹیج سے سارہ کا نام بُلند ہوتا ہے !!سارہ کے ابو فون پر ہی سُنتے ہیں اور پیارے سے کہتے ہیں جاؤ بیٹا !!!
اسٹیج پر کمنٹیٹر سارہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے !! "" سارہ آپ کا پہلا میچ اور اُس میں پلئیر آف دا میچ !! کانگریچولیشنز !!!!!!! تالیوں کا شور !!
کمنٹیٹر : تو اس بار عید پر کیا کر رہی ہیں آپ ؟؟
سارہ : ( جذبات سے بھرپور لہجے میں ) گھر جا رہی ہوں !!! اپنے ابو کے پاس !! بہت ساری باتیں کرنی ہیں اُن کے ساتھ !!
کمیٹیٹر : بہت بہت مبارک ہو آپ کو !!!
گانے کے بول بُلند ہوتے ہیں !!
ہممم ننھی سی چلنا سکھا گئی !! چلنا سکھا گئی !!
کیو موبائل کے پیغام کے ساتھ اشتہار کا اختتام ہوتا ہے !!!
نیا زمانہ !!!! نئی باتیں !!!!
اس اشتہار پر عابی مکھنوی صاحب کا تبصرہ :
یہ تو ہو گیا ایک اشتہار کا اسکرپٹ !! ماں ، بیٹی باپ اور تماشائی سب اداکار !! لکھنے والے کو بھی پیسے ملے !! اشتہار ٹی وی پر چلانے والوں کو بھی پیسے ملے !! گانا لکھنے والا بھی مالا مال ہو گیا !!! اور جب موبائل دھڑا دھڑ بکیں گے تو کمپنی کی بھی چاندی ہو جائے گی !!!
لیکن اگلا اسکرپٹ مُفت والا اسکرپٹ ہے !! لکھنے والا فری لانسر ہے !! کردار سب حقیقی ہیں !! ہر آنسو سچا !! ہر آہ کھری !! ہر خواب حقیقی !!
یہ تئیس مارچ اُنیس سو ستانوے کو پنجاب کے شہر مُلتان میں پیدا ہونے والی حلیمہ رفیق کی کہانی ہے !! سارہ کے ساتھ سیلیکشن کیمپ میں تین کھلاڑی سہیلیاں ہیں !! حلیمہ کے ساتھ بھی اُسی سیلیکشن کیمپ میں اُس کی چار سہیلیاں تھیں !! سیما ، حنا ، کرن اور صبا !!!!!!!
عجیب اتفاق دیکھیے کہ مصنوعی اور حقیقی دونوں کہانیاں رمضان کے مبارک مہینے میں ہی اپنے انجام کو پہنچتی ہیں !!
لیکن حلیمہ کی کہانی کے اسکرپٹ میں چند اضافی کردار بھی ہیں !! جیسے ایم پی اے مولوی محمد سُلطان عالم انصاری جو مُلتان کرکٹ کلب کے چئیر مین تھے اور اُن کے شانہ بشانہ ٹیم سیلیکٹر محمد جاوید ہیں !! کہانی کا آغاز ہوتا ہے !!!!!
ایک حقیقی اسکرپٹ
حلیمہ کی ماں حلیمہ کے ابو سے : حلیمہ جا رہی ہے دیکھیں کرکٹ اُس کی زندگی ہے کھیلنے دیں اُسے !!
باپ : میں نے کہا نا لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں !! میں تُم دونوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں کہ یہ بھیڑیوں کا معاشرہ ہے !! حلیمہ کو دیکھنے والے کسی کرکٹر کو نہیں دیکھیں گے !! سب کو میدان میں اُچھلتی کُؤدتی عورت نظر آئے گی !! تُم دونوں نے مُجھے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے !! میں خُود اسی معاشرے کا ایک مرد ہوں !! میں جانتا ہوں یہاں انسان کی کھال اوڑھے بھیڑیے دندنا رہے ہیں !! تُم میری حلیمہ مُجھ سے چھین رہی ہو !!
منظر بدلتا ہے
ماں حلیمہ سے : ساری تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
حلیمہ : جی امی !!
ماں : جانے سے پہلے ایک بار ابو سے بات کرتے جانا !!
حلیمہ:ابو سے بات نہیں کی جا سکتی امی !! صرف سُنی جا سکتی ہے !! آپ خیال رکھیں میں چلتی ہوں خُدا حافظ !!
منظر بدلتا ہے ماں فون پر بیٹی سے
ماں : ہیلووووو
حلیمہ کھیل کے میدان سے !! جی امی السلام علیکم !!
ماں : وعلیکم السلام بیٹا !! ٹریننگ کیسی چل رہی ہے حلیمہ بیٹا !!
حلیمہ : بہت اچھی چل رہی ہے امی !! ( ماں کو حلیمہ کی دبی دبی سسکیاں سُنائی دیتی ہیں )
ماں : کیا ہوا بیٹا !! کیا تُم رو رہی ہو !! ( جواب میں سسکیاں ) حلیمہ تُم ٹھیک تو ہو نا !!
حلیمہ : جی امی میں بالکل ٹھیک ہوں !! بس ذرا نزلہ ہے ہلکا پُھلکا !! اور تھوڑی نروس بھی ہوں ! فائنل سیلیکشن ہے نا !!
( پس منظر میں ٹیم سیلکٹر جاوید صاحب کی آواز گُونجتی ہے !! حلیمہ !! ) جی سر آئی !!!
ماں : حلیمہ مُجھے رات میں اپنی تصویریں ضرور بھیجنا !!
حلیمہ: سسکیوں کے درمیان ۔۔ امی نہیں بھیج سکوں گی !! تصویریں لینے پر پابندی ہے یہاں !!
ماں : اچھا میرا بیٹآ !! اپنا بہت خیال رکھنا !!
حلیمہ: ٹھیک ہے امی اللہ حافظ !!!
(حلیمہ میدان میں کھڑے مُلتان کرکٹ کلب کے صدر مولوی محمد سُلطان عالم انصاری اور ٹیم سیلیکٹر محمد جاوید کی بُھوکی نظروں کے نشانے پر شرماتے لجاتے پریکٹس میں مشغول ہو جاتی ہے !! )
(اُس رات حلیمہ کی ماں اپنی لاڈلی بیٹی کے روشن مستقل کے خواب دیکھتے دیکھتے سو جاتی ہے اور باپ صبح تک بیڈ پر بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہتا ہے )
حلیمہ کی ماں پر سارہ کی ماں کی طرح زیر لب دعاؤں کے ساتھ ویب سائٹ پر منتخب ہونے والی لڑکیوں کی فہرست دیکھنے کی نوبت نہیں آتی )
حلیمہ کی ماں کو خوشی سے چیخنا نہیں پڑتا !!
حلیمہ کے محلے میں مبارک مبارک کے نعرے نہیں گُونجتے !!
حلیمہ کے ابو گلی سے گزر رہے ہیں !!! کوئی بوڑھا اُن کو روک کر اُن سے ہاتھ نہیں ملاتا اور نہ ہی یہ دُعا دیتا ہے کہ "" مُبارک ہو !! اللہ حلیمہ جیسی بیٹی سب کو دے !!! محلے کا نام روشن کر دیا اُس نے !! ""
منظر نہیں بدلتا !! حلیمہ کی ماں وڈیو چیٹ پر حلیمہ سے بات نہیں کرتی !!
حلیمہ کی ماں حلیمہ سے نہیں پُوچھتی کہ افطار کی تیاریاں ہو گئیں بیٹا !!
اور نہ ہی حلیمہ کو یہ جواب دینا پڑتا ہے کہ جی امی ہو گئی !! ہم سب نے مِل کے کی ہے !! حلیمہ اپنی سہیلی کھلاڑیوں کا تعارف بھی نہیں کروا پاتی کہ !! امی یہ سیما ہے یہ حنا یہ کرن اور یہ صبا !!!!!!! !!
حلیمہ کی ماں کی جوابی دعا نہیں گُونجتی کہ !! بیٹا جیتے رہو!! خوش رہو !!
حلیمہ کا پہلا میچ نہیں آتا !! کہ ماں کی دعا کی ضرورت پڑتی !!
ہاں حلیمہ پر بھی روزہ افطار کا وقت آ جاتا ہے !! لیکن افطار سے بہت پہلے !!
جی ہاں حلیمہ نے ایک دن مُلتان کرکٹ کلب کے صدر مولوی محمد سُلطان عالم انصاری اور ٹیم سیلکٹر محمد جاوید کی دست درازیوں اور فرمائشوں سے تنگ آ کر اپنا روزہ زہر کی بھری بوتل سے افطار کر لیا تھا !!!
ایک پاگل شاعر اُس دن چشم تصور سے حلیمہ کو دیکھ رہا تھا لیکن وہ اُسے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی جِنگل یا گانا نہ لکھ سکا !! بس ایک عدد احتجاجی پوسٹ جو اس غلیظ معاشرے کی مکروہ روایت بن چُکی ہے اُس شاعر نے بھی لکھ ماری تھی !!
لیکن حلیمہ کے ابو حلیمہ کے جنازے میں شاید کُچھ یُوں گُنگنا رہے تھے !!
ننھی سی ایک کلی تھی
میری اُنگلی پکڑ چلی تھی
چھوڑ کے ہاتھ مِرا
ننھی سی ہممم ننھی سی چھوڑ کے ہاتھ مِرا !! چھوڑ کے ہاتھ مِرا
اُس دن یہ گانا ادھورا رہ جاتا ہے !!
سُنا ہے کہ ہر عید الفطر پر مُلتان کے ایک قبرستان میں ایک قبر کے سرہانے ایک سنگدل باپ اپنا سر گُھٹنوں میں دبائے روتا رہتا ہے !!!