• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں سعد(رضی اللہ عنہ) کی بد دعا کا نتیجہ ہوں !

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
عن جابر بن سمرة، قال شكا أهل الكوفة سعدا إلى عمر ـ رضى الله عنه ـ فعزله واستعمل عليهم عمارا، فشكوا حتى ذكروا أنه لا يحسن يصلي، فأرسل إليه فقال يا أبا إسحاق إن هؤلاء يزعمون أنك لا تحسن تصلي قال أبو إسحاق أما أنا والله فإني كنت أصلي بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أخرم عنها، أصلي صلاة العشاء فأركد في الأوليين وأخف في الأخريين‏.‏ قال ذاك الظن بك يا أبا إسحاق‏.‏ فأرسل معه رجلا أو رجالا إلى الكوفة، فسأل عنه أهل الكوفة، ولم يدع مسجدا إلا سأل عنه، ويثنون معروفا، حتى دخل مسجدا لبني عبس، فقام رجل منهم يقال له أسامة بن قتادة يكنى أبا سعدة قال أما إذ نشدتنا فإن سعدا كان لا يسير بالسرية، ولا يقسم بالسوية، ولا يعدل في القضية‏.‏ قال سعد أما والله لأدعون بثلاث، اللهم إن كان عبدك هذا كاذبا، قام رياء وسمعة فأطل عمره، وأطل فقره، وعرضه بالفتن، وكان بعد إذا سئل يقول شيخ كبير مفتون، أصابتني دعوة سعد‏.‏ قال عبد الملك فأنا رأيته بعد قد سقط حاجباه على عينيه من الكبر، وإنه ليتعرض للجواري في الطرق يغمزهن‏.‏

عبدالملک بن عمیر نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا کہ اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو علیحدہ کر کے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں تو انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں ( قرآت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو ( سنئیے کہ ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ خدا کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔

تشریح : سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا اسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔ عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔ مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔ انھوں نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔ آخرسیدناعمررضی اللہ عنہ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر سیدناعماررضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اور سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔ جس سے خوش ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماں باپ فداہوں۔ یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔ سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔ رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔ جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔ ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔ (ترجمہ اور تشریح مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )
صحیح بخاری -> کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ) حدیث نمبر : 755

باب : امام اور مقتدی کے لیے قرات کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں
قرات سے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا مراد ہے۔ جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرنماز نہیں ہوتی۔
۔۔۔
 
Top