• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبیوں کا دعوتی کام امتِ محمدیہ کے نام

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جس وقت آدم علیہ السلام سے جنت میں غلطی ہوئی تو اللہ تعالی نے انکو جنت سے زمین پر بھیجتے ہوئے فرمایا تھا کہ
فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون
پھر اگرتمھارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو اسکی پیروی کرے گا اسکو نہ کئی خوف ہے نہ کوئی غم
پس شروع میں تمام لوگ ایک ہی امت تھے پھر اختلافات پیدا ہو گئے جیسا کہ قرٓن کہتا ہے
وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلاَّ اُمَّۃ وَاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا

اس بات کو اللہ تعالی نے ایک اور آیت میں اس طرح بیان کیا ہے
کان الناسُ امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبین مبشرین و منذرین وانزل معھم الکتاب والحکمۃ لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ

اوپر آیت کی تشریح چھ ٹکڑوں میں



1-شروع میں امت کا ایک ہونا
کان الناس امۃ واحدۃ
یعنی پہلے تمام امت ایک تھی بعد میں شیطان کے اور نفس کے ورغلانے پر اختلافات پیدا ہو گئے

2-نبیوں کو مبعوث کرنا
فبعث اللہ النبیین
یعنی اختلاف پیدا ہونے پر اللہ تعالی نے نبیوں کو بھیجنا شروع کر دیا

3-نبیوں کا پہلا کام
مبشرین و منذرین
یعنی ان نبیوں کا کام یہ تھا کہ وہ نیک کام پر خوشخبری دیتے اور برے کام پر عذاب سے ڈراتےتھے یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے دوسرے لفظوں میں دعوت کا کام کرتے تھے

4-فیصلہ کا اختیار
وانزل معھم الکتاب بالحق
نبیوں کے ساتھ اللہ تعالی نے کتاب کو بھی نازل کیا یعنی اپنے احکامات کو ایک کتاب کی شکل میں ان پر نازل کیا

5-نبیوں کا دوسرا کام
لیحکم بین الناس
لامِ کی کے ذریعے پچھلی بات کی وجہ بتائی جا رہی ہے کہ کتاب کو نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے درمیان فیصلے کیے جا سکیں
پس نبیوں کا ایک اور کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے اسی کتاب سے کریں اپنی طرف سے کچھ نہ کریں

6-کام کا دائرہ کار یا سکوپ
فی ما اختلفوا فیہ
یعنی نبی لوگوں کے درمیان جو فیصلے کرتے وہ اختلافی امور میں ہوتے تھے نہ کہ مشترک باتوں میں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اللہ تعالی نے ایک اور جگہ فرمایا کہ
رسلا مبشرین و منذرین لئلا یکون لناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل
یعنی رسولوں کا مقصد یہ تھا کہ اس سے لوگوں پر اللہ تعالی کی حجت قائم ہو جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ مجھ تک تو اللہ تعالی کے احکامات نہیں پہنچے تھے ورنہ میں نیک اعمال ہی کرتا

پس اوپر دونوں آیات کا خلاصہ یہ ہے
1-نبیوں کا پہلا کام -دعوت دینا
2-نبیوں کا دوسرا کام -اللہ کی وحی کا انکے پاس محفوظ ہونا تاکہ دعوت اللہ کی وحی سے دی جا سکے
3-نبیوں کی دعوت کا اختلافی امور میں ہونا
4-نبیوں کی بعثت کا مقصد حجت قائم کرنا تھا

اب جب اللہ تعالی نے نبیوں کا سلسلہ ختم کیا تو اوپر نبیوں کے پہلے دونوں کاموں کا خود بندوبست کر دیا تاکہ آخری مقصد یعنی حجت قائم کرنا برقرار رہے
مگر یہ بندوبست کیسے کیا گیا یہ سوچنے کی بات ہے
نبیوں کے کاموں کا بندوبست
1-پہلے کام (دعوت) کی ذمہ داری ہم پر ڈال دی چنانچہ فرمایا کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کہ تم بہترین امت ہو لوگوں کی بھائی کے لئے نکالی گئی ہو
اور فرمایا
ولتکن منکم امۃ یدعون----- کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں------

2-دوسرے کام کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لے لی یعنی پہلے جو وحی میں تحریف ہو جاتی تھی وہ اب کوئی نہیں کر سکے گا فرمایا
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون یعنی ہم نے ہی اسکو نازل کیا اور ہم ہی اسکی حفاظت کریں گے

ہمارا رویہ
آج امت کی اکثریت خصوصا بے دین سیکولر طبقہ کا رویہ گدھے کی طرح الٹ ہے کہ گدھے کو آگے کھینچیں تو پیچھے جاتا ہے اسی طرح
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
پس دعوت کا جو کام ہمارے ذمہ لگایا گیا تھا اس سے ہم انکاری ہیں اور کہتے ہیں کسی کو نہ چھیڑو ہر کسی کو اپنا کام اپنی مرضی اور آزادی سے کرنے دو
جبکہ دوسرا کام یعنی احکامات اور انکی تشریح کی حفاظت کا کام جو ہمارے ذمہ نہیں تھا اس میں ہم نے ٹانگ اڑا لی اور آج ہر کوئی ہر مسئلہ میں نیا اجتہاد کرنے بیٹھ گیا ہے اور اسکے لئے مثالیں بھی صحابہ کی دیتا ہے کہ وہ بھی اپنی مرضی سے شریعت کے خلاف ضرورت کے تحت اجتہاد کرتے تھے
پس آج ہمیں چاہیے کہ جو شریعت کے احکامات ہیں وہ قرآن سے لیں یا اسکے نبی صلی للہ علیہ وسلم کی وما ینطق عن الھوی والی زبان سے لیں لیکن ان احکامات کو پھیلانے کے لئے دعوت کے کام کو جتنی استطاعت ہے پھیلائیں کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری لگائی گئی ہے اور اسی سے دوسروں پر اللہ تعالی کی حجت قائم ہونی ہے پس اگر ہم نے اللہ کی حجت قائم کرنے میں اپنا فریضہ نہ دکھایا تو وہ انسان قیامت کو ہمیں اللہ کے سامنے کر دے گا کہ اے اللہ اسکو علم تھا مگر اسنے مجھے دعوت نہیں دی پھر ہمارا کیا جواب ہو گا جیسے حدیث میں اس عورت کا ذکر آتا ہے جو باپ، بھائی، بیٹا، میاں کو اسی ڈیوٹی ادا نہ کرنے پر جہنم میں لے جانے کا کہے گی اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے امین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا ۔
ایسے موضوعات پر گفتگو ہونی چاہیے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
6-کام کا دائرہ کار یا سکوپ
فی ما اختلفوا فیہ
یعنی نبی لوگوں کے درمیان جو فیصلے کرتے وہ اختلافی امور میں ہوتے تھے نہ کہ مشترک باتوں میں
پس لیحکم بین الناس فی ما اختلفوا فیہ سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نبیوں کی دعوت ہمیشہ اختلافی امور میں ہی ہوتی تھی


نبیوں کی سیرت سے دلیل

قرآن اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر نبی کی قوم دعوت دینے پر ہی اسکی دشمن ہوئی ہے ورنہ اپنی ذات کی حد تک دین پر عمل کرنے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰ سال تک اگرچہ غیر شرعی کام نہیں کیا مگر چونکہ دعوت نہیں دی تھی اسلئے مشرکین مکہ نے آپ کو تکلیف دینے کی بجائے آپ کو اپنا منصف اور امانتیں رکھنے والا بنایا لیکن جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت شروع کی تو پھر پوری قوم دشمن بن گئی اور قوم نے اختلاف ختم کرنے کی شرط ہی یہ رکھی کہ تم اس دعوت کو چھوڑ دو بلکہ اس کے بدلے ہر شرط ماننے پر تیار ہو گئی اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ انکو اس اختلافی دعوت سے اتنی تکلیف تھی کہ اسکے سوا کسی شرط پر راضی ہونے کو تیار نہیں تھے اور اسکے بدلے میں ہر شرط ماننے کو بھی تیار تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے جواب میں کہا تھا کہ تم جو مجھے بدلے میں دینا چاہتے ہو وہ چاند اور سورج کے حصول سے تو زیادہ نہیں ہو سکتا پس اگر تم میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دو تو میں اس دعوت سے باز نہیں آؤں گا

عقلی دلیل
عقلی طور پر بھی دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے جو انسان اپنی چیز کو اپنے لئے اور تمام لوگوں کے لئے بہترین سمجھتا ہے وہ لازمی اسکا اعلی پن لوگوں پر واضح کرے گا
مثلا ایک دودھ والا خالص دودھ بیچتا ہے اسکے سامنے والا ملاوٹ والا دودھ بیچتا ہے اب ملاوٹ کرنے والا دوسرے سے کہتا ہے کہ تم جب لوگوں کو بتاؤ تو میرے اور اپنے دودھ کی مشترک چیزیں بتاؤ تاکہ اختلاف نہ ہو ہمارا آپس میں اتحاد پیدا ہو اور ماحول اچھا ہو جائے مثلا تم سب لوگوں کو بتاؤ کہ اسکا دودھ بھی سفید ہے اور میرا بھی سفید ہے اسکا بھی میٹھا ہے اور میرا بھی میٹھا ہے وہ بھی 100 روپے کلو ہے اور میرا بھی 100 روپے کلو ہے یہ مشترک باتیں ہی بتاؤ باقی اختلافی باتیں کہ اسکا دودھ ملاوٹ والا ہے اور میرا خالص ہے وہ نہ بتاؤ
اب آپ بتائیں کہ کیا خالص دودھ والا اس اتحاد کی دلیل کو مانے گا کیا یہ اتحاد اور موحول کو بہتر بنانے کی دلیل کسی عقل مند کے لئے درست ہو سکتی ہے
ایک اور مثال لیتے ہیں دو آدمی کسی نوکری کے لئے انٹرویو دینے جاتے ہیں ایک میٹرک ہے دوسرا بی اے ہے اب میٹرک والا کہتا ہے کہ انٹرویو میں مشترک باتیں کرنی ہیں مثلا میرے اور تمھارے درمیان میٹرک مشترک ہے پس اسکا بتانا ہے باقی ایف اے بی اے کا چونکہ اختلافی بات ہے اس لئے نہیں بتانا- کیا آپ میں سے کوئی اگر بی اے والے کی جگہ پر ہو تو وہ میٹرک والے کی اتحاد پیدا کرنے کی یہ دلیل مان لے گا
تو محترم بھائیو پھر کیا اللہ کے نبیوں کی سوچ آپ سے بھی گئی گزری ہے کہ انکو اپنے دین کی اہمیت کا بھی پتا ہو اور پھر بھی وہ مشترک چیزوں کو لے کر چلے
جاری ہے
 
Top