• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نحوست وبدفالی اسلام کی نظر میں اور مسلم قوم میں پائی جانے والی بدشگونیاں اوراحتیاطی تدابیر

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحوست وبدفالی اسلام کی نظر میں

اور

مسلم قوم میں پائی جانے والی بدشگونیاں اوراحتیاطی تدابیر​





ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

محترم قارئین!!

دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور یہ دین ہرطرح کے نقص وعیب سے پاک وصاف ہے،یہی وہ دین ہے جو تمام بنی نوع انسانیت کو سیدھا راستہ سکھاتی ہے،اس روئے زمین پر دین اسلام ہی ایک ایسا واحد دین ہے جس کے اندر کسی بھی قسم کی خرافات وبدعقیدگی اور توہمات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اس دین اسلام کے تمام احکام ومعاملات حقیت پر مبنی اور عین فطرت انسانی کے موافق ہےیہی وجہ ہے کہ اس دین اسلام نے نے ساری بنی نوع انسانیت کے دنیوی واخروی فلاح وبہبود کے لئےان تمام چیزوں کو واضح کردیا ہے جو اس کے لئے اچھا اور نفع کا سبب بن سکتا ہے اور ساتھ میں اس دین نے ان تمام مسائل کو بھی واضح کردیا ہے جو ایک انسان کے لئے دنیا وآخرت میں نقصان کا سبب بن سکتا ہے،مگر افسوس صد افسوس آج اس دین کے ماننے والوں نے اپنے دین کے اعلی وپاکیزہ تعلیمات کو پس پشت ڈال کر توہمات وخرافات کو گلے لگا لیا ہےاور بقول علامہ اقبال:

حقیقت خرافات میں کھو گئی

یہ امت روایات میں کھوگئی​

آج امت مسلمہ طرح طرح کے رسم وراج میں جکڑ چکی ہےاور آج مسلم قوم نے غیروں کی نقل اتارتے ہوئے ان ہی کےعقائد ونظریات کو اختیار کرلیا ہے،اب دیکھئے کہ غیرقوم کے اندر ایک عقیدہ پائی جاتی ہے کہ فلاں دن،فلاں وقت،فلاں مہینہ،فلاں چیز منحوس ہوتی ہے،اگر ان وقتوں میں کوئی کچھ کرے گا تو نقصان اٹھائے گا اورفلاں وقت میں کرے گا تو فائدہ اٹھائے گا،یہی وجہ ہے کہ غیر قوم کے اندر نحوست وبدشگونی کو ایک خاص مقام حاصل ہےجس کے بناپر وہ قوم اپنی شادی بیاہ کے رسم ورواج ودیگر تقریبات کواسی حساب سے انجام دیتی ہے،اب چونکہ مسلم قوم انہیں کے درمیان رہتی ہے اسی لیے مسلم قوم نے بھی انہیں کے طوروطریقوں اور انہیں کے عقائد ونظریات کو اپنا لیا ہے اوراپنے سارے معاملات ٹھیک ویسے ہی انجام دیتی ہے جیسے کہ ایک غیرقوم انجام دیتی ہے،جس طرح وہ قوم کچھ دنوں اور مہینوں اور وقتوں کو منحوس سمجھتی ہے ٹھیک اسی طرح سے مسلم قوم بھی کچھ مہینوں اوروقتوں کو منحوس سمجھتی ہے، اور جس طرح وہ قوم کچھ وقتوں اور لمحوں اور مہینوں کو بابرکت سمجھتی ہے ٹھیک ویسے ہی مسلم قوم بھی عقیدہ رکھتی ہے جب کہ ایسا سوچنا اور سمجھنا اور ایسا عقیدہ رکھنا یہ شرک ہےاور اگر کوئی انسان کسی دن یا پھر کسی مہینہ کو براسمجھتا ہے تو ایسا انسان اپنے رب کو گالی دیتا ہے ۔۔نعوذباللہ۔۔ جیسا کہ حدیث قدسی کے اندرفرمان مصطفیﷺ ہے ،اللہ کہتا ہے کہ ’’ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ‘‘انسان مجھے تکلیف دیتا ہےوہ اس طرح سے کہ وہ زمانے کو برابھلاکہتا ہے ،حالانکہ کہ میں ہی تو زمانہ ہوں ،سارے معاملات کی کنجیاں تو میرے ہاتھ میں ہی ہے اوررات ودن کو تو میں ہی لاتا ہوں اور لے جاتاہوں۔(بخاری:4826،مسلم:2246)

برادران اسلام!

آئیے سب سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ بدشگونی کسے کہتے ہیں؟بدشگونی کا معنی ومفہوم یہ ہےکہ کسی بھی دن ،وقت،مہینہ یا سال ،چیز یا جگہ کو اپنے حق میں براسمجھنا اور کوئی بھی کام کرنے سے رک جانا جیسے کہ محرم وصفر کے مہینے میں شادی بیاہ نہ کرنا وغیرہ اورقرآن وحدیث کے مطالعے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بدفالی وبدشگونی لینا یہ ہردور میں کفارومشرکین کا شیوہ اوروطیرہ رہا ہے جيسا كه سوره يس كے اندر اللہ رب العالمین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جب اللہ رب العزت نے انطاکیہ بستی کے اندر اپنے کئی رسول بھیجے تو ان گاؤں والوں نے یہ کہا کہ ’ ’ إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ‘‘ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔(یس:17)اسي طرح سے قوم ثمود نے بھی بدشگونی لیتے ہوئے حضرت صالح علیہ الصلاۃ والسلام سے کہا کہ ’’ قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ ‘‘کہ اے صالح ہم تو تیری اور تیرے ساتھیوں کی بدشگونی لے رہے ہیں۔ (النمل:47)اسی طرح سے قرآن میں یہ بھی بیان موجود ہے کہ بدشگونی لینا اور بدشگونی کا عقیدہ رکھنا یہ فرعونیوں کا کام تھا جیساکہ اللہ رب العزت نے بیان فرمایا کہ ’’ فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَذِهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَى وَمَنْ مَعَهُ ‘‘کہ جب فرعونیوں پر خوشحالی آجاتی تو یہ کہتے کہ یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی چاہیے اور اگر ان کوکوئی بدحالی پیش آتی تو موسی علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔(الاعراف:131)اسی طرح سے قرآن ہمیں یہ بھی خبردیتا ہے کہ نحوست وبدشگونی کا عقیدہ رکھنا یہ منافقین لوگوں کا بھی کام تھا جیسا کہ رب العزت نے بیان فرمایا ’’ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ ‘‘اوراگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے،اللہ نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ کہہ دیجئے ’’ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ‘‘ کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ’’ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ‘‘انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں۔(النساء:78)اسی طرح سے مشرکین مکہ بھی اپنے بتوں کے سامنے میں تیروں پر ہاں یا نہ لکھ کر رکھ دیتے تھے اور پھر اسی کے ذریعے بدشگونی وبدفالی لیتے یا پھر پرندوں کو اڑا کربدشگونی وبدفالی لیتے تھے۔

دیکھا اورسنا آپ نے کہ نحوست وبدشگونی لینا یہ ہمیشہ سے کفارومشرکین ومنافقین کا کام رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت کو اس سے بہت سختی سے روکا ہے اور بدشگونی لینے والوں کو ڈراتے ہوئے آپﷺنے فرمایا کہ ’’ لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَطَيَّرَ أَوْ تُطُيِّرَ لَهُ أَوْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكُهِّنَ لَهُ أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ ‘ ‘جو بدشگونی لے یا پھر جس کے لئے بدشگونی لی جائے،جو کہانت کرے یا جس کے لئے کہانت کی جائے یا جو جادوکرے یا جس کے لئے جادوکرائی جائے اس طرح کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ سب ہم میں سے نہیں ہیں۔(الصحیحۃ:2195)بدشگونی وبدفالی کا عقیدہ رکھنے کو شرک قراردیتے ہوئے تین مرتبہ آپﷺ نے یہ بات دھرائی کہ ’’ أَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ أَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ أَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ ‘‘ بدفالی وبدشگونی لینا شرک ہے۔(ابوداؤد:3910،اسنادہ صحیح)اگرکوئی انسان بدشگونی لیتے ہوئے کسی کام سے رک جاتا ہے تو یہ بھی شرک ہے جیساکہ عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ فَقَدْ أَشْرَكَ ‘‘جو بھی انسان بدفالی وبدشگونی لیتے ہوئے کسی کام سے رک گیا تو اس نے شرک کیا۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:6264،الصحیحۃ:1065)بدشگونی کا ایک سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بدشگونی لینے والا اگر جنت میں گیا تو بھی اسے جنت میں اعلی درجے نہیں ملے گیں۔اللہ کی پناہ۔جیسا کہ ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا کہ ’’ لَنْ يَلِجَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مَنْ تَكَهَّنَ أَوْ تُكُهِنَّ لَهُ أَوْ رَجَعَ مِنْ سَفَرٍ تَطَيُّرًا ‘‘ کہ جس نے کہانت کی یا پھر جس کے لئے کہانت کی گئی اور جو انسان بدشگونی لیتے ہوئے سفرسے واپس ہوگیا تو وہ جنت میں اعلی درجات تک رسائی کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتا ہے۔(الصحیحۃ:2161،صحیح الجامع للألبانیؒ:5226)

میرے دوستو!بدشگونی لینا جہاں شرک اور دین وایمان کے لئے خطرہ ہے وہیں پر بدشگونی نہ لینے والوں کی بہت بڑی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ ایسے لوگ بغیرحساب وکتاب کے جنت میں جائیں گے جو بدشگونی نہیں لیتے ہیں جیساکہ عمران بن حصین اور ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ ‘‘ کہ میری امت میں سے ستر/70 ہزار ایسے لوگ بھی ہوں گے جو بغیرحساب وکتاب کے جنت میں جائیں گے،صحابۂ کرام نے کہا کہ ’’ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ ‘‘اے اللہ کے رسولﷺ وہ کون لوگ ہوں گے؟توآپﷺ نے جواب دیا کہ ’’ هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَلَا يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ‘‘ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑپھونک نہیں کرتے تھے اور نہ ہی بدشگونی لیتے تھے اورنہ ہی آگ سے داغ لگواتے تھے بلکہ ہرحال میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھتے تھے۔ (مسلم:372،بخاری:6472)

برادران اسلام!

نحوست وبدشگونی کے بارے میں اتنے واضح احکام ہونے کے باوجود بھی آج مسلم سماج میں نحوست وبدشگونی درآئی ہے ،جس طرح سے کفارومشرکین کچھ لمحات واوقات کو اچھا اور براسمجھتے ہیں ٹھیک اسی طرح سے آج کا کلمہ گومسلمان بھی سمجھ رہاہے ، اب دیکھئے کہ محرم وصفر کے مہینے کو مسلم قوم منحوس سمجھتی ہے اور ان مہینوں کے اندر کسی بھی طرح کے خوشی کے کام کو انجام دینا پسند نہیں کرتی ہےبلکہ صفر کے ابتدائی ایام کو تو مسلمانوں نے تیرہ تیزی کا نام ہی دے دیا ہے کہ صفر کے شروعات کے تیرہ دنوں میں کچھ زیادہ ہی آفتیں وبلائیں نازل ہوتی ہیں جب کہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا بھی مشرکین مکہ کی عادت تھی،دراصل مشرکین مکہ کی عادت یہ تھی کہ وہ حرمت والے تین مہینے ذی قعدہ،ذی الحجہ اور محرم کے مہینوں میں جنگ وجدال سے اپنے آپ کو دوررکھتے اور جیسے ہی صفر کا مہینہ شروع ہوتا یہ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل جاتے اور جنگ وجدال میں مصروف ہوجاتے ،اس طرح سے اس مہینے میں جنگ وجدال کی وجہ سےعورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے اور کئی گھرویران وتباہ وبرباد ہوجاتے جس کی وجہ سے عربوں میں یہ مہینہ منحوس سمجھا جانے لگا حالانکہ اگر بغوردیکھاجائے تو منحوسیت ان کے عادات واطوار میں تھی نہ کہ صفر کے مہینے میں مگر انہوں نے صفر کے مہینے کو ہی منحوس سمجھنا شروع کردیاتھایہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘ چھوت (ایک کی بیماری دوسرے کو لگنے )کی کوئی حقیقت نہیں ہے،بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے،کھوپڑی کے الو کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی صفر کی کوئی حقیقت ہے۔(بخاری:5757،مسلم:2220)اس حدیث کے اندر جن باتوں کا ذکرہے اس میں سب سے پہلی بات عدوی یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ فی نفسہ کسی بیماری کے اندراتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ صحت مند انسان کو لگ لیتی ہے۔دوسری بات طیرہ یعنی بدشگونی کا عقیدہ رکھنا ،تیسری بات ھامہ ہے یعنی عرب کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگرمقتول کے خون کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی کھوپڑی سے ایک الونکل کرچیختا رہتا ہے اور جب اس کے خون کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو مقتول کی روح کو تسکین مل جاتی ہے اور تب الو خاموش ہوجاتاہے،اور چوتھی اورآخری بات صفر ہےجس کا سب سے پہلا معنی یہ ہے کہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ بھوک پیٹ میں موجود ایک کیڑے کی وجہ سے لگتی ہے اور اسی کیڑے کو صفر کہتے تھے۔

میرے دوستو!جیسا کہ آپ نے سنا کہ اسلام میں بدشگونی ونحوست کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دن ومہینہ اور وقت منحوس ہوتا ہے اور نہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے بلکہ صفر تو ایک ایسا مہینہ ہے جو خیروخوبی والا مہینہ ہےیہی وجہ ہے کہ اس مہینے کو صفر المظفر یعنی کہ کامیابی کا مہینہ کہا گیا ہے،بڑے بیوقوف ہیں وہ لوگ جو محرم وصفر کے مہینے کو منحوس سمجھ کر شادی وبیاہ نہیں کرتے ہیں ،محرم کا مہینہ تو وہ مہینہ ہے جسے آپﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اللہ کا مہینہ قراردیا ہے ۔(مسلم:1163) اور صفر کا مہینہ تووہ مہینہ ہے جس کے اندر حبیب کائناتﷺ نے خود اپنا نکاح کیا بھی اور اپنی بیٹی کا نکاح بھی صفر کے مہینے میں ہی کرایا تھا جیسا کہ سیرت کی کتابوں میں یہ بات مذکور ہے کہ آپﷺ نے صفرکے مہینے میں ہی سن7 ھجری میں سیدہ صفیہؓ سے نکاح کیا تھا اور اپنی لخت جگر ونورنظرسیدہ فاطمہ ؓکا حضرت علیؓ سے نکاح بھی اسی صفر کے مہینے میں سن 2 ھ میں کیاتھا۔سبحان اللہ ۔کتنا بابرکت جوڑا ہے اور کیسی الفت ومحبت تھی ان دونوں میاں بیوی میں اور کتنے پیارے پیارے دو دو ننھے منھے پھول بھی اللہ نے ان کو عطا کیا تھا مگرلوگ کہتے ہیں کہ صفر کے مہینے میں نکاح نہیں کرنا چاہیے ،میاں بیوی میں محبت نہیں رہے گی ،طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ یہ منحوس مہینہ ہے،ذرا آپ یہ سوچئے کہ جولوگ ربیع الاول کے مہینے میں شادی بیاہ کرتے ہیں کیا ان کے درمیان طلاق وخلع نہیں ہوتے ہیں؟ جولوگ فال دیکھ کراور اچھا مہورت دیکھ کرشادی بیاہ کرتے ہیں کیا ان کے درمیان میں طلاق وخلع اور دیگر حادثات وواقعات نہیں ہوتے ہیں؟ہوتے ہیں ضرورہوتے ہیں !پھر آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کتنی جھوٹی اور من گھڑت بات ہے،بلکہ میں تو کہوں گا کہ ایسے لوگوں کے درمیان تو لڑائی جھگڑے اورفتنے فساد،طلاق وخلع کچھ زیادہ ہوتے ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر فال ومہورت وغیرہ پربھروسہ رکھتے ہوئے شادی بیاہ کو انجام دیتے ہیں۔

میرے دوستو! صفر کا مہینہ تو وہ مہینہ ہے جس سے اسلام ومسلمانوں کی شوکت وطاقت بحال ہوئی و ہ اس طرح سے کہ صفرکے مہینے میں آپﷺ کو مدینے کے طرف ہجرت کرنے کا حکم ملاتھا،یہ صفر کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہےجس میں خیبر فتح ہوا تھا اور آپﷺ نے یہودیوں کو مدینہ اور عرب سے جلاوطن کردیا تھا ،یہ صفر کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں ایران فتح ہوا تھا جس کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوا۔سبحان اللہ ۔صرف یہی نہیں بلکہ مشہور ومعروف سپہ سالار سیدنا خالد بن ولید ؓ جن کے نام سے ہی دشمن تھر تھرکانپنے لگ جاتے تھے ،یہی وہ خالد بن ولید ہیں جن کے ہاتھوں سے جنگ موتہ میں نونو تلواریں ٹوٹی تھیں ،یہی وہ خالد بن ولید ہیں جنہوں نے مدعیٔ نبوت مسیلمہ کذاب کے فتنے کو کچل ڈالا تھا ،یہی وہ خالدبن ولید ہیں جنہوں نے ایران وشام میں اسلام کا بول بالا کیا تھا،دیکھا اور سنا آپ نے کہ یہ صفر کا مہینہ کتنا خیروخوبی والا مہینہ ہے ،پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ صفر کا مہینہ منحوس مہینہ ہے۔العیاذ باللہ۔۔اللہ ہم سب کو اس طرح کے باطل عقائد ونظریات سے محفوظ رکھے۔آمین۔

برادران اسلام!

اب میں آپ لوگوں کے سامنے میں سماج ومعاشرے میں پھیلی ہوئے بدشگونیوں کو بیان کردینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ ہرمسلمان اس طرح کی خرافات وتوہمات سے اپنے آپ کو بچاکر اپنے دین وایمان کی حفاظت کرے، مندرجہ ذیل میں جوبھی باتیں بیان کی جارہی ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سب کے سب خودساختہ ومن گھڑت باتیں اور توہم پرستی کی شکلیں ہیں جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺبری ہیں:

1۔ ماہ صفر کے تیرہ دنوں کو بہت ہی زیادہ منحوس سمجھنا اسی لیے ان دنوں کا نام تیرہ تیزہ رکھا گیا۔

2۔ ماہ صفر کے پہلے 13 دنوں تک ہر دن ابلے ہوئے چنے کو تقسیم کرنا اور یہ سمجھنا کہ ساری آفتیں اور بلائیں اس میں داخل ہوکر دوسروں پر منتقل ہوجاتی ہیں۔

3۔ ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں تک روزانہ اپنے سرہانے انڈے رکھ کر سونا اور پھر صبح اس کو کسی غریب کو دے دینا۔

4۔صفر کے مہینے میں ساس اور (نئی نویلی دلہن )بہو ایک ساتھ ایک گھر میں نہیں رہنا۔

5۔ماہ محرم اورصفر میں شادی نہیں کرنا۔

6۔ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ہریالی روندنا کہ ایسا کرنا سنت اور برکت ہے۔

7۔ ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو بابرکت سمجھنا۔

8۔محرم کے مہینے میں نئی نویلی دولہن کو میکے بھیج دینا۔

9۔ مغرب کے بعد ناخن نہیں کاٹنا۔

10۔ گھر میں ناخن کاٹ کر پھینکنے سے نحوست آتی ہے۔

11۔گھر میں مکڑی کےجالے سے نحوست آتی ہے۔

12۔گھر سے مہمان کے جانے بعد گھر میں جھاڑو نہیں لگانا ورنہ برکت چلی جائے گی۔

13۔ گھر میں شام میں جھاڑو نہیں لگانا۔

14۔ دوسرے کی کنگھی لے کرکنگھی نہیں کرنا ورنہ دونوں میں جھگڑا ہوجائے گا۔

15۔جس انسان کی کالی زبان ہو اس کی بات لگ جاتی ہے۔

16۔ٹوٹا ہوا آئینہ دیکھنے سے مصیبت آتی ہے۔

17۔گھر کے سامنے دہلیز کے اوپر آئینہ لٹکانے سے بلا ٹل جاتی ہے اوربري نظر سے حفاظت ہوتی ہے۔

18۔ رات میں آئینہ نہیں دیکھنا ورنہ کچھ بلا آ جائے گی۔

19۔ دہلیز کے سامنے نہیں سونا۔

20۔چپل کو الٹا نہیں رکھنا کیونکہ الٹا چپل شیطان کی سواری ہے۔

21۔جائے نماز کو تھوڑا ضرور موڑدینا چاہیئے ورنہ شیطان نماز پڑھنے لگتا ہے۔

22۔فیروزی رنگ کےانگوٹھی کو پہننے سے رزق وغیرہ میں برکت ہوتی ہے۔

23۔ انگوٹھی میں نگینے کے نیچے اس نیت سےسوراخ کردینا کہ پتھروں سے برکت آئے گی۔

24۔ صبح کی پہلی صورت دیکھنے کو اچھا یا برا سمجھنا۔

25۔جس کی بیوی حمل سے ہو وہ اگر جنازے کو کندھا دے گا تو کچھ نہ کچھ نقصان ہوجائے گا۔

26۔ بائیں آنکھ پھڑکنے سے مصیبتیں آتی ہیں۔

27۔دائیں ہاتھ میں اگر کھجلی ہو تو مطلب دولت آنے والی ہے۔

28۔ بینگن کو آدھاکاٹنے سے بچے ڈیرے وکانا پیدا ہوں گے۔

29۔ایسی جگہ جہاں آپس میں تین راستے ملتے ہوں وہاں نمک رکھنے سے نقصان کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔

30۔گھرمیں نئی نویلی دولہن کے آنے کے بعد کوئی مر جائے تو دولہن کو منحوس سمجھنا۔

31۔بہو سے اگر پہلی بیٹی پیدا ہو تو بہو کو منحوس سمجھنا۔

32۔اس عورت کو منحوس سمجھنا جس کے تین یا چار بچے فوت ہوگئے ہوں۔

33۔نوجوان بیوہ عورت کو منحوس سمجھنا۔

34۔قبرستان سے لوٹنے کے بعد اپنے گھر میں ہاتھ پاؤں وغیرہ دھوکر داخل ہونا ۔

35۔ گھر میں جھاڑو کو سیدھا کھڑا نہیں رکھنا۔

36۔ منگل کے دن کو منحوس سمجھنا۔

37۔سفر میں نکلنے سے پہلے گاڑیوں کے ٹائر کے نیچے لیموں شریف رکھنا۔

38۔ نئی گاڑی،نئی دوکان اور اپنے گھر کی دہلیز کے اوپرلیموں اور مرچی لٹکانا۔

39۔ گھر کے چاروں کونوں میں ہرے کپڑے میں ناریل لپیٹ کر لٹکا دینا۔

40۔ اپنی بیٹی کا نام فاطمہ نہیں رکھنا اگر رکھے تو جتنی تکلیفیں سیدہ فاطمہؓ نے جھیلی ہیں یہ بچی بھی جھیلے گی اسی طرح سے بہت سارے لوگ ایسا تصور بلال نام کے ساتھ بھی رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر بچے کا نام بلال رکھا جائے گا تو بچہ بہت تکلیف اٹھائے گا۔نعوذ باللہ۔

41۔نظر بد سے بچنے کے لیے ہاتھ اور پاؤں میں کالا دھاگا باندھنا۔

42۔ سڑکوں کے ٹھیک آمنے اور سامنے گھر نہیں بنانا۔

43۔ بچہ اور بچی کا نام والدین کے نام ،دن وتاریخ اور وقت کو پوچھ کر اور پھر ملا کررکھنا۔

44۔ شادی کی تاریخ فال دیکھ کر متعین کرنا۔

45۔ کچھ نمبروں اور عددوں کو منحوس سمجھنا۔

46۔ کوا پکارنے سے مہمان آنے کی بشارت سمجھنا۔

47۔بلی اور کتا کے آواز کرنے کو منحوس سمجھنا کہ کچھ آفت وبلا آنے والی ہے۔

48۔ بلی سامنے سے گذرنے کو منحوس سمجھنا۔

49۔گھر پر الو بیٹھنے کو منحوس سمجھنا۔

50۔ اگر الوپکارا تو صبح تک کچھ نہ کچھ بری خبر ملے گی

51۔گھرکے سامنے لیٹرینگ اور باتھ روم رکھنا۔

52۔ گھروں کے دروازوں،کھڑکیوں اور باورچی خانوں کو واستو(فال) کے حساب سے رکھنا۔

53۔ کھانے کے بعدپلیٹ میں ہاتھ دھونے سے برکت چلی جاتی ہے۔

54۔کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر پاؤں نیچے لٹکا کر حرکت دینے سے نحوست آتی ہے۔

55۔ صبح سویرے سب سے پہلے گراہک کوسودا ادھار نہیں دینا۔

56۔ بیوپار اور دوکان میں ہاتھ باندھ کر نہیں کھڑا ہونا۔

57۔ بیوی مرگئی تو شوہر اپنی بیوی کا چہرہ نہیں دیکھنااور جنازے کو کندھا بھی نہیں دینا۔

58۔ آذان کے وقت جھاڑوں نہیں دینا۔

59۔ آذان کے وقت عورتیں اپنے سروں پر پلو ڈال لینا ورنہ وہ عورت شیطان کی بیوی ہوگی۔

60۔ ستاروں سے فال لینا۔

61۔اماوس کی رات کو گھر سے باہر نہیں نکلنا۔

62۔ سورج گرہن اور چاند گرہن کے وقت میں حمل والی عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلنا۔

63۔اگر بتی کو ہاتھ سے بجھانا اگر منہ سے بجھائے تو آفت ومصیبت آجائے گی۔

64۔ نظر بد سے بچنے کے لیے بچوں کو کالا ٹپکا لگانا۔

65۔ ایسی چیزیں جو آپس میں ملی ہوئی ہوں اس کو کھانے سے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔

66۔ ہر ماہ میں کچھ دن عقرب کے دن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں اچھا کام کرنے سے نقصان ہوگا۔

67۔ ٹوٹے ہوئے کنگھی سے کنگھی کرنے سے کچھ نقصان ہونے کا عقیدہ رکھنا۔

68۔بچہ اگر باربار بیمار پڑرہا ہے تو اس کے نام کو منحوس سمجھ کر دوبارہ نیا نام رکھنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اس نام کی وجہ سے ایسا ہورہاہے۔

میرے دوستو! یہ توبطورنمونہ میں نے کچھ غلط وفاسداور خودساختہ عقائد و نظریات کو بیان کیا ہے ورنہ اس طرح کے ہزاروں اور لاکھوں غلط تصورات وتوہمات آج مسلم سماج میں پائی جارہی ہیں اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب خود بھی اس طرح کے فاسد وغلط عقائد ونظریات سےبچیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔

بدشگونی وبدفالی سے بچنے کے ذرائع واسباب​

اب آئیے آخر میں ہم آپ کو یہ بتادیتے ہیں کہ بدشگونی وبدفالی سے ہم کیسے بچیں:

(1) کسی بھی چیز یا جگہ میں کوئی نحوست وبدشگونی نہیں ہوتی ہے:

میرے دوستو! سب سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ کسی بھی چیز اور کسی بھی جگہ کے اندر کوئی نحوست وبدشگونی نہیں ہوتی ہے،جو بھی ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے آئیے اس بارے میں ایک پیاری سی حدیث سنتے ہیں ابوحسانؒ کہتے ہیں کہ اماں عائشہؓ سے ایک شخص نے کہا کہ سیدناابوہریرہؓ آپﷺ کے حوالے سے ایک حدیث نقل کررہے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِنَّمَا الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالدَّارِ ‘‘عورت ،گھر اور سواری میں نحوست ہوتی ہے،یہ سن کر سیدہ عائشہؓ بے انتہا غضبناک ہوگئیں اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمدﷺ پر قرآن کو نازل کیا ہے آپﷺ نے ایسی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی ہے بلکہ آپﷺ نے یہ فرمایا تھا ’’ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ الطِّيَرَةُ فِي الْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَالدَّابَّةِ ‘‘ کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ کہتے تھے،(اور ایک روایت کے اندر اس بات کا ذکر ہے کہ اماں عائشہؓ نے کہا کہآپﷺ نے یہ کہا کہ ’’ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ ‘‘ یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہوانہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ ) عورت ،گھر اور سواری میں نحوست ہوتی ہے،پھر امی عائشہؓ نے سورہ الحدید کی آیت نمبر 22 تلاوت کی کہ ’’ مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ‘‘ نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ تمہاری جانوں میں ،مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیداکریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے،یہ کام اللہ تعالی پر بہت ہی آسان ہے۔ (احمد:26088،الصحیحۃ:993،1898صحیح الجامع للألبانیؒ:4452)

(2) اللہ پر بھروسہ رکھنا:

اگر آپ ہر طرح کی بدفالی وبدشگونی سے بچنا چاہتے ہیں تو اللہ پر بھروسہ رکھیں اوریہ کامل یقین رکھیں کہ وہی ہوگا جو میرے رب کو منظور ہوگا،کسی نے کیا ہی خوب کہا ہےکہ :

مدعی لاکھ براچاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خداہوتا ہے​

اسی لئےیہ کامل یقین رکھیں کہ میرے رب کے حکم کے بغیر نہ تو مجھے کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے اور نہ ہی نفع،اسی بات کی تعلیم دیتے ہوئے رب العالمین نے فرمایا کہ ’’ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ‘‘اور اگراللہ تم کوکوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو اس تکلیف کو دور کردے اور اگر اللہ تم کو کوئی خیروبھلائی سے نوازنا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں،وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاورکردےاوروہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔(یونس:107)اوراسی بات کی تعلیم دیتے ہوئے جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا کہ اے لوگوں ایک بات یادرکھنا!’’ وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ ‘‘ اگر ساری دنیا بھی مل کرکے تمہیں کچھ فائدہ دینا چاہیں تو اتنا ہی فائدہ تمہیں پہنچاسکتے ہیں جتنا کہ اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اسی طرح سے یہ بات بھی یادرکھنا کہ اگر ساری دنیا مل کرکے بھی تمہیں نقصان پہنچاناچاہیں تو اتنا ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں جتنا کہ اللہ نے تمہارے تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔(ترمذی:2516،صححہ الألبانیؒ) پتہ یہ چلا کہ جو انسان جتنا زیادہ اللہ پر بھروسہ رکھے گا وہ انسان اتنا ہی زیادہ ہرطرح کی بدشگونی وبدفالی سے دور رہے گا کیونکہ یہ فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ اللہ پر بھروسہ ایک ایسی چیز ہے جو ہرطرح کی بدشگونی وبدفالی کو دورکردیتی ہے ،فرمایا ’’ أَلطِّيَرَةُ شِرْكٌ وَمَا مِنَّا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ ‘‘بدشگونی شرک ہے اور ہم میں سے ہرایک کو وہم ہوہی جاتا ہے لیکن جب اللہ پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو یہ چیز دورہوجاتی ہے۔(الصحیحۃ:429،ابوداؤد:3910،ترمذی:1614،ابن ماجہ:3538)

(3) الله سے اچھا گمان رکھیں:

میرے دوستو! اگر آپ ہرطرح کی بدشگونی وبدفالی سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر آپ ہرحال میں اپنے رب سے اچھا گمان رکھئے،آپ کی زندگی میں لاکھ پریشانیاں آ جائے مگر آپ اپنے رب سے اچھا ہی گمان رکھیں کیونکہ ہمارے رب کا یہ کہنا ہے کہ جو انسان میرے بارے میں جیسا گمان رکھے گا میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ انجام دوں گا ،اگر کوئی میرے ساتھ اچھا گمان رکھے گا تو میں اس کے ساتھ اچھا ہی کروں گا اور اگر کوئی انسان میرے بارے میں براگمان رکھے گا تو اس کے ساتھ براہی ہوگا جیسا کہ حدیث قدسی ہے اللہ نے کہا کہ ’’ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي إِنْ ظَنَّ بِي خَيْرًا فَلَهُ وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ ‘‘میں اپنے بندوں کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق اس کے معاملات کو انجا م دیتا ہوں وہ اس طرح سے کہ اگر وہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے تو اس کے ساتھ اچھا ہی ہوتا ہے اور اگر وہ میرے بارے میں براگمان رکھتا ہے تو اس کے ساتھ برا ہی ہوتا ہے۔ (الصحیحہ:1664،احمد:9076)



(4) دعا کو لازم پکڑیں:

میرے دوستو! بدفالی وبدشگونی سے بچنے کا ایک راستہ دعا ہےجیسا کہ عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ فَقَدْ أَشْرَكَ ‘‘ جو انسان کسی چیز سے بدفالی لے کر اپنی ضرورت پوری کرنے سے رک جائے تو اس نے شرک کیا،صحابۂ کرامؓ نے کہا کہ ’ ’ فَمَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ ‘‘اس کا کفارہ کیاہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم یہ دعاپڑھو’’ أَللّٰهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ‘‘ اے اللہ! تیری دی ہوئی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں ہے اور تیری فال کے سوا کوئی فال نہیں ہے اور تیرے سواکوئی معبود برحق نہیں۔(الصحیحۃ:1065)

(5) اگر اورمگر نہ کہیں:

میرے دوستو!ہم ہرطرح کے جائز وحلال طریقے کو اپناتے ہوئے اللہ پر بھروسہ رکھ کراپنے تمام امورکو انجام دیں پھر بھی اگر خدانخواستہ ہماری زندگی میں کچھ نقصان ہوجائے تو آپ یہ نہ کہا کریں کہ اگر میں ایسا کرتاتو ویسا ہوجاتا ،اگر میں یہ کام نہیں کرتا تو آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا ،جب سے میں یہ گھر میں آیا ہوں تب سے ہی میرے ساتھ ایسا ہورہا ہے،اس طرح کے جتنے میں جملے ہیں ان سب سے آپ بچاکریں کیونکہ اس طرح کے جملوں سے ایک مسلمان کے ایمان کو خراب کرنے کا ایک حیلہ و بہانہ شیطان کو مل جاتا ہے جیسا کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا کہ ’’ الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ ‘‘ طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ پیارا ہےیہ الگ بات ہے کہ ہرایک مومن میں خیرموجود ہے، ’’ اِحْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُك وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ ‘‘ جوچیز تجھے فائدہ دیتی ہو اس کے درپے رہواور اللہ سے مدد مانگتے رہاکرواور عاجز ہوکر نہ بیٹھ جایا کرو، ’’ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا ‘‘ اوراگر تجھے کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یوں نہ کہاکرو کہ اگر میں ایسا کرتا تو یوں نہ ہوتا ، ’’ وَلَكِنْ قُلْ ‘‘ بلکہ یوں کہا کرو کہ ’’ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ ‘‘ اللہ نے یہی مقدرمیں لکھا تھااور اللہ نے جوچاہا کیا کیونکہ ’’ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ ‘‘ کیونکہ لفظ لَوْ یعنی اگر مگر سے شیطان کا کام شروع ہوجاتا ہے یعنی شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔(مسلم:2664،ابن ماجہ:79)

(6) ایمان وعقیدےمیں نقص وکمی پیداکرنے والی جگہوں میں بودوباش اختیارکرنے سے بچیں:

میرے دوستو! اگر آپ اپنے ایمان کی سلامتی چاہتے ہیں اوراگراپنے اوراپنےاہل وعیال کے ایمان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ ان تمام جگہوں میں جانے سے بچیں جہاں کے بارے میں لوگ کچھ غلط تصور پال رکھے ہوں کیونکہ ویسی جگہوں پر جب ایک انسان جاتا ہے اورجب وہاں پر زندگی گذروبسرکرتے ہوئے خدانخواستہ کسی نقصان سے دوچار ہوجاتاہے تو اپنے ایمان وعقیدےکو خراب کرلیتا ہے اور یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ یہاں پرآنے سے ہی میرے ساتھ ایسا ہورہاہے اسی لئے احتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کیا جائے،اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے سیدناانسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ إِنَّا كُنَّا فِي دَارٍ كَثِيرٌ فِيهَا عَدَدُنَا وَكَثِيرٌ فِيهَا أَمْوَالُنَا ‘‘ ہم پہلے ایک گھر میں تھےاس میں ہم بہت سے افراد تھے اوروہاں ہمارے پاس اموال بھی بہت زیادہ تھے،لیکن ’’ فَتَحَوَّلْنَا إِلَى دَارٍ أُخْرَى فَقَلَّ فِيهَا عَدَدُنَا وَقَلَّتْ فِيهَا أَمْوَالُنَا ‘‘ جب ہم ایک دوسرے گھر میں منتقل ہوئے تو ہمارے اولاد بھی کم ہوگئے اور اموال میں بھی کمی آگئی ہے ،تو جب انہوں نےآپﷺ کے سامنے میں اس طرح کا اپنا گمان ظاہرکیا تو آپﷺ نے بطور احتیاط ان کے ایمان وعقیدے کی حفاظت کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ ’’ ذَرُوهَا ذَمِيمَةً ‘‘اس گھر کو چھوڑ دو وہ ایک براگھر ہے۔ (ابوداؤد:3924،الصحیحۃ:790)

(7) گھر ومکان نہیں بلکہ پہلے اپنے آپ کو بدلو:

میرے دوستو!کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسان اپنے آپ کے لئے ہرطرح کےنفع کوحاصل کرنے کےلئے اوراپنے آپ کو ہرطرح کےنقصان سے بچانے کے لئے طرح طرح کی چیزوں سے بدشگونی لیتا ہے،کبھی کسی گھرسے بدشگونی لے کر اس گھر سے نکل جاتا ہے،کبھی اپنے گاڑی سے بدشگونی لے کر گاڑی بدل لیتا ہے،کبھی اپنے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں کے جگہ کو بدل لیتا ہےتو کبھی اپنا کاروباریاپھر اپنے کاروبار کی جگہ کو بدل لیتا ہے ،یہ سب کچھ کرتاہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھاکر کبھی یہ کرتا ہے ،کبھی وہ کرتا ہے مگر ہائے افسوس انسان اپنے آپ کو کبھی نہیں بدلتا ہے،سن لیجئے اوریادرکھ لیجئے کہ نحوست وبدشگونی فلاں فلاں جگہ یا وقت یا پھر مہینے میں نہیں ہوتی ہے بلکہ خود انسان کے اندراس کے اعمال وکردارمیں ہوتی ہے،انسان خود منحوس ہوتا ہےاور جگہ بدلتارہتا ہے بھلااسے چین وسکون کیسے ملے گا،رب کا اعلان ذرسن لیجئے’’ مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ ‘‘کہ تجھے جوبھلائی ملتی ہے وہ اللہ کے طرف سے ہے اور جوبرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔(النساء:79)ایک دوسري جگہ اللہ نے فرمایا کہ ’’ وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ‘‘تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزرفرما دیتا ہے۔(الشوری:30)دیکھا اور سنا آپ نے کہ مصیبت آنے کی اصل وجہ انسان کے اپنے کرتوت ہیں نہ کہ فلاں جگہ یا پھر فلاں وقت یا پھر فلاں مہینہ تو پھر پتہ یہ چلا کہ اگرکوئی انسان ہرطرح کی مصیبت و ہرطرح کے نقصان سے بچناچاہتا ہے تو وہ اپنے اعمال وکردار کی اصلاح کرلے۔

میرے دوستو! بہت سارے لوگ یہ شکایت کرتے اور کہتے نظر آتے رہتے ہیں کہ وہ جب سے گھر میں آئے ہیں تب سے ہی ان کے ساتھ ایسا اور ایسا ہورہا ہے،یہ گھر اچھا نہیں ہے،اس گھر میں جن وشیاطین کا بسیرا ہے وغیرہ وغیرہ،یہ سب باتیں تو لوگ بڑے زور وشورسےکہتے نظر آتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں کہتا ہے اور نہیں سوچتا ہے کہ اس گھر میں ہی ایسا کیوں ہورہا ہے؟آخر اس گھر کے مکین کیسے ہیں جو اس گھر میں ایسا ہورہاہے؟کیونکہ گھر میں تو کوئی خرابی نہیں ہے اگر خرابی ونحوست ہے تو صرف اورصرف ایک انسان کے اندر اور اس کے اعمال وکردار میں ہے!اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے تو دیکھئے ہمارے اورآپ کے آقاﷺ نے یہ بیان فرمایا دیا ہے ’’ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ‘‘ کہ تم اپنے اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ،بیشک کہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتاہے جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہو،اور ایک دوسری روایت کے اندر یہ الفاظ ہیں ’’ لَا يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ ‘‘ایسے گھر میں شیطان داخل بھی نہیں ہوسکتا ہے۔(مسلم:780،احمد:8915)اسی طرح سے یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ فرض نماز باجماعت ادا کرکے اپنے نفل نماز کا کچھ نہ کچھ حصہ اپنے گھرکے لئے ضروربچالیا کرو اور پھر اپنے گھرمیں جاکرنفل نمازیں اداکیا کرو جیسا کہ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ اِجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلاَتِكُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا ‘‘کہ تم اپنے اپنے گھروں میں نمازیں کچھ نہ کچھ ضروراداکیاکرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔(بخاری:432،مسلم:777) حدیث کے سننے کے بعد ذرا غورکیجئے کہ جو انسان اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے گھرمیں نمازیں اداکرے گا تو کیا اس کے گھرمیں شیطان کا بسیرا نہیں ہوگا!کیا ایسا گھر انہ منحوس نہیں ہے جس گھرانےکے لوگ نہ تونمازپڑھتے ہوں اورنہ ہی قرآن،تومنحوس وبدشگونی کس میں ہے گھر میں یا گھرانے والوں میں؟جواب واضح ہےکہ گھرمیں یا جگہ میں نحوست نہیں ہوتی ہے اگرنحوست ہوتی ہے تو وہ ایک انسان کے اعمال وکردارکی وجہ سے ہوتی ہے۔

برادران اسلام!

سماج ومعاشرے میں یہ بھی دیکھاجاتا ہے کہ لوگ اپنے اعمال وکردار کو نہیں دیکھتے اوراپنے نقصان کا الزام دوسروں کے سرتھوپتے رہتے ہیں اور یہ کہتے رہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہی آج میرے ساتھ ایسا اورایسا ہوا ہے،یادرکھ لیجئے ہرطرح کے نقصان کا ذمے دارخود انسان ہے نہ کہ دوسرے لوگ،خودانسان منحوس ہوتا ہے اور دوسروں کو منحوس سمجھتا رہتا ہے،اب دیکھئے کہ شریعت نے ایسے انسان کو منحوس قراردیا ہے جو فجرکی نماز نہیں پڑھتا ہےاورلوگ کیا عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں کی شکل صورت اورچہرہ صبح سویرے دیکھنے کی وجہ سے ہی میرے ساتھ ایساہوا ہے،کیسی بیوقوفی اورنادانی ہے کہ خود فجرکی نماز نہ پڑھ کرکے منحوس ہے اورایساانسان دوسروں کو منحوس سمجھ رہا ہے،آئیے اس بارے میں ایک حدیث کو سنتے ہیں،حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نےفرمایا’’ يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ ثَلَاثَ عُقَدٍ إِذَا نَامَ ‘‘کہ جب تم میں سے کوئی انسان سویا ہوا ہوتا ہے تو شیطان اس کے سرکے پچھلے حصے یعنی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے،اور پھر’’بِكُلِّ عُقْدَةٍ يَضْرِبُ عَلَيْكَ لَيْلًا طَوِيلًا ‘‘ہرگرہ پر یہ افسون منترپڑھ کرتھپکی دیتااور لوری سناتارہتا ہے کہ ابھی رات بہت لمبی ہے تو سوجا،لیکن اگر کوئی انسان ’’ فَإِذَا اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ ‘‘ بیدارہوجاتا ہے اوراللہ کا ذکرشروع کردیتاہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے،پھر ’’ وَإِذَا تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عَنْهُ عُقْدَتَانِ ‘‘اگروہ انسان اٹھ کرکے وضوکرلیتاہے تو اس کی دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اوراگر’’ فَإِذَا صَلَّى انْحَلَّتِ الْعُقَدُ ‘‘وہ نمازفجر پڑھ لیتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے، پھر ایسے انسان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ’’ فَأَصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ ‘‘ ایسا انسان صبح کوہشاش بشاش اور خوش مزاج ہوتا ہے اسی کے برعکس اگرکوئی انسان فجرکی نماز نہیں پڑھتا ہے تو پھر ایسے انسان کے بارے میں آپﷺ نے کہا کہ ’’ وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ‘ ‘ ایساانسان بدمزاج اورگندے دل اور سستی وکاہلی کے ساتھ دن گذارتا ہے۔ (مسلم:776،بخاری:3269)صرف یہی نہیں بلکہ جو انسان سورج طلوع ہونے تک نیند کی آغوش میں رہتا ہے اور فجرکی نماز نہیں پڑھتا ہے تو ایسے لوگوں کے کان میں شیطان پیشاب بھی کردیتا ہے جیسا کہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کے سامنے میں ایک ایسے آدمی کا تذکرہ کیا گیا جو نماز کو چھوڑ کر صبح سورج نکلنے تک سوتارہتا ہے توآپﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنَيْهِ ‘‘یہ ایسا آدمی ہے جس کے دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے۔(بخاری:3270)دیکھا اورسنا آپ نے کہ اصل منحوس تو وہ انسان ہے جو گھرمیں نہ تو نفل نماز پڑھتا ہےاور نہ ہی فرض نماز پڑھتا ہے اور نہ ہی قرآن کی تلاوت کرتا ہے ،اب آپ لوگ ہی فیصلہ کرلیں کہ نحوست وبدشگونی کس میں ہے؟گھرمیں یا پھر انسان میں ؟کاش انسان اس کو سمجھ کر اپنے اعمال وکردار کو بدل لیں!!سچ کہا تھا علامہ اقبالؒ نے کہ:

خودبدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق​

اب آخر میں رب العزت سے دعا ہے کہ اے اللہ تو ہم سب کو اس طرح کے کفروشرک والے عقائد ونظریا ت سے محفوظ رکھ۔آمین۔ثم آمین یارب العالمین





کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 

اٹیچمنٹس

Top