• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نزول وحی کے بارے میں اعتراض کا جواب در کارہے

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محمدؐ کی خودکشی کی کوشش اور نزول وحی کی حقیقت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی unsure emoticon اس کے بعد رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے unsure emoticon دیکھیئے احادیث

صحیح البخاری کتاب التعبیر حدیث نمبر 6984
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے عقیل بن خالد سے انہوں نے ابن شہاب سے دوسری سند اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالرزاق نے کہا ہم سے معمر نے زہری نے کہا مجھ سے عروہ نے بیان کیا انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا پہلے پہل جو رسول اللہﷺ پر وحی آئی وہ یہی تھی کہ سوتے میں آپؐ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صاف صاف نمود ہوتا،آپ کیا کرتے حرا کے غار میں چلے جاتے وہاں عبادت میں مصروف رہتے کئی کئی راتیں آپ اسی غار میں بسر کرتے اور توشہ اپنے ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہؓ کے پاس آتے وہ اتنا ہی توشہ اور تیار کر کے دے دیتیں (ایک مدت تک یہی حالت رہی اور اسی طرح گذری)یہاں تک کہ ایک ہی ایکا آپؐ پر وحی آن پہنچی آپؐ غار حرا ہی میں تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگےپڑھو آپؐ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں آپؐ فرماتے ہیں جبریل علیہ السلام نے یہ سن کر مجھ کو دبایا ایسا دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا(یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا)پھر چھوڑ دیا ،اور کہنے لگے پڑھو ِ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،انہوں نے دوبارہ مجھ کو دبایا اور خوب دبایا کہ میں بے طاقت ہوگیا پھر چھوڑ دیا اور کہنے لگے پڑھو میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تیسری بار پھر خوب سے دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا کہنے لگے اپنے مالک کے نام سے پڑھو جس نے ہر ایک چیز پیدا کی(یعنی سورت اقراء پڑھائی ) مالم یالم تک آپ ﷺ یہ آیتیں سن کر اس غار سے لوٹے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے)پھڑک رہے تھے حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے ان سے کہنے لگے مجھ کو کپڑا اڑھا دو کپڑا اڑھا دو لوگوں ںے آپؐ کو کپڑا اڑھا دیا جب آپؐ کا ڈر جاتا رہا تو (حضرت خدیجہؓ سے )فرمانے لگے خدیجہؓ مجھ کو کیا ہو گیا ہے اپنا سارا حال بیان کیا فرمانے لگے مجھ کو اپنی جان جانے کا ڈر ہے یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا آپ خوش رہیے اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرنے کا ،آپؐ تو ناتے والوں سے سلوک کرتے ہیں (ہمیشہ) سچی بات کہا کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ (قرضے وغیرہ) اپنے سر لیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں ہر ایک معاملہ میں حق بجانب رہتے ہیں پھر ایسا ہوا کہ خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس پہہنچیں ان کے والد حضرت خدیجہؓ کے والد(خویلد) کے بھائی تھے یہ ورقہ جاہلیت کے زمانے میں (بت پرستی چھوڑ کر)نصرانی بن گئے تھے ، اور عربی لکھا کرتے تھے ،انجیل مقدس میں سے جو اللہ کو منظور ہوتا عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے اور بڑے بوڑھے ہوکر اندھے ہو گئے تھے خیر خدیجہؓ نے ان سے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی کیفیت تو سنو انہوں نے پوچھا کہو بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبیﷺ نے سب حال بیان کیا اس وقت ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا ۔ہا ئے کاش میں تمھاری پیغمبری کے زمانے میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک جیتا رہتا جب تمھاری قوم کے لوگ تم کو نکال باہر کریں گے ،رسول اللہﷺ نے فرمایا ہائیں (میں نے کیا قصور کی) کیا میری قوم والے مجھ کو نکال دیں گے ورقہ نے کہا بے شک(ایک تو تم پر کیا موقوف ہے) جو تمھاری طرح پیغمبر ہو کر آیا وحی اور اللہ کا کلام لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے خیر اگر میں اس وقت تک زندہ رہا میں نےیہ دن پایا تو تمہاری بہت زور کی مدد کروں گا اس کے چند ہی روز بعد ورقہ گزر گئے اور وحی آنا بھی بند رہا ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نبیﷺ کو اس وحی کے بند ہو جانے کا سخت رنج رہا کئی بار تو آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے تئیں گرادیں آپ جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل نمود ہوتے اور کہتے (ہائیں کوئی ایسا کرتا ہے )تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو یہ حال دیکھ کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا کچھ تسلی ہو جاتی آپؐ(اس ارادے سسے باز آکر )لوٹ آتے،جب ایک مدت گزر جاتی اور وحی بند ہی رہتی تو آپؐ اسی ارادے سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے (کہ گرا کر اپنے تئیں ہلاک کر ڈالیں گے) اتنے میں جبریل نمود ہوتے اور یہی کہنے لگتے ( ہائیں تم اللہ کے سچے پیغمبر ہو آپؐ اس عزم سے باز آ جاتے )ابن عباسؓ نے کہا (سورت الانعام میں)جو ہے فالق الاصباح تو اصباح سے مراد دن کو سورج کی روشنی اور رات کو چاند کی روشنی ہے ۔

صحیح بخاری کتاب الصلاۃ حدیث نمبر402
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں میں اپنے رب سے موافق آیا ( یعنی جو میرے منہ سے نکلا میرے پروردگار نے ویسا ہی حکم دیا) میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوتا اس وقت (سورت بقرہ کی) یہ آیت اتری: "و اتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی" اور پردے کی آیت بھی اسی طرح، میں نے کہا: یا رسولﷺ کاش! آپﷺ اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دیں کیونکہ اچھے برے سب طرح کے لوگ ان سے بات کرتے ہیں اس وقت پردے کی آیت اتری اور (اسی طرح ایک بار ایسا ہوا) کہ نبیﷺ کی بیویوں نے جوش و خروش میں آپﷺ کی خدمت میں اتفاق کرکے کچھ مطالبات آپﷺکےپاس لے کر حاضر ہوئیں، میں نے ان سے کہا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں طلاق دلادیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں نبی پاک ﷺکو عنایت فرمائیں، تو یہ آیت نازل ہوئی: "عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن" اور سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو یوں روایت کیا ہم کو یحی بن ایوب نے خبر دی ہم سے حمید نے بیان کیا کہا میں نے انس سے یہ حدیث سنی۔
نوٹ
اس کے اندر بعض گستاخاناں الفاظ ہیں ۔ یہ میری تحریر نہیں ہے ۔بلکہ ملحد کی تحریر سے کاپی پسٹ کی ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محمدؐ کی خودکشی کی کوشش اور نزول وحی کی حقیقت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی unsure emoticon اس کے بعد رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے unsure emoticon دیکھیئے احادیث

صحیح البخاری کتاب التعبیر حدیث نمبر 6984
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے عقیل بن خالد سے انہوں نے ابن شہاب سے دوسری سند اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالرزاق نے کہا ہم سے معمر نے زہری نے کہا مجھ سے عروہ نے بیان کیا انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا پہلے پہل جو رسول اللہﷺ پر وحی آئی وہ یہی تھی کہ سوتے میں آپؐ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صاف صاف نمود ہوتا،آپ کیا کرتے حرا کے غار میں چلے جاتے وہاں عبادت میں مصروف رہتے کئی کئی راتیں آپ اسی غار میں بسر کرتے اور توشہ اپنے ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہؓ کے پاس آتے وہ اتنا ہی توشہ اور تیار کر کے دے دیتیں (ایک مدت تک یہی حالت رہی اور اسی طرح گذری)یہاں تک کہ ایک ہی ایکا آپؐ پر وحی آن پہنچی آپؐ غار حرا ہی میں تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگےپڑھو آپؐ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں آپؐ فرماتے ہیں جبریل علیہ السلام نے یہ سن کر مجھ کو دبایا ایسا دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا(یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا)پھر چھوڑ دیا ،اور کہنے لگے پڑھو ِ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،انہوں نے دوبارہ مجھ کو دبایا اور خوب دبایا کہ میں بے طاقت ہوگیا پھر چھوڑ دیا اور کہنے لگے پڑھو میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تیسری بار پھر خوب سے دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا کہنے لگے اپنے مالک کے نام سے پڑھو جس نے ہر ایک چیز پیدا کی(یعنی سورت اقراء پڑھائی ) مالم یالم تک آپ ﷺ یہ آیتیں سن کر اس غار سے لوٹے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے)پھڑک رہے تھے حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے ان سے کہنے لگے مجھ کو کپڑا اڑھا دو کپڑا اڑھا دو لوگوں ںے آپؐ کو کپڑا اڑھا دیا جب آپؐ کا ڈر جاتا رہا تو (حضرت خدیجہؓ سے )فرمانے لگے خدیجہؓ مجھ کو کیا ہو گیا ہے اپنا سارا حال بیان کیا فرمانے لگے مجھ کو اپنی جان جانے کا ڈر ہے یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا آپ خوش رہیے اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرنے کا ،آپؐ تو ناتے والوں سے سلوک کرتے ہیں (ہمیشہ) سچی بات کہا کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ (قرضے وغیرہ) اپنے سر لیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں ہر ایک معاملہ میں حق بجانب رہتے ہیں پھر ایسا ہوا کہ خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس پہہنچیں ان کے والد حضرت خدیجہؓ کے والد(خویلد) کے بھائی تھے یہ ورقہ جاہلیت کے زمانے میں (بت پرستی چھوڑ کر)نصرانی بن گئے تھے ، اور عربی لکھا کرتے تھے ،انجیل مقدس میں سے جو اللہ کو منظور ہوتا عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے اور بڑے بوڑھے ہوکر اندھے ہو گئے تھے خیر خدیجہؓ نے ان سے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی کیفیت تو سنو انہوں نے پوچھا کہو بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبیﷺ نے سب حال بیان کیا اس وقت ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا ۔ہا ئے کاش میں تمھاری پیغمبری کے زمانے میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک جیتا رہتا جب تمھاری قوم کے لوگ تم کو نکال باہر کریں گے ،رسول اللہﷺ نے فرمایا ہائیں (میں نے کیا قصور کی) کیا میری قوم والے مجھ کو نکال دیں گے ورقہ نے کہا بے شک(ایک تو تم پر کیا موقوف ہے) جو تمھاری طرح پیغمبر ہو کر آیا وحی اور اللہ کا کلام لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے خیر اگر میں اس وقت تک زندہ رہا میں نےیہ دن پایا تو تمہاری بہت زور کی مدد کروں گا اس کے چند ہی روز بعد ورقہ گزر گئے اور وحی آنا بھی بند رہا ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نبیﷺ کو اس وحی کے بند ہو جانے کا سخت رنج رہا کئی بار تو آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے تئیں گرادیں آپ جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل نمود ہوتے اور کہتے (ہائیں کوئی ایسا کرتا ہے )تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو یہ حال دیکھ کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا کچھ تسلی ہو جاتی آپؐ(اس ارادے سسے باز آکر )لوٹ آتے،جب ایک مدت گزر جاتی اور وحی بند ہی رہتی تو آپؐ اسی ارادے سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے (کہ گرا کر اپنے تئیں ہلاک کر ڈالیں گے) اتنے میں جبریل نمود ہوتے اور یہی کہنے لگتے ( ہائیں تم اللہ کے سچے پیغمبر ہو آپؐ اس عزم سے باز آ جاتے )ابن عباسؓ نے کہا (سورت الانعام میں)جو ہے فالق الاصباح تو اصباح سے مراد دن کو سورج کی روشنی اور رات کو چاند کی روشنی ہے ۔

صحیح بخاری کتاب الصلاۃ حدیث نمبر402
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں میں اپنے رب سے موافق آیا ( یعنی جو میرے منہ سے نکلا میرے پروردگار نے ویسا ہی حکم دیا) میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوتا اس وقت (سورت بقرہ کی) یہ آیت اتری: "و اتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی" اور پردے کی آیت بھی اسی طرح، میں نے کہا: یا رسولﷺ کاش! آپﷺ اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دیں کیونکہ اچھے برے سب طرح کے لوگ ان سے بات کرتے ہیں اس وقت پردے کی آیت اتری اور (اسی طرح ایک بار ایسا ہوا) کہ نبیﷺ کی بیویوں نے جوش و خروش میں آپﷺ کی خدمت میں اتفاق کرکے کچھ مطالبات آپﷺکےپاس لے کر حاضر ہوئیں، میں نے ان سے کہا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں طلاق دلادیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں نبی پاک ﷺکو عنایت فرمائیں، تو یہ آیت نازل ہوئی: "عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن" اور سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو یوں روایت کیا ہم کو یحی بن ایوب نے خبر دی ہم سے حمید نے بیان کیا کہا میں نے انس سے یہ حدیث سنی۔
نوٹ
اس کے اندر بعض گستاخناں الفاظ ہیں ۔ یہ میری تحریر نہیں ہے ۔بلکہ ملحد کی تحریر سے کاپی پسٹ کی ہے

@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اس کے اندر بعض گستاخاناں الفاظ ہیں ۔ یہ میری تحریر نہیں ہے ۔بلکہ ملحد کی تحریر سے کاپی پسٹ کی ہے
@طلحہ خان بھائی !
آپ کی پوسٹ میں جو دو روایات ہیں ، ان کی وہ عبارت واضح کریں ،جس سے ہائیڈنگ والا اعتراض نکالا گیا ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
@طلحہ خان بھائی !
آپ کی پوسٹ میں جو دو روایات ہیں ، ان کی وہ عبارت واضح کریں ،جس سے ہائیڈنگ والا اعتراض نکالا گیا ہے
محمدؐ کی خودکشی کی کوشش اور نزول وحی کی حقیقت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی unsure emoticon اس کے بعد رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محمدؐ کی خودکشی کی کوشش اور نزول وحی کی حقیقت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی unsure emoticon اس کے بعد رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے
اوپر نقل کی گئی حدیث سے کسی طرح بھی یہ دعوی ثابت نہیں ہوتا ،کہ :
( جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی )
کیونکہ اس حدیث میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ ۔۔ورقہ ۔۔عربی لکھ لیتے تھے ،اور عربی میں انجیل کا ترجمہ کیا کرتے تھے،(وہ بھی اسلام قبل ،،کیونکہ اعلان اسلام تک تو وہ نابینا ہوچکے تھے ؛
اور انجیل اور اہل کتاب کی صحبت سے انہیں یہ علم تھا ،کہ وحی لانے والا فرشتہ کون ہے اور نزول وحی کی کیفیت کیا ہوا کرتی ہے ؛

صحیح بخاری کی روایت (حدیث نمبر: 6982 ) کے الفاظ ہیں :
ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ- وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ- فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ». فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ۔؛
ترجمہ :
پھر آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھائی! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا وہ سنایا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں۔ جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا ‘‘
صحیح البخاری ( باب أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة:
باب: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے خواب کے ذریعہ ہوئی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات صاف ہے کہ وہ قبل از اسلام ۔۔انجیل ۔۔کا عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے

نہ کہ پیارے نبی محمد ﷺ کے لئے خود ساختہ وحی گھڑتے تھے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی
اس بات کے دو جواب ہیں :
(۱) یہ خود کشی کے ارادے والی عبارت اس روایت کے ناقل صحابی کی نہیں ،بلکہ علامہ الزہری کی بلاغات میں سے ہے جیسا عبارت کے الفاظ سے ظاہر ہے :
(( حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فِيمَا بَلَغَنَا، حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الجِبَالِ))
جب وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔۔تو جو بات ہم تک پہنچی ۔۔وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں ‘‘

علامہ ابن حجر عسقلانیؒ اس کی توضیح میں فرماتے ہیں:

ثُمَّ إِنَّ الْقَائِلَ فِيمَا بَلَغَنَا هُوَ الزُّهْرِيُّ وَمَعْنَى الْكَلَامِ أَنَّ فِي جُمْلَةِ مَا وَصَلَ إِلَيْنَا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِه الْقِصَّة وَهُوَ مِنْ بَلَاغَاتِ الزُّهْرِيِّ وَلَيْسَ مَوْصُولًا وَقَالَ الْكِرْمَانِيُّ هَذَا هُوَ الظَّاهِرُ ‘‘ کہ ۔۔فیما بلغنا ۔۔کا کلام زہری کا ہے۔یہ موصول نہیں (یعنی صحابی کا کلام نہیں ،کہ اسے سابقہ متن روایت کا حصہ مانا جائے )

اس روایت دوسرے تمام طرق جو کتب احادیث میں موصولاً موجود ہیں انمیں یہ پہاڑ سے گرانے والا کلام موجود نہیں ؛
علامہ البانی ( دفاع عن الحديث النبوي والسيرة ) میں فرماتے ہیں :
أنها مرسلة معضلة فإن القائل : ( فيما بلغنا ) إنما هو الزهري كما هو ظاهر من السياق وبذلك جزم الحافظ في ( الفتح ) ( 12 / 302 ) وقال : ( وهو من بلاغات الزهري وليس موصولا )
قلت : وهذا مما غفل عنه الدكتور أو جهله فظن أن كل حرف في ( صحيح البخاري ) هو على شرطه في الصحة ولعله لا يفرق بين الحديث المسند فيه والمعلق كما لم يفرق بين الحديث الموصول فيه والحديث المرسل الذي جاء فيه عرضا كحديث عائشة هذا الذي جاءت في آخره هذه الزيادة المرسلة
واعلم أن هذه الزيادة لم تأت من طريق موصولة يحتج بها كما بينته في ( سلسلة الأحاديث الضعيفة ) ۔۔برقم ( 4858 )
"
کہ صحیح بخاری کی صحت کی شرط صرف موصول اور مسند روایات سے متعلق ہے ۔۔معلق ( یعنی بغیر سند موصول )روایات کا وہ درجہ نہیں
اور مذکورہ بالا روایت کا اضافی ٹکڑا ( جس میں پہاڑ سے گرانے والا ارادہ بتایا گیا ہے ) موصولاً ثابت نہیں ،اس لئے اس سے استدلال نہیں ہو سکتا ؛
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے
صحیح بخاری کتاب الصلاۃ حدیث نمبر402
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں میں اپنے رب سے موافق آیا ( یعنی جو میرے منہ سے نکلا میرے پروردگار نے ویسا ہی حکم دیا) میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوتا اس وقت (سورت بقرہ کی) یہ آیت اتری: "و اتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی" اور پردے کی آیت بھی اسی طرح، میں نے کہا: یا رسولﷺ کاش! آپﷺ اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دیں کیونکہ اچھے برے سب طرح کے لوگ ان سے بات کرتے ہیں اس وقت پردے کی آیت اتری اور (اسی طرح ایک بار ایسا ہوا) کہ نبیﷺ کی بیویوں نے جوش و خروش میں آپﷺ کی خدمت میں اتفاق کرکے کچھ مطالبات آپﷺکےپاس لے کر حاضر ہوئیں، میں نے ان سے کہا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں طلاق دلادیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں نبی پاک ﷺکو عنایت فرمائیں، تو یہ آیت نازل ہوئی: "عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن" اور سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو یوں روایت کیا ہم کو یحی بن ایوب نے خبر دی ہم سے حمید نے بیان کیا کہا میں نے انس سے یہ حدیث سنی۔
بھائی اس کا جواب دینا رہا گیا
 
شمولیت
مئی 14، 2015
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
اسرائيليات ۔۔۔۔۔خرافات ،هين،،،،،، اس روايت کا وحي کي حقيقت سه کوئي تعلق نهين،،،،،،
 
Top