ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
محمدؐ کی خودکشی کی کوشش اور نزول وحی کی حقیقت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی unsure emoticon اس کے بعد رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے unsure emoticon دیکھیئے احادیث
صحیح البخاری کتاب التعبیر حدیث نمبر 6984
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے عقیل بن خالد سے انہوں نے ابن شہاب سے دوسری سند اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالرزاق نے کہا ہم سے معمر نے زہری نے کہا مجھ سے عروہ نے بیان کیا انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا پہلے پہل جو رسول اللہﷺ پر وحی آئی وہ یہی تھی کہ سوتے میں آپؐ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صاف صاف نمود ہوتا،آپ کیا کرتے حرا کے غار میں چلے جاتے وہاں عبادت میں مصروف رہتے کئی کئی راتیں آپ اسی غار میں بسر کرتے اور توشہ اپنے ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہؓ کے پاس آتے وہ اتنا ہی توشہ اور تیار کر کے دے دیتیں (ایک مدت تک یہی حالت رہی اور اسی طرح گذری)یہاں تک کہ ایک ہی ایکا آپؐ پر وحی آن پہنچی آپؐ غار حرا ہی میں تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگےپڑھو آپؐ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں آپؐ فرماتے ہیں جبریل علیہ السلام نے یہ سن کر مجھ کو دبایا ایسا دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا(یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا)پھر چھوڑ دیا ،اور کہنے لگے پڑھو ِ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،انہوں نے دوبارہ مجھ کو دبایا اور خوب دبایا کہ میں بے طاقت ہوگیا پھر چھوڑ دیا اور کہنے لگے پڑھو میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تیسری بار پھر خوب سے دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا کہنے لگے اپنے مالک کے نام سے پڑھو جس نے ہر ایک چیز پیدا کی(یعنی سورت اقراء پڑھائی ) مالم یالم تک آپ ﷺ یہ آیتیں سن کر اس غار سے لوٹے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے)پھڑک رہے تھے حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے ان سے کہنے لگے مجھ کو کپڑا اڑھا دو کپڑا اڑھا دو لوگوں ںے آپؐ کو کپڑا اڑھا دیا جب آپؐ کا ڈر جاتا رہا تو (حضرت خدیجہؓ سے )فرمانے لگے خدیجہؓ مجھ کو کیا ہو گیا ہے اپنا سارا حال بیان کیا فرمانے لگے مجھ کو اپنی جان جانے کا ڈر ہے یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا آپ خوش رہیے اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرنے کا ،آپؐ تو ناتے والوں سے سلوک کرتے ہیں (ہمیشہ) سچی بات کہا کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ (قرضے وغیرہ) اپنے سر لیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں ہر ایک معاملہ میں حق بجانب رہتے ہیں پھر ایسا ہوا کہ خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس پہہنچیں ان کے والد حضرت خدیجہؓ کے والد(خویلد) کے بھائی تھے یہ ورقہ جاہلیت کے زمانے میں (بت پرستی چھوڑ کر)نصرانی بن گئے تھے ، اور عربی لکھا کرتے تھے ،انجیل مقدس میں سے جو اللہ کو منظور ہوتا عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے اور بڑے بوڑھے ہوکر اندھے ہو گئے تھے خیر خدیجہؓ نے ان سے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی کیفیت تو سنو انہوں نے پوچھا کہو بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبیﷺ نے سب حال بیان کیا اس وقت ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا ۔ہا ئے کاش میں تمھاری پیغمبری کے زمانے میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک جیتا رہتا جب تمھاری قوم کے لوگ تم کو نکال باہر کریں گے ،رسول اللہﷺ نے فرمایا ہائیں (میں نے کیا قصور کی) کیا میری قوم والے مجھ کو نکال دیں گے ورقہ نے کہا بے شک(ایک تو تم پر کیا موقوف ہے) جو تمھاری طرح پیغمبر ہو کر آیا وحی اور اللہ کا کلام لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے خیر اگر میں اس وقت تک زندہ رہا میں نےیہ دن پایا تو تمہاری بہت زور کی مدد کروں گا اس کے چند ہی روز بعد ورقہ گزر گئے اور وحی آنا بھی بند رہا ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نبیﷺ کو اس وحی کے بند ہو جانے کا سخت رنج رہا کئی بار تو آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے تئیں گرادیں آپ جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل نمود ہوتے اور کہتے (ہائیں کوئی ایسا کرتا ہے )تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو یہ حال دیکھ کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا کچھ تسلی ہو جاتی آپؐ(اس ارادے سسے باز آکر )لوٹ آتے،جب ایک مدت گزر جاتی اور وحی بند ہی رہتی تو آپؐ اسی ارادے سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے (کہ گرا کر اپنے تئیں ہلاک کر ڈالیں گے) اتنے میں جبریل نمود ہوتے اور یہی کہنے لگتے ( ہائیں تم اللہ کے سچے پیغمبر ہو آپؐ اس عزم سے باز آ جاتے )ابن عباسؓ نے کہا (سورت الانعام میں)جو ہے فالق الاصباح تو اصباح سے مراد دن کو سورج کی روشنی اور رات کو چاند کی روشنی ہے ۔
صحیح بخاری کتاب الصلاۃ حدیث نمبر402
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں میں اپنے رب سے موافق آیا ( یعنی جو میرے منہ سے نکلا میرے پروردگار نے ویسا ہی حکم دیا) میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوتا اس وقت (سورت بقرہ کی) یہ آیت اتری: "و اتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی" اور پردے کی آیت بھی اسی طرح، میں نے کہا: یا رسولﷺ کاش! آپﷺ اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دیں کیونکہ اچھے برے سب طرح کے لوگ ان سے بات کرتے ہیں اس وقت پردے کی آیت اتری اور (اسی طرح ایک بار ایسا ہوا) کہ نبیﷺ کی بیویوں نے جوش و خروش میں آپﷺ کی خدمت میں اتفاق کرکے کچھ مطالبات آپﷺکےپاس لے کر حاضر ہوئیں، میں نے ان سے کہا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں طلاق دلادیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں نبی پاک ﷺکو عنایت فرمائیں، تو یہ آیت نازل ہوئی: "عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن" اور سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو یوں روایت کیا ہم کو یحی بن ایوب نے خبر دی ہم سے حمید نے بیان کیا کہا میں نے انس سے یہ حدیث سنی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب تک ورقہ بن نوفل زندہ تھا وہ وحی تیار کرتا رھا جب وہ فوت ھو گیا تو وحی آنا بند ھو گئی اور رسول نے کئی بار خود کشی کی کوشش بھی کی unsure emoticon اس کے بعد رسول کو اپنے دوستوں کی جو بھی بات اچھی لگتی اسے ھی وحی بنا کر پیش کر دیتے تھے unsure emoticon دیکھیئے احادیث
صحیح البخاری کتاب التعبیر حدیث نمبر 6984
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے عقیل بن خالد سے انہوں نے ابن شہاب سے دوسری سند اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالرزاق نے کہا ہم سے معمر نے زہری نے کہا مجھ سے عروہ نے بیان کیا انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا پہلے پہل جو رسول اللہﷺ پر وحی آئی وہ یہی تھی کہ سوتے میں آپؐ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صاف صاف نمود ہوتا،آپ کیا کرتے حرا کے غار میں چلے جاتے وہاں عبادت میں مصروف رہتے کئی کئی راتیں آپ اسی غار میں بسر کرتے اور توشہ اپنے ساتھ لے جاتے پھر حضرت خدیجہؓ کے پاس آتے وہ اتنا ہی توشہ اور تیار کر کے دے دیتیں (ایک مدت تک یہی حالت رہی اور اسی طرح گذری)یہاں تک کہ ایک ہی ایکا آپؐ پر وحی آن پہنچی آپؐ غار حرا ہی میں تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگےپڑھو آپؐ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں آپؐ فرماتے ہیں جبریل علیہ السلام نے یہ سن کر مجھ کو دبایا ایسا دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا(یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا)پھر چھوڑ دیا ،اور کہنے لگے پڑھو ِ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ،انہوں نے دوبارہ مجھ کو دبایا اور خوب دبایا کہ میں بے طاقت ہوگیا پھر چھوڑ دیا اور کہنے لگے پڑھو میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں تیسری بار پھر خوب سے دبایا کہ میں بے طاقت ہو گیا کہنے لگے اپنے مالک کے نام سے پڑھو جس نے ہر ایک چیز پیدا کی(یعنی سورت اقراء پڑھائی ) مالم یالم تک آپ ﷺ یہ آیتیں سن کر اس غار سے لوٹے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے)پھڑک رہے تھے حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے ان سے کہنے لگے مجھ کو کپڑا اڑھا دو کپڑا اڑھا دو لوگوں ںے آپؐ کو کپڑا اڑھا دیا جب آپؐ کا ڈر جاتا رہا تو (حضرت خدیجہؓ سے )فرمانے لگے خدیجہؓ مجھ کو کیا ہو گیا ہے اپنا سارا حال بیان کیا فرمانے لگے مجھ کو اپنی جان جانے کا ڈر ہے یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے کہا خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا آپ خوش رہیے اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرنے کا ،آپؐ تو ناتے والوں سے سلوک کرتے ہیں (ہمیشہ) سچی بات کہا کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ (قرضے وغیرہ) اپنے سر لیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں ہر ایک معاملہ میں حق بجانب رہتے ہیں پھر ایسا ہوا کہ خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس پہہنچیں ان کے والد حضرت خدیجہؓ کے والد(خویلد) کے بھائی تھے یہ ورقہ جاہلیت کے زمانے میں (بت پرستی چھوڑ کر)نصرانی بن گئے تھے ، اور عربی لکھا کرتے تھے ،انجیل مقدس میں سے جو اللہ کو منظور ہوتا عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے اور بڑے بوڑھے ہوکر اندھے ہو گئے تھے خیر خدیجہؓ نے ان سے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی کیفیت تو سنو انہوں نے پوچھا کہو بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبیﷺ نے سب حال بیان کیا اس وقت ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اترا تھا ۔ہا ئے کاش میں تمھاری پیغمبری کے زمانے میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک جیتا رہتا جب تمھاری قوم کے لوگ تم کو نکال باہر کریں گے ،رسول اللہﷺ نے فرمایا ہائیں (میں نے کیا قصور کی) کیا میری قوم والے مجھ کو نکال دیں گے ورقہ نے کہا بے شک(ایک تو تم پر کیا موقوف ہے) جو تمھاری طرح پیغمبر ہو کر آیا وحی اور اللہ کا کلام لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے خیر اگر میں اس وقت تک زندہ رہا میں نےیہ دن پایا تو تمہاری بہت زور کی مدد کروں گا اس کے چند ہی روز بعد ورقہ گزر گئے اور وحی آنا بھی بند رہا ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نبیﷺ کو اس وحی کے بند ہو جانے کا سخت رنج رہا کئی بار تو آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے تئیں گرادیں آپ جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل نمود ہوتے اور کہتے (ہائیں کوئی ایسا کرتا ہے )تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو یہ حال دیکھ کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا کچھ تسلی ہو جاتی آپؐ(اس ارادے سسے باز آکر )لوٹ آتے،جب ایک مدت گزر جاتی اور وحی بند ہی رہتی تو آپؐ اسی ارادے سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے (کہ گرا کر اپنے تئیں ہلاک کر ڈالیں گے) اتنے میں جبریل نمود ہوتے اور یہی کہنے لگتے ( ہائیں تم اللہ کے سچے پیغمبر ہو آپؐ اس عزم سے باز آ جاتے )ابن عباسؓ نے کہا (سورت الانعام میں)جو ہے فالق الاصباح تو اصباح سے مراد دن کو سورج کی روشنی اور رات کو چاند کی روشنی ہے ۔
صحیح بخاری کتاب الصلاۃ حدیث نمبر402
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں میں اپنے رب سے موافق آیا ( یعنی جو میرے منہ سے نکلا میرے پروردگار نے ویسا ہی حکم دیا) میں نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوتا اس وقت (سورت بقرہ کی) یہ آیت اتری: "و اتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی" اور پردے کی آیت بھی اسی طرح، میں نے کہا: یا رسولﷺ کاش! آپﷺ اپنی عورتوں کو پردے کا حکم دیں کیونکہ اچھے برے سب طرح کے لوگ ان سے بات کرتے ہیں اس وقت پردے کی آیت اتری اور (اسی طرح ایک بار ایسا ہوا) کہ نبیﷺ کی بیویوں نے جوش و خروش میں آپﷺ کی خدمت میں اتفاق کرکے کچھ مطالبات آپﷺکےپاس لے کر حاضر ہوئیں، میں نے ان سے کہا: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں طلاق دلادیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں نبی پاک ﷺکو عنایت فرمائیں، تو یہ آیت نازل ہوئی: "عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن" اور سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو یوں روایت کیا ہم کو یحی بن ایوب نے خبر دی ہم سے حمید نے بیان کیا کہا میں نے انس سے یہ حدیث سنی۔
نوٹ
اس کے اندر بعض گستاخاناں الفاظ ہیں ۔ یہ میری تحریر نہیں ہے ۔بلکہ ملحد کی تحریر سے کاپی پسٹ کی ہے