اس روایت پرحکم ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے ، اس بابت اہل علم کے چار اقوال ہیں۔
- صحیح ۔
- حسن۔
- ضعیف۔
- موضوع۔
ہماری نظرمیں آخری قول ہی راجح ہے امام ابن الجوزی ، امام ابن تیمہ اور امام شوکانی وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا یہی موقف ہے۔
معاصرین میں سے شیخ بن باز ، شیخ عثیمن ، شیخ محمد صالح المنجد وغیرھم رحمہم اللہ نے بھی اس روایت کے موضوع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اوراس نماز کی ادائیگی سے منع کیا ہے، سعودی کی افتاء کمیٹی نے بھی اس نماز کو بدعت کہا ہے۔
اسنادی لحاظ سے اس کی کوئی ایک سند بھی ضعف سے خالی نہیں ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تتبع طرق میں خاص مہارت رکھتے ہیں وہ صاف اعلان کرتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی ایک بھی سند ثابت نہیں ملاحظہ ہوں علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ:
ومن أمثلة ذلك " حديث صلاة التسابيح " فإنه قد تبين بعد تتبع طرقه أنه ليس له إسناد ثابت ۔۔۔۔ [الرد المفحم للالبانی ص: 100]۔
یعنی اس روایت کے تمام طرق کو اکٹھا کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی ایک سند بھی ثابت نہیں ہے۔۔۔
یہ اعتراف کرنے کے بعدآگے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تعددطرق کے اصول سے اس حدیث کو صحیح کہا جومحل نظر ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
الغرض یہ ہے کہ اس روایت کی کوئی ایک سند بھی صحیح نہیں ہے ۔
معاصرین میں حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے بھی اس کی تمام سندوں میں صرف اورصرف ایک سند کو حسن کہا ہے لیکن یہ بھی محل نظر ہے ۔
کیونکہ اس سند کے مرسل اور موصول ہونے میں اختلاف ہے اورہمارے نزیک اس کا مرسل ہونا ہی قرین صواب ہے یا پھر اس اختلاف کی بناپر یہ سند مضطرب ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ مرسل روایت جس طریق سے آئی ہے اس میں بھی ضعف ہے لیکن پھر بھی بعض قرائن کی بنا پر اس کا مرسل ہونا ہے درست معلوم ہوتا ہے۔
یہ اس سند کاحال ہے جو اس روایت کی تمام اسانید میں سب سے بہتر مانی جاتی ہے اس کے علاوہ بقیہ اسانید کے ضعیف ہونے پر تو تقریبا سبھی متفق ہیں۔
یہ بات سند کے لحاظ سے ہوئی اب سند کی اس کمزوری کے ساتھ متن کی نکارت کو بھی پیش نظر رکھاجائے تو اس روایت کا موضوع من گھڑت ہونا ہی ظاہر ہوتاہے ، یادرہے کہ موضوع روایت صرف اسی کو نہیں کہتے جس کی سند میں کوئی کذاب یا وضاّع راوی ہو بلکہ بعض قرائن کی بناپر ضعیف سند سے آنے والی رویات پر بھی موضوع کا حکم لگتا ہے بلکہ بعض حالات میں تو ایسی روایت کو بھی موضوع کہا جاتا ہے جس کے سارے رجال ثقہ ہوتے ہیں بلکہ ترمذی کی ایک روایت کے سارے راوی بخاری کے راوی ہیں اورسب کے سب ثقہ ہیں اس کے باوجود بھی اس روایت کو امام ابن الجوزی ، حافظ ابن حجر اورعلامہ البانی رحمہم اللہ نے موضوع و من گھڑت قرار دیا ہے اس کی تفصیل ہماری کتاب
تحفة الزاھد بتکرار الجماعة فی المسجد الواحد میں ملے گی ۔
سردست ہم صرف اسی قدر وضاحت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ، وقت ملنے پر ان شاء اللہ الگ سے کسی مستقل تھریڈ میں اس حدیث کے تمام طرق پر مفصل بحث کی جائے گی ۔