• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کی اہمیت و فوائد

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے27-جمادی الاولی-1435 کا خطبہ جمعہ " نماز کی اہمیت و فوائد"کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے تمام انبیائے کرام پر نماز کی فرضیت، مشکل حالات میں نماز کے ذریعے مدد ، اور نماز کی اہمیت کے بارے میں متعدد دلائل ذکر کئے، انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ نماز جنت میں دیدار الہی اور گناہوں کی بخشش کیلئے بہترین راستہ ہے۔
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، اور سلامتی ہو۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، خلوت وجلوت کیلئے بہترین زادِ راہ تقوی ہے۔
مسلمانو!
اللہ کے ہاں سب سے بڑا عمل توحیدِ عبادت ہے، اور توحید کے بعد افضل ترین نیکی اسلام کا دوسرا رکن ہے، جو کہ سراپا عظمت وذکر الہی اور خشوع وخضوع ہے، حتی کہ اللہ تعالی نے اس رکن کو ایمان سے موسوم کیا، اور فرمایا: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ}اور اللہ تعالی تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کریگا۔ [البقرة : 143]یہی اسلام کا ستون ہے، قرآن مجید میں متقین کی ایمان بالغیب کے بعد سب سے پہلی صفت بھی یہی بیان ہوئی، اس سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، اور آپکی امت کو آخری وصیت بھی اسی کے بارے میں تھی کہ : (نماز ، نماز اور اپنے نوکروں کا خیال رکھنا) احمد۔
جو نماز قائم کریگا وہی دیندار ہے، اور جو نمازیں ضائع کردے، دیگر اعمال سے زیادہ ہی لاپرواہی برتے گا، نماز مشرک قائم کرے تو اسکے لئے پناہ کا باعث ہے، چنانچہ فرمایا: {فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ }جب حرمت والے مہینے ختم ہو جائیں تو جہاں بھی مشرکین کو پاؤ ان سے قتال کرو، انہیں پکڑو، اپنے حصار میں لو، اور ان کیلئے کمین گاہوں میں رصد لگا کر بیٹھو، اگر وہ توبہ کر لیں ، نماز اور زکاۃ ادا کریں تو انکا راستہ چھوڑ دو، [التوبۃ : 5]
یہی نماز جان و مال کے بچاؤ کا ذریعہ ہے، چنانچہ فرمانِ رسالت ہے: (مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی، اور نماز وزکاۃ کی ادائیگی شروع نہ کردیں، چنانچہ لوگ یہ کام کرنے لگ جائیں تو انکے مال وجان میری طرف سے محفوظ ہوجائیں گے، صرف اسلامی حق [زکاۃ، فطرانہ]کے مطابق لیا جائے گا، اور انکا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا) بخاری
نماز قائم کرنے سے اخوت و بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے، اسی لئے فرمایا: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ }اگر وہ توبہ کے بعد نمازیں پڑھنے لگیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ [التوبۃ : 11]
نماز کی قدر و منزلت اور انفرادیت کے باعث اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسل پر بھی اسے فرض کیا، چنانچہ ابراہیم، اسحاق، یعقوب علیہم السلام پر نماز قائم کرنے کی وحی کی، اور فرمایا: { وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ }اور ہم نے انکی طرف نیکیاں، نمازیں، اور زکاۃ ادا کرنے کی وحی کی۔ [الأنبياء : 73]
اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو حکم دیا کہ وہ شرک نہ کریں، بیت اللہ کو طواف، قیام ، رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے صاف کریں، پھر ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے نمازی ہونے کی دعا بھی کی: {رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ} ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد کو بیابان وادی میں تیرے باعزت گھر کے پاس اس لئے چھوڑا ہے کہ وہ نمازیں قائم کریں۔ [إبراہيم : 37]
چنانچہ اللہ تعالی نے اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: {وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا}[اسماعیل ]اپنے گھر والوں کو نمازاور زکاۃ کا حکم دیا کرتے تھے، وہ اپنے رب کے ہاں برگذیدہ تھے۔ [مريم : 55]
موسی علیہ السلام سے اللہ تعالی نے براہِ راست گفتگو کی اور توحید کے بعد سب سے پہلے نماز ہی کو فرض کیا: {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي}بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سواکوئی معبود نہیں، چنانچہ میری ہی عبادت کرو، اور مجھے یاد کرنے کیلئے نماز قائم کرو۔ [طہ : 14]
پھر اللہ تعالی نے موسی و ہارون علیہما السلام کو ایمان کی دعوت کے بعد نماز کی دعوت کا حکم دیا، اور فرمایا: {وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ}ہم نے موسی اور اسکے بھائی کو وحی کی: اپنی قوم کیلئے شہر میں قبلہ رخ گھر بناؤ، اور نمازیں قائم کرو۔ [يونس : 87]
زکریا علیہ السلام نماز کی پابندی کرتے تھے، اسی لئے جب فرشتوں نے انہیں بلایا تو وہ محراب میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔
داود علیہ السلام کا محبوب مشغلہ نماز تھا، اسی لئے ایک تہائی رات قیام کرتے ۔
اسی طرح قوم شعیب نے توحید اور نمازوں کی دعوت سنی تو: {قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ} انہوں نے کہا: شعیب! کیا تمہاری نماز اس بات کا حکم کرتی ہیں کہ ہم آباؤ اجداد کی عبادات ترک کردیں، اور ہم اپنے مال و دولت میں جو چاہیں نہ کریں۔ [هود : 87]
اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو جھولے ہی میں وصیت کردی تھی: {وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا} اللہ نے مجھے مرتے دم تک نماز اور زکاۃ کی وصیت کی ہے۔ [مريم : 31]
اللہ تعالی نے تمام انبیائے کرام کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا: {إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا}جب ان پر رحمن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں جا گرتے ہیں۔[مريم : 58]
بنی اسرائیل سے بھی نماز کی ادائیگی کا وعدہ لیا گیا: {وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ}اللہ تعالی نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا، اور ان میں سے بارہ نمائندے بھیجے، اور اللہ تعالی نے انہیں فرمایا: اگر تم نماز، زکاۃ ادا کرو، میرے رسولوں پر ایمان لاکر انکی پشت پناہی کرتے ہوئے اللہ تعالی کی راہ میں قرضِ حسنہ بھی دو تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور میں تمہارے گناہ مٹا کر تمہیں جنت میں داخل کردونگا، جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔[المائدة : 12]
سابقہ امتوں کو بھی اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ} انہیں اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مخلص ہوکر عبادت صرف اللہ کی کریں، نمازیں، اور زکاۃ ادا کریں، یہی مضبوط دین ہے۔[البينة : 5]
اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم دیا اور فرمایا: {وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ}دن کے دنوں کناروں اور رات کے حصہ نماز قائم کریں۔ [هود : 114]
یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کا خیال کرتے ہوئے اس سے پہلے نہیں سوتے تھے، اور نماز فجر کا خیال کرتے ہوئے عشاء کے بعد باتیں کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے، اللہ تعالی نے مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے پہلے نماز ہی کا تذکرہ کیا: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ }یقینا مؤمن کامیاب ہوجائیں گے، جو اپنی نمازیں خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں [المؤمنون : 1 - 2] اور جب مؤمنین کی صفات ختم ہوئیں تب بھی نماز ہی کا ذکر کیا، اور فرمایا: {وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (9)}وہ لوگ جو ہمیشہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں [المؤمنون : 9] جس سے نماز کی شان واضح ہوتی ہے۔
نماز کی خصوصیت یہ بھی ہے آسمانوں پر بلا واسطہ کلامِ الہی کے بعد اسکی فرضیت ہوئی، تعداد میں پانچ ہیں لیکن اجر میں پچاس ہیں، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکم دیتے ہوئے اسے فرض قرار دیا: {إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} بیشک نماز مؤمنوں کیلئے وقت مقررہ پر فرض ہے۔[النساء : 103] نماز امن ہو یا خوف، سفر ہو یا قیام، بیماری ہو یا تندرستی سوائے حائضہ ، اور نفاس والی خواتین کے ہر شخص پر فرض ہے۔
بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا جائے گا اور دس سال کی عمر میں سزا دی جائے گی، نماز کی قبولیت بدن، لباس، اور جگہ کی طہارت کے ساتھ مشروط ہے، نماز کے دوران نقل وحرکت، کھانا پینا، اور بات چیت منع ہے، یہ پابندی کسی اور عبادات میں نہیں کیونکہ نمازی اللہ سے راز ونیاز کی باتیں کرتا ہے۔
اللہ تعالی نمازی کے چہرے کی طرف ہوتا ہے، اور سجدے کی حالت میں انسان اللہ کے قریب تر ہوتاہے، نماز اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اللہ کے ہاں کونسا عمل محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: (وقت پر پڑھی گئی نماز) اسکے بعد کونسا عمل؟ فرمایا: (والدین کے ساتھ اچھا سلوک) بخاری
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: نمازوں کی وقت پر بابندی کے ساتھ ادائیگی، اور والدین کیساتھ حسن سلوک دونوں لازم و ملزوم ، اور بار بار آنے والے عمل ہیں، ان کے بارے میں فرامینِ الہیہ کی پاسداری "صدیق" لوگ ہی کرتےہیں۔
نماز کی ادائیگی جنت میں داخلے اور اللہ کے دیدار کا باعث ہے، فرمانِ نبوی ہے: (تم یقینا اپنے رب کو ایسے ہی دیکھو گے جیسے تم بغیر بھیڑ بھاڑ کے[چاندکو]دیکھ رہے ہو،[اسکی تیاری کیلئے] اگر تم فجر اور عصر کی نماز پابندی سے پڑھ سکتے ہو تو پڑھا کرو)متفق علیہ
اس کے بارے میں ابن رجب رحمہ اللہ کہتےہیں:"جنت کی اعلی ترین نعمت دیدارِ الہی ہے، اور دنیا میں افضل ترین عبادات میں فجر اور عصر کی نمازیں شامل ہیں، چنانچہ ان دونوں کی پابندی سے امید ہے کہ جنت میں داخلہ اورزیارتِ الہی نصیب ہوجائے"
نماز کی ادئیگی سے قبل ہی اسکا اجر بہت بڑا ہے، چنانچہ وضوء سے گناہ دُھل جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کو نہر سے تشبیہ دی ہے، فرمایا: (ذرا بتلاؤ! اگر کسی کے دروازے کے آگے نہر بہتی ہو، اور وہ روزانہ پانچ بار غسل کرے، کیا خیال ہے! کوئی میل باقی بچے گا؟) سب نے کہا: کچھ بھی باقی نہیں بچے گا، تو آپ نے فرمایا: (پانچ نمازیں بھی اسی طرح ہیں، اللہ تعالی ان کے ذریعے گناہ مٹا تا ہے) بخاری، ایک روایت میں ہے کہ: (جو شخص صبح شام مسجد میں جائے تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر بار آنے جانے کے بدلے میں جنت کی مہمانی تیار کرتا ہے)، نماز کیلئے جاتے ہوئے ایک قدم کے بدلے میں نیکی ، اور دوسرے کے بدلے میں گناہ مٹایا جاتا ہے، اور جو شخص مسجد میں داخل ہوجائے تو فرشتے اسکے لئے دعا گو ہوتے ہیں: (یا اللہ!اس پر رحمتیں نازل فرما،یا اللہ!اس پر رحم فرما، ) اور بے وضو ہونے تک دعا کرتے رہتے ہیں۔بخاری، اور جب تک وہ نماز کا انتظار کرتا ہے، اس کیلئے نماز کی حالت لکھی جاتی ہے۔
نماز گناہوں کی بخشش کیلئے تیز ترین راستہ ہے، چنانچہ فرمانِ رسالت ہے: (اگر کوئی شخص فرض نماز کے وقت اچھی طرح وضو کرے، اور خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع کرے تو کبیرہ گناہوں کی عدم موجودگی میں سب [صغیرہ] گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور یہ معاملہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے)مسلم
نماز کے دوران بھی گناہ معاف ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اسکے سابقہ سارے گناہ معاف ، کردئے جاتے ہیں)بخاری
جو متقی شخص نمازوں کے ذریعے مسجد کو آباد رکھے وہ مؤمنین میں سے ہے: {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ}مساجد کو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائیں۔[التوبۃ : 18]
نماز کی ادائیگی کے بعد بھی گناہ معاف ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ، 34 بار اللہ اکبر کہا تو اسکے سابقہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں)بخاری
نماز کشادگی رزق کا باعث ہے: {وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى}اپنے اہل خانہ کو پابندی کیساتھ نمازوں کا حکم دیں،ہم آپ سے انکے رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، بلکہ ہم آپکو رزق دیتے ہیں، انجام کار متقی لوگوں کا ہی ہوگا۔ [طہ : 132]
نماز شر سے نجات اور باعث خیر ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : "دنیاوی مشکلات سے نجات اور کامیابی کیلئے نماز کی بھی ایک عجیب تاثیر ہے، خاص طور جس وقت نماز کو ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مکمل حق دیا جائے، دنیاوی یا اخروی کسی بھی قسم کی مشکلات کیلئے نماز بے مثال ہتھیار ہے، مجموعی طور پر صحتِ قلب وبدن کیلئے نماز انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے، اگر دو آدمی کسی وبا میں مبتلا ہوجائیں تو نمازی پر اسکا اثر بہت کم ہوتا ہے"
عقیدہ توحید اور نماز رفعِ تکالیف کیلئے اپنا ثانی نہیں رکھتے، فرمانِ رسالت ہے: (جب اللہ تعالی وحی کے ذریعے کلام کرتا ہے تو آسمان خوفِ الہی سے لرزنے لگتے ہیں، اور جب آسمانی مخلوقات اسے سنتی ہے تو سب اللہ کیلئے سجدے میں گر پڑتے ہیں)
یونس علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مچھلی کے پیٹ میں نماز ہی کی وجہ سے نجات دی: {لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [144] فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ}مچھلی کے پیٹ میں وہ قیامت تک رہتا [144] اگر وہ تسبیح نہ کرتا۔[الصافات : 143-144]
اسی طرح سلیمان علیہ السلام کو بھی اپنی توبہ کیلئے استغفار کے ساتھ نماز کا ہی راستہ نظر آیا {فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ} چنانچہ فوراً اللہ سے استغفار کیااور خشوع کیساتھ نماز پڑھنے لگے۔ [ص : 24]
اللہ تعالی نے جس وقت مریم علیہا السلام کو بغیر خاوند اولاد دیکر آزمانا چاہا تو انہیں نماز ہی کا حکم دیا ، تا کہ معاملہ آسان ہوجائے، اسی لئے فرمایا: {يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ} مریم! اپنے رب کیلئے قیام، سجدہ، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔[آل عمران : 43]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اگر کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز پڑھتے تھے، نماز مشکلات میں گھرے افراد کیلئے جائے پناہ ہے، اللہ تعالی نے ہمیں ہر حالت میں نماز کے ذریعے مدد حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، فرمایا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ}ایمان والو! صبر اور نماز کیساتھ مدد طلب کرو، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کیساتھ ہے۔ [البقرة : 153]
ہم دنیاوی معاملات میں نمازِ استخارہ کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جب سورج و چاند کے مدار میں کچھ تبدیلی رونما ہو تو نماز کسوف ادا کرتے ہیں، خوشی ہوتو سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تھے تو اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپکے قدم مبارک سوج جاتے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ ایسے کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ آپکی اگلی پچھلی ساری لغزشیں بھی معاف ہوچکی ہیں!آپ نے فرمایا:(تو پھر میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟)بخاری
قیامت کے دن سب سے آگے نماز ہی ہوگی، سب سے پہلے اسی کا حساب لیا جائے گا، قیامت کے دن مؤمنین سجدہ کرتے ہوئے منافقین سے الگ تھلگ نظر آئیں گے، چنانچہ جب مؤمنین اللہ تعالی کو دیکھے گے تو سجدے میں گر جائیں گے، اور جب منافقین کو بلایا جائے گا تو چاہت کے باوجود سجدہ نہیں کر پائیں گے، اسی کے بارے میں فرمایا: {يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ} اس دن پنڈلی سے پردہ اٹھایا جائے گا، اور انہیں سجدے کیلئے کہاجائے گا، تو سجدہ نہیں کر پائیں گے[القلم : 42]
اگر کوئی مسلمان گناہوں کی وجہ جہنم چلا بھی گیا تو سجدے کی جگہوں پر آگ اثر نہیں کریگی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چاہئے تو کثرت سے نفل نمازیں پڑھو، کہ ایک آدمی نے آپ سے آکر کہا: میں جنت میں آپکی رفاقت چاہتا ہوں، تو فرمایا: (اپنے بارے میں کثرت سے نوافل کیساتھ میری مدد کرو) مسلم
نماز اتنا بڑا فرض ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان وکفر کے لئے علامت قرار دے دیا ، فرمایا: (آدمی اور شرک وکفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنے کا ہے) مسلم
تارک نماز کو اللہ تعالی نے جہنم کی سزا سنائی ہے، فرمایا: {فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا} انکے بعد کچھ ناخلف لوگ آئے اور انہوں نے نمازوں کو ضائع کرکے شہوات کے پیچھے لگ گئے، وہ عنقریب جہنم کی وادی میں جائیں گے[مريم : 59] اور کفار کو جب کہا جائے گا: {مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [42] قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ}تمہیں کس نے جہنم میں ڈال دیا؟ [42]تو وہ کہیں گے: ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے۔ [المدثر : 43-42]
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: " نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حق نہیں"
مسلمانو!
مؤمن وہی ہے جو نماز کی پابندی کرتے ہوئے اہل خانہ کو بھی نماز کا حکم دیتا ہے، یہی انبیائے کرام کا طریقہ تھا، نماز کامیابی کی کنجی ، اور تکالیف سے نجات کی باعث ہے، نماز ہی میں خوشحالی، کامیابی، سکون، مالی برکت، فراخی رزق، گھروں کا سکون، اور نیک اولاد الغرض ہر طرح کی کامیابی کا رازہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: {أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} سورج ڈھلنے سے لیکر رات چھا جانے تک نمازیں پڑھو، اور فجر کے وقت قرآن پڑھو، کیونکہ فجر کے وقت تلاوت قرآن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں[الإسراء : 78]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد - صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے بندوں پر مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا فرض کیا ہے، فرمایا: {وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ}اور رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو[البقرة : 43]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے پیچھے رہ جانیوالے لوگوں کے گھر جلانے کا ارادہ فرمایا تھا، اور کہا: (منافقوں پر بھاری ترین نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے، اگر انہیں ان کی قدر کا علم ہوجائے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کرے آئیں گے، میں نے ارادہ کیا تھا کہ جماعت کروانے کاحکم دیکر ایک آدمی کو امام بناؤں، پھر اپنے ساتھ چند لوگوں کو لیکر نماز میں شامل نہ ہونے والوں کو گھروں سمیت آگ لگادوں)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا شخص کو راہنما کی عدم دستیابی کے باوجود جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ اسے کہا: (کیا تم آذان سنتے ہو؟)اس نے کہا: جی ہاں!، آپ نے فرمایا: (تو پھر جماعت میں حاضر ہو) مسلم
سستی اور کاہلی مت کرو! جماعت کیساتھ نمازیں ادا کرو، نماز چہرے کا نور، ایمان کی علامت، شرح صدر، اور بلند مقام کا باعث ہے۔
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد,یا اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ یا اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! ہمیں تمام فتنوں سے بچا، جو ظاہر ہوچکے ہیں ان سے بھی اور جو ابھی مخفی ہیں ان سے بھی محفوظ فرما۔
یا اللہ! تیرے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! توں ہی انکا والی ، وارث ، پشت پناہ، اور مدد گار بن ، یا اللہ! حق اور ہدایت پر انکا اتحاد پیدا فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! مجاہدین پر ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما،یا اللہ! انکے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! انہیں نیست ونابود فرما، یا قوی یا عزیز۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ! تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، توں غنی ہے، اور ہم کنگال ہیں، ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس نہ کر، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھالیا ہے، اور اگر اب تو ہم پر رحم کرتے ہوئے معاف نہ کرے تو ہم یقینی طور پر خسارے میں چلے جائیں گے۔ [الأعراف: 23]
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
لنک
 
Top