• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نواقض الاسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بات کو اچھی طرح جان لیجئے کہ ابن آدم پر سب سے پہلے جو چیز فرض کی گئی تھی کہ وہ طاغوت سے کفر کرے اور اللہ تعالی پر ایمان لائے۔ اس کی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔۔ ﴿٣٦﴾
" اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں "کی پرستش" سے اجتناب کرو"
طاغوت سے کفر کی صورت یہ ہے کہ تم غیر اللہ کی عبادت کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھو۔ اس سے بغض اور عداوت رکھتے ہوئے اسکو چھوڑ دو۔ اور جو لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کو کافر سمجھ کر ان سے دشمنی رکھو۔
اللہ تعالی پر ایمان لانے کے معنی ہیں کہ تم یہ عقیدہ رکھو کہ اللہ تعالی ہی مشکل کشا اور وہی معبود واحد ہے۔ اور یہ کہ عبادت کی تمام اقسام کو اسی کے لئے خالص سمجھو۔ اور اللہ تعالی کے سوا تمام معبودان باطل سے نفی کردو۔ نیز اہل اخلاص سے محبت و اخوت کا رشتہ جوڑو۔ اور مشرکین سے بغض و عداوت رکھو۔
یہی وہ ملت ابراہیم علیہ السلام ہے۔ جس نے اس سے اعراض کیا اس نے اپنے آپ کو بے وقوفوں میں شمار کر لیا۔ اور یہ وہ اسوہ حسنہ ہے جس کی رب کریم ہمیں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَ‌اهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَ‌آءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْ‌نَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ ۔۔۔۔۔﴿٤﴾-الممتحنۃ
تمہیں ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی ہے جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان "بتوں" سے جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو بے تعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی ) قائل نہیں (ہو سکتے) اور جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاو ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی"۔
1۔۔۔۔ اللہ تعالی کی عبادت میں شرک کرنا-
ارشاد باری تعالی ہے:-
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ۔۔۔۔۔۔۔﴿١١٦﴾-|النساء:۱۱۶|
"اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کوچاہے گا بخش دے گا"-
إِنَّهُ مَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّ‌مَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ‌ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ‌ ۔۔۔﴿٧٢﴾۔ المائدہ
جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکا نہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
غیراللہ کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا بھی شرک کی ذیل میں آتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی جن یا کسی صاحب قبر کے لئے کوئی جانور ذبح کرے۔
2۔۔۔ جو شخص اپنے اور اللہ تعالی کے درمیان کسی کو وسیلہ سمجھ کر پکارے اس سے سفارش کا طلب گار ہو اور اس پر کسی قسم کا توکل اور بھروسہ کرے۔ ایسے شخص کو اجتماعی طور پر کافر قرار دیا گیا ہے۔
3۔۔۔ جو شخص مشرکین کو کافر نہ سمجھے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھے ایسے شخص کو بھی کافر قرار دیا گیا ہے۔
4۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کوِئی دوسرا طریقہ افضل ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے کسی دوسرے شخص کا فیصلہ احسن ہے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر کسی طاغوت کو افضل سمجھتا ہو تو ایسا شخص کافر ہے۔
5۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں سے کسی ایک حکم سے بغض و عداوت رکھے اگرچہ اس پر عمل بھی کرتا ہو۔ پھر بھی اسے کافر قرار دیا گیا ہے۔
6۔۔۔ جو شخص شریعت محمدیہ میں سے کسی بھی ایک حکم یا اس کے ثواب و عقاب کا مذاق اڑائے۔ ایسے شخص کو کافر قرار دیا گیا ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:-
قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ ۔۔۔﴿٦٦﴾۔التوبۃ
کہو کہ کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟ بہانے مت بناو۔ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔
7۔۔۔ جادو و عطف بھی اس کے ذیل میں آتا ہے۔ لہذا جو شخص جادو کرے۔ یا جادو پر رضا مندی کا اظہار کرے ایسے شخص کو بھی کافر قرار دیا گیا ہے۔
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:۔
۔۔وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ‌ ۔۔۔﴿١٠٢﴾- البقرۃ
اور وہ دونوں کسی کو کجھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو "ذریعہ" آزمائش ہیں۔ پس تم کفرمیں نہ پڑو۔
8۔۔۔ مشرکین کی مدد کرنا۔ یا مسلمانوں کے خلاف ان سے تعاون کرنا۔
جیسا کہ حکم الہی ہے:۔
وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥١﴾۔ المائدہ
اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا۔ بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
9۔۔۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بعض افراد کو شریعت محمدیہ پر عمل نہ کرنے کی اجازت ہے۔ جیسے موسی علیہ السلام کی شریعت سے خضر علیہ السلام کو اجازت تھی۔ تو ایسا شخص بھی کافر ہے۔
10۔۔۔۔ دین الہی سے اعراض کرنا نہ تو اس کا علم حاصل کرنا اور نہ ہی اس پر عمل کرنا۔

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:-
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ‌ بِآيَاتِ رَ‌بِّهِ ثُمَّ أَعْرَ‌ضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِ‌مِينَ مُنتَقِمُونَ ﴿٢٢﴾- السجدۃ
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس کو اس کے پروردگار کی آیتوں سے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیر لے ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں۔
مندرجہ بالا دس نواقض الاسلام ہیں۔ البتہ "مکروہ" مجبور شخص مستثنی ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بچائے۔ اور ان میں گرفتار ہونے سے ڈرتا رہے۔ ہم اللہ تعالی کے غضب اور دردناک عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔
و صلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ و صحبہ اجمعین۔
رسالہ نواقض الاسلام
تالیف
مجدد الدعوۃ الاسلامیۃ شیخ الاسلام الامام محمد بن عبدالوہاب التمیمی
اردو ترجمہ
عطاء اللہ ثاقب​
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
اصل الدین



شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اصل الدین سے مراد کلمہ شہادت کا پہلا ستون ہے جو کہ ’لا الہ الا اللہ‘ ہے۔ اور یہ پیغام ہر نبیؑ اپنی امت کے لئے لے کر آئے۔ اور اللہ سبحان وتعلی نے ہمیں پیدا اسی مقصد کے لئے کیا یعنی خالص اپنی عبادت لے لئے جس میں کسی دوسرے کو شریک نہ کیا جائے۔ چنانچہ جو کوئی بھی اصل الدین سے نا واقف ہے یا اس کو پورا نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور اس کو کافر اصلی سمجھا جائے گا یعنی وہ کبھی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوا حتٰی کہ وہ پیدائشی مسلمان ہونے کا یا اسلام قبول کرنے کا دعوی کرے۔ اصل الدین کے معاملے میں کوئی عزر نہیں ہے یعنی عزر بالجہل (جہالت کا عزر) یا غلط تاویل (تشریح) یا کسی عالم کی تقلید اصل الدین کے معاملے میں عزر شمار نہیں ہونگےکیونکہ اللہ سبحان وتعلی نے تمام بنی توع انسان پر اپنی حجت قائم کر دی ہے۔ یہ اصل الدین جو کہ دن اور رات کی طرح واضح ہے۔

اصل الدین کلمہ ’لا الہ الا اللہ‘ ہے اور اس کو دو (2) حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن کو کلمہ توحید کے دو (2) ستون کہا جاتا ہے۔ پہلا ستون ’لا الہ‘ ہے جس کا مطلب ہے کفر بالطاغوت (طاغوت کا انکار) اور دوسرا ستون ’الا اللہ‘ جس کا مطلب الایمان بااللہ (اللہ پر ایمان) ہے۔

اس کا ثبوت اللہ کا کلام ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔ جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی پکڑ لی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔“ (سورۃ البقرۃ آیت نبمر 256)

اور اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اس دعوت کے ساتھ بھیجا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے دور رہو، سو ان میں سے کچھ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن پر گمراہی مسلط ہو کے رہی، تم ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ “ (سورۃ النخل آیت نمبت 36)

مجدد الاسلام امام النجد شیخ محمد بن عبدلوہابؒ اپنی کتاب ’رسالہ اصل دین السلام و قاعدتہ‘ کیں لکھتے ہیں:

صفحہ اول :

”اصل دین اور دو مسئلوں میں اس کے اصول“

اول: اثبات

  • خالص اللہ جس کا کوئی شریک نہیں کی عبادت کا حکم دینا
  • اس پر دوسروں کو ابھارنا
  • اسی کی بنیا پر دوستی کرنا
  • اور جو اس کو چھوڑے(یعنی توحید چھوڑے) اسکی تکفیر کرنا

دوم : نفی

  • شرک چھوڑ دینا
  • اس پر سختی دکھانا
  • اسی کی بنیاد پر دشمنی رکھنا
  • اور جو ایسا کرے(یعنی شرک کرے) اس کی تکفیر کرنا

پہلا ستون : کفر باالطاغوت (جھوٹے خداؤں کا انکار کرنا)

طاغوت کیا ہے؟

طاغوت کے پانچ سرغنہ ہیں:

(1) شیطان جو کہ اللہ لے علاوہ دوسروں کی اطاعت اور عبادت کی طرف بلاتا ہے (ابلیس، جن و انسان ایسا کر سکتے ہیں)

جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اور اے آدم کے بیٹو ! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے- اور اس نے تم میں سے ایک بڑی مخلوق کو گمراہ کردیا، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے-“ (سورۃ یس آیات نمبر 62-60)

(2) وہ حکمران جو اللہ کی شریعت کو دوسرے قوانین (انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین) سے بدل دیتا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم نےدیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔“ (سورۃ النساء آیت نمبر 60)

(3) جو کوئی اللہ کے اتاری ہوئی شریعت کے علاوہ کسی اور آیئن کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” جو بھی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ تو کافر ہیں ۔“ (سورۃ المائدہ آیت نبمر 44)

یہاں مراد ہے جج یا حکمران یا اس طرح کوئی اتھارٹی رکھنے والاشخص۔ ایسے ہی جو شخص اپنے گھر میں اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتا وا کافر ہے۔

(4) جو کوئی دعوی کرے کہ اس کے پاس غیب کا علم ہے اس کے علاوہ جو اللہ نے خود قرآن میں نازل کیا۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” عالم الغیب وہی ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا“ (سورۃ الجن آیت نمبر 26)

ایسے ہی اللہ مزید فرماتے ہیں :

”اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اس کے سوا ‘ ان کو کوئی نہیں جانتا اور بر و بحر میں جو کچھ ہے ‘ اس سے وہ واقف ہے۔ کوئی پتہ نہیں گرتا ‘ مگر وہ اس کو جانتا ہے اور نہ زمین کی تہوں میں کوئی دانہ گرتا ہے اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر وہ ایک روشن کتاب میں مندرج ہے “ (سورۃ الانعام آیت نمبر 59)

(5) ایک وہ جس کی اللہ سبحانہ وتعالی کی بجائے عبادت کی جاتی ہے اور وہ اس عبادت پر راضی ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اور جو ان میں سے یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میں اِلٰہ ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ “ (سورۃ الانبیا آیت نبر 29)

ان تمام پانچ طاغوت کے سرغنوں کا ذکر شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی کتاب ”کتاب التوحید“ میں کیا ہے۔

طاغوت کا انکار کیسے کیا جاتا ہے؟

جو شخص کلمہ شہادت کا اقرار کرتا ہے اس کے لئے یہ بنیادی علم حاصل کرنا فرض ہے کیونکہ اس کے جاننے کے بعد ہی وہ پہلا ستون (رکن) اس کی پانچ شرائط کے ساتھ پورا کر سکتا ہے۔ پہلے ستون (رکن) کی پانچ شرائط درج ذیل ہیں:

کفر بالطاغوت کی پانچ شرائط:

(ا) یہ یقین رکھنا کہ طاغوت کی عبادت ایک باطل عمل ہے۔ طاغوت کا انکار کرنے سے پہلے یہ یقین رکھنا ہوگا کہ طاغوت باطل ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ ہی معبود حقیقی ہے اور جنھیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں اور بیشک اللہ ہی ہے جو سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔ “ (سورۃ الحج آیت نمبر 62)

(2) طاغوت سے اجتناب کرنا یعنی یہ ضروری ہے کہ ہر قسم کے طاغوت سے فاصلہ رکھا جائے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اس دعوت کے ساتھ بھیجا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے دور رہو، سو ان میں سے کچھ وہ لوگ تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن پر گمراہی مسلط ہو کے رہی، تم ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ “ (سورۃ النحل آیت نمبر 36)

(3) طاغوت سے دشمنی کا اظہار کرنا یعنی طاغوت سے نفرت کرنا اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا۔

اللہ سبحانہ وتعالی اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں:

” تمہارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تمہارا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری آشکارہ ہوگئی تاآنکہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو۔۔۔۔“ (سورۃ الممتحنہ آیت نمبر 4)

(4) طا غوت سے نفرت: ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص اللہ پر ایمان لائے اور اللہ سے محبت رکھے وہ شیطان سے محبت رکھتا ہو۔ ہمارے لئے ان سب سے نفرت رکھنا لازمی ہے جو اللہ سے نفرت رکھتے ہیں اور ہمارے تمام طواغیت سے نفرت رکھنا لازم ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” تمہارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تمہارا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری آشکارہ ہوگئی تاآنکہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو۔۔۔۔“ (سورۃ الممتحنہ آیت نمبر 4)

اللہ سبحانہ وتعالی مزید فرماتے ہیں:

”حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم نے ان چیزوں پر غور کیا ہے جن کی تم پرستش کیا کرتے ہو- تم بھی اور تمہارے گزشتہ آبائواجداد بھی - یہ سب میرے تو دشمن ہیں بجز اللہ رب العالمین کے -“ (سورۃ الشعراء آیات نمبر 77-75)

(5) طاغوت اور جو طاغوت کی عبادت کرتے ہیں ان کی تکفیر کرنا : یہ نا ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ طاغوت مسلمان ہے یا وہ طاغوت کا انکار نہیں کرتا یا اس سے اجتناب نہیں کرتا یا اس سے نفرت نہیں کرتا یا اس سے دشمنی نہیں رکھتا اور ہم یہ کہیں کہ ایسا شخص مسلمان ہے۔ بلکہ ہمارے لئے ایسے شخص کی تکفیر کرنا یا اس کو بغیر کسی شک و شبہ کے کافر قرار دینا لازم ہے۔ یہی کلیہ اس پر بھی لاگو ہوتا جو اللہ کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو عقیدہ توحید کو اپنا دین قبول کرتا ہے۔ جیسا کہ توحید اسلامی خالص اللہ کی عبادت کرنا ہے چنانچہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرے اور وہ دین میں رہ جائے۔

طاغوت اور مشرکین کی تکفیر کرنا ہر مسلماں پر ایسے ہی فرض ہے جیسے پانچ نمازیں فرض ہیں۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اے پیغمبر کہہ دیجئے، اے کافرو ! “

اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ نہیں کہا کہ ” اے پیغمبر کہہ دیجئے، اے قریش ! “

بلکہ یہ کہا ” اے پیغمبر کہہ دیجئے، اے کافرو ! “

شیخ علامہ محمد بن عتیق رحمہ اللہ اسی بات کا ذکر اپنی کتاب ’الدلائل فی حکم موالاہ اہل الاشراک‘ صفحہ 67 میں کیا ہے۔

شیخ کہتے ہیں :

”اور اس آیت کا مطلب ہے : ان (قریش) کی تکفیر کرنا “

پاورقیاں(Footnotes) :

مطلب : اس سورۃ کا مقصد، ان کے شرک کسے لاتعلق ہونا۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ ان (کفار) کی تکفیر کرنا

الشیخ سلیمان النجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”جو کوئی اس شخص کی تکفیر نہیں کرتا جو اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہراتا ہے اور اس سے برات کا اظہار نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں اور کلمہ ’لا الہ الا اللہ‘ اس کو فائدہ نہیں دیتا۔ اگر وہ مخلص ہے تو اس کے لئے شرک اور اس کے کرنے والوں سے برات کا اظہار کرنا لازم ہے اور اس کی عبادت خالص اللہ ہی کے لئے ہونی چاہیئے۔ یہ اصل دین ہے۔ “ (الاسینۃ الحداد صفحہ 163)

اوپر اصل الدین کے پہلے ستون (رکن) کی تشریح بیان کی جا چکی ہے۔ اس کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے ہر اس شخص کے لئے جو کلمہ شہادت کہتا ہے۔ جب ایک شخص پہلے ستون (رکن) اور اس کی تمام شرائط کو پورا کر لیتا ہے تو دوسرے ستون (رکن) پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

دوسرا ستون : الایمان باللہ (اللہ پر ایمان)

ایمان باللہ کی تین شرائط ہیں:

(ا) ایمان ربوبیہ ( اللہ کے ایک رب ہونے پر ایمان لانا):

یہ یقین رکھنا کہ ہر قسم کے امور بنی نوع انسان کا رب کی طرف سے ہوتے ہیں مثلا وہ تخلیق کرتا ہے، پالتا ہے اور رزق عطا کرتا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

”اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر تم کو زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو، وہ پاک ہے اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں “ (سورۃ الروم آیت نمبر 40)

(2) ایمان ابالاسماء و صفات :

اللہ سبحانہ وتعالی کے تمام اسمائے حسنیٰ اور صفات پر ایمان لایا جائے جو انہوں نے قرآن مجید بیان کئے ہیں اور جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” اور اس (اللہ) کے مانند کوئی شے بھی نہیں ہے“ (سورۃ الشعری آیت نمبر 42)

(3) ایمان باالالوہیہ :

توحید الوہیت کو توحید عبادت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عبادت اور بندگی کا مستحق فقط اللہ سبحانہ وتعالی ہے۔ اللہ کی الوہیت تمام بنی توع انسان پر اللہ کا حق ہے ھس جے تحت تمام قسم کی عبادات خالص اللہ کے لئے ہی ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

” کہہ دیجیے ! کہ میں تو بس تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے، اور جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ “ (سورۃ الکہف آیت نمبر 110)



حضرت معاذ کہتے روایت کرتیں ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس گدھے کا نام عفیر تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہا اے معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے؟

میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے

فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے، کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو شخص اس کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو اس کو عذاب نہ دے،

میں نے عرض کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت دے دیتا

فرمایا بشارت نہ دو ، ورنہ وہ اسی پر تکیہ کرلیں گے اور اعمال صالحہ چھوڑ بیٹھیں گے۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 129 حدیث مرفوع مکررات 17 متفق علیہ 13)

اصل دین کی سات (7)شرائط:

(ا) علم :

لا الہ الا اللہ کا علم ہونا یعنی یہ کلمہ کیسے غیر اللہ سے الوہیت کی نفی کرتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے ثابت کرتا ہے۔

(2) یقین :

لا الہ الا اللہ پر دل سے یقین رکھنا کیونکہ یہ کلمہ شکوک و شبہات، تردد اور توہمات کو قبول نہیں کرتا۔

(3) قبول :

اس کلمے کے تقاضوں کو ظاہری اور باطنی طور پر قبول کرنا کیونکہ قبول نہ کرنے والا کافر ہے۔

(4) انقیاد (فعل سے اتباع کرنا)

اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہونا اور اس کے منع کردہ کاموں سے رک جانا۔

(5) صدق :

لا الہ الا اللہ کے اقرار میں انسان اتنا سچا ہو کہ اس کی صداقت جھوٹ اور نفاق کے منافی ہو۔

(6) اخلاص :

لا الہ الا اللہ کی گواہی سے اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا کا ارادہ ہو۔

(7) محبت :

اس کلمہ سے محبت رکھنا اور ان لوگوں سے محبت رکھنا جو اس پر یقین رکھتے ہیں اور ان سے نفرت کرنا جو اس کا انکار کریں۔

حاصل کلام :

یہ اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔

یہ تمام انبیا علیہ الاسلام، صحابہ کرام ٗ اور تابعین اور عتبہ تابعین (سلف صالحین ) کا منہج ہے۔

یہ ملت ابراہیم ؑ ہے۔

یہ دعوت ہے مواحدین کے امام اور اللہ کے رسول محمد بن عبداللہ ﷺ کی۔
 
Top