• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوجوانان اسلام کے لئے ضروری ہے

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اسلام نوجوانوں سے کیا چاہتا ہے؟؟؟۔۔۔​
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا تھا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا​
دوستو!۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دین اسلام نوجوانوں سے کیا تقاضہ کرتا ہے؟؟؟۔۔۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ایک ہمہ گیر دین ہے اس کے دروازے دنیا کے سارے لوگوں کے لئے پاٹ درپاٹ کھلے ہوئے ہیں لہذا دین اسلام دنیا کے تمام انسانوں کے لئے یکساں اور برابر ہے کیونکہ یہ دین قوم اور ملت کے بوسیدہ نعروں سے پاک ہونے کہ علاوہ قومی وملی، تہذیبی، وثقافتی، اجتماعی و انفرادی سے برآت رکھتا ہے۔۔۔

دین اسلام میں نوجوان اور بڑھاپے کا اعتبار نہیں مگر انتا ضرور ہے کہ اس نے نوجوانوں کو دونوں جنسوں خواہ وہ عورت ہو یا مرد کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کی ہے اور ان کی پذیرائی کرکے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے جس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کے نزدیک جوانی کی عمر اور عنفوان شباب کا عالم جس میں انسان کے اندر بھرپور قوت وطاقت اورحد سے زیادہ نشاط وحرکت اور کسی کام کے انجام دہی کی بے پناہ قوت وصلاحیت ہوتی ہے اس کی اس کے نزدیک بڑی اہمیت ہے جوانی کے عالم میں شہوت وفتوت کا ان کے اندر جو سیل رواں ہوتا ہے اسلام کے نزدیک اس کی بڑی قدروقیمت ہے عین ممکن ہے کہ اس عمر میں نوجوان قوت شہواتیہ کے چنگل میں پھنس جائیں اور دنیا کے ظاہری طم طراق وجگمگاہٹ کے سامنے اس کی نگاہیں خیرہ ہوجائیں اور وہ اس کے دام میں پھنس کر اسی کے ہوکر رہ جائیں۔۔۔

لٰہذا اُمت اسلامیہ کے قائد اول اور مرشد اعلٰی اور مربی اعظم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابجا اپنی احادیٹ میں نوجوانی کے اس نازک مرحلہ کی طرف خصوصی توجہ مرکوز فرمائی ہے چنانچہ صحیحین میں اس حدیث کے اندر اس بات کا خصوصی تذکرہ فرمایا گیا ہے جن کو اللہ رب العالمین اپنے عرش کے سائے میں اس دن پناہ دے گا جس دن اس کے عرش کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں لب کشائی کرتے ہوئے عدل پرورحاکم وقت کی طرف توجہ مرکوز کرانے کے فورا بعد فرمایا! اور ایسا نوجوان اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں جس کی نشوونما ہوئی ہو۔۔۔ بلکہ ایک روایت میں تو اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں وارد ہوا ہے جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث مذکور کی شرح میں ذکر فرمایا یہ درحقیقت وہ اس موضوع پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ چسپاں ہوتی ہوئی نظر آتی ہے وہ یہ کہ!۔

ایسا نوجوان جس نے اپنی نوجوانی اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں فناکردی ہو۔۔۔ یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علماء کرام نے اس ضمن میں یہ بھی تصریح فرمادی ہے کہ اس حکم کے عموم میں نوجوان دوشیزائیں بھی داخل ہیں اور اُن کا اس عموم میں شمار ہونا قرین قیاس بھی ہے لہذا ان کو بھی اس حکم میں شامل سمجھا جائے گا کیونکہ نوجوانوں کی طرح دوشیزائیں بھی حیوان ناطق ہیں اس لئے دونوں پر ایک ہی حکم کا اطلاق ہوگا دونوں میں کسی صورت میں بھی تفریق نہیں کی جاسکتی۔۔۔

اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح المستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے جو کہ صحیح کا درجہ رکھتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا!۔

پانچ چیزیں پانچ چیزوں سے پہلے پہلے غنیمت جانو۔۔۔
بوڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانوں کیونکہ جوانی کا مرحلہ ایسا مرحلہ ہے جس کو عمر کا سنہرا موقع باور کیا جانا چاہئے اس لئے کہ جوانی کے ایام تو وہ ایام ہوا کرتے ہیں جن میں انسان پورے طور پر صحت وعافیت اور ہر طرح کی حرکت ونشاط سے مالا مال ہوتا ہے لہٰذا اسے دین اسلام کی بھرپور خدمت اور اس کی طرف پوری توجہ مرکوز کرنے اور اچھے کاموں کی انجام دہی نیز حصول علم اور زندگی کے مختلف میدانوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اعلائے کلمہ اللہ کی خاطر صرف کرنا چاہئے۔۔۔

اس سے بھی ایک قدم آگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع ترمذی میں نقل کیا ہے جس میں اس مرحلہ میں غلفت کے انجام کار سے ڈرایا دھمکایا گیا ہے اور انسان کی اس کی جوانی کے سلسلہ میں اس نازک مرحلہ کی جانب توجہ کروانے کی کوشش کی کی گئی ہے تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ اس سے اس کی نوجوانی کے بارے میں حساب وکتاب ہوگا بالخصوص نوجوانوں سے ایام شباب کے بارے میں اور اس میں بھی ان کے تصرفات کے بارے میں سختی کے ساتھ پوچھ گچھ ہوگی اور قیامت کے دن اس سلسلہ میں میزان پر ان کی جانچ پڑتال ہوگی نیز ان کی نوجوانی کے ایام کو کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے گا اسی لئے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے!۔

قیامت کے دن کسی بندے کے زمین کے اوپر سے اس وقت تک قدم اٹھ نہ سکیں گے جب تک کہ وہ چار سوالوں کے جواب نہ دیدے، ان چار سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ تم نے اپنی جوانی کو کس نوعیت سے گزارا۔۔۔
مذکورہ نصوص ثانیہ اس سلسلہ میں وارد بیش بہا نصوص قطعیہ کے پیش نظر ہمیں ان خطرناک اور زہریلے افکار وحیالات کا بھی ادراک کرنا ضروری ہے جن کو اعدائے اسلام اور مستشرقین میں سے ان کے کاسہ لیسوں نے بڑے شدومد کے ساتھ رواج دیا ہے کہ اسلام تو بوڑھوں اور بوڑھیوں اور سن رسیدہ لوگوں کیلئے خاص ہے اور ان لوگوں کیلئے خاص ہے قبر میں پیرلٹکا چکے ہوں نیز جن کو یہ یقین ہوچکا ہو کہ اب اس دنیا سے ان کے داغ مفارقت کا وقت قریب آچکا ہے یا موت کے خوف ودہشت نے ان کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے یا ان کو پورے طور پر یقین ہوچکا ہو کہ اب وہ قبر کی نذر ہونے والے ہیں اس غلط قسم کے پروپیگنڈے کے پس پردہ اسلام دشمنوں کی مطمع نظریہ پنہاں ہے کہ نوجوانوں کو دین کی طرف سے غافل کردیا جائے کیونکہ نوجوان طبقہ ہی اپنی قوم کا کریم طبقہ شمار ہوتا ہے بلکہ اس کی حیثیت اپنی قوم کے اندر اسٹیم کے مانند ہوتی ہے وہی اس کی جان ہوتے ہیں اس لئے دشمنان اسلام کا منصوبہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو ان کے دین کی طرف سے غافل کرکے انہیں شعائر دینیہ سے دور سے دور تر کردیا جائے۔۔۔

اور اسلامی تشخص اور اس کے احکامات وقوانین سے ان کے تعلق اور ربط کویکسر ختم کر کے رکھ دیا جائے تاکہ اسلام دشمنوں کے مختلف پروگراموں اور کو سازشوں کی راہ صاف ہوجائے اور وہ اپنے مقاصد اور ارادوں بروئے کار لانے میں کامیاب ہوجائیں بلکہ ان کا منصوبہ تو یہ ہے کہ نوجوانان اسلام کی خدادا صلاحیتوں اور قدرتی طاقتوں اور نوجوانوں میں پائے جانے والے متنوع نشاطات وپلانگ کو زمین میں فساد پھیلانے اور بےہودگی وبدکاری کو رواج دینے کیلئے مسخر کرلیا جائے جیسا کہ ہمارے ہاں کے آجکل کے ٹی وی سیریلز سے مترشح ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔۔۔

یہ وہ سیریل اور ڈرامے ہیں جو اخلاق وقیم سے عاری اور لہوولعب اور فضول وبکواس قسم کے افکار وخیالات کا نمونہ ہیں جو اس بہیمی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں مغرب اور اس کے حاشیہ بردار نوجوانوں اور دوشیراوں میں رائج کرنا چاہتے ہیں تاکہ بہیمیت کا دور دورہ ہو اور نوجوان نسل رنگ رلیوں اور مستیوں میں ڈوب کر دین واسلام سے بیگانی ہوجائے۔۔۔

مذکورہ نظریہ ان تین قسم کے افکار وخیالات میں سے ایک ہے جن کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے اور ان تینوں افکار میں سے کوئی ایک بھی اپنے شبیہ سے خطرے کے اعتبار سے کم نہیں اور تینوں افکار میں سے ہر ایک میں دین اسلام کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دینے کیلئے پوری صلاحیت موجود ہے ان میں سے پہلے کا ذکر رکھ دینے کے لئے پوری صلاحیت موجود ہے ان میں سے پہلے کو اوپر ذکر کرچکا ہوں۔۔۔

دوسرا گمراہ کن نظریہ یہ ہے کہ دین کو سیاست سے جدا کردیا جائے اگر دین سیاست سے جدا ہوجائے پھر سوائے چنگیزی کے اور کچھ باقی نہیں رہتا بقول علامہ اقبال کے!۔
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اور تیسرا مسموم گمران کن نظریہ یہ ہے کہ دن اور آخرت میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا ہیں مراد یہ ہے کہ دین الگ چیز ہے اور آخرت کچھ اور ہی چیز ہے جیسا کہ مغربی افکار وخیالات کے حاملین اور ان کے حاشیہ برداروں کا اعتقاد ہے (متعہ جیسے قبیح فعل کا دین کے نام پر جاری رکھنا تاکہ نوجوانوں کو اس فحاشی کے جال میں پھنسا کر ان کی صلاحیتوں کے اسلام خلاف سازشوں میں استعمال کیا جائے)۔۔۔

اسی لئے اسلام نے نوجونواں کی بےپناہ صلاحیتوں کو تحفظ عطاٰء کرنے کی کوشش کی ہے اگر میں چند الفاظ میں اس اہم سوال کا جواب دینا چاہوں جو کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑا اہمیت کا حامل ہے اور نوجوانوں کے دل ودماغ میں ہمیشہ گردش کرتا رہتا ہے اور فلسفہ نیز تربیہ وتعلیم اور نصاب تعلیم میں شامل کتابوں میں شہ سرخیوں میں لکھا جاتا ہے تو وہ یہ ہے کہ نوجوان سے ہمیں کیا مطلوب ہے؟؟؟۔۔۔

اس سلسلے میں جواب یہ ہے اور اگر اجازت ہو تو بڑی وضاحت اور دوٹوک الفاظ میں یہ کہیں گے کہ اسلام نوجوانوں کو طاقت وقوت کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ہرمیدان میں جھنڈا انہی کے ہاتھ میں ہو چاہے وہ پرسنل لائف میں قدم رنجاہوں یا زندگی کی عام ڈگر پر پابرکاب ہوں ہر حال میں شباب اسلام ہی کا دور دورہ ہو کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ صحیحین میں وارد ہے۔۔۔

کہ طاقتور مومن شخص اللہ کے نزدیک کمزور وناتواں مومن سے بہتر اور افضل ہے بلکہ انسان من جانب اللہ طاقت وقوت کے مظاہرہ کا مکلف قرار دیا گیا ہے اور قرآن کریم کے رو سے یہی مطلوب ہے کہ جیسا کہ سورہ انفال کی ایک آیت میں وارد ہوا ہے کہ!
تم حسب استطاعت ان کے مقابلہ کیلئے اپنی قوت وطاقت بھر تیاری کرو۔۔۔

قرآن کریم کا یہ انداز بیان فصاحب وبلاغت میں ڈوبا ہوا ہے بایں طور کہ قوہ کونکرہ کے صیغہ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے اس پر مستزاد یہ کہ وہ مذکورہ آیت میں بغیر ال کے وارد ہوا ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حرف جر "من" کو "قوہ" سے مقدم رکھا گیا ہے اور حرف "من" سے یہاں عموم مراد ہے تو پتہ یہ چلا کہ نقص قرآنی کی رو سے تمام قسم کی قوتوں کے حصول کا انسان مکلف قرار دیا گیا ہے اور یہ چیز اسلام کی عظمت، شان، اور اس جلالت قدر نیز اس کی شان وشوکت اور قدر وقیمت اور قوت وارادت کی بھرپور غمزای کرتی ہے یہاں پر کہا جاسکتا ہے کہ اسلام اپنی اُمت کو ایک طاقتور معزز ومکروم شان وشوکت کی حامل ہر میدان میں سباق امت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے اس اُمت مرحومہ سے یہی اس کی خواہش اور تمنا ہے جس کا اقبال نے ان الفاظ میں اظہار کیا۔۔۔

ترے علم ومحبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازفطرت میں نوا کوئی۔

نوجوانان اسلام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اسلاف کرام کی زندگیوں کو اپنے لئے نمونہ بنا کر ان کی اقتداء اور پیروی کریں اگر تاریخ اسلامی پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی جائے تو ہمیں بخوبی پتہ چل جائے گا کہ ہمارے سلف صالحین میں کتنے نوجوان ایسے گذرے ہیں جو کہ دعوت واصلاح، حرکت ونشاط کے اعتبار سے ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں دعوت واصلاح کے سلسلہ میں ان کی بےپناہ صلاحیتوں کی روداد اور عظیم الشان کارناموں کی فہرست آپ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ان کی بےپناہ مصروفیات اور متنوع اوصاف وکمالات ان کی عظمت اور قدر ومنزلت کی بھرپور غماز ہیں جس سے ان کی عظیم الشان طاقت وقوت کا اندازہ ہوتا ہے۔
واللہ اعلم۔۔۔

والسلام علیکم۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اللہ ہمیں دین اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
Top