• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بِسمِ ا ﷲِالرحمٰنِ الرّحِیم
نُوْ رُ ا لْحِکمَۃِ فی تحقیقِ البِدعَۃِ

لِأ بی سعید عبدالحمیدبن رحمت اللہ بن علی محمدبن عُمر دین بن ابراہیم بن مکھن(زبدۃ)بن رحمت الفیروزفوری ـ

بسم اللہ الرحمان الرحیم
از عبد المنا ن نور پوری بطرف جناب محترم ابوسعید عبدالحمید الأثری حفظھما اللّٰہ الذی خلق البدوی والقروی والحضری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
امّا بعد ! خیریت موجود عافیت مطلوب !
آپ کی ـ"بدعت کی حقیقت "رسالہ بریلویہ کے رد و جواب میں مایہ ناز کتاب موصول ہوئے دو ماہ سے ذیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے آج بحمد للہ و توفیقہ اس کو اول تا آخر پڑھنے سے فارغ ہوا جہا ں کوئی بات نظر آئی بغرض اصلاح وہاں دو لفظ لکھ دئیے ،آپ نے بفضل اللہ وتوفیقہ زیر تحریر موضوع پر سیر حاصل بات چیت فرمائی اور کتاب وحکمت قرآن وسنت کے اتباع کادامن تھامے رکھا ۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر جزائے خیر عطا فرمائے اور دین حنیف کی مزید نشرواشاعت کی توفیق سے نوازے آمین یا رب العالمین
کتاب کے نام کے متعلق آپ نے پوچھا تو سر دست میرے ذہن میں ایک نام آیا وہ ہے "نور الحکمۃ فی تحقیق البدعۃ "اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے اور عوام وخواص میں اس کو مقبول بنائے ،آمین یا رب العالمین
تمام احباب و اخوان کی خدمت میں تحیۃ سلام پیش فرمادیں
۱۷/۱۰/۱۴۳۰ھ سرفرازکالونی گوجرانوالہ​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بِسمِ اﷲِالرحمٰنِ الرّحِیم

پہلا پہلوتا ۷۷/۷۸دوسرا پہلو۷۸تا۱۰۷ تیسراپہلو۱۰۷ تا آخر
عبدالحمید بن رحمۃاﷲالأثری ساکن قریۃ۴۶من مضافات بھکرالمدیریۃألباکستان۔

تصدیر۔ الاستاذ محمدالمحدث گوندلوی رحمہ اللہ تعالیٰ۔

فہرست
۱۔ بدعت کسے کہتے ہیں۔
۲۔ بدعت اصلیہ اور بدعت وصفیہ کی قسمیں
۳۔ بدعت حقیقیہ
۴۔ بدعت حکمیہ

۵۔ عبادت اور عادت میں فرق
۶۔ مولّف تحقیق بدعت کا نقطہ نظر
۷۔ رسالہ پر تنقید کا مقصد
۹۔ شرع محمدی میں دینی اور دُنیاوی امور کا فرق
۱۰۔ مولّف رسالہ کا مغالطہ اور اس کا ازالہ
۱۱۔ بدعت کی تعریف میں دین اور کارثواب کی قید پر اعتراض اور اس کا جواب۔
۱۲۔ بدعت کی تعریف میں کسی دینی کام کے عہدنبوی اور عہد صحابہ میں نہ ہونے کی قید اور اس پر اعتراض کا جواب۔
۱۳۔ سنت و بدعت کی پہچان اور دونوں میں فرق الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒسے۔
۱۴۔ خیرالقرون میں کسی کا م کے نہ ہونے پر بدعت کا اطلاق اور مولّف کی ناگواری کا جواب۔
۱۵۔ عبادات میں کسی کام کے خیرالقرون میں نہ ہونے پر سلف کا انکار۔
۱۶۔ عبد اللہ بن مسعودؓکا انکار۔
۱۷۔ ابوموسیٰ اشعریؓ کا انکار۔
۱۸۔ اہل بدعت کا اعتراض کہ یہ روایت ضعیف ہے۔
۱۹۔ اس حدیث کی صحت کا ثبوت۔ ص ۲۳ الامام الاستا ذ محدث گوندلویؒ۔
۲۰۔ اس اعتراض کا جواب کہ یہ دوسری حدیث کے معارض ہے۔
۲۱۔ عبداللہ بن مسعودؓکی روایت۔
۲۲۔ الامام الاستاذ محدث گو ند لویؒ۔
۲۳۔ الامام عبداللہ المحدث روپڑی ؒسے مزید تشریح۔
۲۴۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کی مزید تائید۔
۲۵۔ خیرالقرون قرنی الحدیث کی تشریح۔
۲۶۔ مَاأناعَلیہ و اصحابی سے عہد صحابہ میں کسی عمل کے بلا نکیررائج ہونے پر اس کے بدعت نہ ہونے پر استدال اور الامام الاستاذ المحدثؒ کا لطیف نکتہ۔
۲۷۔ اجماع صحابہ پر اِمام شافعی ؒ کا عجیب استنباط۔
۲۸۔ من سن سنتہ حسنتہ ومن سن سنتہ سیٔتہ سے تقسیم بدعت پر غلط استدلال اور اس کا صحیح مفہوم۔
۳۰۔ من بدع بدعتہ لایرضا ہا اللہ ورسولہ سے بدعت کی تقسیم حسنتہ اور سئیہ پر غلط استدلال اور اس کا صحیح مفہوم۔
۳۱۔ اہل بدعت کا مانعین بدعت پر غلط الزام اور اس کا جواب مانعین بدعت کا اصل موقف۔
۳۲۔ الامام الاستاذ محدث گوندلوی ـؒ کی رائے عالی ۔
۳۳۔ بدعت و صفی کی تردید میں ایک اور دلیل۔
۳۴۔ عبداللہ بن مسعود ؓ سے بدعت و صفی کی تردید۔
۳۵۔ الشیخ علی القاری نے رسول اللہ ﷺ کی فعلاً وترکاً اِتباع واجب قراردی ہے اور ہر دو میں اتباع نہ کرنے والے کو بدعتی قرار دیاہے۔
۳۷۔ بہار شریعت سے مزیدتائید۔
۳۸۔ عدم ثبوت اور عدم نقل عہد رسالت مآب میں اور عہد صحابہ میں نہ ہونے کی صورت میں کسی امر کے دین میں بدعت ضلا لۃہونے پر مولانا احمد رضا سے حوالہ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۳۹۔ بدعات کے نظائر کتب حنفیہ سے۔
۴۰۔ اِباحت و حرمت کے جمع ہونے کی صورت میں حرمت کی ترجیح۔
۴۱۔ الشیخ احمد سر ہندیؒ( مجدد الف ثانی) کے نزدیک بدعت کی تقسیم حسنہ اور سئیہ باطل اور مردودہے۔
۴۲۔ بدعت کے مردود ہونے پر ایک حدیث اور اس کی تشریح۔
۴۳۔ لفظ محدث کا معنی۔
۴۴۔ لفظ امور کی تحقیق۔
۴۵۔ حدیث کی تشریح میں الامام الاستاذ محدث گوندلوی کی توضیح مزید۔
۴۶۔ قرآن مجید میں بدعت کی مذمت کی آٹھ آیات۔
۴۷۔ شرعی بدعت کی قسمیں بطور اصل اور وصف کے ۔
۴۸۔ بدعت اصلیہ کا مفہوم۔
۴۹۔ عرباض بن ساریہ ؓ کی روایت کردہ حدیث بدعت اصلی کے رد میں أساسی حیثیت رکھتی ہے۔
۵۰۔ اُم المومینین عائشہؓ کی حدیث بدعت و صفی کی تردید میں اصلُ الاصول کی حیثیت رکھتی ہے۔
۵۱۔ بدعت اصلی اور وصفی کی قسمیں ۔ حقیقی اور حکمی۔
۵۲۔ حدیث من احدث فی امرنا ھٰذ ا پر اہل بدعت کے اعتراض کا جواب۔
۵۳۔ حدیث مذکور کے ہم معنی ایک اور حدیث اور بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ پر ایک حدیث سے استدلال کی تردید۔
۵۴۔ حدیث مَن اِ بتَدَعَ بدعتًہ ضلالتہً لایر ضا ہااللہ ورسولہ کی الامام الاستاذ المحدث گوندلوی سے نادر بحث۔
۵۶۔ تنبیہ
۵۷۔ محقق شاطبی ـؒ کی تعریف بدعت۔
۵۸۔ بدعت کے رد میں ایک اور حدیث۔
۵۹۔ شر عی بد عت کے غیر منقسم ہونے پر دلائل۔
۶۰۔ اہل بدعت کا طرز استدلال اور موقف۔
۶۱۔ امام ا بن تیمیہ کا اہل بدعت پر وزنی اعتراض۔ کہ بدعت کی تعریف میں صرف ممانعت کی شرط و قید لگا ئی جائے تو بدعت کی تردید میں جو آیات اور احادیث ہیں وہ جُملہ نصو ص معطل ہو جائیگی اورشریعت میں تحریف کا دروازہ کھل جائے گا۔
۶۲۔ تشریح مزید الامام الاستاذالمحدث گوندلوی ؒ سے۔
۶۳۔ حدیث میں ہے کہ ہر خطبہ میں رسول اللہ ﷺخیرالحدیث کتاب اللہ اور شرالامور محدثا تہا کہتے الحدیث۔
۶۴۔ نہایت جامعہ کلمہ اِر شاد فرمایا کرتے تھے۔
۶۵۔ کل بدعتہ ضلا لۃ ہر بدعت شرع میں گمراہی ہے۔
۶۶۔ صاحب رسالہ تسلیم کرنے کے باوجود لغوی تقسیم سے شرع میں بدعات کا دروازہ کھول رہے ہیں ۔ جو کہ ایک قسم کی تلبیس وتدلیس ہے۔
۶۷۔ أحکام خمسہ میں بدعت کی تقسیم لغوی معنی میں ہے ۔
۶۸۔ دین میں شرعاً ہرا حداث بدعت مذمومہ ہے۔
۶۹۔ صاحب رسالہ خلط مبحث میں شیخ قرافی کے نقش قدم پر ۔
۷۰۔ شرعی بدعت کی تعریف امام شافعی ؒ اور امام نوویؒ سے۔
۷۱۔ اہل بدعت کی تعریف عالمگیری سے ۔
۷۲۔ کسی بات کے مخالف حق ہونے کا غلط مفہوم۔
۷۳۔ مخالف حق ہونے کا صحیح مفہوم۔
۷۴۔ سنت ترکیہ کی تعریف اور تفصیل ۔
۷۵۔ علامہ قسطلّانی رسول اللہﷺ کی فعلاًوترکاً اتباع رسول کو فرض قرار دیتے ہیںعلامہ ابن حجر الہیثمی کا فتوی اور علامہ احمد رومی ؒ کی تفھیم۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۷۶۔ عبداللہ ا بن عمر ؓ کا اتباع سنت کے لیے اصرار اور بدعت سے انکار۔
۷۷۔ الشیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کا موذن اور مجیب کے اذان میں اضافہ اور زیادتی کو حقیقتاً دین میں نقص قرار دینا۔
۷۸۔ مولّف رسالہ تحقیق بدعت کا عادت پر عبادت کو متفرع کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
۷۹۔ ایں گنا ہست کہ در شہرے شمانیذکنند۔
۸۰۔ کتب حنفیہ سے الزامی جواب کہ قبر پرتعزیت بدعت اور زیارت قبر سنت ہے۔
۸۱۔ دوسرا پہلو۔ مولّف کے حنفی ہونے کے باوجوداپنے اصل سے بے خبری سے بدعات کے احداث کی گنجائش پائی گئی ہے۔
۸۲۔ الاصل فی الاشیائ اباحت ہے یا تحریم۔
۸۳۔ اباحت کا اصول شوافع کا ہے ۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک اصل تحریم ہے ۔بدعات اصل اباحت کے ضمن سے خارج ہیں۔
۸۴۔ مسکوت عنہ میں اباحت کی اصل سے احداث امور عادیہ میں ہے ۔ جب تک وہ بدعت کی ذیل میں نہ آ ئیں۔
۸۵۔ امور عِبادت میںاصل تحریم ہے یعنی بدون اِذن شرع اس کی ممانعت ہے اصل تحریم کی وضاحت۔
۸۶۔ دونوں میں تطبیق کی صورت اور اس میں الاستاذ الامام المحدث گوندلوی کی تفصیل جب عندالحنفیہ اصل اشیاء میں تحریم ہوئی تو جملہ آیات مسکوت عنہ میں اباحت صاحب رسالہ سے جواب کا مطالبہ کرتی ہیں۔
۸۷۔ یا پھر وہ حنفیت ترک کرکے شافعیت اختیار کر لیں ۔
بدعات مسکوت عنہ اورمعفو عنہ میں داخل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان سے قطعی دلائل سے روکا گیا ہے۔
۸۸۔ اہل بدعت کی علمی حیثیت اور روش۔
۸۹۔ مسکوت عنہ اور معفو عنہ کی وضاحت۔
۹۰۔ حدیث ابی ثعلبہ الخشنی ؓ پر بحث۔
۹۱۔ ایک اہم مسئلہ اور اہم بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے الامام المحدث گوندلویؒ۔
۹۲۔ کسی امر کے ایک اعتبار سے دینی اور ایک اعتبا ر سے دنیوی ہونے پر مناسب دلیل اس کی أمثلہ امام ابن حجرعسقلانی ؒسے۔
۹۳۔ نیک عمل کی مقبولیت کی شرط کہ خالص اللہ کی رضا کیلئے اور سنت نبوی کے مطابق ہو۔
۹۴۔ عمر ؓ اور حجر أسود کا بوسہ۔
۹۵۔ الاستاذ الامام المحدث گوندلوی ؒکی وضاحت۔
۹۶۔ برا ء بن عازب کی دعا میں لفظ نبوی کی پابندی۔
۹۷۔ بدعت ہمیشہ سنت ترکیہ کے خلاف ہوتی ہے اس کی مثالیں میں۔
۹۸۔ عدم فعل نبوی کسی خود ساختہ نیک عمل کے عبث اور حرام ہونے پر دلیل۔
۹۹۔ علی ؓ کا عید گا ہ میں نمازی کو نماز سے منع کرنا اور مخالفت نبوی سے تعبیر فرمانا۔
۱۰۰۔ ابووائل کا بیان کہ جو کا م رسول اللہ ﷺ اور آپ کے دونوں خلفاء کے عدم فعل سے عدم ثبوت پر استدلال۔
۱۰۱۔ عدم فعل نبوی سے بدعت ہونے پر استدلال کسی عمل صالح کے خیرالقرون میںر و بعمل نہ ہونے سے۔
۱۰۲۔ اس کے بدعت ہونے پر استدلال۔
۱۰۳۔ اہل بدعت کا طرز استدلال۔
۱۰۴۔ بدعات کیلئے مطلق یا عام ادلّہ سے استدلال درست نہیں۔
۱۰۵۔ بدعات کیوں عام یا مطلق ادلّہ کا فرد نہیں اور کیوں مستثنیٰ ہیں۔
۱۰۶۔ مطلق کی مشروعیت سے مقید کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی۔
۱۰۷۔ حافظ امام ابن قیمؒ اور بدعت۔
۱۰۸۔ امر دین اور امر دنیا میں فرق۔
۱۰۹۔ علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے عبادات اور معا ملات میں فرق کیا ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۱۱۰۔ الامام استاذالمحدث گوندلوی کی وضاحت۔
۱۱۱۔ امر دین دو قسم کے ہیں (مبادی اور مقاصد) ۔
۱۱۲۔ کسی عمل صالح کے خیرالقرون میں عدم ذکر یا کفار سے مشابہت ہونے سے بدعت و ممنوع ہونے پر استدلال۔
۱۱۳۔ الشیخ ملاّ علی القاریؒ سے ۔
۱۱۴۔ اور الامام الاستاذ المحدث گوندلوی ؒکی مزید تشریح سے۔
۱۱۵۔ صحابہ ؓ اتباع سنت میں عمل نبوی کے ہر پہلو کو ملحوظ رکھتے تھے۔
۱۱۶۔ عبداللہ بن عمر ؓ کا اداب دعاسے رفع الیدین کی بلندی کا بیان۔
۱۱۷۔ عدم ذکر عدم شئی کو مستلزم نہ ہونے کا اصول درست نہیں کیونکہ شرع محفوظ ہے۔
۱۱۸۔ بدعت تین وجہوں سے سنت کی مخالف ہوتی ہے (ا) سنت ترکیہ کی مخالفت سے ۲۔ بدعت کی مذمت کے ادلّہ کی مخالفت سے ۳۔نص مطلق کی مخالفت سے نص پر زیادتی کی وجہ سے۔
۱۲۰۔ مسکوت عنہ اور حدیث عفو سے دین میں احداث مردود ہے۔
۱۲۱۔ الشیخ عبدالحق اورد ھلوی ؒ سے سنت ترکیہ پر اصرار کرنے والا کے مبتدع ہونے کا فتوی۔
۱۲۲۔ کفارو مشرکین اور ملحدین سے مشہابہت کی ممانعت کے دلائل۔
عید میلاد اور ایصال ثواب کے نئے طریقے کفارو ہنود اور نصار یٰ کی مشابہت میں اختیار کیے گئے ہیں ۔
خیرات کی نئی شکلیں۔
۱۲۴۔ تیسرا پہلو= بدعت کی حقیقت ۔
۱۲۵۔ مولّفِ بدعت کی حقیقت کا دینی امر میں تبدیلی کا انوکھا معیار۔
۱۲۶۔ احداث بدعت کے رافع سنت ہونے کی انوکھی تو جیہ جو کبھی کسی عالم نے اختیار نہیں فرمائی۔
۱۲۷۔ آیت الیومِ أکملتُ لکم دینکم اَ لأ یۃ سے امام مالکؒ نے بدعت حسنہ کی تردیدفرمائی۔
۱۲۸۔ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃ'' اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَاب'' اَلِیْم'' ہسے تردید بدعت۔
علیؓ کا عیدہ گاہ میں قبل از نماز نوافل پڑھنے والے کو مخالف رسول کہنا اور حرام کا مرتکب ہونے کی وجہ سے مستوجب سزا قرار دینا۔ اور اسے حرام قرار دینا۔
۱۲۹۔ بدعت کا رافع سنت ہونے کا غلط مفہوم لے کر موصوف نے دھوکہ کھایا ہے یا دھوکہ دیا ہے۔
۱۳۰۔ حدیث غضیف بن حارث ؓ سے اس کی تردید۔
اہل بدعت کے نزدیک مخالف دین صرف وہ کا م ہے جس کی ممانعت وارد ہو وہ امور دینی اور دنیاوی میں فرق ملحوظ نہیں رکھتے ۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حجۃاللہ میں فرماتے ہیں۔جس کی تشریح و تو ضیح میں الامام المحدث گوندلویؒ رقمطراز ہیں۔
۱۳۲۔ الشیخ احمد سرہندی ا لمعروف بمجدد الف ثانیؒ کے نزدیک بدعت کی رافع سنت۔
۱۳۳۔ ورافع فرض ہونے کا معنی اور کہ وہ ہر بدعت شرعی حسنہ و سیئہ ہ کو مردود فرماتے ہیں۔
۱۳۴۔ ا لموافقات سے ابن عباس ؓ کا فرمان۔ بدعت و صفی کے رد میں۔
۱۳۵۔ بدعت کے رافع سنت ہونے میں الشیخ عبدالحق سےؒ صاحب رسالہ کا اختلاف۔
۱۳۶۔ احداث فی الدین کی پاداش میں اہل بدعت کی حوض کوثر سے محرومی۔
۱۳۷۔ اور رسول اللہﷺنے بدعت و احداث فی الدین کو تبدیل کرنے کا جرم فرمایا۔
رافع اختلاف کا اصول کتاب و سنت کا بنیادی اصول ہے۔
۱۳۸۔ بدعات کے ارتکاب کی مجالس میں شمولیت کا حکم۔
۱۳۹۔ مولّف رسالہ کی تدقیق سلف صالحین کے نقطہ نظر سے تحکم اور سینہ زوری ہے۔
۱۴۰۔ اذان سے پہلے اور بعد تعوذ اور مروجہ درودشریف جہر اور اصرار اور بدعت نو ایجادہی رہے گا خواہ ڈنکے کی چوٹ سے جزو نہ سمجھیںاوروہ دھڑلے سے عمل کریں۔
۱۴۱۔ مولّف انوار ساطعہ سے وضاحت کہ امر اباحت پر اصرار مکروہ تحریمی کا حکم رکھتا ہے۔
۱۴۲۔ معاذ ؓ کا فرمان کہ جو بات نہ کلام اللہ سے ہو اور نہ سنت رسول اللہ ٰﷺ سے ہو بدعت ضلالت ہے
۱۴۳۔ بلال ؓ کے سلام ا ستیذ ان سے مروجہ صلوۃ وسلام پر غلط استدلال۔
۱۴۴۔ بلالؓ کی نماز کیلئے اطلاع میں الصلوۃ یارسول للہ سے غلط استدلال۔
۱۴۵۔ ان روایات کے سنداً ضعیف ہونے کا بیان۔
۱۴۶۔ مولّف کا شا طرانہ تغافل ۔
۱۴۷۔ لطیفہ طریفہ یالطیف استنباط۔
۱۴۸۔ موذنین اور سامعین کے لیے جواب میں صلوۃ وسلام پڑھنے کی حقیقت وصورت۔
۱۴۹۔ دعا بعد نماز جنازہ پر گفتگو۔
۱۵۰۔ مارأ ہ ُالمسلمون حسناً سے غلط استدلال اور اس کی وضاحت۔
۱۵۱۔ اھداء ثواب کی شرعی حیثیت اور ایصال ثواب کی مجالس کے انعقاد پر مختصرنوٹ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
" تصدیر"
ماخوذاز (دوام حدیث) مولّف الاستاذ المحدث الحافظ محمدگوندلویؒ
بدعت کسے کہتے ہیں
بدعت ہر اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے مشروع نہ کیا ہو خواہ اس کام کا تعلق اعتقادات سے ہو یا عبادات سے یا عادات سے مگر عبادات و عادات میں علماء نے فرق کیا ہے۔ کہ عادات میں اصل یہ ہے کہ جس طرح انسان چاہے کرے۔ جب تک ممانعت وارد نہ ہو۔ اور عبادات میں اصل یہ ہے کہ جب تک ان کا ثبوت نہ ہو ان کا کرنا منع ہے۔ پس عبادات میں بدعت اس عبادت کو کہتے ہیں جو رسول اللہﷺ سے ثابت نہ ہو۔
اور عادات میں بدعت کا یہ مطلب ہے کہ اس میں شرعی پابندی لگائی جائے۔
جو عبادت بدعت ہو گی اس کی دو قسمیں ہیں۔
ایک بدعت اصلیہ دوسری بدعت وصفیہ۔
بدعت اصلیہ اس بدعت کو کہتے ہیں جس کا اصل شریعت میں ثابت نہ ہو۔
بدعت وصفیہ اس کہتے ہیں جس کا اصل تو ثابت ہو مگر اس کا وصف جس کو جزو قرار دیا گیا ہوثابت نہ ہو ۔ جیسے نماز معکوس یا بدون عذر غیر قبلہ کی طرف معلوم کرکے نماز پڑھنایا ایک ٹانگ پر کھٹرے ہو کر نماز ادا کرنا۔
ان میں بعض کا م معصیت بھی ہیں مگر بدعت ہونے کی وجہ سے ان میں معصیت اور بڑھ جاتی ہے۔
بدعت اصلیہ اور وصفیہ کی قسمیں
ان مذکورہ دونوں کی پھر دو دو قسمیں ہیں ۔ ایک حقیقیہ دوسری حکمیہ۔
بدعت حقیقی:۔ جس کو سنت یا واجب سمجھ کر کیا جائے۔
بدعت حکمی:۔ جس کو سنت یا واجب سمجھ کر تو نہ کیا جائے۔ مگر واجب و سنت کاسا معاملہ اس کے ساتھ کیا جائے۔ کہ اس کے کرنے پر اصرار ہو اور اس کے ترک میں حرج محسوس کیا جائے۔
عادت میں بدعت کی یہ صورت ہے کہ کسی خاص عادت مثلاً خاص لباس کو بدون دلیل شرعی کے واجب یا سنت خیال کیاجائے۔ یا مکروہ یا حرام سمجھاجائے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی کام کو نبوت کے منصب کی بنا پر ایجاد کرنا بدعت کا اِحداث ہے۔ اور وہ نیا کام بدعت ہے۔
ُؓ
عبادات میں پیغمبر کا منصب
عبادات میں پیغمبراپنے منصب نبوت ورسالت کی بنا پر دو کام کرتے ہیں۔
(۱) امو ر تعظیمیہ میں سے بعض کو عبادت کیلئے متعین کرتے ہیں۔
(۲) ان کے لیے کچھ پابندیاں بھی لگاتے ہیں ۔ مثلاً نماز کے لیے قیام،رکوع،سجود،قرأت،تکبیر تحریمہ وغیرہ ارکان کامعین کرنا پہلا کام ہے اور نماز کے لیے وضو،غسل،وقت، قبلہ روہوناستر عورت وغیرہ دوسرا کام ہے۔پس کوئی شخص کسی ایسے امرتعظیمی کو مقرر کرے جو ثابت نہ ہو یا ثابت شرعی امر کیلئے ایسی پابندی لگائے جو ثابت نہیں پس وہ کام بدعت ہو گا۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عادات میں پیغمبر کا منصب


عادات میں پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ اس میں کوئی حکم لگائیں۔ مثلاً یہ کہیں کہ یہ کام واجب ہے یا مستحب ہے ،مکروہ ہے ،حرام ہے یا اس کو اسی طرح ہی کرنا چاہیے۔ پس کسی کھانے پینے،پہننے کی چیز کوبدون دلیل واجب،مستحب،حرام،مکروہ کہنایا کسی خاص صورت میںہی اس کو جائز وغیرہ کہنا۔ حالانکہ اس پر کوئی دلیل شرعی نہ ہو۔ ایسی صورت میں وہ کام بدعت ہوگا۔ جب شرعت نے بدعت کو گمراہی کہہ دیااور کرنے والے کو گمراہ فرمایا تو اب شریعت میں نئے کا م کی گنجائش کب ہو سکتی ہے۔خواہ وہ کام اعتقادات سے ہو یا عبادات ، یا معاملات سے یا اخلاق یامعاشرت یاسیاسیات وغیرہ سے ۔
پس بدعت کی ممانعت سے دین ردوبدل سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ نہ اس کی زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی جیسے فرض نماز یں پانچ ہیں نہ چھ ہو سکتی ہیں نہ چار۔اسی طرح فرض روزے ماہ رمضان کے نہ ایک ماہ سے زائد ہو سکتے ہیں نہ کم۔عیدیں دو ہیں تین نہیں ہو سکتیں نہ ایک ہو سکتی ہے۔ جمعہ بروز جمعہ ہی رہے گا۔ بدعت کی بحث میں مناسب معلوم ہوتاہے کہ دین اور عبادت کی حقیقت بھی کچھ بیان کر دی جائے کیونکہ ان کے سمجھنے سے بدعت کا مفہوم زیادہ واضح ہو جائے گا۔
نیز اکثر لوگ دین اور عبادت کی حقیقت سے غافل ہیں۔ بعض ہر امر کودین اور عبادت کہنے لگتے ہیں اور بعض عادی امور کو بالکل دین سے خارج کر دیتے ہیں۔ اس لیے بھی یہ بحث ضروری ہے۔
دین اور عبادت کسے کہتے ہیں
دین ہر اس چیز کا نام ہے جس کو انبیاء عَلَیھِمُ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر فرمایاہے اور جس چیز میں رائے کو دخل ہو اس کو دنیا کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے۔
اذا امرتُکُم بِشَئیٍ مِن دِینِکُم فَخُذُ وا بہٖ واذاامرتُکُم بِشَئیٍ مِن رأی فانماانا بَشَرٌ(مسلم ج۲ ص۲۶۴)
کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:۔ جب میں تم کو دین کے بارے میں حکم کروں۔تو اس پر عمل کرواور جب میں اپنی رائے سے حکم کروں تو میں ایک بشر ہی ہوں۔
دوسری روایت میں ہے۔ انتم اعلم بامورِ دُنیا کُمْ تم دنیا کے کام مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے
۱۔ دین اور دنیا دو چیزیںہیں۔
۲۔ انبیاء عَلَیھِمُ السَّلَام دین بتانے کیلئے آتے ہیں ۔
۳۔ دین رائے سے نہیں بنایا جاتا۔
پس جس میں رائے ہو گی وہ دنیا ہو گی اور قرآن مجید سے بھی اس مضمون پر استدلال ہو چکاہے۔
عبادت کے کام تو ہر طرح سے دین ہی دین ہیں مگر عبادت کے علاوہ معاملات کھانے پینے پہننے مکان نکاح اور سیاسی امور بعض وجہ سے دین اور بعض وجہ سے دنیا کہلاتے ہیں اور ان امور مذکورہ میں کسی امر کو واجب مستحب یا حرام ومکروہ کہنا یا ان کی صحت کیلئے کسی امر کو شرط یا مانع یا سبب قرار دینا یہ ان کا دینی پہلو ہے۔ اس وجہ سے یہ امور دینی کہلاتے ہیں۔ اور ان امور مذکورہ میں عقلی طور پر بحث کرنااور عقلی حکم لگاناکہ یہ کھانا صحت کیلئے مفید ہے یا مضریا یہ لباس گرمی کیلئے اچھا ہے اور یہ سردی کیلئے موزوں ہے یہ کھانا اس طرح تیار ہوتاہے یہ لبا س اس طرح بنتا ہے۔ ان صفات والی عورت کو رفیقہ حیات بناناخانہ داری کیلئے مناسب ہے۔ فلاں جگہ دوکان زیادہ موزوں ہے اِن کو دنیا بنا دیتاہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عبادت اس تعظیم کا نا م ہے
جو معبود میں غیبی قوت کی بنا پرمشکل کشائی یا حاجت روائی کا تصورکرکے یا اُس میں خدائی صفت سمجھ کربجا لائی جائے اگر کوئی کام تعظیم نہ ہو تو عبادت نہیں کہلاتا جیسے کھانا پینا پہننا،کاشتکاری، مزدوری،تجارت،ملازمت اگرتعظیم ہو۔ مگر اس میں مذکورہ بالاتصور نہ ہو تو اس کو بھی عبادت نہیں کہتے۔ جیسے استاد امیر،والدین،بڑے آدمی کی تعظیم، جس میں خیال مذکورہ نہ ہو۔
پس یہ اختلاف کہ دین صرف عبادت کا نام ہے یا عام ہے نزاع لفظی کی حیثیت رکھتاہے کیونکہ جو لوگ غیر عبادت کو دین میں داخل نہیں کرتے وہ ان کو دوسری حیثیت سے لیتے ہیں ۔ جن کا عقل و رائے سے تعلق ہے۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین عام ہے عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں کو حاوی ہے۔ وہ لوگ غیر عبادت کو پہلی حیثیت سے لیتے ہیں۔ جس کا شریعت سے تعلق ہے۔
اس طرح یہ اختلاف کہ بدعت کا تعلق صرف عبادات سے ہے یا عبادات کے علاوہ دوسرے امور سے بھی ہے۔یہ بھی نزاع لفظی ہی ہے کیونکہ جو لوگ کہتے ہیں کہ بدعت کا تعلق غیر عبادت سے نہیں۔ وہ ان امور کو اس حیثیت سے لیتے ہیں۔جس سے وہ دین اور عبادت نہیں بنتے اور اس حیثیت سے بدعت کا ان سے کوئی تعلق نہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بدعت کا تعلق سب امور سے ہے۔ وہ غیر تعظیمی امور کو اس حیثیت سے لیتے ہیں۔جس سے وہ دین اور عبادت بن جاتے ہیں۔پس ان کے اس قول کہ ( بدعت عبادت اور غیر عبادت سب میں پائی جاتی ہے)میں عبادت سے مراد وہ امور ہیں جو ہر حیثیت سے عبادت ہیں۔ اور غیر عبادت سے وہ امور ہیں جو ہر طرح سے عبادت نہیں ۔بلکہ ایک وجہ سے عبادت اور دین ہیں اور ایک وجہ سے امور دنیاہیں۔
رسول اللہﷺ ہر خطبہ میں بدعت کی مذمت فرماتے تھے۔
کُلُّ مُحدَثۃٍ بِدعۃٌ و کُلُّ بِدعۃٍ ضَلا لۃ ٌ (الحدیث مشکوٰۃ)
دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔الخ
ایک حدیث مبارکہ میں ہے
مَن اَ حدَثَ فی اَمرنا ھذا ما لَیْسَ منہُ فھوردٌّ(متفق علیہ)
جو شخص ہمارے کام (دین) میں نئی چیز نکالے جو اس سے نہیں وہ مردودہے۔
بدعت کی مذمت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔جن پر مفصل بحث آگے آرہی ہے۔ اِنْ شَاء اللہ
اور قرآن مجید میں بدعت کی مذمت کی متعدد آیات کابیان آگے دیا گیا ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
"عبادت اور عادت میں فرق"
الشیخ الاستاذ محدث گوندلوی ؒ اسلام کی کتاب میں فرماتے ہیں۔
عبادت میں اصل یہ ہے کہ اپنی طرف سے کوئی عبادت یا اس کا کوئی طریقہ ایجاد کر نا منع ہے اور اس نو ایجاد طریقے کو بدعت کہتے ہیں۔
اور عادت میں اصل یہ ہے کہ ان کو عقلی نفع یانقصان کی بنا پر ایجاد کر نا جائزہے۔ مگر یہ شرط ہے کہ شریعت میں اس کی ممانعت نہ ہو۔
عبادت اورا طاعت میں فرق
اطاعت حکم کی تعمیل کا نام ہے خواہ شرعی ہو یا عقلی اور عبادت خاص تعظیم کا نام ہے،حکم شرعی کی مستقل تعمیل تو عبادت ہے مگر حکم عقلی کی تعمیل اگر غیبی طاقت کا خیال کرتے ہوئے نہ ہو تو عبادت نہیں۔
ہر طاعت عبادت نہیں۔پیغمبر اور ا میرکے حکم کی اطاعت اللہ تعا لیٰ کی عبادت ہے بشرطیکہ اللہ تعا لیٰ کا حکم سمجھ کر کی جاوے۔
نیز اسلام کی دوسری کتاب صفحہ ۷۔۸ دیکھی جاسکتی ہے۔
فائدہ:۔بدعت کے موضوع پر الاستاذالمحدث گوندلوی ؒ نے تقریباً۱۴۱ صفحات کی نہایت جامع کتاب النبراس فی الفرق بین البدعۃ و القیاس لکھی ہے۔ اس میں سلف صالحین أئمہ ومحدثین سے بدعت کی متعدد تعریفیںذکرکی ہیں۔جن میںسے گیارہ کو الأستاذ حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ نے اپنی مایہ نازتالیف ارشادالقاری اِ لیٰ نقد فیض البار ی۔ ج۲۔ ص۳۲۹،۳۳۰ میں یکجا بیان فرمایاہے۔
آخر میں شاہ محمد اسماعیل ؒالشھید بن الشاہ عبدالغنیؒ کی تعریف عربی میں تحریر کی ہے یہاں اس کا ترجمہ کیا جاتاہے۔
الشاہ محمد اسماعیل ؒالشہید فرماتے ہیں
بدعت دین میں ایسی زیادتی اور نقصان جس کی نظیر و مثال رسول اللہﷺکے عہد مبارک میں نہ ہو اور وہ یا اس کی مثال خیرالقرون مشھودلھابالخیر تین زمانوں میں بلانکیر رائج نہ ہو اور اس کا موجد اپنے لیے آخرت میں مفید ہونے کے اعتقاد سے اس بدعت کو نکالے یا آخرت میں اپنے لیے نقصان دہ ہونے کے ا عتقاد سے اس سے اجتناب کرے اور اس سے دین کے رکن ہونے یا شرط ولزوم کے طور پر عبادت کا معاملہ کرے خواہ یہ زیادت ونقص کسی متعین عمل میں ہو یا اس کی تحدید میں یا اس کے مو قعہ میں۔
الاستاذ المحدث الحافظ محمدگوندلویؒ فرماتے ہیں
اصل تعریف بدعت کی یہی ہے کہ ایسا قول وعمل جسے بدون اذن شرع کے اختراء و ایجاد کیاجائے وہ بدعت ہے۔ چنانچہ بدعت کی تعریفات بشمول ذکر عہد رسالت مأبﷺاور عہد مبارک صحابہ ؓ اور قرون ثلاثہ مشھودلھا با لخیر کے اس کی تفصیلات ہیں۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تالیف کا سبب
بدعت اور اس کی حقیقت کے نام سے بائیس ۲۲ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ مولّفہ مناظر اسلام مولانا محمد سعید احمد اسعددیکھنے کو ملا جو پاکستان سنی اتحاد کی طرف سے شائع ہو ا ہے جس کا مرکزی دفترجامعہ أمینیہ رضویہ شیخ کالونی فیصل آباد ہے۔
مو صوف وجہ تالیف یوں بیان فرماتے ہیں۔
آجکل اہل سنت و جماعت(بریلوی)کے معمولات کو بعض حضرات دھڑلے سے بدعت قرار دے رہے ہیں۔سرکار دوعالمﷺکی ولادت باسعادت کی خوشی میں اگر کوئی اہتمام کیا جاتاہے تو یار لوگ فتوی صادر کر دیتے ہیں"بدعت"
اذان سے پہلے یا بعد اگر برکت حاصل کرنے کیلئے عقیدت و محبت سے درودشریف پڑھا جائے ۔تو بدعت کا فتوی تیار۔ وقِس علیٰ ھذا۔
چنانچہ یہی سمجھاگیا کہ بدعت کا صحیح مفہوم آپ حضرات کی عدالت میں پیش کر دیا جائے تاکہ راہ حق واضح ہو جائے۔
رسالہ بدعت اور اس کی حقیقت کے جواب میں ان جملہ تعریفات کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور حسب موقعہ ان کو ذکر کر کے مولّف رسالہ کی تعریف وروش سے تقابل کرکے راہ حق واضح کیا گیا ہے۔
وباللہ التوفیق
چنانچہ بدعت کے صحیح مفہوم کے ساتھ راہ حق کی وضاحت کیلئے مؤلف(سعید احمد اسعد)نے تین پہلو پیش کیے ہیں۔
پہلا پہلو۔بدعت کا شرعی معنی ۔نئی چیز کرنا غلط ہے
دوسرا پہلو۔ہر چیز اصل میں مباح ہے
تیسرا پہلو۔ بدعت کی حقیقت
ہم نے جواباً اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے اور موصوف کی ادلّہ کو پیش کرکے جواب تحریر کیا ہے اس لیے بعد ازاں اگر کوئی ہماری پیش کردہ ادلّہ کاجواب دینا چاہے تو مِن وعن پیش کرکے جواب دے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے رسول محمدﷺ کی تعلیمات پرہی پوراپورا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔​
 
Top