- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
مؤرخ اہلحدیث مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی مناظرانہ خصوصیات ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
مناظرے میں حریف کو مخاطب کر کے مناسب مواقع پر اردو یا فارسی کے شعر خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے ۔ مولانا غلام رسول مہر کو ان کے بعض مناظروں میں شامل ہونے کا موقع ملاتھا انھوں نے ایک مرتبہ بتایا کہ انھیں بہت سے اساتذہ کے اشعار یاد تھے اورجب شعر پڑہتے تھے تو ایسے معلوم ہوتا کہ شاعر نے اسی موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا ۔ ۔ ۔ مہرصاحب نے بتایا کہ وہ غالب کا شعر پڑہتے تو فرماتے چچا غالب نے کیا خوب فرمایا ہے ۔ کسی معاملے میں داغ کا شعر پڑھنا مقصود ہوتا تو کہتے اس سلسلے میں داغ کا شعر سنیے ۔ ہرشخص ان کے شعر پڑہنے کے انداز سے محظوظ ہوتا ۔ ۔ ۔
مولانا حنیف ندوی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ مولانا عبد العزیز ( گوجرانوالہ کے مشہور دیوبندی عالم ) صاحب کا فاتحہ خلف الإمام کےمسئلے پر گوجرانوالہ میں مولانا ثناء اللہ صاحب سے مناظرہ ہوا ۔ شرط یہ طے پائی کہ مولانا ثناء اللہ صاحب مناظرے میں عربی ، فارسی یا اردو کا کوئی شعر نہیں پڑھیں گے ۔ یہ شرط ماننا اور اس پر قائم رہنا مولانا کے لیے بہت مشکل تھا ۔ گوجرانوالہ شہر اور اس کے قرب وجوار سے بے شمار لوگ مناظرہ سننے کے لیے آئےتھے ۔ مولانا عبد العزیز جب کسی بات کےجواب میں کچھ نرم پڑتے تو مولانا ثناء اللہ صاحب فرماتے :
’’ مولانا میری بات کا جوا ب دیجیے ورنہ میں ابھی شعر پڑھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں ابھی شعر پڑھتا ہوں ‘‘ وہ اس انداز سے کہتے کہ لوگ بے اختیار ہنس پڑتے اور اس کا اثر شعر پڑھنے سےبھی زیادہ ہوتا ۔
( بزم ارجمنداں ص ١٦٤ )
مناظرے میں حریف کو مخاطب کر کے مناسب مواقع پر اردو یا فارسی کے شعر خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے ۔ مولانا غلام رسول مہر کو ان کے بعض مناظروں میں شامل ہونے کا موقع ملاتھا انھوں نے ایک مرتبہ بتایا کہ انھیں بہت سے اساتذہ کے اشعار یاد تھے اورجب شعر پڑہتے تھے تو ایسے معلوم ہوتا کہ شاعر نے اسی موقع کے لیے یہ شعر کہا تھا ۔ ۔ ۔ مہرصاحب نے بتایا کہ وہ غالب کا شعر پڑہتے تو فرماتے چچا غالب نے کیا خوب فرمایا ہے ۔ کسی معاملے میں داغ کا شعر پڑھنا مقصود ہوتا تو کہتے اس سلسلے میں داغ کا شعر سنیے ۔ ہرشخص ان کے شعر پڑہنے کے انداز سے محظوظ ہوتا ۔ ۔ ۔
مولانا حنیف ندوی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ مولانا عبد العزیز ( گوجرانوالہ کے مشہور دیوبندی عالم ) صاحب کا فاتحہ خلف الإمام کےمسئلے پر گوجرانوالہ میں مولانا ثناء اللہ صاحب سے مناظرہ ہوا ۔ شرط یہ طے پائی کہ مولانا ثناء اللہ صاحب مناظرے میں عربی ، فارسی یا اردو کا کوئی شعر نہیں پڑھیں گے ۔ یہ شرط ماننا اور اس پر قائم رہنا مولانا کے لیے بہت مشکل تھا ۔ گوجرانوالہ شہر اور اس کے قرب وجوار سے بے شمار لوگ مناظرہ سننے کے لیے آئےتھے ۔ مولانا عبد العزیز جب کسی بات کےجواب میں کچھ نرم پڑتے تو مولانا ثناء اللہ صاحب فرماتے :
’’ مولانا میری بات کا جوا ب دیجیے ورنہ میں ابھی شعر پڑھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں ابھی شعر پڑھتا ہوں ‘‘ وہ اس انداز سے کہتے کہ لوگ بے اختیار ہنس پڑتے اور اس کا اثر شعر پڑھنے سےبھی زیادہ ہوتا ۔
( بزم ارجمنداں ص ١٦٤ )