توسُّل کا جومعنی میں نے گذشتہ پوسٹ میں بیان کیا ہے لغت میں وہی مشہور ومعروف ہے اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ہے ‘اور سلف صالح اور ائمہ تفسیر نے بھی دونوں آیات کریمہ میں ’’وسیلہ ‘‘کی تعریف یہی کی ہے وہ دونوں آیتیں یہ ہیں ۔
اس تفسیر میں اس بات کی صراحت ہے کہ وسیلہ سے مراد وہ عمل ہے جس سے اﷲکا تقرب حاصل کیاجائے ۔اﷲنے اسی لئے لفظ ’’یَبْتَغُوْنَ‘‘فرمایا ‘یعنی ایسے اعمال صالحہ تلاش کرتے ہیں جن سے وہ اﷲکا تقرب حاصل کرسکیں ۔نیز یہ آیت اشارہ کررہی ہے ۔۔۔۔اس عجیب وغریب معاملے کی طرف جو ہر فکر سلیم کے مخالف ہے کہ کچھ لوگ اپنی عبادت اور دعا کے ذریعہ اﷲکے کچھ بندوں کی طرف متوجہ ہوں ان سے خوف کھائیں اور امید رکھیں ‘حالانکہ یہ عبادت گذار بندے جن کو معبود بنادیا گیا تھا انہوں نے اپنے اِسلام کا اعلان کردیا تھا اور اپنی عبودیت کا اﷲ سے اقرار کیا اور ان اعمال صالحہ کے ذریعہ جن کو اﷲپسندکرتا ہے ‘اﷲکا تقرب حاصل کرنے کیلئے آپس میں مسابقت کرنے لگے اور وہ رحمت اِلٰہی کے حریص ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
خود اﷲ اس آیت میں ان جہلاء کی عقلوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو جنو ں کے پر ستار تھے اور ان کی پرستش پر ڈٹے ہوئے تھے جب کہ یہ جن خود مخلوق ہیں اور اﷲ کے عبادت گذار ہیں اور ان انسانوں کی طرح کمزور ضعیف ہیں خود اپنے لئے نفع وضرر کے مالک نہیں ہیں ۔اﷲتعالیٰ اس پر تعجب کا اظہار فرماتے ہیں کہ یہ آدم زاد اﷲواحد کی بندگی کیوں نہیں کرتے جو تنہا نفع وضرر کامالک ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہرچیزکی تقدیر ہے اور وہی تمام اشیاء کا محافظ ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
(المائدہ:۳۵)یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o
ترجمہ: ’’اے ایمان والوں !اﷲسے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘
پہلی آیت کی تفسیر میں امام المفسرین الحافظ ابن جریر رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا:اُولٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمْ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَ ابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا o (الاسراء : ۵۷)
ترجمہ: ’’یہی وہ لوگ ہیں جو پکارتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون قریب ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے ۔‘‘
اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اﷲعلیہ نے اس آیت میں وسیلہ کا معنی ’’قربت ‘‘کیا ہے اور یہی معنی مجاہد‘ابووائل‘حسن ‘عبداﷲبن کثیر ‘سدی اور ابن زید وغیرہ سے بھی نقل کیا ہے ۔اور حافظ ابن کثیر نے عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ’’وسیلہ‘‘کا معنی ’’قربت ‘‘ہے ۔اور قتادہ کابھی قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں وسیلہ کا مطلب ہے کہ ’’اﷲکی اطاعت اور اس کے پسندیدہ عمل کے ذریعہ اﷲکا قرب حاصل کرو ۔’’علامہ ابن کثیر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ وسیلہ کا جو مفہوم ان ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ‘اور وسیلہ وہی ہے جس کے ذریعہ حصول مقصود تک پہنچا جائے۔ (تفسیر ابن کثیر :۲‘۵۲‘۵۳)وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الوَسِیْلَۃ یَعْنِی اُطْلِبُوا الْقُرْبَۃَ اِلَیْہِ بِالْعَمَلِ بِمَا یَرْضَاہٗ o
ترجمہ: ’’اﷲکی طرف عمل کے ذریعہ قربت حاصل کرو جس کووہ پسند کرتا ہے۔‘‘
اس تفسیر میں اس بات کی صراحت ہے کہ وسیلہ سے مراد وہ عمل ہے جس سے اﷲکا تقرب حاصل کیاجائے ۔اﷲنے اسی لئے لفظ ’’یَبْتَغُوْنَ‘‘فرمایا ‘یعنی ایسے اعمال صالحہ تلاش کرتے ہیں جن سے وہ اﷲکا تقرب حاصل کرسکیں ۔نیز یہ آیت اشارہ کررہی ہے ۔۔۔۔اس عجیب وغریب معاملے کی طرف جو ہر فکر سلیم کے مخالف ہے کہ کچھ لوگ اپنی عبادت اور دعا کے ذریعہ اﷲکے کچھ بندوں کی طرف متوجہ ہوں ان سے خوف کھائیں اور امید رکھیں ‘حالانکہ یہ عبادت گذار بندے جن کو معبود بنادیا گیا تھا انہوں نے اپنے اِسلام کا اعلان کردیا تھا اور اپنی عبودیت کا اﷲ سے اقرار کیا اور ان اعمال صالحہ کے ذریعہ جن کو اﷲپسندکرتا ہے ‘اﷲکا تقرب حاصل کرنے کیلئے آپس میں مسابقت کرنے لگے اور وہ رحمت اِلٰہی کے حریص ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
خود اﷲ اس آیت میں ان جہلاء کی عقلوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو جنو ں کے پر ستار تھے اور ان کی پرستش پر ڈٹے ہوئے تھے جب کہ یہ جن خود مخلوق ہیں اور اﷲ کے عبادت گذار ہیں اور ان انسانوں کی طرح کمزور ضعیف ہیں خود اپنے لئے نفع وضرر کے مالک نہیں ہیں ۔اﷲتعالیٰ اس پر تعجب کا اظہار فرماتے ہیں کہ یہ آدم زاد اﷲواحد کی بندگی کیوں نہیں کرتے جو تنہا نفع وضرر کامالک ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہرچیزکی تقدیر ہے اور وہی تمام اشیاء کا محافظ ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب