• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
’علمائے سوء‘ کی سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک اور کاوش
جیسا کہ واضح ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا شرک ہے، اگر قرآن وسنت کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نہ کسی نبی ورسول علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے کبھی کسی کا وسیلہ ڈالا (قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ میں موجود انبیاء کرام﷩ کی تمام دعائیں اس پر شاہد ہیں) اور نہ کہ صحابہ کرام نے کبھی کسی فوت شدہ (خواہ وہ ان کے اور ہمارے محبوب ترین نبیﷺ ہی کیوں نہ ہوں) کا وسیلہ ڈالا، بلکہ وہ تو حکم الٰہی کے مطابق صرف اللہ کی صفات یا اپنے نیک اعمال کا وسیلہ ڈالتے تھے۔ ہاں البتہ ان سے یہ ضرور ثابت ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ضرورت کے وقت آکر ان سے دُعا کراتے اور خود بھی دُعا کرتے تو اللہ تعالیٰ یہ دُعا فوری قبول فرما لیا کرتے تھے، (جیسے ایک بدوی صحابی کا معروف واقعہ ہے کہ انہوں نے جمعہ کے وقت آکر نبی کریمﷺ سے بارش کی دُعا کی درخواست کی تھی اور نبی کریمﷺ نے دُعا فرمائی تھی اور فوری بارش ہوگئی تھی، اور مکمل ہفتہ ہوتی رہی تھی اور پھر اگلے ہفتے اسی صحابی نے بارش رُکنے کی دُعا کی درخواست کی تھی ... صحیح البخاری 933) اور اس کا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم بھی دیا ہے۔ فرمان باری ہے:
﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴾ ... سورة النساء: 64
کہ ’’اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔‘‘​
صحیحین میں ہی سیدنا انس سے مروی ہے کہ سیدنا عمر کے دورِ خلافت میں جب قحط پڑ جاتا اور بارش نہ ہوتی تو عمر بن خطاب بجائے نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر جاکر یا دور ہی سے ان کا وسیلہ ڈالنے کے عمِ رسول سیدنا عباس بن عبد المطلب کو بلا کر ان سے بارش کی دُعا کی درخواست کرتے اور خود بھی دُعا کرتے «اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا » قال: فيسقون ... صحيح البخاري: 1010کہ ’’اے اللہ! ہم آپ سے (نبی کریمﷺ کی زندگی میں) ان کے وسیلے سے بارش کی دُعا مانگا کرتے تو آپ بارش برسا دیا کرتے تھے، تو اب ہم آپ سے آپ کے نبی کے چچا کے وسیلے سے دُعا کرتے ہیں کہ آپ ہم پر بارش برسا دیں، سیدنا انس فرماتے ہیں کہ پھر بارش ہو جایا کرتی تھی۔‘‘
اور یہ تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوتا، جو گویا تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔
لیکن افسوس در افسوس! حبِ رسول کے بلند بانگ دعوے کرنے والے کچھ حضرات قرآن کریم اور نبی کریمﷺ کے صریح احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ضعیف احادیث کو توڑ موڑ کر اپنے نام نہاد وسیلے کے جواز کیلئے پیش کرنے کی سعی نا مشکور سر انجام دیتے ہیں جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فرمان الٰہی ﴿ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُم وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴾ ... سورة الأنعام: 121 کہ ’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔‘‘ کے عین مصداق ہے۔
ان کی یہ دلیل اور اس کا جواب آگے پوسٹ کیا جاتا ہے:
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مشہور صوفی عالم علی جفری یہاں امام ابن حجر﷫ کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فتح الباری کی جلد دوم، کتاب الاستسقاء میں ذکر کیا ہے ... اور اسی طرح اس حدیث کو ائمہ بیہقی، حاکم اور ابن خزیمۃ﷭ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے ... کہ
أن بلال بن الحارث المزني ، وهو من أصحاب المصطفى، جاء إلى قبر رسول الله ، في سنة مقحطة في عهد عمر ، ووقف على القبر الشريف ، وقال يا رسول الله! استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه
کہ ’’بلال بن حارث مزنی جو صحابہ کرام میں سے ہیں زمانہ خلافتِ عمر میں قحط کے موقع پر نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اپنی امت کیلئے بارش کی دُعا کیجئے کیونکہ لوگ تو قحط کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں، تو انہیں رات خواب میں نبی کریمﷺ آئے اور کہا کہ عمر کے پاس جاؤ، انہیں میرا سلام کہو اور انہیں خبر دو کہ عنقریب بارش ہوگی اور انہیں کہو کہ ذمہ داری کا ثبوت دو، تو انہوں نے سیدنا عمر کے پاس آکر سارا ماجرہ سنایا تو وہ رو پڑے اور کہا کہ اے اللہ! میں تو کوئی کوتاہی نہیں کرتا الا یہ کہ میں عاجز آجاؤں۔‘‘
نمبر ایک
یہ روایت مستدرک حاکم اور صحیح ابن خزیمہ بلکہ امام حاکم اور ابن خزیمہ﷭ کی کسی کتاب میں موجود نہیں، اور نہ ہی کسی نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے اسے نقل کیا ہے۔
نمبر دو
فتح الباری میں یہ الفاظ نہیں جو اس صوفی علی جفری نے نقل کیے ہیں، بلکہ وہاں موجود اصل الفاظ یہ ہیں:
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار ، وكان خازنَ عمر ، قال: أصاب الناسَ قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبيﷺ، فقال: يا رسول الله استسق لامتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: ائت عمر .. الحديث ، وقد روى سيف ، في الفتوح ، أن الذي رأى المنام المذكور ، هو بلال بن الحارث المزني ، أحد الصحابة.
کہ ’’امام ابن حجر﷫ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ﷫ نے ابو صالح السمان کی صحیح روایت سے مالک الدار سے روایت کیا ہے جو (یعنی مالک الدار) سیدنا عمر﷜ کے خازن تھے، کہ انہوں نے کہا کہ: سیدنا عمر﷜ کے زمانے میں قحط پڑ گیا تو ایک شخص نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اپنی امت کیلئے بارش کی دُعا کیجئے کہ وہ تو ہلاک ہوگئے، تو اس آدمی سے پاس (نبی کریمﷺ) خواب میں تشریف لائے، اور کہا کہ عمر کے پاس جاؤ ... الیٰ آخر الحدیث! (ابن حجر﷫ فرماتے ہیں کہ) سیف نے ’فتوح‘ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ بلال بن حارث المزنی ایک صحابی تھے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث ابن مصنف ابن ابی شیبہ: 31993 میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ... وكان خازنَ عمر على الطعام ... قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبيﷺ، فقال: يا رسول الله استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه
جبکہ امام بیہقی﷫ نے دلائل النبوۃ 7؍47 میں أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار کے طریق سے روایت کیا ہے۔
اس سند میں کئی خرابیاں ہیں:
1.
اعمش معروف مدلّس ہیں، اور ان کا ابو صالح سے عنعنہ ہے، اور کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں، گویا یہ روایت منقطع ہے، جیسا کہ اصولِ حدیث میں معروف ہے۔
2.
حافظ ابن حجر﷫ نے اس روایت کے متعلّق کہا ہے (روى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) گویا انہوں نے اس روایت کی سند کو ابو صالح السمان تک صحیح قرار دیا ہے، کامل سند کو صحیح قرار نہیں دیا، کیونکہ انہوں نے اپنی عادت کے مطابق مطلقا یہ نہیں کہا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور ایسا علماء اس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے بعض راویوں کے حالات واضح نہ ہوں، خصوصاً حافظ ابن حجر﷫ جو تراجم الرواۃ کے امام ہیں (جنہوں نے تراجم الرجال پر کئی عظیم الشان کتب تحریر کی ہیں)، وہ مالک الدار سے واقف نہیں، انہوں نے مالک الدار کے حالات اپنی کسی کتاب میں بیان نہیں کیے اور اسی طرح امام بخاری﷫ نے اپنی کتاب ’تاریخ‘ میں اور امام ابن ابی حاتم﷫ نے ’جرح وتعدیل‘ میں کسی امام جرح وتعدیل سے مالک الدار کی توثیق نقل نہیں کی حالانکہ یہ دونوں ائمہ کرام اکثر راویوں کے حالات سے واقف ہیں۔ حافظ منذری﷫ ... جو متاخرین میں سے ہیں ... اپنی کتاب ’ترغیب وترہیب‘ 2 ؍ 29 میں مالک الدار کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں انہیں نہیں جانتا۔ (خلاصہ یہ ہے کہ مالک الدار مجہول راوی ہے۔)
3.
اگر بالفرض ’مالک الدار‘ کو ثقہ ثبت فرض کر لیا جائے تب بھی مالک الدار اسے ایک (مجہول) شخص سے روایت کرتے ہیں جو نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا، اور علم اصول حدیث کے مطابق اس طرح بھی یہ حدیث منقطع بنتی ہے، کیونکہ اس میں قبر پر آنے والا شخص مجہول ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ قبر پر آنے والا شخص بلال بن حارث صحابی تھے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس کی تصریح صرف سیف بن عمر سے مروی ہے جو بذاتِ خود غیر ثقہ راوی ہے، گویا اس روایت پر موجود دیگر کئی جرحوں میں سے ایک جرح سیف بن عمر کے حوالے سے بھی ہے۔ اور اگر علمائے جرح وتعدیل کے اقوال سیف بن عمر کے متعلّق جان لیے جائیں تو یہ ایک جرح ہی اس روایت کو ردّ کرنے کیلئے کافی ہے، جو حسبِ ذیل ہیں:
قال الحافظ الذهبي في ميزان الاعتدال٣؍٣٥٣ في ترجمة سيف بن عمر: إن يحيى بن معين ، قال فيه: فِلسٌ خيرٌ منه ، وقال أبو داود: ليس بشيء ، وقال أبو حاتم: متروك ، وقال ابن حبان: اتهم بالزندقة ، وقال ابن عدي: عامة حديثه منكر ، وقال مكحول البيروتي: كان سيف يضع الحديث ، وقد اتهم بالزندقة.
وقال ابن الجوزي في كتابه ، الضعفاء والمتروكين ٢؍٣٥ رقم: ١٥٩٤: سيف بن عمر الضبي، قال يحيى بن معين: ضعيف الحديث ، فِلسٌ خير منه ، وقال أبو حاتم الرازي: متروك الحديث ، وقال النسائي والدارقطني: ضعيف ، وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الأثبات ، وقال إنه يضع الحديث. اھ. ومن أراد مراجعة سند سيف بن عمر ، فليراجع ، تاريخ الطبري ٢؍٥٠٨ والبداية والنهاية٧ ؍ ١٠٤

امام ابن حجر کی تصحیح پر امام البانی﷫ اور شیخ ابن باز﷫ کا تعاقب
امام البانی﷫ نے ’توسل‘ ص132 میں کہا ہے:
لا حجة فيها ، لأن مدارها على رجل لم يسمَّ فهو مجهول أيضا ، وتسميته بلالا في رواية سيف لا يساوي شيئا ، لأن سيفا هذا هو ابن عمر التميمي ، متفق على ضعفه عند المحدثين بل قال ابن حبان فيه : يروي الموضوعات عن الأثبات وقالوا : إنه كان يضع الحديث ، فمن كان هذا شأنه لا تُقبل روايته ولا كرامة لاسيما عند المخالفة .ا.هـ.
کہ ’’اس روایت سے حجت نہیں لی جا سکتی، کیونکہ اس کا دار ومدار ایک ایسے آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور وہ مجہول بھی ہے، اور ’سیف‘ کی روایت میں اس کا نام بلال ہونے کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ یہ سیف بن عمر تمیمی ہے جس کے باتفاق المحدثین ضعیف راوی ہے، بلکہ ابن حبان نے تو اس متعلّق کہا ہے کہ ’’یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، اور محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔‘‘ ایسے شخص کی تو عام روایت ہی قبول نہیں، کجا یہ ہے کہ صحیح حدیثوں کے بالمقابل اس کی روایت قبول کی جائے۔‘‘
شیخ ابن باز﷫ نے فتح الباری پر تعلیق 2؍575 میں حافظ ابن حجر﷫ کے اس کلام پر تعاقب کرتے ہوئے فرمایا:
هذا الأثر على فرض صحته كما قال الشارح ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن عمل الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم أعلم الناس بالشرع ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولا غيرها بل عدل عمر عنه لما وقع الجدب إلى الاستسقاء بالعباس ولم يُنكر ذلك عليه أحد من الصحابة فعُلم أن ذلك هو الحق وأن ما فعله هذا الرجل منكر ووسيلة إلى الشرك بل قد جعله بعض أهل العلم من أنواع الشرك .
وأما تسمية السائل في رواية سيف المذكور بلال بن الحارث ففي صحة ذلك نظر ، ولم يذكر الشارح سند سيف ، وعلى تقدير صحته عنه لا حجة فيه ، لأن عمل كبار الصحابة يخالفه وهم أعلم بالرسول وشريعته من غيرهم والله أعلم .ا.هـ.

کہ اس روایت کو ابن حجر کے کہنے کے مطابق اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس میں نبی کریمﷺ سے وفات کے بعد بارش کی دُعا کا تقاضا کرنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ کی قبر پر آکر سوال کرنے والا شخص مجہول ہے، اور صحابہ کرام﷢ کا عمل بھی اس کے بالکل مخالف ہے، اور وہ سب سے زیادہ شریعت کو جاننے والے تھے، اور ان میں کبھی کوئی نہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر استسقاء کیلئے آیا نہ کسی اور کی قبر پر، بلکہ قحط کے موقع پر سیدنا عمر﷜ نے تو اس کے اُلٹ سیدنا عباس بن عبد المطلب﷜ سے دُعا کرائی تھی اور اس کی مخالفت کسی صحابی نے نہیں کی، پس ثابت ہوا کہ یہی حق ہے، اور اس مجہول شخص کا عمل منکر اور وسیلۂ شرک ہے، بلکہ بعض علماء تو اسے شرک کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔
جہاں تک سیف مذکور کی روایت اس شخص کا نام بلال بن حارث (صحابی) ذکر کیا گیا ہے تو یہ صحیح نہیں، نہ ہی ابن حجر﷫ نے ’سیف‘ کی سند ذکر کی ہے، اور اگر بالفرض اسے بھی صحیح تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس روایت سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ کبار صحابہ (سیدنا عمر، ومعاویہ بن ابی سفیان﷢ وغیرہما) کا عمل اس کے مخالف ہے اوروہ نبی کریمﷺ اور ان کی شریعت کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر جانتے تھے۔ واللہ اعلم!​
4. اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابن حجر﷫ نے مالک الدار کے متعلّق کہا ہے کہ (له إدراك) کہ ’’انہوں نے نبی کریمﷺ کا زمانہ پایا ہے۔‘‘ تو واضح رہے کہ ابن حجر نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں مالک الدار کو تیسری قسم میں شمار کیا ہے، اور یہ قسم مخضرمین (جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کا زمانہ پایا، لیکن انہوں نے نبی کریمﷺ کو نہیں دیکھا، خواہ وہ آپ کے زمانے میں مسلمان ہوگئے ہوں یا بعد میں مسلمان ہوئے ہوں) کے ساتھ خاص ہے۔ اور مخضرم حضرات اصول حدیث کے مطابق بالاتفاق صحابہ میں شمار نہیں کیے جاتے۔
5.
اس روایت کے متن میں نکارت ہے۔
6. اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک بڑی علت یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک خلافتِ عمر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھی، حتیٰ کہ بعد میں یزید بن الولید نے اسے مسجد نبوی میں شامل کر دیا تھا، تو خلافتِ عمر میں ایک غیر محرم شخص سیدۃ عائشہ کے حجرہ میں کیسے داخل ہو سکتا تھا؟؟؟
حافظ ابن کثیر﷫ کا اس حدیث کو بیان کرنا اور صحیح کہنا
واضح رہے کہ امام ابن کثیر﷫ نے بھی اس حدیث کو امام بیہقی سے دلائل النبوۃ سے ذکر کیا ہے، لیکن اس روایت میں درج ذیل علل ہیں:
1. اعمش کا عنعنہ، اور اعمش مدلس ہیں، اور ابن کثیر﷫ کے نزدیک اعمش مدلسین کے دوسرے طبقہ میں شامل ہیں۔
در اصل امام ابن کثیر﷫ کے اس حدیث کو صحیح کہنے کی بنیادی وجہ ان کا طرزِ عمل: ’کبار مجہول تابعین کو ثقہ قرار دینا‘ ہے، جیسا کہ ان کا یہ طریقہ کار ان کی تفسیر میں معروف ہے۔ چونکہ مالک الدار مجہول ہیں، لہٰذا ان کا تاریخ وفات بھی معلوم نہیں۔
2. ابو صالح السمان ... جن کا اصل نام ذکوان ہے ... کا مالک الدار سے سماع اور ادراک ثابت نہیں، کیونکہ مالک الدار کی تاریخ وفات کا علم نہیں، اور اس پر مستزاد کہ ابو صالح کا مالک سے عنعنہ ہے۔ سماع کی صراحت بھی نہیں۔
3. یہ حدیث مشہور احادیث (سیدنا عمر ومعاویہ بن سفیان﷢) کے خلاف ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم​
 

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49
حافظ منذری﷫ ... جو متاخرین میں سے ہیں ... اپنی کتاب ’ترغیب وترہیب‘ 2 ؍ 29 میں مالک الدار کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں انہیں نہیں جانتا۔ (خلاصہ یہ ہے کہ مالک الدار مجہول راوی ہے۔)
اسي طرح علامہ نور الدين الہیثمی مجمع الزوائد 3/ 125 میں فرماتے ہيں:
رواه الطبراني في الكبير ومالك الدار لم اعرفه وبقية رجاله ثقات
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وسیلے کو موضوع پر اہل بدعت اس روایت سے بہت زیادہ استدلال کرتے ہیں اور اپنے مئوقف کی بنیاد اس روایت پر رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں محترم انس نضر بھائی کی پوسٹ میں باوضاحت بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر تفصیل سے لکھا تھا اور اہل بدعت کی جانب سے اس کو ضعیف کہے جانے پر پیش کیے گئے شبہات کا بھی جواب دیا تھا۔ فائدے کے لئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ یاد رہے کہ مضمون میں پیش کئے گئے اکثر حوالہ جات کی تحقیق شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی مختلف کتب و مضامین سے لی گئی ہے۔
مالک الدار کی روایت
مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ﷺ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیﷺ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(ج۶ص۳۵۶ح۳۲۰۰۲)
الجواب:۔
یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے:
حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار
چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
’’ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔‘‘
[الرسالہ:ص۵۳]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
’’حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔‘‘
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
’’اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔‘‘
[خزائن السنن:ج۱ص۱]
اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے (دیکھئے میزان الاعتدال:ج۲ص۲۲۴، التمہید:ج۱۰ص۲۲۸) جو عن سے روایت کر رہا ہے۔
عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیںلیکن مدلس ہیںاور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘
[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:
’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟
سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر نہیں کیونکہ یہ دوسرے طبقہ کا مدلس ہے حالانکہ یہ بات ہرگز بھی درست نہیں اور ان تمام آئمہ و محدثین کے خلاف ہے جنہوں نے الاعمش کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دے رکھا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدلسین کے طبقات کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاعمش کو طبقات المدلسین (ص۶۷) میں دوسرے درجہ کا مدلس بیان کیا ہے اور پھر خود اس کی عن والی روایت کے صحیح ہونے کا انکار بھی کیا ہے۔( تلخیص الحبیر:ج۳ص۱۹)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک خود بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف ہے چاہے اسے طبقہ ثانیہ کا مدلس کہا جائے۔علاوہ ازیں آئمہ و محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے جواعمش کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیتی ہے۔
چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
’’وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیںہم ان کی صرف ان روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریںمثلاًسفیان ثوری، الاعمش اورا بواسحاق وغیرہ جو کہ زبر دست ثقہ امام تھے۔‘‘
[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]
حافظ ابن عبدالبر ؒ نے فرمایا:
’’اور انہوں(محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایات میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔‘‘
[التمہید:ج۱ص۳۰]​
سلیمان الاعمش کی ابو صالح سے معنعن روایات​
یہ بات تو دلائل سے بالکل واضح اور روشن ہے کہ سلیمان الاعمش مدلس راوی ہیں اور ان کی معنعن روایات ضعیف ہیں ۔ جب ان اصولی دلائل کے سامنے مخالفین بے بس ہو جاتے ہیں تو امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم(النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمہ)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘
[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]
اس حوالے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابراہیم نخعی، ابو وائل شقیق بن سلمہ اور ابوصالح سے اعمش کی معنعن روایات صحیح ہیں حالانکہ یہ بات اصولِ حدیث اور دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث،میں نہیں سمجھتاکہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔‘‘
[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]
امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)
۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:
’’اعمش نے یہ حدیث ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘
[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]​
۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:
’’اور یہ حدیث اعمش نے یقینا ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]
۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:
’’اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیر ثقہ سے روایت لیتے تھے۔‘‘
[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم:ص۱۳۸]
۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اور اعمش کی عن والی روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس تھے۔‘‘
[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]
۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:
’’یہ حدیث صحیح نہیں۔‘‘
[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]
۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اور ہو سکتا ہے کہ اعمش نے اسے غیر ثقہ سے لے کر تدلیس کر دی ہو تو سند بظاہر صحیح بن گئی اور میرے نزدیک اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘
[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]
معلوم ہوا کہ دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی طرح محدث بزارؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف و بے اصل ہی ہے چاہے وہ ابی صالح وغیرہ ہی سے کیوں نہ ہو؟ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے محدث بزارؒ کی اس جرح شدہ روایت میں اعمش کے سماع کی تصریح ثابت کر دی لیکن محدث بزارؒ کے اس قاعدے کو غلط نہیں کہا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی اعمش کی ابی صالح سے معنعن روایت ضعیف ہی ہوتی ہے جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ کر دی جائے۔
ان تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ جمہور آئمہ و محدثین اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کوبھی ضعیف اور غیر ثابت ہی قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ اور دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں آئمہ و محدثین نے اعمش کی ابراہیم نخعی اورابو وائل (شقیق بن سلمہ) سے معنعن روایات کو بھی تدلیس اعمش کی وجہ سے ضعیف کہہ رکھا ہے۔معلوم ہوا کہ جمہور آئمہ و محدثین امام نوویؒ کے اس قاعدے کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے کہ اعمش کی ابراہیم نخعی، ابو وائل اور ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے ۔خود امام نوویؒ بھی اپنے اس قاعدے پر کلی اعتماد نہیں کرتے۔ چنانچہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’اور اعمش مدلس تھے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو اس سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی الا یہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔‘‘
[شرح صحیح مسلم:ج۱ص۷۲ح۱۰۹]
ان تمام دلائل کے باوجود جو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کو پیش کرے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو منافق قرار دیا ۔دیکھئے تاریخ یعقوب بن سفیان الفارسی(ج۲ص۷۷۱)
سیدنا حذیفہؓ کو منافقین کے نام نبی ﷺ نے بتا رکھے تھے یہ بات عام طالب علموں کو بھی پتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں اعمش ہیں جو مدلس ہیں اور شقیق (ابو وائل) سے معنعن روایت کر رہے ہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر جو حضرات جمہور محدثین کے خلاف امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کے مطابق اعمش کی ابو وائل یا ابو صالح سے معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے صحیح سمجھتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق صحابی رسول سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ پر کیا حکم لگاتے ہیں۔۔۔؟
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عائشہ ؓ نے مشہور صحابی رسول عمرو بن العاصؓ کی شدید تکذیب اور ان پر شدید جرح کی۔ دیکھئے المستدرک حاکم (ج۴ص۱۳ح۶۸۲۲)
ہم تو کہتے ہیں کہ یہ بات نا قابل تسلیم ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی ابو وائل سے معنعن ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مگر جو جمہور محدثین کے خلاف اعمش کی ابو وائل وغیرہ سے روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق سیدنا عمرو بن العاص ؓ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔۔۔؟
چنانچہ خود مخالفین کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی امام نوویؒ کے اس قاعدے کو تسلیم نہیں کرتے اور اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کو ضعیف اور نا قابل حجت ہی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ روایت اعمش کی ابو صالح سے ہی معنعن ہے جس پر جرح کرتے ہوئے عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں:
’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیںلیکن مدلس ہیںاور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘
[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
محدثین کا کسی روایت کو صحیح قرار دینایا اس پر اعتماد کرنا
احمد رضا خان بریلوی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اجلہ علماء نے اس پر اعتماد (کیا)۔۔۔۔مگر تحقیق یہ ہے کہ وہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘
[ملفوظات،حصہ دوم:ص۲۲۲]
اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علماء کا سہواً کسی حدیث کو صحیح قرار دے دینا یا اس پر اعتماد کر لینا اس حدیث کو صحیح نہیں بنا دیتا اگر تحقیق سے وہ حدیث ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے غیر ثابت ہی کہا جائے گا۔چنانچہ اگر امام ابن کثیرؒ یا حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ نے مالک الدار والی روایت کو صحیح قرار بھی دیا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اصول حدیث اور دلائل کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف اور غیر ثابت ہی ہے۔خود حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ ہو جائے ضعیف ہی ہوتی ہے اور یہی جمہور آئمہ و محدثین کا اصول و قاعدہ ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا یہ مالک الدار والی روایت بھی ضعیف ہی ہے۔
بریلویوں کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کسی کے ضعیف حدیث کو صحیح اور صحیح کو ضعیف حدیث کہہ دینے سے سے وہ ضعیف صحیح نہیں ہو جاتی۔‘‘
[مناظرے ہی مناظرے:ص۲۹۲]
علاوہ ازیں خود بریلوی حضرات کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی کی مشہور کتاب ’’جاء الحق‘‘ سے ایک لمبی فہرست ان روایات کی پیش کی جا سکتی ہے جن کو ایک دو نہیں بلکہ جمہور آئمہ و محدثین نے صحیح قرار دے رکھا ہے مگر بریلوی حکیم الامت ان روایات پر اصول حدیث کے زریعے جرح کرتے ہیں۔ لہٰذا اصول و دلائل کے سامنے بلا دلیل اقوال و آراء پیش کرنا سوائے دھوکہ دہی کے کچھ نہیں۔
صحیحین میں مدلسین کی روایات
یہ بات بالکل واضح ہے کہ مدلسین کی معنعن روایات ضعیف ہی سمجھی جاتی ہیں جب تک سماع کی تصریح نہ مل جائے۔یہ بات خود مخالفین کو بھی تسلیم ہے مگر جب اپنے غلط و مردود عقائد و اعمال پر کو ئی صحیح روایت نہیں ملتی تو الٹے سیدھے بہانے بنانے لگتے ہیں۔ صحیحین یعنی صحیح بخاری و مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات کا بہانہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
صحیحین میں زیادہ تر مدلسین کی روایات اصول و شواہد میں موجود ہیں۔ ابو محمد عبدالکریم الحلبی اپنی کتاب ’’القدس المعلمیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اکثر علماء کہتے ہیں کہ صحیحین کی معنعن روایات سماع کے قائم مقام ہیں۔‘‘
[التبصرۃ و التذکرۃ للعراقی:ج۱ص۱۸۶]
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات سماع کے قائم مقام ہیں اور زیادہ تر علماء کا مئوقف یہی ہے۔
امام نوویؒ لکھتے ہیں:
’’جو کچھ صحیحین میں مدلسین سے معنعن مذکور ہے وہ دوسری اسانید میں مصرح بالسماع موجود ہے۔‘‘
[تقریب النووی مع تدریب الراوی:ج۱ص۲۳۰]​
یعنی صحیحین کے مدلس راویوں کی عن والی روایات میں سماع کی تصریح یا متابعت صحیحین میں ہی یا دوسری کتب حدیث میں ثابت ہے۔ نیز دیکھئے النکت علی ابن الصلاح للحافط ابن حجر عسقلانی (ج۲ص۶۳۶)
 

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49
ايك اور وجہ اس روايت كے ضعف كي يہ ہو سكتي ہے كی ابو صالح جو يہاں مالك بن عياض سے روايت كر رہے ہيں ان كا بقول امام ابو زرعة حضرت ابو ذر سے سماع ثابت نهيں كذا في التهذيب (3/190)۔
تحفة التحصيل (ص ١٠١) للعراقي اور جامع التحصيل (ص ١٧٤) للعلائي ميں يہ ہے كہ
ذكوان أبو صالح السمان معروف قال أبو زرعة لم يلق أبا ذر وهو عن أبي بكر وعن عمر وعن علي رضي الله عنهم مرسل

اس سے واضح ہے كہ ابو صالح كا حضرت علي سے بھي سماع ثابت نہيں ہے- تو يہ محال ہوگا کہ وہ مالک الدار سے روايت كریں جو كہ ايك مخضرم تھے-
اسي اختلاف كي طرف الخليلي نے اشاره كيا ہے- جيسا كہ وه الارشاد ميں مالك الدار كے ترجمہ ميں فرماتے ہیں:
يقال : إن أبا صالح سمع مالك الدار هذا الحديث ، والباقون أرسلوه
"كها گيا هے كہ ابز صالح نے اس روايت كو مالك الدار سے سنا ہے- جبكہ باقي اسے مرسل روايت كرتے ہيں-"

و الله اعلم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
انس بھائی، طالب نور بھائی اور معین بھائی۔ جزاک اللہ خیراً کثیراً۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
 
Top