• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وطنی عید جشنِ آزادی کی شرعی حیثیت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
وطنی عید جشنِ آزادی کی شرعی حیثیت

الحمد لله القوي المتين والصلاة والسلام على مَن بُعث بالسيف رحمةً للعالمين. أما بعد

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے :

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
اور ر(حمن کے نیک بندے وہ ہیں) جو باطل کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کبھی بے ہودہ (مجالس) کے پاس گزرتے ہیں تو کریمانہ انداز میں گزرجاتے ہیں۔ [سورۃ الفرقان، آیات:۷۲]

امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وَفِي رِوَايَةٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَعْيَادُ الْمُشْرِكِينَ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں ہے کہ الزُّورَ سے مراد مشرکوں کی عیدیں ہیں۔
[تفسير القرطبي: الجامع لأحكام القرآن، ج:۱۳، ص:۷۹]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

قال أبو العالية وطاوس وابن سِيرِينَ وَالضَّحَّاكُ وَالرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُهُمْ: هِيَ أَعْيَادُ الْمُشْرِكِينَ
اس آیت میں الزُّورَ سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں یہ ابو العالیہ، طاوس، ابن سیرین، ضحاک، ربیع بن انس وغیرہ نے فرمایا ہے۔
[تفسير ابن كثير، ج:٦، ص:۱۱۸]

اب عید کسے کہتے ہیں؟ لغت میں عید بار بار لوٹنے والی چیز کو کہتے ہیں۔اور اصطلاح میں عیدسے مراد بار بار آنے والا ایک خاص دن ہوتا ہے جس میں لوگ جمع ہوکر خوشیاں مناتے ہیں کسی تقریب کا انعقاد یا مخصوص افعال کو انجام دیتے ہیں یہ ہفتہ وار بھی ہو سکتاہے ، ماہانہ اور سالانہ بھی۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أن العيد اسم لما يعود من الاجتماع العام على وجه معتاد عائد: إما بعود السنة أو بعود الأسبوع أو الشهر أو نحو ذلك
عید اس دن کو کہتے ہیں جو عام طور پر اجتماعی صورت میں معمول کے مطابق واپس آئے، یہ واپسی یا تو سال میں، یا ہفتےمیں، یا مہینے میں یا اسی کے مثل ہوتی ہے۔
[اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم، ج:۱، ص:۴۹٦]

عید کا اطلاق ہر قسم کے جشن اور تہوار و خوشی کے دن پر ہوتا ہے لہذا ہر قوم کا کوئی نہ کوئی خوشی کا دن ہوتا ہے، جس میں وہ خوشی، جشن، تہوار اور عید مناتے ہیں اور یہ ان کا شعار ہوتا ہے۔ جیسے یہودیوں کی عید خیام، نصرانیوں کا کرسمس، ہندوں کی ہولی یا دیوالی ، مجوسیوں کا مہر جان اور نوروز ، شیعوں کی عید غدیر اور دوسرے کفار کے خوشی کے دن جیسے نئے سال کی آمد ، فصل بونے کا موسم یا خوشگوار موسم کا آنا، یا کسی دن کسی حکومت کا قائم ہو نا، کسی ملک کو آزادی ملنا، یا وہاں کسی دستور یا قانون کا نفاذ ہونا یا کسی شخص کا حاکم بننا وغیرہ۔

شریعت اسلامی میں مسلمانوں کے لیے خوشی کے لئے سال میں عید کے دو دن مقرر کئے ہیں، جو کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ہیں اسی طرح ہفتے میں ایک جمعہ کا دن جس میں اجتماعی عبادت ہوتی ہے اسے بھی عید کا دن کہا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ: " إِنَّ اللهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ "

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے لیے دو دن تھے، وہ دورِ جاہلیت سے ان میں کھیلتے چلے آ رہے تھے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دو دنوں کے بدلے ان سے بہتر دن عطا کر دیئے ہیں، ایک عید الفطرکا دن ہے اور دوسرا عید الاضحی کا۔
[مسند أحمد، حدیث: ١٢٠٠٦]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام نے جاہلیت کے تمام شعائر کو حق کے ساتھ بدل دیا ہے، تو مسلمان کو اسی حق کے ساتھ تمسک کرنا چاہیے۔اورسالانہ شرعی عیدوں کی تعداد صرف دو ہے ۔ اسلام میں ان دو عیدوں کے علاوہ کسی بھی نام سے عید اور خوشی کا دن اور جشن منانا جائز نہیں۔ چاہے وہ جشن آزادی، یوم دفاع، یوم تکبیر کے نام سے ہو، عید میلاد النبی یا کسی بھی اور نام سےہو یہ تمام خودساختہ عیدیں اور جنش بالکل حرام ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔
[سورۃ الجاثیۃ، آیات:۱۸]

د نیا کے تمام ممالک میں وطن پرست مشرکوں کی جانب سے سال میں وطنی عید کا دن خوشی اور جشن کے لیے متعین ہیں۔ جسے وہ جشن آزادی کے نام سے پورے جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں۔ اس میں وہ قومی ترانے کی صورت میں اپنے باطل معبود وطن کی محبت اور عظمت کے گن گاتے ہیں،اور وطن کے شعار پلید شرکیہ جھنڈے کی تعظیم، جھنڈے کو چومنا یا سلامی دینا، اور وطنی ترانہ شروع ہونے پر تعظیما کھڑے ہونے جیسا شرکیہ اعمال کو انجام دیتے ہیں۔ اور کچھ کلمہ گو وطن پرست یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ ہم ہر سال ہماری وطنی عید یعنی جشن آزادی مناتے ہیں اسے دین کا حصہ تو نہیں سمجھتے ہیں نہ ہی ثواب سمجھ کر اسے مناتے ہیں یہ مغالطہ بالکل باطل ہے کیوں کہ اگر یہ مشرکین اس عمل کو دین نہ سمجھے تو اس سے یہ عمل حلال نہیں ہو جائے گا کیونکہ مشرکوں کی عیدوں میں شرکت کرنا اہل علم کے ہاں بالتفاق حرام ہے۔اور وطنی عید میں شرکت کرنے والا انہیں مشرکوں میں شمار ہوگا۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَلَا الْحُضُورُ مَعَهُمْ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهُ. وَقَدْ صَرَّحَ بِهِ الْفُقَهَاءُ مِنْ أَتْبَاعِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ فِي كُتُبِهِمْ
اہل علم كا اتفاق ہے كہ مسلمانوں كےليے مشركوں كی عيدوں ميں شركت كرنا جائزنہيں ہے، اور مذاہب اربعہ كےفقہاء نےبھی اپنی كتب ميں اس کی صراحت كي ہے۔
[أحكام أهل الذمة، ج:۳، ص: ۲۴۵]

عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرو قَالَ: "مَنْ بَنَى بِبِلَادِ الْأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى يَمُوتَ وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جو كوئى بھی عجميوں کے ملک میں ان کی نيروز و مہرجان كا جشن منائے اور ان سے ان سب کاموں میں مشابہت اختيار کرے یہاں تک کہ اسے موت آجائے تو وہ روز قيامت بھی انہیں كےساتھ اٹھايا جائےگا۔
[السنن الكبرى البيهقي، حدیث: ١٨٨٦٣]

والحمد اللّٰه رب العالمین وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین۔
 
Top