- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
وقت کی اضافیّت قرآن میں بیان کی گئی
وقت کی اضافیت جو کہ سائینس نے بیسویں صدی عیسوی میں دریافت کی، ۱۴۰۰ سال پہلے قرآن میں بتا دی گئی تھی۔
مثال کے طور پر اللہ نے بہت ساری آیات میں زور دیا کہ اس دنیا کی زندگی بہت تھوڑی ہے۔ ہمارے مالک نے ہمیں مطلع کیا کہ اوسطا انسانی زندگی اتنی تھوڑی ہے جتنی کہ "ایک دن کا ایک گھنٹہ"۔
يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٥٢﴾
جس دن وہ تمہیں بلائے گا تم اسکی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے کہ تمہا را رہنا بہت ہی تھوڑا ہے۔سورۃ الآسرا
انکو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ انکو جمع کرے گا تو انکو محسوس ہوگا گویا وہ سارے دن کی ایک آدھ گھڑی ہی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں۔سورۃ یونس
کچھ آیتوں میں اللہ نے بتایا کہ وقت اس سےکہیں زیادہ چھوٹا ہے جتنا کہ انسان نے سوچا۔
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ ﴿١١٢﴾ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١١٤﴾
اللہ تعالی ٰ دریافت فر مائے گا تم زمین میں با عتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے۔ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ، گنتی گننے والوں سے پوچھ لیجئے، اللہ تعالیٰ فرما ئے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو، اے کاش تم اسے پہلے ہی جان لیتے۔سورۃ المومنون
قرآن کی دوسری آیتوں میں بتایا گیا کہ وقت مختلف ڈائیمنشن (جہات)میں مختلف رفتا رسے گزرتا ہے۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت میں بیان کیا گیا کہ
وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٤٧﴾کچھ آیتوں میں اللہ نے بتایا کہ وقت اس سےکہیں زیادہ چھوٹا ہے جتنا کہ انسان نے سوچا۔
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ ﴿١١٢﴾ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١١٤﴾
اللہ تعالی ٰ دریافت فر مائے گا تم زمین میں با عتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے۔ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ، گنتی گننے والوں سے پوچھ لیجئے، اللہ تعالیٰ فرما ئے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو، اے کاش تم اسے پہلے ہی جان لیتے۔سورۃ المومنون
قرآن کی دوسری آیتوں میں بتایا گیا کہ وقت مختلف ڈائیمنشن (جہات)میں مختلف رفتا رسے گزرتا ہے۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت میں بیان کیا گیا کہ
اللہ کی نظر میں ایک دن انسانی سالوں کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ سورۃ الحج
اس مضمون سے متعلق دوسری آیات مندرجہ ذیل ہیں۔
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ ﴿٤﴾
جسکی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ، ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے -سورۃ المعارج
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٥﴾اس مضمون سے متعلق دوسری آیات مندرجہ ذیل ہیں۔
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ ﴿٤﴾
جسکی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ، ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے -سورۃ المعارج
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام) ایک ایسے دن میں اسکی طرف چڑھ جاتا ہےجسکا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔سورۃ السجدہ
غار والے مومنین جن کا اللہ پاک نے قرآن میں ذکر فرمایا، ۳۰۰ سال تک سوتے رہے۔ جب اللہ نے انہیں بعد میں اٹھایا، تو انہوں نے سوچا کہ وہ بہت ہی تھوڑے عرصہ تک کے لیے سوئے وہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ وہ کتنی دیر سوئے۔
فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾ ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ﴿١٢﴾
پس ہم نے انکے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دئیے۔پھر ہم نے انہیں اٹھا کھڑا کیا کہ ہم یہ معلوم کرلیں کہ دونوں گروہوں میں سے اس انتہائی مدت کو جو انہوں نے گزاری کس نے زیادہ یاد رکھی۔سورۃ الکہف
وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَـٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا ﴿١٩﴾
اس طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ وہ کہنے لگے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ۔کہنے لگے تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعا لیٰ کو ہی ہے۔سورۃ الکہف
مندرجہ ذیل آیت میں اللہ اس حقیقت کے بارے میں کہ وقت ایک ضروری نفسیاتی ادارک ہے ایک اور ثبوت دیتےہیں۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٥٩﴾
یا اس شخص کی مانند جسکا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وہ کہنے لگا اسکی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسکو کیسے زندہ کریگا؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسکو مار دیا سو سال کے لیے ، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرما یا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھا تے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں ، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔سورۃ البقرہ
یہ آیتیں بتاتی ہیں کہ وقت غیر مطلق ہے اور مطلق نہیں ہے۔ یہ مشاہدہ اور شعور کے حساب سے مختلف ہوتا ہے اور یہ حقیقت ۱۴۰۰ سال پہلے قرآن میں بتائی گئی۔
واللہ اعلم
سانئسی نقطہ نظر کیا ہے اس کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریںغار والے مومنین جن کا اللہ پاک نے قرآن میں ذکر فرمایا، ۳۰۰ سال تک سوتے رہے۔ جب اللہ نے انہیں بعد میں اٹھایا، تو انہوں نے سوچا کہ وہ بہت ہی تھوڑے عرصہ تک کے لیے سوئے وہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ وہ کتنی دیر سوئے۔
فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ﴿١١﴾ ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ﴿١٢﴾
پس ہم نے انکے کانوں پر گنتی کے کئی سال تک اسی غار میں پردے ڈال دئیے۔پھر ہم نے انہیں اٹھا کھڑا کیا کہ ہم یہ معلوم کرلیں کہ دونوں گروہوں میں سے اس انتہائی مدت کو جو انہوں نے گزاری کس نے زیادہ یاد رکھی۔سورۃ الکہف
وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَـٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا ﴿١٩﴾
اس طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں ۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ وہ کہنے لگے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ۔کہنے لگے تمہارے ٹھہرے رہنے کا بخوبی علم اللہ تعا لیٰ کو ہی ہے۔سورۃ الکہف
مندرجہ ذیل آیت میں اللہ اس حقیقت کے بارے میں کہ وقت ایک ضروری نفسیاتی ادارک ہے ایک اور ثبوت دیتےہیں۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٥٩﴾
یا اس شخص کی مانند جسکا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وہ کہنے لگا اسکی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسکو کیسے زندہ کریگا؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسکو مار دیا سو سال کے لیے ، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرما یا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھا تے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں ، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔سورۃ البقرہ
یہ آیتیں بتاتی ہیں کہ وقت غیر مطلق ہے اور مطلق نہیں ہے۔ یہ مشاہدہ اور شعور کے حساب سے مختلف ہوتا ہے اور یہ حقیقت ۱۴۰۰ سال پہلے قرآن میں بتائی گئی۔
واللہ اعلم
بشکریہ