• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ لوگ ہم پر مسلط ہیں اس زمانے میں

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
وہ لوگ ہم پر مسلط ہیں اس زمانے میں

ہفت روزہ جرار
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں حب الوطنی اور حمیت کے والہانہ جذبات سے سرشار و شاداب ایسے الفاظ ادا کرتی…!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! پاکستان کو اس وقت انتہائی حساس اور دگر گوں حالات کا سامنا ہے۔ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد پاکستانی قوم اس آزار، کرب اور اعصابی تنائو میں مبتلا ہے کہ کہیں ریمنڈ کو واپس کر کے ہماری آزادی اور خود مختاری جگ ہنسائی کا ذریعہ بنا دی جائے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا، اسے قانون کے مطابق سزا ضرور ملے گی۔
جناب سپیکر! ہمارے تحقیقاتی اداروں نے پاکستان کا خون چوسنے والے ریمنڈ کے متعلق جو رپورٹ ہمیں ارسال کی ہے، اس کے مطابق ریمنڈ ڈیوس امریکی فوجی ہے جو ایم فائیو میں بھی کام کر چکا ہے، ریمنڈ ڈیوس کو اردو، پنجابی، فارسی، پشتو اور ہندی جیسی زبانوں میں خوب مہارت حاصل ہے، مائیکل جارج فرنینڈس المعروف ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے چیف لیون پنیٹا کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔
محترم المقام اراکین اسمبلی! میں یہ بات بھی طشت از بام کرنا چاہتی ہوں کہ ریمنڈ ڈیوس نے امریکی قونصل جنرل کارمیلا کانرائے سے ملاقات کے وقت ڈرون حملوں میں استعمال ہونے والی ایک چپ حوالے کی جس کے بعد ڈرون حملوں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا ہے۔ ابھی ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش میں ہیں کہ ریمنڈ کی تلاشی کے دوران پولیس یہ چپ کیوں برآمد نہ کر سکی۔ ریمنڈ نے کراچی کے دو دینی مدارس کا بھی دورہ کیا، اس نے وہاں دو سیاسی اور قومیت پرست تنظیموں کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی اور ان کو بڑی رقوم بھی فراہم کیں جس پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔ اس نے ایک سال میں سات مرتبہ کراچی کا سفر کیا اور ایک بار بھی فضائی سفر کے لئے اپنا نام استعمال نہ کیا، ہم نے آئرن مارک ڈی ہیون نامی ایک اور امریکی شہری کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ غیر قانونی طور پر یہاں مقیم تھا۔ جناب سپیکر! ہمارے تحقیقاتی اداروں نے دلوں میں کھب جانے والی ایک رپورٹ یہ بھی دی ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے 364 اہلکار اس وقت پاکستان میں مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں، ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد اگرچہ یہ اہل کار یہاں سے بھاگنے کی کوشش میں ہیں مگر انہیں کسی بھی صورت فرار ہونے نہیں دیا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں اگر حنا ربانی کھر کی تقریر اس سے ملتے جلتے جذبات پر مشتمل ہوتی تو اہل پاکستان کے سینوں میں فرحت و انبساط کی لہر دوڑ جاتی۔ پاکستان کا ستیاناس کرنے والے امریکی جاسوسوں کے اتنے بڑے نیٹ ورک کا پول کھلنے کے بعد حنا ربانی کھر کو کسی لگی لپٹی کے بغیر امریکی جاسوسوں کے مکروہ مقاصد اور مستقبل میں اس کے بھیانک عزائم کا بھانڈا بیچ اسمبلی کے پھوڑنا چاہئے تھا۔
حنا ربانی کھر اسمبلی میں موجود ہے۔ وہ بولتی ہی چلی جا رہی ہے جو باتیں اس نے ایوان کے سامنے کیں، ان کے کسی ایک جملے یا لفظ میں اس طرح کی جرأت اور حمیت کی رمق کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس کا موضوع سخن ’’سفارتی استثنا‘‘ تھا اور یہ سارا ریمنڈ کے حق میں جاتا ہے۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور ایوان میں بول رہی تھی کہ پاکستان میں 78 ممالک کے سفارتی مشنز کے 2570 اہل کار تعینات ہیں جن میں سے 1919 کو سفارتی استثنا حاصل ہے۔ ان میں امریکا سرفہرست ہے۔ حنا ربانی کھر کے بقول امریکا کے 851 سفارت کاروں کو استثنا حاصل ہے جن میں 554 سفارتی عہدوں اور 297 غیر سفارتی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ لاہور میں امریکی قونصلیٹ کے 31، کراچی میں 49 اور پشاور میں 50 سفارت کاروں کو استثنا حاصل ہے۔ حنا ربانی کھر بولتی ہی جا رہی تھی کہ بھارت کے 117 میں سے 26، جرمنی کے 56 میں سے 54، افغانستان کے 60 میں سے 57، اٹلی کے 61 میں سے 34، ترکی کے 28 میں سے 25 اور ایران کے 64 میں سے 55 سفارت کاروں کو استثنا حاصل ہے۔ اس نے بڑی محنت سے یہ اعداد و شمار یکجا کئے کہ روس کے 98 چین کے 87 اور فرانس کے 60سفارت کاروں کو بھی یہ سہولت حاصل ہے۔
یہ اعداد و شمار حنا ربانی کھر نے ایوان کے سامنے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تمام سفارت کاروں کو پاکستانیوں کے قتل کے پروانے حاصل ہیں۔ گویا یہ لوگ انسانیت کے اتنے اعلیٰ و ارفع مرتبے پر فائز ہیں کہ انہیں قتل و غارت گری کی اجازت بھی حاصل ہے۔ انہیں یہ مقام اور مرتبہ حاصل ہے کہ یہ جب اور جہاں چاہیں پاکستانی نوجوانوں کو قتل کر ڈالیں۔ چلو طوعاً و کرباً یہ مان بھی لیں کہ انہیں سفارتی استثنا حاصل ہے مگر ہمیں یہ تو بتایئے کہ کیا ان سفارت کاروں کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ یہ پاکستان کی جاسوسی کریں۔ یہاں ڈرون حملوں کے لئے راہ ہموار کریں۔ یہاں بے دردی کے ساتھ نوجوانوں کو اپنی گاڑیوں تلے روند ڈالیں، یہاں لوگوں کو خرید کر امریکی ایجنسیوں کے آلہ کار بنائیں۔ یہ اپنا نام اور مذہب تک تبدیل کر کے اس ملک کے سینے میں خنجر گھونپیں، یہاں دھماکے کروائیں اور پاکستان کو بدامنی اور انتشار و افتراق کی آگ میں جھونکتے ہی چلے جائیں۔ یہ پاکستان کے پروگرام میں نقب زنی کریں۔ یہ یہاں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی عورتوں کو دن دہاڑے اغوا کر کے ان کے جسموں کو نوچیں۔ ذرا بتایئے تو سہی کہ یہ سفارت کار ہیں یا جنگلی اور وحشی درندے؟ کیا یہ ثابت نہیں ہو چکا کہ ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا سٹیشن چیف ہے اور سی آئی اے سفارت کاری کے لئے افراد بھرتی نہیں کرتی۔ یہ دوسرے ممالک میں انارکی، بدامنی اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے لئے ہی کام کرتی ہے؟
امریکی میڈیا رپورٹس اور برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق آئی ایس آئی کے جنرل احمد شجاع پاشا نے امریکا پر ایسے مذموم آپریشن بند کرنے کے لئے زور دیا ہے۔ آرمی چیف جنرل کیانی نے بھی امریکی فوجی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان میں امریکیوں نے طالبان کا روپ دھار رکھا ہے اور وہ پاکستان آرمی کے خلاف حملوں اور دشمن کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جس کے ثبوت بھی وقت آنے پر منظر عام پر لائے جائیں گے۔ جب یہ ثابت ہوچکا کہ ریمنڈ سفارت کار نہیں بلکہ ایک جاسوس ہے تو پھر سفارتی استثنا کے اعداد و شمار پیش کر کے ریمنڈ کو فائدہ پہنچانا چہ معنی دارد؟ ان واشگاف دلائل و براہین کے باوجود حنا ربانی کھر ساری قوم کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر سفارتی استثنا پر اتنا زور کیوں لگا رہی ہے مجھے کہنے دیجئے کہ
جو لوگ رد ہوئے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پر مسلط ہیں اس زمانے میں​
 
Top