• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹک روتے روتے

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ٹک رو تے رو تے

رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔ مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب مرد گایا اور عورتیں رویا کرتی تھیں۔ تاریخ اس باب میں خاموش ہے کہ پھر بچے کیا کرتے تھے؟ ویسے ہم آج تک یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہے کہ مردوں کے گانے پر عورتیں رویا کرتی تھیں یا عورتوں کے رونے کو مھلہ والوں سے چھپانے کے لئے مرد گانے لگتے تھے۔ خیر وجہ کچھ بھی ہو، اب اس توجیح کی قطعا“ ضرورت نہیں رہی۔ کیوں کہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ مرد و زن کے مساوات کا دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین و حضرات نے اپنے بیشتر “ فرائض“ ایک دوسرے سے بدل لئے ہین۔ اور “بقیہ فرائض“ بدلنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج کل خواتین نے گانے اور مردوں نے رونے کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔

رونے کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلا“ بچوں کا رونا، عورتوں کا رونا اور مردوں کا (عورتوں کی طرح) رونا وغیرہ وغیرہ۔ بچے عموما“ آواز سے اور بلا آنسو روتے ہیں۔ بچوں کو اس طریقہ سے رونے میں اسی طرح ملکہ حاصل ہے، جس طرح ملکہ مسیقی روشن آراء بیگم کو (رونے میں نہیں بلکہ گانے میں) صفر سے سو سال تک کے “بچے“ جب کسی کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس ہمدردی کی آڑ میں انہیں دامے، درمے، یا سخنے کچھ مطلوب ہو تو وہ مختلف آوازوں کے ساتھ (بلا آواز ) رونا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی حالات کا رونا روتے ہیں تو کبھی اپنی بے بسی کا۔ کبھی دوسروں کی زیادتی کا رونا روتے ہیں تو کبھی تقدیر کی ستم ظریفی کا۔ غرض کسی نہ کسی سبب رو دھو کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔۔۔۔ (اقتباس از انشائیہ " ٹک روتے روتے" تحریر یوسف ثانی، کتاب: "یوسف کا بکا جانا" مطبوعہ 2000ء)
 
Top