بھائی آپ کی تمام باتیں الزامی ہیں آپ ان میں سے کسی ایک کو بھی آج تک ثابت نہیں کرسکے۔پاکستان میں جہاد کے علم کو بلند کرنا کیا جرم ہے کیا یہاں کفر کی حکومت نہیں ؟
اگر یہ سب غلط ہے تو آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ھے کہ اس ملک میں شرعی نظام کا نفاذ کیا جائے ۔
ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں
حافظ وقاص بھائی۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان "الزامی" باتوں کو ثابت کرنے کے لیے کس قسم کے ثبوت درکار ہیں آپ کو؟ کونسا جہاد کا علم بلند کرنا ہے پاکستان میں اور کس نے کرنا ہے؟ کفر کی حکومت یا نظام کفر کو تو چلیں میں بھی تسلیم کرتا ہوں تو کیا آپ کے پاس ایسا لائحہ عمل موجود ہے یا خلیفہ کا نام ہی بتا دیں جن کے دست مقدس پر بیعت ہو کر ہم بھی اس جہاد میں شامل ہو جائیں۔
محترمی اخبارات، رسائل، الیکٹرانک میڈیا یا انٹر نیٹ پر خبریں دیکھ کر تجزیہ کرنا بہت آسان کام ہے لیکن میدان عمل میں کیا ہو رہا ہے اس بات کا ادراک گھر بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ ثبوت کی بات ہے تو آپ کو ٹی ٹی پی میں غیر ملکی و غیر مسلم "مجاہدین" کی موجودگی کا ثبوت بھی مہیا کر دیتا ہوں۔ زیادہ دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستانی پنجاب کے ایک ضلع اٹک سے اگر تربیلہ ڈیم کی جانب جائیں تو ڈیم سے پہلے خیبر پختون خواہ کی سرحد شروع ہوتے ہی ایک چھوٹا سا شہر غازی کے نام سے آباد ہے۔ اس شہر کے اختتام پر دائیں جانب ایک روڈ تربیلہ ڈیم کی جانب مڑتی ہے۔ اس روڈ پر ایک کلومیٹر آگے بائیں جانب آرمی کا ٹریننگ کیمپ ہے جہاں سپیشل سروسز گروپ ایس ایس جی کی دو کمپنیز الضرار اور الصمام کے جوانوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس کیمپ کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوں تو 600 میٹر آگے جا کر "گورا کیمپ" کی حدود شروع ہو جاتی ہیں۔ "گورا کیمپ" غیر ملکیوں کی رہائشگاہ، کلب اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں کسی بھی پاکستانی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ وہاں گھومتے پھرتے باریش حافظ قرآن اردو پشتو اور فارسی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور خطہ کے جغرافیائی محل وقوع سے بھی بخوبی آشنا ہیں لیکن ان افراد سے کیمپ کے کسی بھی سیکورٹی جوان کو کچھ بھی پوچھنے یا بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ لوگ کب آتے ہیں کب جاتے ہیں کہاں سے آتے ہیں کہاں جاتے ہیں کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ راقم کو ذاتی طور پر اس "گورا کیمپ" میں جانے اور اس کا جائزہ لینے کا اعزاز حاصل رہا ہے اس دوران وہاں موجود "مجاہدین" سے گفتگو بھی ہوئی جس سےا ندازہ ہوا کہ یہ مقامی نظر آنے والے لوگ حقیقت میں امریکن نیشنل بھی ہیں اور کتنی چالاکی اور مہارت سے خود کو ٹی ٹی پی میں شامل کر چکے ہیں۔ میں مزید تفصیلات بیان نہیں کروں گا۔ آپ کو محل وقوع بیان کر دیا ہے باقی تفصیلات آپ اپنے ذرائع سے معلوم کر سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں دوسرے سوال کی جانب۔ جہاد کا علم پاکستان میں بلند کرنا جرم ہے؟ محترمی کس نے کہہ دیا کہ جرم ہے؟ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس ملک میں سے تیار ہو کر دنیا میں کہاں کہاں مجاہدین نہیں گئے؟ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد کے ٹریننگ کیمپس کا ذکر اخبارات میں شاید نہ ہو وہاں کے مقامی لوگوں سے جا کر پوچھیں۔ کونسا ٹریننگ کیمپ ایسا ہے جہاں غیر ملکی مجاہدین کو ٹریننگ نہیں دی گئی؟ جہاں سے چیچن، ازبک، انڈین، فلسطینی ، عربی اور افغان سمیت دیگر ملکوں کے مجاہدین نے ٹریننگ نہیں لی؟ لیکن یہ سب حکومتی ایجنسیوں کی سرپرستی میں ہوتا آیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے بھی اکثر کمانڈرز ان ہی ٹریننگ کیمپس سے تربیت یافتہ ہیں۔ تب حکومتی سرپرستی میں جہاد کی تربیت حاصل کرنے والے کیا نظام کفر کے پیسے پر تیار نہیں ہوئے؟ اب شرعی نظام کی جانب بھی توجہ دے لیں۔ آپ نے نام کے ساتھ حافظ لکھ ہے ماشا اللہ اللہ آپکے علم میں مزید برکت دے۔ قرآن پاک کا حافظ ہونا بہت فضیلت کی بات ہے۔ تو برادر ذرا میرے علم میں بھی اضافہ فرما دیں کہ شریعت نے کہاں لکھا ہے کہ خود کش حملے جائز ہیں۔ شریعت نے کہاں حکم دیا ہے کہ نظام کفر میں بسنے والے بے عمل مسلمان بچوں بوڑھوں عورتوں یا جوانوں کو بم سے اڑا دو۔ کسی بھی مسلمان کے دل میں موجود جذبہ اسلام کو جانچنے کا اختیار کس نے ٹی ٹی پی کو دیا ہے؟ محترمی جس ٹی ٹی پی کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے اس کے اندر درجنوں گروپس ہیں اور ہر گروپ اپنے کمانڈر کے تابع ہے۔ ان کمانڈرز میں خود اتفاق نہیں ہے اور ویسے بھی یہ افغانستان جہاد میں شریک رہنے کی وجہ سے وہاں کے وار لارڈز کو اپنا آئیڈیل بنا کر دولت اسلحہ اور طاقت کی دوڑ میں لگے ہیں۔ ایسے کمانڈرز کو صرف اس بات سے سروکار ہے کہ ان کے پاس یہ تینوں چیزیں موجود رہیں۔ پیسہ اغوا برائے تاوان سے ملتا ہے یا دھماکے کرنے سے۔ اس بات سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اچھا چلیں یہ بتا دیں کہ منشیات کا سمگلر جو خیبر پختونخواہ سے کراچی منشیات سپلائی کرتا ہے وہ اگر ٹی ٹی پی کے ساتھ شریک ہے اور منشیات کا کام بھی کر رہا ہے اور درہ آدم خیل میں ٹی ٹی پی کا نظام بھی چلا رہا ہے تو ایسے کمانڈر "ماما" کے بارے میں کیا کہیں گے آپ؟ مجھے "ماما" کے گھر کو محل وقوع بھی معلوم ہے اور میں ذاتی طور پر ان کے دیدار سے بھی فیض یاب ہو چُکا ہوں اس لیے اتنے یقین سے ان کے کاروبار اور جذبہ جہاد کا ذکر کر رہا ہوں۔
محترمی کیا ٹی ٹی پی کے سربراہ نے لال مسجد آپریشن کے فوری بعد لال مسجد کے نائب ترجمان (انتہائی معذرت کہ نام بے حد کوشش کے باوجود بھی یاد نہیں آ رہا) کو خیبر ایجنسی میں بہانے سے بُلا کر صرف اس وجہ سے سے نہیں مروا دیا تھا کہ سربراہ صاحب لال مسجد میں موجود جس خاتون سے شادی کے متمنی تھے ان خاتون سے ترجمان صاحب نے شادی کر لی تھی؟ میں نے روزنامہ مسلمان اسلام آباد کے پرنٹنگ پریس میں چھپنے والا اس واقعہ کے حوالے سے پمفلٹ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر واقع ستارہ مارکیٹ اسلام آباد میں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار سمیع اللہ جو کہ اپنے والدین کی انتھک کوششوں کے بعد اب رہا ہو چکا ہے کو ٹی ٹی پی نے بے سہارا کیوں چھوڑ دیا؟ کیا اسلامی شرعی مجاہدین کی تنظیم مشکل وقت میں اپنے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے؟ محترمی آخر میں کہنا چاہوں گا کہ ٹی ٹی پی کو بنانے والے آئی ایس آئی کے لوگ اب اپنی نوکریاں ختم کر چکے ہیں اور ان کے دور ملازمت میں ہی ٹی ٹی پی ان کے ہاتھوں سے نکل کر غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئی تھی۔ ٹی ٹی پی کا لٹریچر پڑھ کر یا مخصوص ذہنوں کی جانب سے جہاد کے بارے میں تحریر پڑھ کر مسلمانوں کا جذبہ ایمانی تو جاگ جاتا ہے لیکن یہ جہاد کیسے اور کہاں کرنا ہے اس بارے میں ٹی ٹی پی جو کچھ کر رہی ہے اس پر دل مطمئن نہیں ہے۔ اگر ٹی ٹی پی کے پاس میرے ان سوالات کے جوابات موجود ہیں یا ان کی تردید آپ کر سکتے ہیں تو بتا دیں۔ آپ کی سہولت کے لیے یہ بھی بتا دوں کہ میں اسلام آباد ہی کا رہائشی ہوں لال مسجد سے چند قدموں کی مسافت پر رہتا ہوں بطور پیشہ صحافی ہوں پاکستان اور افغانستان میں موجود متعدد تربیتی کیمپس کا اپنے طور پر دورہ کر چکا ہوں اور یہاں اپنے لکھے ایک ایک حرف کے مصدقہ ہونے کا یقین کامل ہے مجھے۔
اللہ تعالیٰ مجھ سمیت ہم سب مسلمانوں کو دین اسلام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔