قرآن حکیم سے چند دلائل
پہلی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اوراے مسلمانو تم سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ(سورۃ النور،آیت 31)
یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:
(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔حدیث نبوی ہے:
(
العینان تزنیان وزناھما النظر)
"آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا (ناجائز) دیکھا ہے۔"(مسند احمد:2/343)
پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:
(ترجمہ)شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔(مسند احمد: 2/343)
لہذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس وعصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔
(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ
ترجمہ: "اور وہ اپنے گریبانوں پر ڈوپٹے ڈال لیا کریں۔"(سورۃ النور،آیت 31)
خمار (جس کی جمع خمر ہے ) اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے،مثلا برقعے کا نقاب وغیرہ۔
جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔
(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں،مثلا بیرونی لباس،اسی لیے قرآن نے (
إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "
سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ،یوں نہیں فرمایا: (
الا ما اظھرن منھا) "
سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔"
(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے،یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔
طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے،مردانہ ااوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔اس سے دو امور ثابت ہوئے:
مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔
بلاشبہ پردےکے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وافتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے ،لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے (سورۃ النور:آیت 31)
یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔
جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا،مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ ،حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چندکہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔
دوسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلْقَوَٰعِدُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ ٱلَّٰتِى لَا يَرْجُونَ نِكَاحًۭا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌۭ لَّهُنَّ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ﴿60﴾
ترجمہ: اوروہ بڑی بوڑھی عورتیں جو نکاح کی رغبت نہیں رکھتیں ان پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ کریں اور اس سے بھی بچیں توان کے لیے بہتر ہے اور الله سننے والا جاننے والا ہے (سورۃ النور،آیت 60)
اس آیت کریمہ سے پردے کے واجب ہونے پر وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑی عورتوں سے گناہ کی نفی کی ہے جو سن رسیدہ ہونے کے سبب نکاح کی اُمید نہیں رکھتیں،اس لیے کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے مردوں کو ان کے ساتھ نکاح میں کوئی رغبت نہیں ہوتی لیکن اس عمر میں بھی چادر اتار رکھنے پر گناہ نہ ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے ان کا مقصد زیب و زینت کی نمائش نہ ہوچادر اتار دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے صرف ہ کپڑے مراد ہیں جو عام لباس کے اوپر اس لیے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو عام لباس سے عموما باہر رہتے ہیں،جیسے چہرہ اور ہاتھ،چھپ جائیں،لہذا ان بوڑھی عورتوں کو جنہیں کپڑے اتارنے کی رخصت دی گئی ہے اس سے مراد مذکورہ اضافی کپڑے (چادریں،برقعے وغیرہ) ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔اس حکم کی عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ تخصیصی دلیل یہ ہے کہ جو ان نکاح کی عمر والی عورتوں کا حکم ان سے مختلف ہے کیونکہ اگر سب عورتوں کے لیے اضافی کپڑے اتار دینے اور صرف عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی تو سن رسیدہ و نکاح کی عمر سے گزری ہوئی عورتوں کا بالخصوص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔
مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ (
غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ)"بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں" اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ نکاح کے قابل،جواب عورتوں پر پردہ فرض ہے چونکہ عام طور پر جب وہ اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں تو اس کا مقصد زینت کی نمائش اور حسن و جمال کی مدح و توصیف کریں اس قماش کی عورتوں میں نیک نیت شاذونادر ہی ہوتی ہیں اور شاذونادر صورتوں کو عام قوانین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
تیسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا﴿59﴾
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں۔صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رکھنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے،لہذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہو گی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔
اور "
جلباب" اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جائے۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔
عبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت علی رضی اللہ عنہ)کا بیان ہے ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ الاحزاب،آیت :59)
چوتھی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِىٓ ءَابَآئِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآئِهِنَّ وَلَآ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ أَخَوَٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ ۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدًا ﴿55﴾
ترجمہ: ان پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اورنہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ اپنے غلاموں کے اور الله سے ڈرتی رہو بے شک ہر چیز الله کے سامنے ہے (سورۃ الاحزاب،آیت 55)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب عورتوں کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تو یہ بھی بیان فرمادیا کہ فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں سے پردہ واجب نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ
ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں (سورۃ النور،آیت 31)
قرآن حکیم میں سے یہ چار دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کو پردہ کرنا واجب ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے صرف پہلی آیت اس مسئلہ پر پانچ وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔