• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کثیر اھلحدیثوں کو توحید الوہیت کا سبق پڑھنے کی ضرورت ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کثیر اھلحدیثوں کو توحید الوہیت کا سبق پڑھنے کی ضرورت ہے

تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی

مساجد کو مسیحی شرکیہ رسومات کے لیے پیش کرنا عظیم ترین جہالت ہے جس کا سلف سے کر خلف کوئی ثبوت نہیں، بلکہ یہ ایک جدید دین(دین انسانیت) اور سُنت سیئہ کا جاری کرنا ہے جس کا وبال اس کے اہل پر برابر پڑتا رہے گا۔

محکم قرانی نصوص (وان المساجد لله فلا تدعوا مع الله احدا) اور (فى بيوت اذن الله ان ترفع ويذكر فيها اسمه) اور (اتخذوا احبارهم ورهبانهم أربابًا من دون الله والمسيح ابن مريم) اور انکار مُنکر اعظم (یعنی شرک) اور کُفر بالطاغوت جیسی کثیر محکم نصوص ایک ایسی اساس اور اصل دین ہے جس کے ہوتے ہوئے حدیث نجران جیسی ضعیف روایت یا قول فُلان و علان سے اسکا ابطال بصورت استثناء کرنا اور مساجد اللہ میں کُفار کو شرک کی دعوت دینا بجائے خُود ایک عظیم گُمراہی ہے۔

اولاً تو ہمیں تنازع اقوال کی صورت میں (فردوہ الی اللہ والرسول) کا حُکم ہے خواہ کوئی بھی ہو اور ثانیاً اگر کوئی حدیث نجران کی لنگڑی لولی اور ناقابل استناد تاریخی روایت کو پیش بھی کرے تو دعوت دین کے دوران مسجد میں موجود کفار کو اپنی نماز کا وقت آجانے پر وقتی رُخصت دینا ہے جو یقینا شرکیہ شعار کے اظہار سے خالی، اتفاقی اور دعوتی مجلس کے تابع ہو۔

اس میں خود ساختہ توسع کرتے ہوئے مساجد اللہ کو مطلقا اُن کی مقصد عبادت کے تابع کردینا جبکہ اُن کی نجاست حسی و معنوی اور ارادی و غیر ارادی بے حُرمتی سے بھی یہ مامون نہ ہوں صرف تاریخ اور منھج ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ ملت ابراہیمی سے بھی بغاوت ہے۔

فرمان الہی ہے ﴿قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ في إِبراهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَآءُ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَداوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّى تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ إِلّا قَولَ إِبراهيمَ لِأَبيهِ لَأَستَغفِرَنَّ لَكَ وَما أَملِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيءٍ رَبَّنا عَلَيكَ تَوَكَّلنا وَإِلَيكَ أَنَبنا وَإِلَيكَ المَصيرُ﴾ [الممتحنة: ٤]۔

فرمان الہی ہے ﴿مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِینَ أَن یَعۡمُرُوا۟ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ شَـٰهِدِینَ عَلَىٰۤ أَنفُسِهِم بِٱلۡكُفۡرِۚ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ حَبِطَتۡ أَعۡمَـٰلُهُمۡ وَفِی ٱلنَّارِ هُمۡ خَـٰلِدُونَ﴾ [التوبة ١٧]

ترجمہ:۔ مشرکوں کا ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ اللہ کی مساجد (اپنی عبادات وغیرہ کے ساتھ) آباد کریں اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کُفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

(ان یعمُروا): لفظ عمارة عربی میں تعمیر واصلاح اور اسی طرح عبادات وغیرہ کے ذریعے آباد کاری دونوں معانی پر دلالت کرتا ہے۔ اور دونوں ہی مفسرین نے الگ الگ یا اکٹھے مُراد لیے ہیں۔

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی دونوں ذکر کرنے کے بعد دوسرے معنی یعنی مشرکین کا مساجد کو اپنی عبادات ورسومات کے ذریعے آباد کرنے کو یہاں انسب قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں " عمارة المساجد تكون بمعنيين:
أحدهما: عمارتها الحسية ببنائها وإصلاحها وترميمها، وما أشبه ذلك.
والثاني: عمارتها المعنوية بالصلاة فيها، وذكر الله وتلاوة كتابه، ونشر العلم الذي أنزله على رسوله، ونحو ذلك.
وقد فسرت الآية بكل واحد من المعنيين، وفسرت بهما جميعا، والمعنى الثاني أخص بها
" ۔

اسی طرح شیخ السعدی رحمہ اللہ تعالی بھی مشرکین کی عبادات اور نمازوں وغیرہ کو ہی یہاں ذکر کیا، “بالعبادة، والصلاة، وغيرها من أنواع الطاعات”۔

اور بلکہ یہ امر علمائے اُمت اور مفسرین میں اتفاقی ہے، اور یہ آیت مبارکہ اپنی دلالت میں ایک صریح نص ہے کہ مشرکین کسی صورت مساجد اللہ میں اپنی عبادات کا حق نہیں رکھتے۔

بلکہ اسی آیت کی روشنی میں مفسرین نے بیان کیا کہ مسلمانوں پر مشرکین کو مساجد اللہ میں عبادات سے روکنا واجب ہے جیسا کہ بغوی اور واحدی اور دیگر رحمہم اللہ کی تصریح موجود ہے(اوجب علی المسلمین منعھہم من ذلک

پھر (ما کان له ان یفعل) کا قرانی اسلوب انتہائی زوردار ہے جو کسی بات کا مکمل استحقاق چھین لیتا ہے جیسا کہ (للمشرکین) میں لام استحقاق اور (ما کان)نفی بلیغ کے لیے ہے۔ سبحان اللہ۔

بالکل ایسے جیسے فرمایا (ما كان للنبي أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا اولي قربى) یعنی “اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں”۔

ممکن ہے یہاں بھی کوئی منچلا عالم کُفر کو سافٹ امیج دکھانے کے چکر میں کہ دے کہ جائز ہے، اس لیے کہ قطعیت دلالت میں دونوں اسلوب ایک جیسے ہیں۔ بلکہ مشرکین کی مساجد اللہ میں عبادات کی حُرمت پر تو خصوصی نصوص شریعت موجود ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ہم نے کل کی پوسٹ میں کیا۔

بعض مولویوں کو اس موقع پر “اختلافی موقف” کا خیال بھی آرہا ہے جو بذات خود جہل ہے۔ اگر ہر اختلاف قابل التفات ہوتا تو دین اسلام کے مسلمات اور قطعیات سمیت کُچھ بھی محفوظ نہ رہتا۔

مساجد میں مشرکین کو اپنی عبادات کی دعوت دینے کی حُرمت ایک اصل اصیل ہے جس کے خلاف پوری تاریخ تشریع اسلامی میں معمولی استثناء ہے نہ اختلاف۔

پھر مخالف موقف والے کون ہیں؟؟ کیا یہ وُہی تو نہیں جنہیں ایک “رہنما” عرب ریاست کے “دین انسانیت” اور ہندو مندروں اور یہودی عبادت گاہوں کی تکریم میں بھی شرک اور طاغوت نظر نہیں آتا اور جس کے نتیجے میں عرب امارات میں مسجد، گرجا اور کلیسا کا مرکب ایک “بیت ابراہیمی” بھی وجود میں آچُکا اور جس کا ایک پُرانا خطیب حج پوری دُنیا میں دین انسانیت کے نام پر الحاد کا پرچارک بنا ہوا ہے؟

عین ممکن ہے کہ سانحہ جڑانوالہ بھی اسی طرح کے شرپسندوں کی کاروائی ہو جو اس کی آڑ میں بد امنی اور فساد کے ساتھ ساتھ مساجد اللہ کو مشرکین کے لیے کھول کر ہمارے مُلک میں بھی اسی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہوں۔ کاش یہ حرکت خود کو اہلحدیث کی طرف منسوب کرنے والوں نے نہ کی ہوتی۔

کہتے ہیں دُنیا میں سوفٹ امیج کا ڈنکا بج گیا ہے۔ اگر یہود ونصاری کو راضی کرکے ہی سافٹ امیج دکھانا ہے تو پھر اُن سے ملّی اتحاد ہی کرلو تاکہ آجکل کے خبیث نظریہ “اتحاد ادیان سماویہ یا ابراہیمیہ” کی روح پر عمل ہوجائے جس کی طرف کئی عرب ریاستیں ایم بی س کی سرپرستی میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔

اصل پذیرائی تو کُفر سے تب ہی ملے گی، جیسا کہ قران کریم نے بیان کیا (ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى حتى تتبع ملتهم)۔ تو یہ درحقیقت اُنکی ملت کی پیروی ہے جس کے پروٹوکول میں اسلام اور یہودیت و نصرانیت کو برابر کی سطح پر لانا اور فرق مٹانا ہے۔ اس کا مقصد نہ غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف عدل کا حصول ہے نہ شعائر اللہ کی تعظیم۔

پھر ان جہلاء کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ قابل احترام مخالف موقف صرف ہوائے نفس یا ذوق نفس یا جعلی حکمت کا نام نہیں بلکہ وہ ہے جس کی نصوص شریعت محتمل ہوں، اشتراک لفظی کی بنا پر، یا تعارض ادلہ کی بنا پر، یا ادلہ صحیحہ سے طُرق استنباط وغیرہ کے فرق کی بنا پر وغیرہ۔

اور جہاں قطعیات کے بالمقابل مجرد رائے کو بنیاد بنایا جائے، اور وُہ بھی سیاق اور زمان و مکان کی رعایت کے بغیر، کہ جامعیت مُطلقہ صرف علم وحی کو حاصل ہے، تو ایسی کسی رائے کو تو فضائل اعمال کے اثبات میں بھی قبول نہیں کیا جاتا چہ جائیکہ شرکیات کے اثبات اور اصول دین کی مُخالفت میں قبول کیا جائے۔

بلکہ آج تک ایک بھی معتبر عالم اُمت کے ہاں نہیں دکھایا جاسکتا کہ اُس نے یکجہتی کے لیے مساجد اللہ کو مشرکین کی عبادت کے لیے پیش کرنے کا موقف اپنایا ہو۔ ہاں مسجد میں مشروط داخلے پر اجتہادی اختلاف ضرور ہے اور اُسے ہم سائغ مانتے ہیں۔ رہا مسجدوں کو چرچ بنانا تو جناب مجتہد صاحب اسلام اس مقصد کے لیے نہیں بلکہ چرچ کو مسجد بنانے کے لیے آیا تھا۔ اور عبادت گاہ اینٹوں اور لیبل سے نہیں بلکہ منھج اور طریقہ عبادت سے ہی پہچانی جاتی ہے۔

کیا دیکھتے نہیں کہ اللہ رب العزت نے منافقوں کی بنائی ہوئی مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے سے روک دیا اور حکم دیا کہ اُسی مسجد میں نماز پڑھی جائے جس کی بُنیاد تقوی پر ہے(لمسجد اُسس على التقوى من اول يوم احق ان تقوم فيه)، اور ادھر یہ مولوی صاحب مسجد کے اندر متوازی (parallel) چرچ بنا کر مُعتدل بننے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کا دماغ اُلٹا چل رہا ہے تو عوام اہلحدیث کو اجتہاد اور اختلاف رائے کے نام پر دھوکہ مت دیجیے۔ ان شاء اللہ یہ شرارت کامیاب نہیں ہوگی۔

رہا اس قسم کا “مخالف موقف” جو قطعیات دین کے مخالف بلکہ اللہ اور اُس کے رسول پر “تقول” یعنی اُن سے جھوٹ منسوب کرنا ہے تو باذن اللہ تعالی ہم بڑے احترام سے اسے بُوٹ کی ٹھوکر پر رکھتے ہیں اور رکھتے رہیں گے۔
 
Top