غیر اللہ کی پوجا اور شرک ختم کون کرے گا؟ یہی تو بار بار میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہ فتنے پاکستان میں موجود ہیں، اور فتنوں کو ختم کریں تب ہی امن ہو گا، اب یہ فتنے آسانی سے تو ختم نہیں ہوں گے آپ جب بھی ان کو ختم کرنے کی بات کریں گے پورے ملک کے مشرک اور بدعتی آپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، دعوت سے اگر تھوڑا بہت فرق پڑتا بھی تو وہ اتحاد امت کے نام پر چھوڑ کر آپ ان کے مزاروں پر جا کر بیٹھ گئے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں زمین وآسمان کے رب نے فتنوں کو ختم کرنے کے لئے کیا ارشاد فرمایا ہے:
وَقَـٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ۔۔۔سورۃ البقرۃ
اگر اللہ تعالیٰ کے اس بتائے ہوئے طریقے سے آپ متفق نہیں ہیں تو بتائیں پھر کس طریقے سے فتنے ختم ہوں گے جناب
ابو بصیر صاحب۔
اللہ سمجھنے کی توفیق دے
بھائی ہم تو اگر اِن بدعتیوں کو اپنے پرگراموں میں بلاتے ہیں تو وہ صرف اور صرف جہاد کی ضرورت کے لیے بلاتے ہیں کیوں کہ جب جہاد کے لیے ضرورت تھی تو ہمیں سیرت النبی سے یہی ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر یہودیوں کو بھی معاہدہ کرکے ساتھ شامل کیا! اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بھی ہوتا تھا نبی اکرم اُس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے تھے مشاورت میں۔۔۔۔۔ بھئی ہم تو سیرت النبی سے لیکر ہی یہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ اگر ہمیں جہاد کی وجہ سے اِن کو ساتھ ملانے پر لعن طعن اور برا بھلا کہا جاتا ہے تو کل کو یہ حضرات نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کریں گے کہ نبی اکرم نے منافقین اور یہودیوں سے معاہدے کیے ؟؟؟؟
میثاق مدینہ
حضور ا اور صحابہ کرام ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اوس اور خزرج کے قبیلے رہتے تھے، جو مسلمان ہوچکے تھے ،یہاں پر مدینہ کے قرب وجوار میں یہود کے تین قبائل بھی آباد تھے: بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ۔ اس لئے ۵/ماہ بعد آپ نے مہاجرین ، انصار اور یہود کو جمع کیا اور ایک معاہدہ تحریر کرایا ،جسے میثاق مدینہ کہتے ہیں اور یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے، مقصد یہ تھا کہ اہل مدینہ باہم حسن سلوک سے رہیں اور اسلامی ریاست کی دفاعی پوزیشن مضبوط ہوجائے، اس کی اہم دفعات حسب ذیل ہیں:
۱:...مسلمان اور یہود آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ہمدرد رہیں گے۔
۲:... کسی شر پسند کی حمایت نہیں کریں گے۔
۳:...قتل پر شہادت قائم ہو تو قصاص لیا جائے گا، لیکن مقتول کے ورثاء اگر خون بہا معاف کردیں تو قاتل کی جان بچ جائے گی۔
۴:... یہود اور مسلمانوں میں سے کسی فریق کو اگر کسی تیسرے فریق سے جنگ کی نوبت آئے تو دوسرا فریق اس کی مدد کرے گا۔
۵:...کوئی فریق قریش مکہ اور ان کے مددگاروں کو اپنے پاس نہیں ٹھہرائے گا۔
۶:...مدینہ پر حملہ ہوا تو یہود مسلمانوں کی جان ومال سے مدد کریں گے یعنی مشترکہ دفاع کیا جائے گا۔
۷:... یہود کو مذہبی آزادی ہوگی، ان کی مذہبی رسوم کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
۸:...ہر قبیلہ خود ہی اپنے قاتل کی طرف سے خون بہا ادا کرے گا، اسی طرح اپنے قیدی کو خود ہی فدیہ دے کرچھڑائے گا۔
۹:...جو یہود مسلمانوں کے تابع ہوکر رہیں گے ان کے جان ومال کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی۔
۱۰:...کوئی فریق اپنے دشمن سے صلح کرلے تو دوسرا فریق بھی اس صلح کا پابند ہوگا۔
۱۱:...کوئی فریق حضور ا کی اجازت کے بغیر کسی سے جنگ نہ کرے گا۔
۱۲:...اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ آنحضرت افرمائیں گے۔
اس معاہدے سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہوگئی، اس کا تحریری دستور وجود میں آگیا، تمام اختیارات سرور دوعالم ا کے دست مبارک میں آگئے۔
لیکن پھر بعد میں تینوں قبیلوں نے عہد شکنی کردی تھی اُس کا اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔دو قبیلوں کو نکالا تھا اور تیسرے قبیلے کو قتل کردیا تھا