شرک کی مذمت
اللہ وحدہ لا شریک نے قرآن مجید،فرقان حمید میں اور نبی آخرالزماں،فخرالرسل،دانائے سبل،امام اعظم،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں جس قدر شرک کی مذمت اور توحید کا اثبات کیا ہے اتنا کسی اور مسئلے پر زور نہیں دیا۔آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آخری نبی ﷺ تک ہر رسول و نبی نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی:
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًۭا ۗ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌۭ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا۟ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَٰحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌۭ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿85﴾
ترجمہ: اورمدین کی طرف اس کے بھائی شعیب کو بھیجا فرمایااے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہار کوئی معبود نہیں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل پہنچ چکی ہے سو ناپ او رتول کو پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان دار ہو (سورۃ الاعراف،آیت 75)
لیکن ان کی قوموں نے ان کی دعوت قبول نہ کی اور شیاطین و طواغیت کی عبادت میں لگے رہے ،اللہ تعالیٰ نے شیاطین و طواغیت کی عبادت کو شرک قرار دے کر مشرک کے لیے ابدی جہنمی ہونے کا فیصلہ صادر فرما دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۭوَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ۭوَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ﴿72﴾
ترجمہ:بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے اور مسیح (علیہ السلام) نے کہا اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔(سورۃ المائدہ،آیت72)
ایک اور مقام پر اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا قطعی فیصلہ ملاحظہ فرمائیں:
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿48﴾
ترجمہ: اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا (سورۃ النساء،آیت48)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا﴿116﴾
ترجمہ: اللہ اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا (سورۃ النساء،آیت116)
اس کائنات میں انسان کئی قسم کے گناہ اور مظالم سر انجام دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ قَالَ لُقْمَٰنُ لِٱبْنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَىَّ لَا تُشْرِكْ بِٱللَّهِ ۖ إِنَّ ٱلشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌۭ ﴿13﴾
ترجمہ: اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے (سورۃ لقمان،آیت 13)
معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔اس لیے نبی کائنات،امام الموحدین،سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ نہ بتاؤں ؟آپ ﷺ نے یہ جملہ تین بار دہرایا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا"کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ !آپ ﷺ نے فرمایا:"اللہ کے ساتھ شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی۔"(صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب ما قیل فی شھادۃ الزور2654عن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ)
پس والدین کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اولاد کو شرک جیسے عظیم گناہ سے بچنے کی تعلیم دیں اور انہیں عقیدہ توحید سمجھائیں۔ایک اور مقام پر فرمایا:
حُنَفَآءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِۦ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ ٱلطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ ٱلرِّيحُ فِى مَكَانٍۢ سَحِيقٍۢ﴿31﴾
ترجمہ: خاص الله کے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو الله کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے (سورۃ الحج،آیت31)