رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
کیا امام زہری مدلس تھے؟
امام ابن شہاب الزہری کی تدلیس ثابت کرنے کے لئے صرف تین حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔
پہلا:
امام ابو حاتم الرازی ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "الزهري لم يسمع من عروة هذا الحديث، فلعله دلسه" زہری نے یہ حدیث عروہ سے نہیں سنی، شاید زہری نے تدلیس کی ہے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم 3/407 رقم 968)۔
شاید تدلیس کی ہے سے تدلیس ثابت نہیں ہوتی۔ امام زہری جیسے بڑے اور جلیل القدر امام کی اتنی تو حیثیت ہے کہ ان پر اتنا بڑا الزام صرف ایک شاید کی بناء پر نہ لگایا جائے۔ جو لوگ تحقیق کی باتیں کرتے ہیں ان کو تو کم از کم یہ حرکت نہیں کرنی چاہیے۔
دوسرا:
امام ترمذی ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "هذا حديث لا يصح لأن الزهري لم يسمع هذا الحديث من أبي سلمة" (سنن ترمذی: 1524)۔
محترم ابو عمر کاشف بھائی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: "یعنی یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ امام زہری نے ابو سلمہ سے سماع بیان نہیں کیا"۔ اور پھر ساتھ ہی لکھتے ہیں: "امام ترمذی نے امام زہری کے 'عن' کی وجہ سے اس روایت پر کلام کیا ہے، اور یہاں سے ان کی تدلیس بھی ثابت ہوتی ہے"
اب اگر ہم بھی اس ترجمہ اور اس ترجمہ کے بعد ان کے تصرف کو "جہالت" کا نام دے دیں تو غلط نہ ہو گا، کیونکہ یہ کہنے کہ "زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی" اور "زہری نے ابو سلمہ سے سماع بیان نہیں کیا" کہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے! پہلے قول کا مطلب یہ ہو گا کہ زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلا یہ روایت زہری سے اس طریق سے ثابت ہی نہیں، یا اس طریق کو بیان کرنے میں باقیوں نے مخالفت کی ہے وغیرہ، الغرض تدلیس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بناء پر کہا گیا کہ زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی جیسا کہ آگے آئے گا۔ جبکہ یہ کہنا کہ "زہری نے ابو سلمہ سے سماع بیان نہیں کیا" امام ترمذی پر بھی ایک بہت بڑا بہتان ہے! کیونکہ اس میں آپ بتانا چاہ رہے ہیں کہ محض سماع کہ نہ بیان کرنے پر ہی یہ روایت منقطع ہو گئی جس سے پڑھنے والے کو یہ دھوکا ہوتا ہے کہ امام ترمذی کے نزدیک واقعی زہری مدلس تھے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ کیا امام ترمذی نے زہری کی تدلیس کی بناء پر ہی یہ کہا ہے یا کچھ اور وجہ بھی ہو سکتی ہے؟ امام ترمذی کے اس قول میں کہیں صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے زہری کو مدلس کہا ہو۔ اور نہ ہی ابو عمر بھائی سے پہلے کسی عالم نے اس قول کو زہری کی تدلیس کے ثبوت کے لیے پیش کیا ہے۔ اور پھر ظلم تو یہ ہے کہ انہوں نے ترمذی کی اس عبارت کو ہی خلط ملط کر کے اپنے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ امام ترمذی کہ یہ کہنے کہ "زہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی" سے حتی الامکان یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ زہری سے یہ روایت بیان کرنے والے نے اس میں شذوز کیا ہے جبکہ یہ روایت اصلا ابو سلمہ سے نہیں بلکہ کسی اور سے مروی ہے۔ چنانچہ، اسی طرف امام ترمذی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ امام ترمذی کا مکمل قول ملاحظہ فرمائیں:
هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ، لِأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ سَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْهُمْ: مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
"یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ الزہری نے یہ حدیث ابو سلمہ سے نہیں سنی۔ میں نے محمد (بن اسماعیل البخاری) کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک سے زائد رواۃ، جن میں موسی بن عقبہ اور ابن ابی عتیق بھی شامل ہیں، نے اس روایت کو زہری سے سلیمان بن ارقم عن یحیی بن ابی کثیر عن ابی سلمہ عن عائشہ عن النبی ﷺ سے روایت کیا ہے۔" (سنن الترمذی: 1524)۔
اس سیاق کے بعد یہ کہنا بعید نہ ہو گا کہ امام ترمذی کے یہ کہنے کہ "زہری نے یہ روایت ابو سلمہ سے نہیں سنی" کا مطلب یہ ہو گا کہ اس روایت کو امام زہری نے اصلا ہی ابو سلمہ سے نہیں بلکہ سلیمان بن ارقم سے روایت کیا ہے جس کو بیان کرنے میں یونس کو غلطی لگی ہے، نہ یہ کہ زہری نے تدلیس کی ہے!!
تیسرا:
ابو جعفر الطحاوی فرماتے ہیں: "وهذا الحديث أيضا لم يسمعه الزهري من عروة إنما دلس به" اس حدیث میں بھی زہری نے عروہ سے نہیں سنا، کیونکہ انہوں نے تدلیس کی ہے۔ (شرح معانی الآثار 1/72 رقم 429)
ابو جعفر الطحاوی اگرچہ صدوق فی الحدیث ہیں لیکن متعصب حنفیوں میں سے ہیں۔ اپنے مذہب کی تائید میں بعید سے بعید تر تاویلات بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ علم حدیث سے ان کا ایسا تعلق نہیں کہ صرف ان کے قول کی بنیاد پر کسی راوی پر فیصلہ کیا جائے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "وَالطَّحَاوِيُّ لَيْسَتْ عَادَتُهُ نَقْدَ الْحَدِيثِ كَنَقْدِ أَهْلِ الْعِلْمِ ; وَلِهَذَا رَوَى فِي " شَرْحِ مَعَانِي الْآثَارِ " الْأَحَادِيثَ الْمُخْتَلِفَةَ، وَإِنَّمَا يُرَجِّحُ مَا يُرَجِّحُهُ مِنْهَا فِي الْغَالِبِ مِنْ جِهَةِ الْقِيَاسِ الَّذِي رَآهُ حُجَّةً، وَيَكُونُ أَكْثَرُهَا مَجْرُوحًا مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ لَا يَثْبُتُ، وَلَا يَتَعَرَّضُ لِذَلِكَ ; فَإِنَّهُ لَمْ تَكُنْ مَعْرِفَتُهُ بِالْإِسْنَادِ كَمَعْرِفَةِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهِ، وَإِنْ كَانَ كَثِيرَ الْحَدِيثِ، فَقِيهًا عَالِمًا" حدیث کی نقد طحاوی کی عادت نہیں ہے جیسا کہ اہل العلم نقد کرتے ہیں، اسی لیے انہوں نے شرح معانی الآثار میں کئی مختلف احادیث بیان کیں، اور اس میں سے جن کو بھی دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں تو اس میں زیادہ تر قیاس کی وجہ سے ہوتا ہے جسے وہ حجت سمجھتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر مجروح الاسناد غیر ثابت ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ کثیر الحدیث، اور فقیہ عالم تھے لیکن ان کی معرفتِ اسناد اہل العلم کی معرفت جیسی نہیں تھی ۔ (منہاج السنہ النبویہ لابن تیمیہ: 8/195-196)۔
اور اگر آپ اس حدیث کو کھول کر دیکھیں جس کہ تحت طحاوی نے امام زہری پر یہ الزام لگایا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس حدیث میں بھی طحاوی صاحب حنفیوں کے دفاع میں ہی بے جا لگے ہوئے ہیں اور ثقہ راویوں پر بھی جرح کرنے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا جرح و تعدیل اور علم حدیث امام ابن تیمیہ کے بقول طحاوی کا فن نہیں ہے تو کسی غیر ماہر اور متعصب شخص کی بناء پر ایسے الزام کی بنیاد رکھنا محققین کا شیوہ نہیں ہے۔
مزید یہ کہ امام طحاوی نے امام زہری کی عروہ سے مس الذکر والی حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث کو زہری نے عروہ سے براہ راست نہیں سنا بلکہ انہوں نے تدلیس کی ہے، اور اس تدلیس کو ثابت کرنے کے لیے طحاوی صاحب اگلی روایت زہری عن ابو بکر بن محمد بن عمرو عن عروہ سے روایت کرتے ہیں۔ گویا اگر زہری نے ایک روایت ابو بکر بن محمد عن عروہ اور عن عروہ دونوں طرق سے روایت کی تو امام طحاوی نے سمجھ لیا کہ زہری نے تدلیس کی ہے جبکہ اس میں ان کی کسی نے تائید نہیں کی ہے بلکہ الٹا امام ابن حزم نے المحلی میں اس روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ: " فَإِنْ قِيلَ: إِنَّ هَذَا خَبَرٌ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُرْوَةَ، قُلْنَا: مَرْحَبًا بِهَذَا، وَعَبْدُ اللَّهِ ثِقَةٌ، وَالزُّهْرِيّ لا خِلافَ فِي أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ عُرْوَةَ وَجَالَسَهُ، فَرَوَاهُ عَنْ عُرْوَةَ وَرَوَاهُ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عُرْوَةَ، فَهَذَا قُوَّةٌ لِلْخَبَرِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ." اگر یہ کہا جائے کہ اس خبر کو زہری نے عن عبد اللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم عن عروہ سے روایت کی ہے، تو ہم کہتے ہیں: مرحبا بہذا اور عبد اللہ ثقہ ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زہری نے عروہ سے سنا ہے اور ان کے پاس بیٹھے ہیں، تو انہوں نے اسے عروہ سے بھی روایت کر دیا اور عبد اللہ بن ابی بکر عن عروہ سے بھی روایت کر دیا، لہٰذا یہ خبر کے لیے قوت کا باعث ہے، والحمد للہ رب العالمین۔"
چنانچہ امام طحاوی کے برعکس امام ابن حزم کے نزدیک اگر امام زہری نے ایک روایت کو عبد اللہ بن ابی بکر عن عروہ سے اور پھر براہ راست عروہ سے بھی روایت کر دیا تو یہ ان کی تدلیس کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ زہری نے یہ روایت دونوں سے لی ہے۔
اس کے بعد عرض ہے کہ جس روایت میں طحاوی نے امام زہری پر تدلیس کا الزام لگایا ہے اسی روایت کے ایک دوسرے طریق میں امام زہری نے خود امام عروہ بن الزبیر سے سماع کی صراحت کر دی ہے۔ (دیکھیں تاریخ بغداد: 10/451، واسنادہ صحیح؛ ومسند الشامیین للطبرانی: 2875)۔ لہٰذا جس روایت کی بنیاد پر امام زہری پر تدلیس کا الزام لگایا گیا اس میں انہوں نے تدلیس کی ہی نہیں تو الزام کیسا!؟
لہٰذا، امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ پر تدلیس کا الزام غلط ہے ۔آپ تدلیس سے برئ ہیں اور آپ کی تمام معنعن روایات صحیح ہیں، والحمد للہ۔