• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
* کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے؟*

*✍ از قلم :*
*حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ*
ا============================


*الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، أما بعد :*


محترم قارئین! ایک بھائی نے سوال کیا کہ کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے؟


جواباً عرض ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیویاں عموماً اپنے شوہروں کو اُن کے نام سے نہیں بلاتی ہیں بلکہ "فلاں کے ابو، میرے محبوب وغیرہ“ جیسے کلمات سے پکارتی ہیں لیکن اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کو اُس کے نام سے مخاطب کرے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ جائز ہے کیونکہ اِس مسئلے کی دلیل دو ایسے نبیوں کی زندگی میں موجود ہے جنہیں اللہ تعالی نے ہمارا اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے. اور وہ ہیں:

*(1) خاتم النبین محمد ﷺ*
*(2) خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام*

* نبی کریم ﷺ کی زندگی سے دلائل :*


* پہلی دلیل :*
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

”قَالَ لِي رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى“.قَالَتْ: فَقُلْتُ:” مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟“. فَقَالَ: ” أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُوْلِيْنَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيْمَ “. قَالَتْ: قُلْتُ:” أَجَلْ وَاللہِ يَا رَسُوْلَ اللہِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ“.
”رسول اللہ ﷺ نے مجھے سے فرمایا:” میں خوب جانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب ناراض ہوتی ہو ؟“۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے کہا :” آپ یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟“۔ آپ ﷺ نے فرمایا:” جب تم مجھ سےخوش ہوتی ہو تو کہتی ہو : نہیں، محمد کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم! “۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:”جی ہاں، اللہ کی قسم یا رسول اللہ ﷺ، (ناراضگی میں) صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی ہوں“۔
(صحیح البخاری : 5228 وصحیح مسلم :2439)


*استدلال :* ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا جب خوش ہوتیں تو قسم کھاتے ہوئے کہتیں کہ ”محمد کے رب کی قسم! “ اور اِس بات کو رسول اللہ ﷺ نے خود ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا اور اپنے شوہر کا نام لینے پر آپ رضی اللہ عنہا کا تعاقب نہیں کیا، جو اِس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے۔


* دوسری دلیل :*
امام المفسرین عبد اللہ بن عباس القرشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

”أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: ”يَا رَسُوْلَ اللہِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِيْنٍ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ“. فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:”أَتَرُدِّيْنَ عَلَيْهِ حَدِيْقَتَهُ؟“. قَالَتْ:” نَعَمْ“. قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” اقْبَلِ الحَدِيْقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيْقَةً“.
”ثابت بن قیس الانصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : ”یا رسول اللہ ﷺ ! میں ثابت بن قیس پر دین یا اخلاق کے لحاظ سے کوئی عیب نہیں لگاتی، البتہ میں اسلام میں کفر کو نا پسند کرتی ہوں (یعنی حقوق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہوں)“۔ اِس پر نبی کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا: ” کیا تم ثابت بن قیس کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ “۔انہوں نے کہا : ”جی ہاں“۔ تب آپ ﷺ نے (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: ”باغ قبول کر لو اور انہیں چھوڑ دو“۔
(صحیح البخاری : 5273)


*استدلال :* نبی کریم ﷺ کے سامنے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کا نام لیا لیکن آپ نے اِس تعلق سے صحابیہ پر کوئی نکیر نہیں کی جو اِس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے۔


* ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے دلیل :*


امام المفسرین عبد اللہ بن عباس القرشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ نے کہا :
”يَا إِبْرَاهِيْمُ، أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ؟...“.
”اے ابراہیم! آپ ہم کو اِس وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں جس میں نا کوئی انسان ہے اور نا ہی کوئی چیز؟ “۔
(صحیح البخاری : 3364)


*استدلال :* اسماعیل علیہ السلام کی والدہ نے اپنے شوہر ابراہیم علیہ السلام کا نام لے کر انہیں پکارا اور اُن سے سوال کیا، پھر بعد میں ابراہیم علیہ السلام نے اپنی شریک حیات کو جواب بھی دیا لیکن جو ام اسماعیل -علیہا السلام- نے آپ -علیہ السلام- کا نام لے کر پکارا، اِس پر ابراہیم علیہ السلام نے کوئی نکیر نہیں کی جو اِس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے۔


*مذکورہ دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بیوی کا اپنے شوہر کا نام لینا بے ادبی نہیں ہے اور نا ہی شوہر کی شان میں گستاخی ہے اور نا ہی شوہر کا نام لینے سے نکاح ٹوٹتا ہے جیساکہ بعض جاہلوں کا ماننا ہے۔*


* خلاصۃ التحقیق :*
بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے،یہ ادب کے خلاف یا شوہر کی شان میں گستاخی نہیں ہے اور نا ہی شوہر کا نام لینے سے نکاح ٹوٹتا ہے ۔ واللہ أعلم و علمہ أتم.


*وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین.*


* ناشر : البلاغ اسلامک سینٹر*
*11-صفر-1445ھ*
*29-اگست-2023ء*
 
Top