• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا تمام عالم اسلام کے لئے ایک ہی دن عیدین منانا شرعاً ضروری ہے؟

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا تمام عالم اسلام کے لئے ایک ہی دن عیدین منانا شرعاً ضروری ہے؟

بعض لوگ دُور دراز اور غیر ممالک کی رؤیت کو دلیل بنا کر عام مسلمانوں سے الگ روزے، عیدین اور قربانی وغیرہ کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے رمضان، عاشورہ، عرفہ کے روزے، اعتکاف اور عیدین وغیرہ کے ایام میں عجب انتشار نظر آتا ہے۔ کیا کسی مسئلے میں اپنی رائے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے؟ یقینا نہیں دیتا۔

خیر القرون میں اتحادِ اُمت کے نام پر ایسی صورت کبھی بھی پیش نہیں آئی اور موجودہ دور میں بھی اختلاف کی یہ صورت حال دراصل ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی پیدا کردہ ہے جن کے ذریعے ایک خبر منٹوں اور سیکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ آج سے تقریباً پچاس ساٹھ سال پہلے تک جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور نہ یہ سائنسی آلات ایجاد ہوئے تھے، تو کیا اس وقت اسلام مکمل نہیں تھا؟ اسلامی احکامات ہر دور کے لئے ہیں اور اہل اسلام کو ’’صوموا لرؤیتہ‘‘ (الحدیث) کا حکم پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے اور قیامت تک یہی حکم رہے گا۔

ہر شہر والوں کے لئے اُنہی کی رؤیت کا اعتبار ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، خلفاء راشدین اور سلف صالحین سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہے کہ مدینہ منورہ میں نظر آنے والے چاند کو دور دراز کے شہروں اور دیگر ممالک کے لئے کافی قرار دیا گیا ہو۔ یا دوسرے شہروں میں بھی چاند نظر آنے کا حکم جاری کیا گیا ہو۔

جناب کریب رحمہ اللہ مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں جب میں ملک شام میں تھا تو میں نے خود بھی جمعہ کی رات ماہِ رمضان کا چاند دیکھا۔ اور مدینہ میں ہفتہ کی شام کو دکھائی دیا۔ پھر اسی مہینہ کے آخر میں جب میں مدینہ آیا تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کب چاند دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ جمعہ کی رات کو۔ انہوں نے فرمایا کہ تم نے خود چاند دیکھا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں اور دوسرے کئی لوگوں نے بھی دیکھا تھا نیز اُن سب نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ t نے بھی روزہ رکھا۔ اس موقع پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لکنا رایناہ لیلۃ السبت فلا نزال نصوم حتی نکمل ثلاثین او نراہ فقلت اولا تکتفی برؤیۃ معاویۃ و صیامہ فقال لا! ھکذا امرنا رسول اﷲ (صحیح مسلم:۲۵۲۸)۔


لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا تھا اس لئے ہم روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس روزے رکھ لیں اور یا پھر خود (شوال کا) چاند دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور روزوں کا اعتبار نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں (کیونکہ) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کا حکم دیا ہے (حدیث صحیح مسلم، سنن ابی داوٗد، جامع ترمذی، مسند احمد اور صحیح ابن خزیمہ وغیرھم)۔
علامہ عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ مرعاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:محققین حنفیہ، مالکیہ اور اکثر شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر دو شہروں کے درمیان فاصلہ اتنا کم ہو کہ اس سے مطلع میں فرق نہیں آتا جیسے بغداد اور بصرہ، تو وہاں کے باشندوں کے لئے کسی ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر والوں کے لئے معتبر ہو گی۔ اور اگر فاصلہ زیادہ ہو جیسے عراق، حجاز اور شام تو ہر شہر والوں کے لئے اُسی شہر کی رؤیت معتبر ہو گی۔

علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں اجماع نقل کیا ہے کہ دور دراز کے شہروں کے درمیان ایک دوسرے کی رؤیت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ مثلاً اُندلس (اسپین) اور خراسان (ایران) ۔ ہاں ایک بڑے شہر اور آس پاس کے شہروں کے لئے ایک شہر کی رؤیت معتبر ہو گی۔ (فتح الباری، تفسیر قرطبی جلد۲۔ صفحہ۲۹۵)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لا تصوموا قبل رمضان صوموا لرویتہ فان حالت دونہ غیابۃ فاکملوا ثلثین یوما (الترمذی:۶۸۸، ابوداؤد:۲۳۲۷، النسائی:۲۱۳۰)
رمضان سے قبل روزہ رکھنا شروع نہ کرو۔ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو اور اگر (تمہارے اور چاند کے درمیان) بادل حائل ہو جائیں تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رؤیت ہلال سے متعلق جو وضاحت فرمائی اس سے کسی صحابی یا تابعی نے اختلاف نہیں کیا۔ گویا اس مسئلہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام کا اجماع سکوتی پایا گیا۔ اس کے خلاف کسی صحابی اور تابعی سے کچھ بھی ثابت نہیں۔ اگر متاخرین نے اس سلسلہ میں کچھ کہا ہے تو وہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے اور بس۔

محدثین نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں حدیث کریب پر یہ باب منعقد کیا: ’’ہر شہر میں وہیں کی رؤیت معتبر ہے اور اگر کسی دوسرے شہر میں چاند دیکھا جائے جو اس شہر سے دور ہو تو اس شہر کے لئے اس کی رؤیت معتبر نہیں ہے‘‘۔ (صحیح مسلم:۲۵۲۸)

امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں باب باندھا ہے: ’’ اس بات کا بیان کہ جب دوسرے شہروں کی بنسبت کسی شہر میں ایک رات پہلے چاند نظر آجائے‘‘۔

حدیث باب اس بات کی دلیل ہے کہ تمام شہروں کے رہنے والوں کے روزے اور رمضان اپنی ہی رؤیت سے واجب ہیں نہ کہ ان کے غیر (دوسرے شہر) کی رؤیت سے۔ (یعنی دوسرے مقام کی رؤیت کا ان کے لئے کوئی اعتبار نہیں صرف اپنی ہی رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا۔

امام ترمذی جو اکثر مسائل میں اختلاف ائمہ بھی ذکر کرتے ہیں، اس مقام پر انہوں نے کسی کا اختلاف ذکر نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سلف صالحین کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا اور اختلاف بعد میں شروع ہوا۔

البتہ جن جن شہروں کا مطلع ایک ہی ہے اور چاند ان شہروںمیں عموماً ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں بآسانی نظر آجاتا ہے (مثلاً کراچی اور حیدرآباد) تو اگر ان میں سے کسی شہر میں بادلوں کی وجہ سے چاند نظر نہ آسکا تو پھر دوسرے شہر کے چاند کا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے کتاب الشمس والقمر بحسبان ۔ از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ)۔

غور طلب بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس دور میں مملکت اسلامیہ کے سربراہ اور خلیفہ تھے لیکن اس کے باوجود سیدنا ابن عباس w نے امیر المؤمنین کے اس عمل کو اپنے اور اہل مدینہ کے لئے حجت اور دلیل نہیں بنایا بلکہ اس سلسلہ میں انہوں نے آیت:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ ۔
’’پس اگر تمہارے درمیان کسی چیز پر کوئی اختلاف ہو جائے تو اُسے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف لوٹا دو‘‘۔ (سورئہ نساء:۵۹) پر عمل کرتے ہوئے براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو دلیل بنایا اور اس کا ثبوت ان کے یہ الفاظ ہیں: ھٰکذا امرنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (یعنی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے)۔

ماہرین علم فلکیات کے مطابق اختلافِ مطالع حقیقت پر مبنی ہے۔ یعنی مختلف مقامات پر چاند مختلف ایام و اوقات میں نظر آتا ہے جیسا کہ مغربی سمت کے ممالک میں عموماً چاند مشرقی ممالک کے مقابلے میں ایک دن یا کبھی دو دن پہلے نظر آتا ہے۔

پوری دنیا میں یہود و نصاریٰ کے ایک ہی تاریخ میں اپنے مذہبی تہوار منانا ہمارے لئے حجت نہیں کیونکہ عیدین مسلمانوں کے لئے تہوار ہی نہیں ہیں بلکہ نماز و روزے کی طرح یہ بھی عبادات ہیں۔ مسلمانوں کو صیامِ رمضان، عیدین اور مناسک حج وغیرہ کی بجا آوری کے لئے رؤیت ہلال کا پابند کیا گیا ہے۔ جیسا کہ رسول اﷲ eنے فرمایا: صوموا لرویتہ (صحیح بخاری و مسلم) ۔

اگر تمام مسلمانوں کا ایک ہی دن عید وغیرہ منانا وحدت اُمت کے لئے ضروری ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس بات کا حکم دیتے۔ جب پوری دنیا میں مسلمانوں کا اپنے اپنے شہر کے نظام الاوقات کے مطابق سحر و افطار اور نمازیں ادا کرنا وحدتِ اُمت کو متاثر نہیں کرتا تو اپنے اپنے مطلع کے مطابق چاند دیکھ کر روزہ شروع کرنے اور عید منانے سے وحدتِ اُمت کس طرح متاثر ہو سکتی ہے؟ و صلی اﷲ علیٰ نبینا محمد و الہ و صحبہ اجمعین والحمد ﷲ رب العالمین۔

اقباس و اختصار از فتاویٰ:
1 شیخ محمد ادریس سلفی (مفتی جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان)
2شیخ خلیل الرحمن لکھوی (شیخ الحدیث جامعہ الدراسات الاسلامیہ کراچی)
3شیخ حافظ محمد سلیم، (مفتی المعہد السلفی کراچی)
4شیخ عبدالحنان سامرودی (مفتی جامعہ دارالحدیث رحمانیہ کراچی)
5شیخ عبدالودود نورستانی (مفتی جامعۃ الاحسان الاسلامیہ کراچی)
6شیخ ابوعبداللہ سعید السعیدی (مفتی جامعہ انصاریہ کراچی)۔
7 شیخ منور احمد ذکی۔ (مفتی دارالافتاء والارشاد کورٹ روڈ کراچی)۔
8مفتی ابوجابر عبداللہ دامانوی ۔ (کیماڑی کراچی)۔ حفظہم اﷲ و جزاھم خیراً۔

تصدیق کنندگان:

1شیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی ۔ امیر جمعیت اہلحدیث سندھ۔
2شیخ ابو عبدالمجید محمد حسین بلتستانی ۔ مدیر تعلیم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی۔
3شیخ محمد یوسف قصوری ۔ امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث سندھ۔
4شیخ حافظ محمد انس مدنی ۔ وکیل جامعہ ستاریہ الاسلامیہ کراچی۔
5شیخ خلیق الرحمن ناصر ۔ شیخ الحدیث جامعہ ابی ہریرہ کراچی۔
6شیخ محمد ابراہیم بھٹی ۔ مدیر معہد الشیخ بدیع الدین۔ سپرہائی وے کراچی۔



لجنۃ الافتاء السلفیۃ (اھل حدیث فتوی کمیٹی)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ہاں ایک بات جو کل بھی عیاں تھی اور آج بھی کہ ’’عقیدہ توحید‘‘ پر کسی سے کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ الحمد للہ علی ذالک۔ ہم توحید ہی کی بنیاد پر لوگوں سے محبت بڑھاتے ہیں اور اسی بنیاد پرناراضگی بھی مول لیتے ہیں۔ ’’عقیدہ توحید‘‘ پر ضرب میرے عمل سے پڑے تو میں بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہوں جتنا ’’کلمہ نہ پڑھنے والا مشرک‘‘۔ کیونکہ
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ۰ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (سورة النسا:48)
اور خاص کر توحید کے متعلق اللہ تعالیٰ کے قوانین نہیں بدلا کرتے بھلے کوئی قبروں کی پوجا کرے یا زندوں مردوں کو پکارے۔ بت بنائے یا تصاویر کی پرستش کرے۔
فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ۰ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۰ۥ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا(سورة الفاطر:43)
 
Top