• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دینی معاملات میں عقل معیار بن سکتی ہے ؟

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
کیا دینی معاملات میں عقل معیار بن سکتی ہے ؟


آئیے چند ایسی احادیث کا مطالعہ کریں جو بظاہر عقل ظاہری کے خلاف نظر آتی ہیں کیونکہ اگر عقل کو بھی عقل سلیم نصیب ہو جائے تو وہ حقیقت کی ان باریک باتوں کی تہہ تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

پہلی حدیث​


(۱) ’’ جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دے۔اس لئے کہ شیطان (منہ کے) اندر داخل ہو جاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقاق)۔

’’ جناب ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمائی لینا شیطان کی طرف سے ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو حتی الامکان اس کو روکے کیونکہ جب جمائی لیتے وقت کوئی ہا کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب بدا الخلق)۔

جناب انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون جاری و ساری رہتا ہے ‘‘۔(بخاری و مسلم)

شیاطین اور جنات کا انسانوں کے ساتھ جو گہرا تعلق ہے وہ کسی مبتدی طالب علم سے بھی پوشیدہ نہیں وہ انسان کے ساتھ کھانے پینے اور دیگر کاموں میں شریک رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ انسان میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ جیسے خون انسان کی رگوں میں گردش کرتا ہے لیکن کیا کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اس وقت اس کے جسم کے کس گوشے میں موجود ہے ؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص سر سید احمد خان (فرقہ نیچریت کے سربراہ)کی طرح ان کے وجود ہی کا انکار کر دے اور فرشتوں کو نیکی اور شیاطین کو بدی کی مجرد قوتیں ہی سمجھ لے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کا بھی انکار کر دیں۔

دوسری حدیث​

(۲) جناب ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمین قیامت کے دن ایک روٹی کی طرح ہو گی اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاتھ میں جنت والوں کی مہمانی کے لئے سمیٹ لے گا جس طرح تم میں سے ایک شخص سفر میں اپنی روٹی اپنے ہاتھ میں سمیٹ لیتا ہے۔ یہود میں سے ایک شخص آیا اور کہا اے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ آپ پر برکت نازل فرمائے کیا میں قیامت کے دن اہل جنت کی دعوت کے متعلق آپ کو خبر نہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کہ زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اسی طرح اس نے کہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کی طرف دیکھا پھر ہنسے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک کھل گئے پھر فرمایا کیا میں تم کو ان کے سالن کے متعلق نہ بتلائوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا سالن بالام ونون ہو گا لوگوں نے عرض کیا یہ کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیل اور مچھلی ہیں جن کی کلیجی کی نوک سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔(بخاری و مسلم)


یہ حدیث بھی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس میں فرمایا گیا ہے کہ زمین ایک روٹی کی طرح ہو گی اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ جنت والوں کی میزبانی فرمائیں گے۔ نُزُلاً لِاَھْلِ الْجَنَّۃِ زمین کو روٹی بنا کر جنتیوں کو کھلایا جائے گا اور جنتیوں کا سالن کیا ہو گا؟ وہ بیل اور مچھلی ہیں جن کی صرف کلیجی کی نوک سے ستر ہزار آدمی کھانا کھائیں گے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کا بھی انکار کر دیں۔

تیسری حدیث​

(۳) جناب قتادہ ؒ‘ جناب انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کا حشر چہروں کے بل کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ ذات جس نے دنیا میں اس کو پائوں کے بل چلایاکیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اس کو قیامت کے دن چہرے کے بل چلائے۔قتادہ ؒ نے کہا ہاں قسم ہمارے پروردگار کی عزت کی (ضرور قادر ہے)۔ (صحیح بخاری باب کیف الحشر ومسلم ‘ولفظہ للبخاری)

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کافروں کو پیروں کے بجائے سر کے بل چلائے گا یہ کیسے اور کیونکر ہو گا؟عقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ جو ذات انسان کو دنیا میں پیروں پر چلانے پر قادر ہے وہ قیامت کے دن سر کے بل بھی چلا سکتی ہے۔ موصوف ایک مقام پر فرماتے ہیں ’’ اگر کہا جائے کہ مردہ کا جسم ریزہ ریزہ ہو جائے یا آگ اسے جلا کر خاکستر کردے تو جلا دیا جانے والا کافر عذاب سے بچ گیا اس کے دونوں کانوں کے درمیان گرز کیسے مارا جائے گا اور عذاب کا دور اس پر کیسے گزرے گا تو اللہ کی قدرت اور ان اللہ علی کل شیء قدیر۔کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سبحان اللہ۔ اللہ کی قدرت سے کس کو انکار ہے لیکن قدرت کے ساتھ ساتھ اللہ کی ایک نہ بدلنے والی سنت بھی تو ہے اس کو نظر انداز کر دینا بھی تو اچھا نہیں۔(عذاب قبر ص۱۰)

راحت قبر اور عذاب قبر کی تمام احادیث کو جھٹلا بھی رہے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی نہ بدلنے والی سنت کے خلاف بھی قرار دے رہے ہیں پھر بھی فرماتے ہیں کہ اللہ کی قدرت سے کس کو انکار ہے موصوف کو چاہئے کہ وہ اس حدیث پر بھی ہاتھ صاف کر دیں کیونکہ یہ بات بھی عام سنت کے خلاف کہی جا رہی ہے۔

چوتھی حدیث​

(۴) ’’ جناب ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص ایک گائے کو ہانکے لئے چلا جا رہا تھا جب وہ شخص تھک گیا تو گائے پر سوار ہو گیا گائے نے اس سے کہا ہم کو اس کام (یعنی سواری) کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ہے لوگوں نے (اس واقعہ)پر اظہار تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ گائے اور بات کرتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا میں اس گائے کے بولنے پر ایمان لایا اور ابو بکرؓ و عمرؓ بھی ایمان لائے حالانکہ اس وقت ابو بکر ؓو عمرؓ وہاں موجود نہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پر حملہ کیا اور اس کو اٹھا کر لے گیا پھر بکری کا مالک وہاں پہنچا اور بھیڑئیے سے بکری کو چھین لیا۔ بھیڑئیے نے چرواہے سے کہا اس بکری کا سبع(پھاڑنے والے)دن کون محافظ ہو گا کہ اس روز میرے سوا بکری کا چرانے والا کوئی نہ ہو گا لوگوں نے یہ واقعہ سن کر کہا سبحان اللہ بھیڑیااور بات کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا میں اور ابو بکرؓوعمرؓ اس پر ایمان لائے حالانکہ اس وقت بھی ابو بکرؓوعمرؓ وہاں موجود نہ تھے۔ (بخاری و مسلم)

اگرچہ گائے اور بھیڑیا کا کلام کرنا بہت ہی تعجب انگیز بات ہے لیکن چونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے اس لئے امنا وصدقنا ہم اس بات کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں ہم مانتے ہیں کہ گائے اور بھیڑئیے کی طرح مردہ بھی کلام کرتا ہے اگرچہ اس کا کلام ہم نہیں سن سکتے۔اب موصوف اس حدیث کے بارے میں کس قوت ایمانی کا مظاہرہ کرتے اور کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ اس کا انتظار رہے گا میں تو کہتا ہوں کہ ایمان ہو تو ابو بکر صدیقؓ کی طرح کہ جب معراج کے سلسلہ میں کفار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلادیا اور آپ کا تمسخر اڑایا لیکن جب یہ واقعہ ابو بکر صدیقؓ کو معلوم ہواتو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے تو میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔

اگرچہ ایک رات میں بیت المقدس چلا جانا اور ساتوں آسمانوں کی سیر کرنا ‘جنت و جہنم کا مشاہدہ کرنا انسانی عقل کے نزدیک امر محال ہے لیکن چونکہ یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی اس لئے ابو بکر صدیق ؓ اس پر فوراً ایمان لے آئے۔

پانچویں حدیث​

(۵) جناب ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (ابو ذر) کیا تجھ کو معلوم ہے کہ جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا وہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے پھر طلوع ہونے کی اجازت چاہتا ہے اس کو اجازت دی جاتی ہے اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے گا اور طلوع ہونے کی اجازت چاہے گا تو اس کو اجازت نہ دی جائے گی اور یہ حکم دیا جائے گا کہ جس طرف سے آیا ہے ادھر ہی واپس جا اور ادھر ہی سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے طلوع ہو گا اور یہی مراد ہے اللہ کے اس قول کی وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا (یعنی آفتاب اپنے مستقر کی طرف جاتا ہے) فرمایا اس کا مستقر عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ (مسلم، مشکوۃ ص۴۷۲)

یہ حدیث بھی عقل کے خلاف ہے کیونکہ سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سورج ہر وقت افق پر موجودرہتا ہے اور دنیا کے کسی نہ کسی خطہ پر سورج چمکتا رہتا ہے۔ اس طرح سورج کا سجدہ کرنا بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیسے اور کیونکر سجدہ کرتا ہو گا اور کس وقت عرش الٰہی کے نیچے جاتا ہو گا وغیرہ وغیرہ لیکن کیا عقل کے بل بوتے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کر دیا جائے۔ آخر ہماری کھوپڑی ہے ہی کتنی اور عقل و فہم کی کس قدر استعداد اس میں موجود ہے کہ اس کے ذریعے ہم عقل و فہم عطاء کرنے والے کی باتوں پر اعتراضات کرتے رہیں اور جھٹلانے والوں کی طرح ہم ایمان کے دعوے دار بھی اس کی باتوں کو جھٹلاتے رہیں۔ہمارا ایمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا ایک ایک حرف بالکل سچ اور درست ہے البتہ ہماری نارسا عقلیں ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

موجودہ دور میں مستشرقین کے پروردہ منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ سورج،چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، جانور وغیرہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔(حج آیت ۱۸) کیا کسی منکر حدیث نے ان میں سے کسی کو کبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جب یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی تو سورج کا عرش کے نیچے جانا بھی اسی طرح کی بات ہے جو اگرچہ ہماری ناقص عقل میں نہیں بیٹھ سکتی لیکن ایمان والے اسے تسلیم کرتے ہیں اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔

جبکہ کفار اور ان کے پروردہ اس کا انکار کرتے ہیں۔لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے کہ جو قرآن وحدیث کو ماننے کے بجائے منکرین حدیث جیسے اسلام دشمنوں کے پراپیگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب انسان اللہ کے فرمان کے بجائے عقل کا پجاری بن جائے تو اسے گمراہی سے کون روک سکتا ہے۔

چھٹی حدیث​

(۶) جناب عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔
بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَائِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ( صحیح بخاری کتاب المناقب مشکوٰۃ ص۳۷۳)
’’ایک شخص اپنی ازار تکبر سے لٹکائے ہوئے جا رہا تھا کہ زمین میں دھنس گیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہوا چلا جائے گا‘‘۔

ظاہر بات ہے کہ اس شخص کو تکبر کی وجہ سے یہ عذاب دیا گیا اور یہ برزخی عذاب ہی ہے جسے احادیث میں عذاب قبر کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ شخص قیامت تک اس عذاب میں مبتلا رہے گا اور عذاب قبر بھی قیامت تک رہے گا۔ قیامت قائم ہونے پر عذاب قبر کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ ـجَلْجَلَۃ اس حرکت کو کہتے ہیں کہ جس میں آواز بھی ہو جب کہ یہ غیب کا معاملہ ہے اس لئے اس آواز کو سننا ممکن نہیں ہے۔اس شخص کا زمین میں دھنستا چلا جانا بالکل واضح کر رہا ہے کہ اس عذاب کا تعلق زمین سے ہے اور یہی عذاب قبر ہے۔

مطالعہ کے دوران جو چند احادیث سامنے آئی تھیں انہیں نقل کر دیا گیا ہے ورنہ اگر باقاعدہ کوشش کی جائے اور احادیث کی کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو اس سلسلہ میں اور بھی بے شمار صحیح احادیث پیش کی جا سکتی ہیں۔ آخر میں اس بحث کو جناب علیؓ کے اس قول پر ختم کیا جاتا ہے۔ جناب علی ؓ فرماتے ہیں کہ دین کا دارومدار رائے (اور عقل)پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔(رواہ ابو دائود‘والدارمی معناہ ‘ مشکوٰۃ ص ۵۴)

ابو جابر عبد اللہ دامانوی کی کتاب عذاب قبر سے اقتباس
لنك
 
Top