• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہیں ؟ شیخ ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ صراحت قطعا نہیں ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نےرکوع میں ملنے کے بعد وہ رکعت شمار کرلی تھی ۔اور اسے دہرایا نہیں تھا۔
ممکن ہے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت وہ رکعت پوری کرلی ہو اور اس کے بعدہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہو۔یادرہے کہ بخاری ہی کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے طرزعمل سے آگاہ کیا گیااس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی۔
اورجس روایت میں یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ مکمل رکعت پانے کی خاطر دوڑ کر صف میں شامل ہوئے تھے وہ ضعیف ومردودہے۔
اسی طرح وہ روایت بھی ضعیف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت ہوجاتی ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس آخری روایت کو فیصلہ کن قرار دیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
تفصیل کے لئے اس موضوع میں لکھی گئی مفصل تحریریں دیکھیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
شیخ @کفایت اللہ بھائی آپ ذرا اس کی بھی وضاحت کر دیں - جزاک اللہ


دو مقام پر مقتدى سے سورۃ فاتحہ ساقط ہو جاتى ہے

ميں مسجد ميں آؤں اور امام ركوع كى حالت ميں ہو تو كيا امام كے ساتھ ركوع كرنے سے ركعت شمار ہو گى، حالانكہ ميں نے سورۃ فاتحہ نہيں پڑھى ؟

اور اگر ميں ركوع سے قبل امام كے ساتھ ملوں اور كچھ دير بعد امام ركوع ميں چلا جائے ليكن ميں سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكوں تو مجھے كيا كرنا ہو گا، كيا ميں سورۃ فاتحہ ادھوڑى چھوڑ كر امام كے ساتھ ركوع كروں يا كہ سورۃ فاتحہ مكمل كر كے ركوع كروں ؟



الحمد للہ :

سوال نمبر ( 10995 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ ہر نمازى كے حق ميں چاہے امام ہو يا مقتدى يا منفرد جھرى نماز ہو يا سرى سورۃ فاتحہ كى قرآت ركن ہے.

اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:

عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو سورۃ فاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 756 ).

ديكھيں: المجموع ( 3 / 283 - 285 ).

مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ كى قرآت دو مقام پر ساقط ہو جاتى ہے:

اول: ركوع پانے كى حالت ميں:

يہ مسئلہ اختلافى ہے:

امام كو ركوع كى حالت ميں پانے كى صورت ميں مقتدى امام كے ساتھ ركوع كرے، تو اس كى يہ ركعت شمار ہو گى، چاہے اس نے سورۃ فاتحہ نہيں پڑھى.

اس كى دليل ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:

ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف آئے تو وہ ركوع كى حالت ميں تھے، چنانچہ ابو بكرہ صف ميں داخل ہونے سے قبل ہى ركوع ميں چلے گئے، اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ذكر كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى تيرى حرص اور زيادہ كرے، آئندہ ايسا نہ كرنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 783 ).

وجہ دلالت:

اگر ركوع ميں ملنے سے ركعت شمار نہ ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے يہ ركعت قضاء كرنے كا كہتے جس ميں قرآت نہيں كى گئى تھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ منقول نہيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ جو امام كے ساتھ ركوع ميں مل گيا اس كى ركعت ہو گئى.

ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 230 ).

دوسرى جگہ جہاں سورۃ فاتحہ كى قرآت ساقط ہو جاتى ہے:

اگر مقتدى امام كے ركوع ميں جانے سے كچھ دير قبل نماز ميں ملے اور سورۃ فاتحہ كى قرآت مكمل نہ كر سكے، تو وہ امام كے ساتھ ركوع ميں چلا جائے اور سورۃ فاتحہ مكمل نہ كرے تو اس كى يہ ركعت شمار ہو گى.

شيرازى رحمہ اللہ " المھذب " ميں رقمطراز ہيں:

اگر مقتدى قيام ميں آ كر ملے اور اسے خدشہ ہو كہ اس كى قرآت رہ جائيگى تو وہ دعائے استفتاح نہ پڑھے، بلكہ سورۃ فاتحہ پڑھنے ميں مشغول ہو جائے، كيونكہ سورۃ فاتحہ فرض ہے اس ليے فرض چھوڑ كر نفل ميں مشغول نہيں ہوا جا سكتا.

اور اگر اس نے ابھى سورۃ فاتحہ كا كچھ حصہ پڑھا اور امام ركوع ميں چلا جائے تو اس ميں دو قول ہيں:

پہلا:

قرآت چھوڑ كر ركوع ميں چلا جائے، كيونكہ امام كى پيروى اور متابعت كى تاكيد زيادہ ہے؛ اسى ليے اگر وہ امام كو ركوع كى حالت ميں پائے تو سورۃ فاتحہ كى فرض كردہ قرآت ساقط ہو جائيگى.

دوسرا:

اس كے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنى لازم ہے؛ كيونكہ جب اس نے كچھ قرآت كر لى ہے تو اسے مكمل كرنا لازم ہے " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 4 / 109 ).

( ليكن يہ ياد رہے كہ سورۃ فاتحہ كے بغير نماز نہيں ہوتى اور پھر يہ ركن بھى ہے اس ليے ضرور پڑھنا ہو گى )

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر ميں ركوع سے كچھ دير قبل نماز ميں ملوں تو كيا سورۃ فاتحہ سے شروع كروں، يا كہ دعاء استفتاح ( سبحانك اللہم و بحمدك الخ ) پڑوں ؟

اور اگر سورۃ فاتحہ مكمل ہونے سے قبل ہى امام ركوع ميں چلا جائے تو ميں كيا كروں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" دعائے استفتاح ( سبحانك اللہم و بحمدك الخ يا اللھم باعد بينى ) پڑھنى سنت ہے، اور صحيح قول كے مطابق مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، جب آپ كو يہ خدشہ ہو كہ آپ كى سورۃ فاتحہ رہ جائيگى تو آپ اس سے ابتدا كريں، اور جب امام ركوع كرے تو مكمل ہونے سے قبل اس كے ساتھ ركوع كر ليں، تو اس صورت ميں باقى ساقط ہو جائيگى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" امام اتباع اور پيروى كے ليے بنايا گيا ہے، لہذا تم اس پر اختلاف نہ كرو، جب وہ تكبير كہے تو تم بھى تكبير كہو، اور جب وہ ركوع كے تم بھى ركوع كرو "

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 243 - 244 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب نمازى جماعت ميں ملے اور امام مغرب كى نماز ميں سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى دوسرى سورۃ پڑھا رہا ہو تو كيا مقتدى سورۃ فاتحہ كى قرآت كرے گا يا نہيں؛ اور جب امام قيام ميں ہو اور مقتدى نے ابھى صرف الحمد للہ رب العالمين ايك آيت ہى پڑھى اور امام ركوع ميں چلا گيا تو كيا مقتدى ركوع كرے يا كہ سورۃ فاتحہ مكمل كرے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت كے عمومى دلائل كى بنا پر جھرى يا سرى نمازوں ميں امام اور مقتدى منفرد شخص پر سورۃ فاتحہ كى قرآت كرنى فرض ہے، جو شخص جماعت كے ساتھ آكر تكبير كہے تو اس كے ليے سورۃ فاتحہ كى قرآت فرض ہے، اور اگر سورۃ فاتحہ مكمل كرنے سے قبل امام ركوع ميں چلا گيا تو مقتدى بھى امام كے ساتھ ركوع ميں چلا جائے كيونكہ امام كى متابعت واجب ہے، اور اس كى يہ ركعت ہو جائيگى، جيسا كہ ركوع ميں ملے اور مكمل ركوع كرے تو امام كے ساتھ ركوع ميں ملنے والے كى ركعت ہو جاتى ہے.

علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق سورۃ فاتحہ مكمل نہ كرسكنے كى عدم استطاعت كى بنا پر اس سے سورۃ فاتحہ ساقط ہو جائيگى، اس كى دليل ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى صحيح بخارى ميں مشہور حديث ہے. انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 378 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك مقتدى تكبير تحريمہ اور سورۃ فاتحہ كى قرآت كے بعد امام كے ساتھ ملا اور ابھى سورۃ فاتحہ شروع ہى كى تو امام ركوع ميں چلا گيا، كيا مقتدى ركوع كرے، يا كہ سورۃ فاتحہ مكمل كرے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جب مقتدى امام كے ركوع ميں جانے كے وقت نماز ميں شامل ہو اور سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكے، اگر اس كى ايك آيت رہتى ہو تو وہ اسے مكمل كر سكتا ہو تو يہ بہتر ہے، مكمل كر كے امام كے ساتھ ركوع ميں مل جائے، اور اگر زيادہ رہتى ہو كہ اگر وہ سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع كر دے تو امام كے ساتھ ركوع ميں نہيں مل سكے گا، تو وہ امام كے ساتھ ركوع كرے اور سورۃ فاتحہ كو مكمل نہ كرے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 106 ).

مزيد ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 243 - 284 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/74999
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیااسی لئے میں نے بہت ہی اختصارکے ساتھ دوسرے موقف کی وضاحت کی ہے یہاں کسی بحث کاارادہ نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس اس کے لئے وقت ہے۔اس لئے معذرت خواہ ہوں۔

وجہ دلالت:
اگر ركوع ميں ملنے سے ركعت شمار نہ ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے يہ ركعت قضاء كرنے كا كہتے جس ميں قرآت نہيں كى گئى تھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ منقول نہيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ جو امام كے ساتھ ركوع ميں مل گيا اس كى ركعت ہو گئى.
سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رکوع والی رکعت پوری نہیں کی تھی؟
جب تک اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت پوری نہیں کی تھی مذکورہ استدلال درست نہیں ہے۔

میرے پہلے مراسلہ کے بعد آپ نے جو کچھ بھی نقل کیاہے اس میں بس یہی دوسطر ہمارے موضوع سے متعلق ہے اور اس کا جواب میرے پہلے مراسلہ میں بھی موجود ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیااسی لئے میں نے بہت ہی اختصارکے ساتھ دوسرے موقف کی وضاحت کی ہے یہاں کسی بحث کاارادہ نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس اس کے لئے وقت ہے۔اس لئے معذرت خواہ ہوں۔



سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رکوع والی رکعت پوری نہیں کی تھی؟
جب تک اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت پوری نہیں کی تھی مذکورہ استدلال درست نہیں ہے۔

میرے پہلے مراسلہ کے بعد آپ نے جو کچھ بھی نقل کیاہے اس میں بس یہی دوسطر ہمارے موضوع سے متعلق ہے اور اس کا جواب میرے پہلے مراسلہ میں بھی موجود ہے۔
نہیں شیخ میرا ارادہ علم حاصل کرنا ہے میں تو ایک طالب علم ہو -
اس مثلے میں سعودی علماء کی رائے میں نے پوسٹ کی ہے تا کہ وضاحت ہو جائے کہ وہ کیوں رکوع کی رکعت کو شمار کرتے ہیں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
درج ذیل عبارت علامہ البانی رحمہ اللہ کی آڈیو تقریر سے ماخوذ ہے۔ اس استدلال میں دو چیزیں قابل ذکر ہیں۔ ایک تو انہوں نے سنن ابو داود کی روایت کے صحیح ہونے پر ایک قلمی نسخے سے استدلال کی بات کی ہے جو ان علماء کے سامنے نہیں ہے جو متعلقہ روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ دوسرا انہوں نے اس بارے آثار صحابہ کو دلیل بنایا ہے۔ باقی شیخ کفایت اللہ صاحب کی یہ بات درست ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت ہو جانے کے بارے ابو بکرہ والی روایت سے استدلال میں تصنع ہے۔ لیکن علامہ البانی رحمہ اللہ کی ان دو باتوں کی وجہ سے کہ وہ سنن ابو داود کی روایت کو مقبول قرار دیتے ہیں اور آثار صحابہ سے استدلال کی وجہ سے میرا ذہن اسی طرح مائل رہا ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت شمار کی جانی چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب

فقد جاء في كتاب: "المسائل" لإسحاق بن منصور الْمَرْوَزِيّ، عن الإمام أحمد، وعن اسحاق بن راهويه، روى الْمَرْوَزِيُّ هذا باسناده الصَّحيح، عن عبد العزيز بن رُفيْع عن رجل من الأنصار من أصحاب النَّبي صلَّى الله عليه وسلَّم، هذا غطَّى الموضوع، وجعل الإسناد موصولاً بعد أن كان يحتمل أن يكون مرسلاً؛ وبذلك صح الحديث، وقامت الحجة. يضاف إلى ذلك آثار عن كبار الصحابة؛ وعلى رأسهم أبو بكر الصديق، وآخرهم سنًّا عبد الله بن عمر بن الخطاب، كلهم قالوا: بأن مدرك الركوع مدركٌ للركعة؛ فاتفقت الآثار السلفية الصحيحة مع هذا الحديث الصحيح -والحمد لله-، وثبت بذلك أرجحية مذهب الجمهور على المخالفين، وإن كان بعض العاملين بالحديث إلى زمننا هذا لا يزالون يفتون بأن مدرك الركوع ليس مدركًا للركعة. وأذكر أن أحد الغُماريين -وإن كان هو من أهل الأهواء ومن الصوفية، الذين لهم طرق انحرفوا بها عن السنة- ألَّف رسالة يؤكِّد فيها أن الصَّواب أن مدرك الركوع ليس مدركًا للركعة. والواقع أنه هو شأنه في ذلك شأن بعض أهل الحديث في الهند فاتتهم هذه الرواية الصحيحة، التي لا تزال موجودة في ذاك المخطوط النادر العزيز في المكتبة الظاهرية، مخطوط من النوادر لأنه يعود تاريخ كتابته إلى العهد القريب من الإمامين: أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه. ولو أنهم وقفوا على هذه الرواية لانقلبت وجهة نظرهم من تأييد الرأي المخالف للجمهور، إلى تأييد رأي الجمهور في هذه المسألة. وهم لا يخفى عليهم بعض تلك الآثار؛ ولكنهم يطبقون القاعدة التى ينبغي على المسلم أن يلتزمها؛ وهي: "أن الأثر إذا جاء مخالفًا للنص ولو بإجتهاد؛ فلا ينبغى أن نأخذ بالأثر"؛ أعني بالأثر هنا ما أشرت إليه آنفًا من الأثر عن أبي بكر، وعن ابن عمر، وبينهما جماعة آخرون كثيرون؛ كزيد بن ثابت، وعبد الله بن مسعود، وهم أربعة من الصحابة، وهم -كما ترون- من أكابر الصحابة، رأوا وصرَّحوا بأن مدرك الرُّكوع مُدرِكًا للرَّكعة. فهم لم يأخذوا بهذه الآثار لتوهمهم أنها مخالفة لقوله عليه الصلاة والسلام: ((لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)). ونحن نرى أن هذا العموم الشامل لهذا الجزء لا يشمله؛ لما ذكرناه في غير هذه الجلسة أكثر من مرة؛ ولهذا الحديث الصحيح.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
درج ذیل عبارت علامہ البانی رحمہ اللہ کی آڈیو تقریر سے ماخوذ ہے۔ اس استدلال میں دو چیزیں قابل ذکر ہیں۔ایک تو انہوں نے سنن ابو داود کی روایت کے صحیح ہونے پر ایک قلمی نسخے سے استدلال کی بات کی ہے جو ان علماء کے سامنے نہیں ہے جو متعلقہ روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
میں نےپہلے ہی مراسلہ میں لکھاتھا:

اسی طرح وہ روایت بھی ضعیف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت ہوجاتی ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس آخری روایت کو فیصلہ کن قرار دیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں نے بھی اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
اس مراسلہ میں میں نے اسی مخطوطہ والی روایت ہی کی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی روایت کو اس بارے میں فیصلہ کن قراردیاہے۔
نیزمیں نے جو یہ کہا تھا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے بعض شاگرد اس روایت کو ضعیف قراردیتے ہیں تو اس سے مراد بھی یہی مخطوطہ والی روایت تھی۔
دراصل اس روایت کے کئی طرق ہیں جن میں سے صرف اور صرف ایک طریق میں ایک راوی نے اس روایت کو موصول بیان کیا ہے اور یہ مخطوطہ والی روایت ہے اور اس ایک طریق کے علاوہ باقی تمام طرق میں دیگر رواۃ نے اس روایت کو منقطا بیان کیا ہے لہٰذا اس روایت کا منقطع ہونا ہی راجح ہے۔
زیادتی ثقہ کے موضوع پر میرا ایک مفصل مضمون میری کتاب ”یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیق جائزہ “ میں ص 195 تا 236 پر موجود ہے اس میں بھی میں اسی مخطوطہ والی روایت کو زیادتی ثقہ کے مردود ہونے کی مثال میں پیش کیا ہے دیکھیے:”یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیق جائزہ “ میں ص215 تا216۔

215.png
216.png
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
اس مسآلے میں اگرچہ علماٰآ کی دو راے ہیں لیکن محققین علماآ اس بات کی طرف گے ہین کہ رکوع ملنے سے رکعت نہین ہوتی ہے تفصیل کے لے دیکھیں شیخ عمر بازمول استاد امالقری یونیورسٹی مکہ المکرمہ کی کتاب ۔ الترجیح فی مسایل الطھارہ والصلاہ۔۔ اور۔۔ یحی معلمی یمانی کی کتاب ۔۔ مسایل الفقہ ۔۔ اسی طرح مولانا سیف بنارسی کا تفصیلی مٖٖٖضمون ۔۔دوسری بات ابوبکرہ والی روایت میں ۔ لفظ ۔ لا تعد۔یے یعنی ایسا نہ کرنا اس میں لوٹانے یا نہ لوٹانے کا ذکر نہیں یے ۔ پھر سورہ فاتحہ رکن ہے اور قاعدہ ہے کہ رکن کے چھوٹنے سے رکعت نہین ہوتی ہے ۔فافھم۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
یہ مضمون بھی بغور پڑھ لیا جائے تو فائدہ سے خالی نہ ہوگا !

یہاں، مذکورہ بالا سوال کے جواب کی تفصیل میں اپنی بات کا آغاز کرتے ہوں کہتا ہوں کہ سب سے پہلے اِس نکتے پر غور فرمایے
(إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلاَ تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ:::اگر تُم لوگ نماز کی طرف آؤ اور ہم سجدے کی حالت میں ہوں (اور تم لوگ اس میں شامل ہو)تو اس(سجدے)کو کچھ شُمار مت کرو ، اور جس کِسی نے رکعت(یعنی رکوع) پا لیا تو یقیناً اُس نے نماز پا لی)
سُنن ابی داؤد /حدیث/893کتاب الصلاۃ /باب فِى الرَّجُلِ يُدْرِكُ الإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ
اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اس حدیث کو"حسن" قرار دِیا ، دیکھیے صحیح سُنن ابی داؤد/حدیث832، اور تفصیلی تخریج کے لیے دیکھیے الاِرواء الغلیل /حدیث 496،
مذکورہ بالا حدیث شریف کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ ہیں ،
اس کے علاوہ ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ ُ سے بہت ہی واضح الفاظ میں یہ روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِذَا جِئْتُمْ وَالإِمَامُ رَاكِعٌ فَارْكَعُوا ، وَإِنْ سَاجِدًا فَاسْجُدُوا ، وَلاَ تَعْتَدُّوا بِالسُّجُودِ إِذَا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ الرُّكُوعُ :::اگر تم لوگ(نماز کے لیے) آؤ اور اِمام رکوع کی حالت میں ہو تو رکوع(میں شمولیت)کر لو ، اور اگر سجدے کی حالت میں ہو تو سجدہ(میں شمولیت) کر لو ،اور سجدوں (میں شامل ہونے)کو شُمار مت کرو جب تک کہ اُس (سجدے)کے ساتھ رکوع نہ ہو )))))سُنن البیھقی الکبریٰ /حدیث/893کتاب الصلاۃ /بابإِدْرَاكِ الإِمَامَ فِى الرُّكُوعِ
اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اس حدیث کو"صحیح" قرار دِیا ، دیکھیے سابقہ حوالے کے مطابق صحیح سُنن ابی داؤد،اور الاِرواء الغلیل /حدیث 496،
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم لوگ اپنے دعوے کے مطابق ، اپنے مسلک """اہل سنت ، والجماعت """کے مطابق ہم اس قولی سُنّت مبارکہ کو "الجماعت "یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے قول اور فعل کے مطابق سمجھیں ،اور کسی ضد کے بغیر، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول اور فعل کے مطابق اسکو سمجھ لیں اور اپنا لیں ،
اسی منھج ، اور اسی مسلک کے مطابق امام الالبانی رحمہُ اللہ نےإِرواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل /حدیث رقم 496، کے ضمن میں اس مسئلے کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول اور عمل کے مطابق سمجھانے کے لیے ذِکر کیا ہے کہ :::
""""" اِس حدیث کو تقویت پہنچانے والے امور میں سے صحابہ(رضی اللہ عنہم) اجمعین کا اِس کے مطابق عمل بھی ہے ، (ذیل میں صحابہ کے قول اور فعل ذِکر کیے جا رہے ہیں)
:::(1)::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ(((((مَن لَم يُدرك الإمام راكعاً لَم يُدرك تلك الركعة:::جِس نے اِمام کو رکوع کی حالت میں نہیں پایا (یعنی رکوع کی حالت میں اِمام کے ساتھ شامل نہ ہوا) اُس نے رکعت نہیں پائی)))))سنن البیھقی ، اور اس کی سند صحیح ہے ،
اور ابن ابی شیبہ نے "مصنف" میں ، اور (امام ) الطحاوی ، (امام)الطبرانی ، اور (امام)البیھقی نے روایت کیا ہے کہ :::
زید بن وھب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """خرجتُ مع عبد الله مِن داره إلى المسجد ، فلما توسطنا المسجد ركع الإمام ، فكبر عبد الله ثم ركع ، وركعتُ معه ، ثم مشينا راكعين حتى انتهينا إلى الصَّفِ حتى رفع القوم رءوسهم ، قال: فلما قضى الإمام الصلاة قمتُ وأنا أرى أنى لم أُدرك ، فأخذ بيدى عبد الله ،فأجلسنى وقال: إنك قد أدركتَ.
قلت: وسنده صحيح. وله فى الطبرانى طرق أخرى.
ترجمہ ::: میں عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ) کے ساتھ اُن کے گھر سے مسجد کی طرف ( نماز کے لیے) نکلا، جب ہم مسجد کے درمیان میں پہنچے تو اِمام رکوع میں داخل ہو گیا ، تو عبداللہ(ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ)نے تکبیر کہی اور رکوع میں داخل ہو گئے ، اور میں بھی اُن کے ساتھ رکوع میں داخل ہو گیا ، پھر ہم دونوں رکوع کی ہی حالت میں چلتے ہوئے صف میں جا ملے ، یہاں تک کہ نمازیوں نے (رکوع میں سے) اپنے سر اُٹھائے ،پھر جب اِمام نے سلام پھیرا تو میں کھڑا ہو گیا کیونکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ مجھے رکعت نہیں ملی ، تو عبداللہ(ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ) نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بٹھا دِیا اور فرمایا ((((( تُم رکعت پا چکے ہو )))))
میں ( الالبانی) کہتا ہوں کہ اس کی سند صحیح ہے ، اور اس روایت کی(اِمام) طبرانی (رحمہُ اللہ) کے پاس دیگراسناد بھی ہیں"""""۔
:::(2)::: عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما )کا فرمان ہے کہ (((((إذا جئت والإمام راكع ، فوضعت يديك على ركبتيك قبل أن يرفع فقد أدركت:::اگر تم (نماز کے لیے) آؤ اور اِمام رکوع میں ہو ،اور تم اِمام کے (سر) اُٹھانے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لو تو یقینا تُم نے (رکعت) پا لی )))))
(امام) ابن ابی شیبہ(رحمہُ اللہ) نےبسند ، ابن جریج عن نافع عنہ ُ (رحمہم اللہ )روایت کیا ،
اور اسی طرح (امام)البیھقی(رحمہُ اللہ) نے بھی ، لیکن انہوں نے ابن جریج کے ساتھ مالک کو بھی ملا کر ذِکر کیا ، اور ان کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :
(((((من أدرك الإمام راكعاً ، فركع قبل أن يرفع الإمام رأسه ، فقد أدرك تلك الركعة:::جس نے اِمام کو رکوع کی حالت میں پایا ، اور اِمام کے سر اُٹھانے سے پہلے رکوع کر لیا تو یقیناً اُ س نے وہ رکعت پا لی ))))) میں (الالبانی)کہتا ہوں کہ اس کی سند صحیح ہے ،
:::(3)::: زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ ُ فرمایا کرتے تھے (((((مَن أدرك الركعة قبل أن يرفع الإمام رأسه فقد أدرك الركعة :::جس نے اِمام کے سر اٹھانے سے پہلے رکعت پا لی تو یقیناً اُس نے رکعت پا لی)))))
اسے (امام)البھیقی (رحمہُ اللہ )نے(اِمام) مالک کے ذریعے روایت کیا ہے ،اور (یہ بھی کہ اِمام)مالک (رحمہُ اللہ) تک یہ خبر پہنچی ہے کہ عبداللہ ابن عمُر (رضی اللہ عنہما)، اور زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ) یہ ہی کہا کرتے تھے،
اور (امام )الطحاوی(رحمہُ اللہ) نے، خارجہ بن زید بن ثابت رحمہُ اللہ کے ذریعے روایت کیا ہے :::
"""أن زيد بن ثابت كان يركع على عتبة المسجد ووجهه إلى القبلة ، ثم يمشى معترضاً على شقه الأيمن ،ثم يعتد بها إن وصل إلى الصف أو لم يصل:::کہ زید بن ثابت (کسی وقت، جب کہ امام رکوع میں ہوتا) تو مسجد کی دہلیز سے ہی رکوع میں داخل ہو جاتے اورپھر اپنی سیدھی جانب (ترچھے سے)چلتے (تا کہ صف میں جا ملیں )اور اس (رکعت )کو (مل جانے والی رکعتوں میں )گنتے ، خواہ (امام کے سر اٹھانے سے پہلے )صف میں مل چکتے یا نہ مل سکے ہوتے"""
میں(الالبانی)کہتا ہوں کہ اس کی سند بہترین ہے ، یہ روایت (امام) الطحاوی(رحمہُ اللہ) اور (امام)البھیقی (رحمہُ اللہ )نے روایت کی ہے ،
:::(4)::: عبداللہ ابن زبیر (رضی اللہ عنہما)
عثمان ابن الاسود (رحمہُ اللہ) کا کہنا ہے کہ """"" دخلت أنا وعمرو بن تميم المسجد ، فركع الإمام فركعت أنا وهو ومشينا راكعين ، حتى دخلنا الصف ، فلما قضينا الصلاة ، قال لى عمرو: الذى صنعت آنفاً ممن سمعته، قلت: من مجاهد ، قال: قد رأيت ابن الزبير فعله::: میں اور عَمرو بن تمیم مسجد میں داخل ہوئے تو اِمام رکوع میں داخل ہو گیا ، تو میں اور عَمرو نے بھی رکوع میں داخل ہو گئے ، اور اسی حالت میں چلتے ہوئے صف میں داخل ہو گئے ، جب نماز سے فارغ ہوئے تو عِمر نے مجھ سے کہا " جو کچھ تم نے ابھی کیا ہے کس سے سنا ہے؟"،
میں نے(جواباً) کہا ، مجاھد (رحمہُ اللہ)سے(سنا) ، انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے (عبداللہ )ابن زبیر (رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا"""""
یہ روایت (امام)ابن ابی شیبہ (رحمہُ اللہ)نے روایت کی اور اس کے سارے راوی قابل اعتماد ہیں ، سوائے عَمرو بن تمیم کے کہ ، اس کے بارے میں ابن ابی حاتم نے کچھ تبصرہ نہیں کیا ، اور (امام) ابن حبان(رحمہُ اللہ)نے اسے "با اعتماد"کہا ، اور (امام)بخاری(رحمہُ اللہ)نے کہا "اس کی حدیث میں کچھ شک سا ہوتا ہے"، (یعنی بطور گواہی کے یہ روایت قابل قبول ہے، کیونکہ کسی راوی کے بارے میں کوئی واضح جرح نہیں ہے بلکہ صرف کچھ شک کا اندیشہ ظاہر ہوا ہے، جس کے ساتھ ساتھ توثیق بھی نظر آتی ہے)
:::(5)::: ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ ،
ابی بکر بن عبدالرحمٰن بن الحارث بن ھشام کے ذریعے روایت ہے کہ:::
""""" أن أبا بكر الصديق وزيد بن ثابت دخلا المسجد والإمام راكع فركعا ، ثم دبا وهما راكعان حتى لحقا بالصف::: ابو بکر الصدیق (رضی اللہ عنہ ُ )اور زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ )مسجد میں داخل ہوئے اور اِمام رکوع کی حالت میں تھا ، تو وہ دونوں رکوع کی حالت میں (داخل ہو کر) چلتے ہوئے صف میں جا ملے"""""
(امام) البھیقی نے اس روایت کا اخراج کیا ہے ، اور اس کی سند "حسن" ہے،
لیکن ابا بکر بن عبدالرحمٰن نے ابابکر الصدیق (رضی اللہ عنہ ُ کے زمانے)کو نہیں پایا ، لہذا یہ (روایت)ابو بکر بن عبدالرحمٰن کے حوالے سے ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں منقطع ہے ،
جی صِرف یہ احتما ل ہے کہ ابو بکر بن عبدالرحمٰن نے یہ بات زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ ) سے سنی ہو،
اور یہ معاملہ زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ)سے صحیح طور پر ثابت شدہ ہے ، کیونکہ(زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں) کچھ دیگر اسناد کے ذریعے یہ بات منقول ہے ، جیسا کہ ابھی کچھ دیر پہلے (اُس ثابت شدہ بات ) کا ذِکر کیا گیا ہے ،
تو (ان سب روایات اور باتوں کا) خُلاصہ یہ ہوا کہ یہ (رکوع ملنے کی صورت میں رکعت مل جانے والی) حدیث(صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اِن مذکورہ بالا براہ راست اور)مرسل گواہ(روایات) اور آثار کی موجودگی میں """ حسن """ہے ، اور مسئلے کی دلیل بننے کے قابل ہے ، واللہ أعلم ۔
:::::: فائدہ ::::::
یہ مذکورہ بالا صحیح (ثابت شدہ ) آثار درج ذیل معاملات کی دلیل ہیں کہ :::
::: (1) ::: رکوع ملنے کی صُورت میں رکعت مل جاتی ہے ، اور اسی فائدے کے بیان کے لیے ہم نے یہ مذکورہ بالا آثار یہاں ذِکر کیے ہیں ۔
::: (2) ::: صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع میں شامل ہونے کا جواز ، جو کہ ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے ، کہ ایک دفعہ ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ نماز کے لیے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع میں تھے ، تو ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ صف میں شامل ہو نے سے پہلے ہی رکوع میں داخل ہو گئے اور پھر اسی حالت میں چلتے ہوئے صف میں جا ملے ،
تو جب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اِرشاد فرمایا (((((أَيُّكُمُ الَّذِى رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ ثُمَّ مَشَى إِلَى الصَّفِّ::: تم میں کون ہے جو صف (میں شامل ہونے)کے بغیر رکوع میں گیا اور پھر صف کی طرف چلا )))))، تو میں نے عرض کیا"""میں تھا """،
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ::: اللہ (نیکی کے لیے)تمہارے لالچ کو بڑھائے لیکن تم دوبارہ ایسا مت کرنا)))))سُنن ابی داؤد /حدیث/684کتاب الصلاۃ /باب103باب الرَّجُلِ يَرْكَعُ دُونَ الصَّفِّ،
اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سوال کے ذِکر کے بغیر صحیح البخاری /حدیث/783کتاب الآذان/باب114باب إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ،"""""۔ امام الالبانی رحمہُ اللہ کی بات ختم ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کی اس مذکورہ بالا حدیث کو بھی کسی طور یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ رکوع میں شامل ہونے کی صورت میں رکعت نہیں ملتی ، لیکن حدیث شریف کے الفاظ اور دیگر صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ میں ملنے والی تعلیمات اور احکام اس کی تائید نہیں کرتے ،
ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کے واقعہ پر مبنی اِس مذکورہ بالا حدیث مبارک میں بھی یہ دلیل ہے کہ رکوع پانے والے کو رکعت مل جاتی ہے ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کو رکعت لوٹانے کا حکم بھی فرماتے ،
اس حدیث شریف کی شرح اور مسئلے کی کچھ مزید تفصیل جاننے کے لیے دیکھیے ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحہ /حدیث رقم229 اور230، اور تمام المنۃ فی تعلیق علی فقہ السنۃ/صفحہ 285،
اِن شاء اللہ یہ مذکورہ بالا معلومات یہ مسئلہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز میں امام صاحب کے ساتھ رکوع کی حالت میں ملتا ہے تو اُسے وہ رکعت مل جاتی ہے جس رکعت کا وہ رکوع ہو ،

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، پہنچانے ، ماننے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں بنائے ۔
 
Top