• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے قبر نے بھینچا؟

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

(محمد حسین میمن)
قارئین کرام! یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں ہماری سائٹ http://www.islamicmsg.org/سے موصول ہوئے ہیں، جو دنیا بھر سے بھی ہمیں میلز موصول ہوتی ہیں۔ ہم ان شاء اللہ کوشش کریں گے کہ آپ کے سوالات کے جوابات قرآن و صحیح حدیث اور سلف صالحین کے متفقہ فہم کے مطابق دیں۔


سوال: سیدنا معاذ کے بارے میں یہ حدیث طبقات ابن سعد کے حوالے سے معلوم ہوئی ہے کہ انہیں قبر میں بھینچا گیا تھا اس لیے کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتے تھے ، کیا یہ حدیث درست ہے؟ (محمد ادریس سلفی کویت)
جواب بعون الوہاب:


سیدنا سعد بن معاذ t کے بارے میں قبر کےبھینچنے کی حدیث کئی ایک کتب میں موجود ہے، اور کئی صحابہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
سنن ترمذی میں حدیث ہے:


﴿جابر بن عبداللہ t یقول: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول و جنازة سعد بن معاذ بین ایدیھم اھتزلہ عرش الرحمن
(سنن الترمذی مع تحفة الاحوذی، ج ۱۰، رقم ۳​

۸۵۷)​
ترجمہ: (جابر بن عبداللہ t نے فرمایا کہ سعد بن معاذ t کا جنازہ موجود تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن معاذ کی موت پر رحمن کا عرش ہل گیا۔ )
یہ حدیث سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ، یہ حدیث درج ذیل کتب میں دیکھی جا سکتی ہے۔
صحیح مسلم ۴/۱۹۱۵ کتاب الفضائل الصحابة۔ سنن الترمذی کتاب المناقب رقم ۳۸۵۸ والبیھقی فی اثبات عذاب القبر ۱۱۳، معجم الکبیر للطبرانی ۵۳۳۲،۵۳۳۳،۵۳۳۴،۵۳۳۵،۵۳۳۶،۵۳۳۷، شرح السنة للبغوی، ج ۵ ص ۳۳۷، رواہ عبدالرزاق رقم ۶۷۴۷، مجمع الزوائد ۹/۳۰۹، مسند احمد ، ج ۲۳، رقم ۱۴۸۷۳۔ ۱۴۵۰۵۔
لہٰذا یہ حدیث کثرت طرق سے ثابت ہے اس کا انکار جائز نہیں۔ حافظ ابن حجر a فرماتے ہیں:
﴿ قد جاء حدیث اھتز العرش ’’سعد بن معاذ‘‘ عن عشرة من الصحابة اٴو اکثر وثبت فی الصحیحین فلا معنی لانکارہ(فتح الباری ، ج ۷، ص ۱۵۶)
ترجمہ: (یقیناً یہ حدیث ’’عرش ہلنا‘‘ سعد بن معاذ کے موت پر دس صحابہ سے مروی ہے ، یہ حدیث صحیحین میں بھی موجود ہے، پس اس کا انکار کرنا کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔)
رحمن کا عرش ہلنا اس سے کیا مراد ہے:

کئی علماء نے اس کی مختلف تعبیر دی ہیں۔ مختصر یہ کہ حدیث کے الفاظ سے عرش کا ہلنا ہی ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے عرش کے ہلنے سے مراد جنازے کے بعد سریر کا ہلنا مراد لیا ہے۔ جس کے بارے میں عبدالرحمن مبارکپوری a فرماتے ہیں’’ھذا لاقول باطل‘‘ کہ یہ قول باطل ہے ، جس کا رد صریح احادیث جو مسلم میں موجود ہیں وہ کرتی ہیں۔ (تحفة الاحوذی ج ۱۰، ص ۳۶۰)
لہٰذا احادیث میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں وہی الفاظ قابل قبول ہیں، اپنی طرف سے تعبیر دینا جو نصوص کے خلاف ہوں وہ بہتر نہیں ہے ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ عرش اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔
جہاں تک تعلق ہے قبر کے بھینچنے کا تو اس بات کو یاد رکھا جائے کہ قبر ہر کسی کو بھینچتی ہے۔ یہ صرف سعد tکے لیے نہ تھا اور نہ ہی ایسی کوئی نص موجود ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی میں باب قائم فرمایا ہے کہ (اضمة القبر وضغطة) جو کہ دلیل ہے اس بات پر کہ قبر ہر کسی کو بھینچتی ہے۔ (سنن نسائی کتاب الجنائز باب ۱۳)اور جہاں تک آپ کی پیش کردہ روایت کا تعلق ہے جس میں پیشاب کے چھینٹوں کا ذکر ہے وہ روایت ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں ذکر فرمائی ہے:


﴿اخبرنا شبابة بن سواز قال اخبرنی اٴبو معشر عن سعید المقبری قال: لما دفن رسول اللہ ﷺ سعداً قال: لو نجا اٴحد من ضغطة القبر لنجا سعد، ولقد ضم ضمة اختلفت منھا اٴضلاعة من اٴثر البول
(الطبقات الکبری لابن سعد، ج۳، ص۴۳۰)​

یہ روایت سنداً ضعیف ہے ، اس کی سند میں سعید المقبری ہے ، یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ۔ حافظ ابن حجر a فرماتے ہیں ’’اختلاط قبل موتہ باٴربع سنین ‘‘ کہ وہ موت سے چار سال قبل اختلاط کا شکار ہوئے تھے۔
یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں کہ: ’’موت سے قبل وہ اختلاط کا شکار ہوئے اور حافظہ بھی متغیر ہوگیا تھا۔ ‘‘ (التھذیب ، ج ۳، ص ۳۶۹)
دوسری علت یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے کیونکہ سند میں صحابی حذف ہیں ۔ لہٰذا سعید المقبری نے بغیر کسی صحابی کے واسطے ڈائریکٹ حدیث نقل کی ہے، اصول حدیث کی رو سے مرسل روایت ضعیف ہوا کرتی ہیں۔
امام ابن کثیر a امام مسلم a کا قول نقل فرماتے ہیں کہ:
﴿ان المرسل فی اصل قولنا وقول اھل العلم بالاخبار لیس بحجة
(الباعث الحثیث، ص۵۷(​
ترجمہ: (امام مسلم کے اس قول سے واضح ہوا کہ اہل علم کے نزدیک مرسل روایات حجت نہیں ہیں۔ )
لہٰذا سند ضعیف ہے۔
 
Top