صحیحین کی منتقداحادیث کا درجہ کیا ہے؟
صحیحین پر امام الدرقطنی،أبو مسعود الدمشقی اور أبو علی الغسانی رحمہم اللہ وغیرہم کی تنقید سے ان کتب کا رتبہ بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ صحیحین پر جلیل القدر أئمہ محدثین کی تنقید کے بعد ان مقامات ا ور روایات کی وضاحت ہو گئی کہ جن میں کوئی علت پائی جاتی تھی یا کسی علت کے پائے جانے کا امکان تھا۔صحیحین کے پر ہونے والی اس تنقید کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم، امام ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح بخاری اور اس کے علاوہ بہت سے علماء نے مستقل کتابوں میں دیا ہے۔
صحیحین پر ہونے والی اس تمام نقد اور اس کے جواب کے بعد ان دونوں کتب میں وہ مقامات متعین ہو گئے کہ جن میں کوئی علل پائی جاتی ہیں اور ان علل کے درجہ کا تعین بھی ہو گیا ہے کہ وہ علل قادحہ ہیں یا نہیں ہیں۔اب عصر حاضر میں کسی بھی عالم کے لیے یہ گنجائش باقی نہیں رہی کہ وہ صحیحین کی کسی ایسی روایت پر کلام کرے کہ جس پر سلف نے کلام نہ کیا ہوکیونکہ امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ کے کام سے یہ متعین ہو گیا کہ صحیحین میں صرف یہ مقامات ایسے ہیں کہ جن میں کلام کی گنجائش موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص امام الدارقطنی یاأئمہ سلف میں سے کسی اور محدث کی بیان کردہ تحقیقات کی روشنی میں صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی حدیث پر نقد کرتا ہے تو اس کی یہ تنقیدصحیحین پر کوئی مستقل بالذات تنقید شمار نہ ہو گی اور ایسی تنقید کاأئمہ سلف ہی میں سے بہت سے أئمہ نے کافی و شافی جواب دے دیا ہے ۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے تنقید نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
اب اس مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ محدثین مثلا امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی روایات پر جو کلام کیاہے کیا اس سے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی روایات کو ضعیف قرار دیا جا سکتا ہے ؟ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک اما م الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی بعض روایات پرجن اصولوں کی روشنی میں کلام کیا ہے وہ اصول جمہور محدثین اور فقہاء کے ہاں قابل قبول نہیں ہیں۔ ا مام نووی رحمہ اللہ کا ایک قول یوں منقول ہے:
وقال النووی فی شرح البخاری:ما ضعف من أحادیثھما مبنی علی علل لیست بقادحة۔ (قواعد التحدیث'شیخ جمال الدین قاسمی'ص١٩٨'دارالنفاس)
امام نووی نے صحیح بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ صحیحین کی جن احادیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے وہ ایسی علل پر مبنی ہیں جو کہ 'علل قادحة' نہیں ہیں۔
ایک اورجگہ امام نووی فرماتے ہیں:
و ذلک الطعن الذی ذکرہ فاسد مبنی علی قواعد لبعض المحدثین ضعیفة جدا مخالفة لما علیہ الجمھور من أھل الفقہ و الأصول و غیرھم۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'ص٣٤٦'دار نشر الکتب الاسلامیة'لاہور)
امام الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے صحیحین کی احادیث پر جو طعن کیا ہے وہ بعض محدثین کے ایسے قواعد پر مبنی ہے جو بہت ہی ضعیف ہیں اور ان قواعد کے مخالف ہیں کہ جن کوجمہور فقہاء اور اصولیین وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری و صحیح مسلم کے جن رواة پربعض دوسرے محدثین کی طرف سے جرح ہوئی ہے وہ ایسی جرح نہیں ہے جو کہ موجب طعن ہو۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما احتج البخاری و مسلم و أبو دؤد بہ من جماعة علم الطعن فیھم من غیرھم محمول علی أنہ لم یثبت الطعن المؤثر مفسر السبب۔(مقدمہ للنووی لشرح مسلم'جلد١'ص٢٥'دار الفکر'بیروت)
جن رواة سے امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں میں حدیث لی ہے ان میں سے بعض پر ان کے علاوہ محدثین کی طرف سے جو جر ح ہوئی ہے اس سے ان رواة پر کوئی ایسامؤثر طعن ثابت نہیں ہوتاجو کہ سبب طعن کی وضاحت کرنے والابھی ہو ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح بخاری کی منتقد احادیث بھی کئی فوائد کی حامل ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فانہ أبعد الکتابین عن الانتقاد... و فی الجملة من نقد سبعة آلاف درھم فلم یبرج فیھا الا دراھم یسیرة و مع ھذا فھی مغیرة لیست مغشوشة محضة فھذا امام فی صنعتہ۔(منھاج السنة'جلد٧'ص٢١٦'ادارة الثقافة و النشر بجامعةالامام محمد بن سعود)
صحیح بخاری دونوں کتابوں (یعنی صحیحین)میں سے تنقید سے زیادہ دور ہے او ر من جملہ جو شخص سات ہزاردراہم کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور ان میں چند(پرانے)دراہم کے علاوہ کسی چیز کی ملاوٹ نہیں کرتا اوراس کے باوجود کہ یہ (پرانے)دراہم بھی محض کھوٹے سکوں کی مانند نہیں ہیں بلکہ فائدہ مند ہیں،کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس فن کے امام تھے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی روایات پر ہونے والی نقد سے اس کی کسی روایت کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ۔اما م سخاوی،امام ابو اسحاق اسفرائینی رحمہما اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:
أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبار التی اشتمل علیھا الصحیحان مقطوع بصحتہ أصولھا و متونھا لا یحصل الخلاف فیھا بحال و ان حصل فذاک اختلاف فی طرقھا و و رواتھا قال فمن خالف حکمہ خبرا منھا و لیس لہ تأویل سائغ للخبر نقضنا حکمہ لأن ھذہ الأخبار تلقتھا الأمة بالقبول۔(فتح المغیث'جلد١'٥١'دار الکتب العلمیة'بیروت)
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین کی تمام احادیث کے اصول اور متون قطعی طور پر صحیح ہیں اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہیں ہے اگر کہیں کوئی اختلاف ہے تو وہ اس کے طرق اور راویوں کا اختلاف ہے۔ پس جس عالم کا کوئی حکم صحیحین کی احادیث کے مخالف ہوا اور اس حکم کی کوئی ایسی تاویل نہ ہو جو کہ اس خبر کو شامل ہو سکے تو ہم ایسے حکم کو رد کر دیں گے کیونکہ صحیحین کی روایات کو امت میں'تلقی بلقبول'حاصل ہے۔
صاحب
'تنقیح الأنظار' شیخ محمد بن ابراہیم الوزیر رحمہ اللہ کے نزدیک صحیحین کی احادیث پر کلام سے ان کی روایات نہ توضعیف ہوئی ہیں اورنہ ہی اس سے ضعف لازم آتا ہے۔شیخ صاحب فرماتے ہیں:
أعلم أن المختلف فیہ من حدیثھما ھو الیسیر و لیس فی ذلک الیسیر ما ھو مردود بطریق قطعیة و لا اجماعیة بل غایة ما فیہ أنہ لم ینعقد علیہ الاجماع وأنہ لا یتعرض علی من عمل بہ و لا علی من توقف فی صحتہ و لیس الاختلاف یدل علی الضعف و لا یستلزمہ۔(الروض الباسم'جلد١'ص٢٧٧'باب الاحادیث المتکلم فیھا فی الصحیحین'دار عالم الفوائد للنشر و التوزیع)
یہ بات اچھی طرح جان لو کہ صحیحین کی بہت کم روایات( کی صحت و ضعف) کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے اور یہ مختلف فیہ روایات بھی قطعیت کے ساتھ یا اجماعاًمردود نہیں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ( ان روایت پر کلام سے)یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان روایات کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہے لہذانہ اس کے پیچھے پڑا جائے گاجو کہ ان پر عمل کرتا ہے اور نہ اس سے تعرض ہو گا جو کہ ان کی صحت میں توقف کرتا ہے ا ور محدثین کے اس قسم کے اختلاف سے نہ ہی کوئی روایت ضعیف ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا ضعف لازم آتا ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک اب کسی بھی عالم کے لیے صحیحین کی کسی سند پر کلام کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و قد دفع أکابر الأمة من تعرض للکلام علی شیء مما فیھما و ردوہ أبلغ رد وبینواصحتہ أکمل بیان فالکلام لی أسنادہ بعد ھذا لا یأتی بفائدة یعتد بھا فکل رواتہ قد جاوز القنطرة و ارتفع عنھم القیل و القال و صارواأکبر من أن یتکلم فیھم بکلام۔ (قطر الولی'ص٢٣٠'٢٣١٭) امت کے أکابر علماء نے ان تمام شبہات کا جواب دیا ہے جو کہ صحیحین پر کیے گئے تھے اور ان تمام اعتراضات کا اچھی طرح رد کرتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی صحت کو خوب واضح کر دیا ہے۔اس( تنقید و تنقیح )کے بعداب میرا صحیحین کی کسی سند پر کلام کرنا 'بے فائدہ ہے ۔صحیحین کے تمام راوی پل پار کر چکے ہیں اوران کے بارے میں قیل و قال کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور وہ اس مرتبے سے اوپر ہو چکے ہیں کہ ان کی ذات میں کسی قسم کا کلام کیاجائے۔
ایک اور جگہ امام شوکانی فرماتے ہیں:
فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک(قطر الولی'ص٢٣٠٭)
پس اہل فن کا اس پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کتاب کی تمام احادیث کی صحت اس 'تلقی بالقبول'سے معلوم ہے جو کہ اجماع سے ثابت ہے اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور ہر قسم کا شک دور ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ امام بخاری و امام مسلم کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعوی یہ ہے کہ ان میں موجود تمام روایات محدثین کے وضع کردہ اصول حدیث کی روشنی میں صحیح حدیث کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔لہذااگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کوئی روایت ضعیف ہے تووہ دراصل امام بخاری و امام مسلم کی تحقیق کو چیلنج کر رہا ہے،اور اگرتو ایسا ناقد امام بخاری و امام مسلم کے پائے کا محدث نہیں ہے،جیسا کہ عصر حاضر کے ان متجددین، مفکرین اور فضلاء کا معاملہ ہے کہ جن کا ذکر اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے،تواس کی صحیح بخاری و صحیح مسلم پریہ تنقید ناقابل التفات ہو گی۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
من انتقد علیھما یکون قولہ معارضا لتصحیحھما و لا ریب فی تقدیمھما فی ذلک علی غیرھا فیندفع الاعتراض من حیث الجملة۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری'ص٣٤٧'دار نشرالکتب الاسلامیة'لاھور)
جس نے بھی صحیح بخاری وصحیح مسلم پر تنقید کی،اس کا قول امام بخاری و امام مسلم کی تصحیح کے معارض ہو گا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام بخاری و امام مسلم اس مسئلے میں بقیہ محدثین پر مقدم ہیں اس لیے من جملہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر تمام اعتراضات دور ہو جاتے ہیں۔
شیخ احمد شاکررحمہ اللہ کے نزدیک اما م الدارقطنی رحمہ اللہ وغیرھم نے صحیحین پر جو نقد کی ہے وہ اس اعتبار سے نہیں ہے کہ صحیحین کی روایات اس سے ضعیف قرار پائیں بلکہ ان محدثین نے صحیحین پراپنے نقد میں اس أمر کی وضاحت کی ہے کہ امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتب میں بعض روایات میں صحت حدیث کے اس اعلی درجے کا التزام نہیں کیا ہے کہ جس کو انہوں نے عام طور پر صحیحین میں بطور معیار اختیار کیاہے۔شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الحق الذی لا مریة فیہ عند اہل العلم بالحدیث من المحققین'و ممن اھتدی بھدیھم و تبعھم علی بصیرة من الأمر:أن أحادیث الصحیحین صحیحةکلھا'لیس فی واحدمنھامطعن أو ضعف۔و انما انتقد الدارقطنی و غیرہ من الحفاظ بعض الأحادیث،علی معنی أن ماانتقدوہ لم یبلغ فی الصحة الدرجة العلیاالتی التزمھا کل واحد منھم فی کتابہ.و أماصحة الحدیث فی نفسہ فلم یخالف أحد فیھا.فلا یھولنک ارجاف المرجفین و زعم الزاعمین أن فی الصحیحین أحادیث غیر صحیحة۔ (الباعث الحثیث'الشیخ أحمد محمد شاکر'ص٤٤'٤٥'وزارة الأوقاف والشؤون الاسلامیة'دولة قطر)
اس مسئلے میں حق بات کہ جس میں،محققین محدثین اور بصیرت کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کے نزدیک کوئی شک نہیں ہے،یہ ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں۔ان میں کوئی ایک بھی روایت ایسی نہیں ہے کہ جو کہ قابل طعن یا ضعیف ہو۔اور امام الدار قطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے جو بعض احادیث پر کلام کیاہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ (یعنی منتقد)احادیث صحت کے اس اعلی درجے کو نہیں پہنچتی جس کاالتزام شیخین نے اپنی کتب کی ہر روایت میں کیاہے ۔جہاں تک فی نفسہ کسی حدیث کی صحت کا معاملہ ہے تو اس میں کسی ایک عالم کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔پس تمہیں افواہیں اڑانے والوں کاپروپیگنڈا اور گمان کرنے والوں کا گمان ڈرا نہ دے کہ صحیحین میں کچھ روایات ایسی بھی ہیں جو کہ غیر صحیح ہیں۔
جو بات شیخ احمد شاکررحمہ اللہ فرما رہے ہیں وہی بات امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ایک جگہ لکھی ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قد استدرک جماعة علی البخاری و مسلم أحادیث أخلا بشرطھما فیھا و نزلت عن درجة ما التزماہ ... و قد ألف الامام الحافظ أبو الحسن علی بن عمر الدار قطنی فی بیان ذلک کتابہ المسمی بالاستدراکات و التتبع و ذلک فی مائتی حدیث مما فی الکتابین۔(مقدمہ امام نووی لصحیح مسلم'ص١٤٦' دار المعرفة'بیروت)
محدثین کی ایک جماعت نے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی بعض ان روایات کو جمع کیا ہے کہ جن میں دونوں اماموں نے اپنی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا اور ایسی روایات بھی اپنی کتب میں نقل کر دیں جو باعتبار صحت 'صحیحین کی عام روایات سے درجے میں کم ہیں...حافظ علی بن عمر الدارقطنی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر 'الاستدراکات والتتبع' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے،جس میں انہوں نے صحیحین کی ایسی دو سو روایات کو جمع کیا ہے۔
اس بحث کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ صحیحین کی روایات پر أئمہ سلف نے جو تنقید کی ہے وہ اکثر و بیشتر اس درجے کی نقد نہیں ہے کہ جس سے صحیحین کی کسی روایت کا ضعیف ہونا لازم آئے اس لیے اس کلام کے بعد بھی صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں،اگرچہ صحیحین کی منتقد روایات کا درجہ ان روایات سے کم ہے کہ جن پر محدثین کی طرف سے کوئی کلام نہیں ہوااس لیے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ترجیحات کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بنا لیا جائے کہ اگر صحیحین کی دو روایات باہم آپس میں معارض ہوں تو غیر منتقد روایت کو منتقد روایت پر ترجیح دی جائے گی لیکن اس ترجیح کے بعد بھی ہم منتقد روایت کو صحیح ہی کہیں گے جیسے کہ منسوخ روایت صحیح ہوتی ہے ۔ بعض متجددین کو صحیحین کی بعض روایات میں جو اشکال پیدا ہوتے ہیں ۔اگر وہ ان کے حل کے لیے صحیحین کو ضعیف قرار دینے کی تحریک چلانے کی بجائے ان احادیث کی مناسب تأویلات کا رستہ اختیار کرتے تو اللہ تعالی لازما ان کے شکوک و شبہات کو رفع فرما دیتے اور آج صحیح بخاری و صحیح مسلم فن حدیث میں نااہل مفکرین و نام نہاد محققین کے ہاتھوں کھیل تماشہ نہ بن جاتی۔