کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کیا صفاتِ الٰہیہ میں ائمہ اربعہ ’مفوضہ‘ ہیں؟
ازقلم.......حافظ محمدزبیر
برصغیر کے حنفی حضرات عقیدہ میں کس منہج سے تعلق رکھتے ہیں؟
توحید کی علماے کرام نے تین اقسام بیان کی ہیں:
- توحید اُلوہیت
- توحید ربوبیت
- توحید اسماء وصفات
اہل سنت والجماعت کےاس عقیدہ کے برعکس ایک اُسلوب اہل تاویل کا ہے جو صفاتِ ذاتیہ کے علاوہ دیگراَسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کو بھی اُن کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی پر محمول کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں ’ید‘ بمعنی ہاتھ ہے۔اہل سنت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں وغیرہ مانتے ہیں،لیکن اہلِ تاویل صفتِ ید کا مجازی معنی ’قدرت‘ بیان کر دیتے ہیں اور اس لفظ کے حقیقی معنیٰ ’ہاتھ‘کا اللہ کی ذات کے لیے اِثبات نہیں کرتے ہیں۔اہل تاویل جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کی تاویل کرتے ہیں اسی طرح صفاتِ لازمہ اور غیر لازمہ ناموں سے تقسیم کر کے ان کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرتے ہیں اگرچہ اہل تاویل کے ہاں تعبیرات کے بعض باریک فرق پائے جاتے ہیں۔تاہم تاویل کرنے میں معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ سب شامل ہیں۔ معتزلہ اسماء و صفات دونوں کی حقیقت کے منکر ہیں جبکہ اشاعرہ اور ماتریدیہ ’ید‘ (ہاتھ) وغیرہ کے تو منکر ہیں ،لیکن اسما ء الٰہی کے قائل ہیں البتہ تین صفاتِ فعلیہ (غیر لازمہ)میں اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ ’حقیقت‘ کے بجائے ’مجاز‘ کو ہی تسلیم کیا جائے، مثلاً اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں، لہٰذا قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی نفسی کلام ہے۔البتہ صفاتِ باری تعالیٰ میں سے چار صفاتِ لازمہ حیات، قدرت، علم اور ارادہ کے قائل ہیں جب کہ کلام، سمع اور بصر جوصفات غیر لازمہ کہلاتی ہیں۔اہل سنت اور اشاعرہ، ماتریدیہ کے ہاں یہی معرکۃ الآراء ہیں۔
اہل سنت والجماعت کے بالمقابل تاویل سے بچنے کا ایک دوسرا طریق کار اہل تفویض کا ہے جو اللہ تعالی ٰکی صفات کے لیے کوئی مجازی معنیٰ پیش کر کے تاویل تو نہیں کرتے،لیکن سرے سے عربی الفاظ کا مفہوم ہی تسلیم کرنے سے انکار کر جاتے ہیں اور ان صفات کو اللہ کے سپرد کر دینے کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کا کوئی لغوی معنی بھی بیان نہ کیا جائے ۔
مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا موقف
ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ملتان کے نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں وفاق المدارس العربية کے صدر اور شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا ایک مضمون شائع ہواجس میں صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے بحث کی گئی ہے۔اس مقالہ میں مولانا نے سلفی حضرات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے مسئلۂ صفاتِ باری تعالیٰ میں اُنہیں متشدد قرار دیا ہے۔ہمیں اس وقت سلفی حضرات کے تشدد اور عدمِ تشدد پر کوئی بحث نہیں کرنا بلکہ ائمہ اربعہ کے بارے میں مولانا کی اس مسئلے میں ایک بنیادی غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جس میں بہت سے معاصر حنفی علما شعوری یا لاشعوری طور پر مبتلا ہیں۔
مولانا سلیم اللہ خان نے توحیدِاسماء وصفات کےضمن میں اہل سنت کے تین مسالک بیان کیے ہیں اوراُن کے خیال میں جمہور اہل سنت یعنی صحابہ، تابعین اور ائمہ اربعہ کا موقف توحیدِاسماء وصفات کے بیان میں یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے مطلقاً تفویض کے قائل ہیں یعنی وہ اللہ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا تو کجا ان کے لغوی/عرفی معنی ہی کے قائل نہیں خواہ حقیقی ہوں یا مجازی ۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’1۔پہلامسلک:جمہور علماے اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص ان متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور ہم ان کو ثابت تسلیم کرنے کے بعد، ان کے حقیقی یا مجازی معنی بیان و متعین نہیں کر سکتے۔ یہ متشابہ المعنی بھی ہیں اور متشابہ الکیفیہ بھی ہیں: وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَه اِلَّا اللّٰه یعنی اس کی تفسیر صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، یہ مسلک ِتفویض ہے اور یہی جمہور متقدمین اہل سنت اور اَئمہ اربعہ کا مسلک ہے۔
2۔دوسرا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان جو حقیقی معنی اس کے ہو سکتے ہیں۔ وہی مراد ہیں،اس کی کیفیت،کنہ اور صورت کیا ہوگی؟یہ معلوم نہیں، یعنی یہ نصوص و صفات معلوم المعنی اور متشابه الکیفية ہیں۔اسی مسلک کی وضاحت میں مشہور مقولہ کہا گیا:الإستواء معلوم والکیف مجهول والسؤال عنه بدعة اورالاستواء غیر مجهول والکیف غیر معقول والإیمان به واجب. امام مالک اور ان کے اُستاذ ربیعہ بن ابو عبد الرحمن وغیرہ کی طرف یہ مقولہ منسوب ہے۔
3۔اہل السنت والجماعت کا تیسرا مسلک یہ ہے کہ ان صفات ونصوص کے ایسے معنی مجازی بیان کیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور لفظ کے اندر اس معنی کے مراد لینے کی گنجائش ہو، مثلاً ید سے قدرت، وجه سے ذات اور استوا سے اِستیلا مراد لیا جا سکتا ہے۔ اس مسلک کو ’مسلک ِتاویل‘ کہتے ہیں اور اکثر متاخرینِ اہل سنت نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔ البتہ جو مجازی معنی مراد لیے جاتے ہیں، وہ یقینی اور قطعی نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ان پر جزم کا عقیدہ رکھتے ہیں، بلکہ وہ ظن اور احتمال کے درجہ میں ہوتے ہیں، یعنی ید کی تاویل وہ قدرت سے کر کے کہتے ہیں کہ یہ ایک تاویل اور احتمالی تفسیر کے درجہ میں ہے۔ ید سے یقینی اورحتمی طور پر نصوص کے اندر قدرت کے معنی مراد ہیں، اس کا عقیدہ وہ نہیں رکھتے۔‘‘
آگے چل کر ایک مقام پر مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس بارے مولانا عبد الحی لکھنوی کی تحقیق سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مولانا عبد الحی لکھنوی نے دوسرے مسلک کو اکثر علما کا اور تیسرے مسلک کو اکثر متاخرین متکلمین کا مذہب قرار دیا،چنانچہ مولانا سلیم اللہ خاں اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں:
’’اس باب میں علما کے چند مسلک ہیں: ایک مسلکِ تاویل کہ استوا بمعنی استیلا اور ید بمعنی قدرت اور وجہ بمعنیٰ ذات، وعلیٰ ہذا القیاس اور یہی مختار اکثر متاخرین متکلمین کاہے۔ دوسرا مذہب:تشابه فی المعنی وفی الکیفية۔ تیسرامسلک:معلوم المعنی، متشابہ الکیفیہ اور حق ان میں مسلک ِثالث ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین ہے۔
راجح اور محتاط مسلک: لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر علما نے پہلا مسلک اختیار کیا ہے جو مسلک تفویض سے مشہور ہے اور وہی مسلک سب سے زیادہ اَسلم اور مذہب ِمحتاط ہے۔‘‘
اپنے مقالہ کے آخر میں مولانا سلیم اللہ خاں لکھتے ہیں :
’’علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم اس مسئلہ میں متشدد تھے لیکن سلفی حضرات اورغیر مقلدین صرف اپنے مسلک کو حق سمجھتے ہیں اور اسی کو اہل سنت کا مسلک قرار دیتے ہیں، بقیہ حضرات کو وہ گمراہ اور باطل پر سمجھتے ہیں۔جمہور اہل السنت جن میں حضرات صحابہ، تابعین اور جلیل القدر ائمہ کرام داخل ہیں کو گمراہ سمجھنا، خود بڑی گمراہی ہے۔‘‘
مسئلے کا تاریخی پس منظر
مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے اپنے اس مقالہ میں تفویض مطلق کے مسلک کی نسبت صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہؒ کی طرف کی ہے جو خلافِ حقیقت ہے۔ اس مسئلے میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی نسبت مولانا عبد الحی لکھنوی کی تحقیق راجح اور امر واقعہ کے زیادہ قریب ہے کہ صحابہ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کا مسلک تفویض مطلق نہیں تھا بلکہ وہ صفاتِ باری تعالیٰ کو معلوم المعنی او ر متشابہ الکیفیہ بیان کرتے تھے۔
اس مسئلے پر تحقیقی گفتگو سے پہلے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اُلجھن کو سامنے لائیں جس کے پیش نظر وہ عقیدہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید حرام سمجھنے کی بنا پر امام ابو حنیفہ(متوفی ۱۵۰ھ) کی تقلید ترک کر دیتے ہیں لیکن حنفی عوام کے سامنے اپنے امام کی مخالفت کے طعن سے بچنے کے لیے امام صاحب کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے تاویلات اور حِیَل کا ایک نہ ختم ہونے والاباب کھول دیتے ہیں۔ جن حضرات نے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مناقب پر لکھی جانے والی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور وہ سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کے دور کے بہت بعد چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے فقہی جمود کے پس منظر سے بھی واقف ہیں، اس مناظراتی، جدلیاتی اور فکری جنگ سے ضرور آگاہ ہوں گے جو چوتھی صدی ہجری کے تقلیدی جمود کے دور سے شروع ہو کر صدیوں حنفیہ اور شافعیہ کے مابین جاری رہی۔ بعد ازاں ایک طرف تو شافعیہ جغرافیائی اعتبار سے شرقِ بعید مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ کے علاقوں میں پھیل گئے اور دوسری طرف برصغیر پاک و ہند میں تقلید ِجامد کے خلاف شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے فروغ ِ حدیث (اہل حدیث) کی تحریک برپاہوئی یعنی نصوص کو فصوص پر اور سنت کو فقہ پر ترجیح دینے یا اجتہادات ِائمہ کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کے دور کا آغاز ہوا تو ان مناظروں اورمجادلوں کا رخ شافعیہ سے اہل حدیث کی طرف پھرگیا اور حنفیہ اور غیر مقلداہل حدیث کے مابین بظاہر نہ ختم ہونے والے مناظرات کے ایک طویل سلسلہ نے جنم لیا۔
اہل حدیث کے ساتھ اس فکری اورعلمی مباحثہ میں علماے حنفیہ نے ائمہ کی تقلید پراتنا زور دیاکہ نہ صرف ائمہ اربعہ میں سےہر ایک کی تقلیدشخصی کو واجب قرار دیابلکہ اُنہوں نے اپنے عوام الناس میں اس فکر کو خوب اچھی طرح راسخ کر دیا کہ فقہی مسالک میں تقسیم ہو کر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ مزید برآں اپنی درسگاہوں میں ائمہ اربعہ میں سے بھی ائمہ ثلاثہ کے موقف پر امام ابو حنیفہ کے مذہب کو عقلی ونقلی دلائل سے راجح قرار دینے کے لیے زندگیاں کھپا دیں اور بعض انتہا پسندوں نے تو فقہ حنفی کے راجح ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی بیان کر دی کہ سیدنا حضرت عیسیؑ بھی امام ابوحنیفہ کے مقلد ہوں گے۔علماے حنفیہ نے اگرچہ یہ سارا کام اس پردہ میں کیا ہے کہ عدمِ تقلید ایک فتنہ ہے اوراس سے اجتناب ضروری ہے حالانکہ اعتقادی مسائل میں ان کے ہاں بھی تقلید حرام ہے۔پس حنفیہ نے اہل حدیث پر اس لحاظ سے بہت زیادہ طعن کیا کہ وہ غیر مقلد ہیں اور کسی متعین امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں یہاں تک کہ حنفی عوام الناس میں ’غیر مقلدہونا‘ ایک گالی بن کررہ گیا۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ حنفی علما نے اپنے عوام کے سامنے اہل حدیث کا اتباع اور تقلید میں فرق کا وہ موقف، جو ولی اللّٰہی تحریک کی اساس ہے، صحیح طور پر آج تک پیش ہی نہیں کیاحالانکہ بہت سے دیوبندی علمابھی شاہ ولی اللہ کی فکر کے حاملین میں سے ہونے کے دعویدار ہیں۔ پس جہاں تک عقیدہ میں تقلید کا مسئلہ ہے تو اس بارے حنفی اور اہل حدیث علما کا اتفاق ہے کہ تقلید نہیں ہونی چاہیے، لیکن فقہی وفروعی مسائل میں دونوں کے مابین ’اتباع‘ یعنی کتاب وسنت کی دلیل کی بنیاد پر سلف صالحین کی پیروی اور ’تقلید‘ یعنی بلادلیل کسی متعین فقیہ کی پیروی کا فرق ہے۔’تقلید‘ کا لفظ آج کل عرب ممالک میں ’نقالی‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے،مثلاً سڑکوں پر یہ بورڈ آویزاں ہوتے ہیں:احذر التقليد ولاحظ الماركة ’’نقالوں سے ہوشیار رہو اور ٹریڈ مارک دیکھ کر سودا کرو‘‘
حنفی علما کے نزدیک بے علم عوام الناس کے لیے فقہی مسائل میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید ہونی چاہیے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اعتقادی مسائل تو اس سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہونے کے باوصف تقلید ائمہ کے حقدار کیوں نہیں ہیں؟ حنفیہ میں سے عقائد میں تقلید کے حرام ہونے کی وجہ ہی سے بعض حنفی اعتقادی طور پر معتزلی ہوتے ہیں جیسا کہ علامہ زمخشریؒ اور بعض سلفی بھی ہیں جیسا کہ امام ابویوسف، امام محمد، امام طحاوی، اور ابن ابی العز حنفی رحمہم اللہ وغیرہ ۔ بعض علما نے امام بزدوی اور ملا علی قاری کے متعلق سلفی ہونے کا دعوی کیا ہے اور بعض ’اشعری‘ ہیں جیسا کہ شیخ احمد سرہندی(مجدد الف ثانی) جبکہ برصغیر کے احناف کی اکثریت ’ماتریدی‘ ہے جیساکہ اکابر علماے دیوبند کی اکثریت ’ما تریدیہ‘ ہے۔ خلیجی ممالک کے اکثر حنفی عقیدہ میں سلفی ہیں۔
عقیدہ کی مذکورہ بالا تقسیم تو حنفیہ کے مابین قرونِ وسطیٰ میں رہی ہے جبکہ برصغیر پاک وہند میں یہ حضرات تصوف میں غلو اور اعتدال کی بحث کے نتیجے میں دو بڑے دھڑوں بریلوی اور دیوبندی مسالک میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ آج حنفی بریلو ی علماء کی اکثریت کو توحید ِاُلوہیت کے باب میں جب امام ابو حنیفہ اور متقدمین فقہاے حنفیہ کے اقوال سنائے جاتے ہیں اور اُنہیں اعتقادی مسائل میں اپنے حنفی ائمہ سلف کی پیروی کی دعوت دی جاتی ہے تو اُن کا سادہ جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’عقائدمیں تقلید حرام ہے۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حنفیہ نے فقہی مسائل میں تو تقلید ِجامد کا ثبوت دیا اور اس کو واجب قرار دیا لیکن اعتقادی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی تقلید نہ کرنے کی وجہ سے یہ کئی فرقوں اشعری،ماتریدی،معتزلی،بریلوی، دیوبندی، حیاتی، مماتی،وجودی، شہودی، مفوضہ،مؤوّلہ وغیرہ میں بٹ گئے۔پس حنفیہ من وجہ مقلد ہیں اور من وجہ غیر مقلد ہیں۔فقہی مسائل میں حنفی مذہب کے مقلد ہیں جب کہ اعتقادی مسائل میں یہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔
اس کے برعکس سلف صالحین کی اتباع کے دعویدار ’ اہل حدیث‘ کی دعوت یہ ہےکہ اعتقادی مسائل میں ائمہ سلف یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کی پیروی ہونی چاہیےاسی بنا پر اعتقادی مسائل میں سلف صالحین کی اتباع پر کاربند ہونے کی وجہ سے ہی اہل حدیث ’سلفی‘ کہلاتے ہیں۔ جبکہ فقہی مسائل میں اہل حدیث کسی متعین امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔بلکہ تمام فقہی آراء کو کتاب وسنت پر پیش کر کے اقرب الی السنۃ کو اختیار کر لیتے ہیں۔
البتہ دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے کہ اہل حدیث فقہی مسائل میں اگر علماے اُمت کا اجماع ہو تو اس اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اہل حدیث کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تجدد کی راہ پر ہیں یا کسی نئی فقہ کی تدوین کر رہے ہیں بلکہ علماے اہل حدیث کے فتاویٰ کو دیکھا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ ائمہ کی آراء کو قرآن وسنت پر پیش کر کے قدیم مسائل میں کسی نہ کسی فقہی مذہب یا امام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ ائمہ اربعہ تک محدود نہیں رہتے۔ جدید مسائل میں وہ کتاب وسنت سے ائمہ سلف کے طریقہ کار کی روشنی میں براہ راست استدلال کرتے بھی نظر آتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ فقہاے حنفیہ نے فقہ حنفی میں متقدمین حنفیہ سے مروی متفرق اَقوال میں دلائل کی بنیاد پر راجح اور مرجوح قول کا جو منہج اختیار کیا ہے اور ایسے فقہا کو ’اصحابِ ترجیح‘ کا نام دیا ہے ، اسی معنی میں اہل حدیث نے فقہ حنفی کی بجائے جمیع مذاہب ِاسلامیہ یا معروف فقہا سے مروی اَقوال میں قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر ترجیح کا موقف اختیار کیا ہے۔قدیم فقہی مسائل میں اہل حدیث کا یہی طرزِ عمل ہے البتہ جدید مسائل کا معاملہ ہو تو وہاں شاید حنفی مقلدین، اہل حدیث کی نسبت زیادہ اجتہاد کر نے کے دعوے دار ہیں جب کہ محقق اہل حدیث اسے ’حیلے ‘قرار دیتے ہیں۔آج کل مروّجہ اسلامی بینکاری اس کی ایک مثال ہے۔گویا قدیم مسائل میں حنفی ایک ہی مذہب میں علما کے اختلاف کی صورت میں ترجیح قائم کرنے کےباوجود اسے تقلید کا نام دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث جمیع مذاہب ِاسلامیہ:حنفی، شافعی،مالکی،حنبلی،ظاہری وغیرہ کے اقوال و آرا میں دلیل کی بنیاد پر راجح اور مرجوح کا تعین کرتے ہیں اور اسے ’اتباع‘ کا نام دیتے ہیں۔
چونکہ اعتقادی مسائل میں عموماً قیاس وغیرہ کی گنجائش نہیں ہوتی،یعنی اعتقادی مسائل حالات اور زمان و مکان کی تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر ویسے ہی رہتے ہیں،کیونکہ ان کا تعلق زیادہ تر خبر سے ہوتا ہے جو غیر متبدل رہتی ہے، پس عقیدے کے مسائل میں ہمیں پیچھے سے پیچھے جانا چاہیے اور سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلاف ؒ کے طریق کار کی اتباع کرنی چاہیے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اعتقادی مسائل میں اہل سنت(سلف صالحین) میں کوئی زیادہ اختلاف مروی نہیں ہے بلکہ اکثر اعتقادی مسائل میں ائمہ اربعہ کا عقیدہ تقریبا ایک ہی ہے، سوائے ایمان کی حقیقت کے مسئلے میں،جس میں امام ابو حنیفہؒ کا اختلاف نقل ہوا ہے لیکن اس مسئلے کے بارے میں بھی امام ابن عبد البرمالکی اور امام ابن ابی العز حنفی کا رجحان یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اسی قول کی طرف رجوع کر لیا تھا جو ائمہ ثلاثہ کا ہے۔ اس کے برعکس فقہی اور عملی مسائل میں حالات اور زمانے کے تغیرات کی وجہ سے بہت دفعہ نصوص کا اطلاق تبدیل ہونے کا مغالطہ ہوتا ہے۔اسی بنا پر ابن قیم اسے فتوی کی تبدیلی سےتعبیر کرتے ہیں۔ لہٰذا ان میں اجتہاد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو قدیم مسائل میں اصحابِ ترجیح کا سا ہوتا ہے نہ کہ اجتہادِ مطلق کی حیثیت کا حامل۔ اہل الحدیث کے فتاویٰ ہماری اس بات کے شاہد ہیں۔
پس حنفیہ نے کسی متعین فقہ کی تقلیدکو لازم قراردے کر کسی تعبیر خاص کو عین دین اسلام یا وحی کی صورت شریعت ِاسلامیہ کی طرح دائمی قرار دے دیا ہے جبکہ اہل حدیث کے نزدیک کوئی متعین فقہ ایک عارضی اور بدلتی شے ہے جب کہ صرف وحی والہام (شریعت ِاسلامیہ)ہی دائمی ہے لہٰذاحق کسی ایک متعین فقہ میں محصور نہیں ہے چنانچہ وہ کتاب وسنت کی بنیاد پر سب فقہوں اور جمیع فقہاےمحدثین سے برابر کی سطح پر استفادہ کے قائل ہیں۔
بعض حنفی علما نے جب یہ دیکھا کہ اہل الحدیث اعتقادی مسائل میں سلف صالحین کی اتباع کے قائل ہیں اور حنفیہ کو اس باب میں امام ابو حنیفہ کے سلفی ہونے کی بنا پر ان کی تقلید کی دعوت بھی دیتے ہیں تو اُنہوں نے امام ابو حنیفہ سے مروی سلفی عقیدے میں تاویلات کا ایک باب کھول کر اُنہیں ’ماتریدیہ‘ کی طرح ’مؤوّلہ‘ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مولاناسلیم اللہ خاں صاحب نے بھی اپنے اس مقالہ میں ان علماء کی مذمت کی ہے جو امام ابو حنیفہ کو کھینچ تان کر اہل تاویل میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ تاویل کے رد عمل میں ان علما نے ایک دوسری انتہاء یہ اختیار کی کہ اپنے امام کو مفوضہ بنا دیا۔ان علما میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور بعض علماے دیوبند شامل ہیں، حالانکہ امام ابو حنیفہ کے سلفی عقیدے کو کھینچ تان کر ’مفوضہ‘ اور اہل تفویض کا عقیدہ بنانے کی یہ کاوش امام ابوحنیفہؒ (سلفی) پر بڑی زیادتی ہے۔ واضح رہے کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب ،امام ابوحنیفہ کا عقیدہ ’تفویض‘ بتلاتے ہیں اور اسی عقیدے کو حق قرار دیتے ہیں اورخود بھی اسی کے قائل ہیں۔ گویاعلماے دیوبند میں بعض خود مفوضہ ہونے کی بنا پر امام ابو حنیفہ کی طرف تفویض کے عقیدے کی نسبت کرتے ہیں جبکہ اکثر علماے دیوبند اہل تاویل ہیں اور ابو منصور ماتریدی(متوفی ۳۳۳ھ) کے پیروکار ہیں۔
کیا ائمہ اربعہ مفوضہ تھے؟
اس تمہید کے بعد ہم اصل نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ کیا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے کہ سلف صالحین یا ائمہ اربعہ مفوضہ ہیں؟اگر ہم اس مسئلے کی تحقیق میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو شامل کر لیں تو شاید یہ مضمون بہت طویل ہو جائے لہٰذا سردست ہم ائمہ اربعہ کے بارے بالعموم اورامام ابوحنیفہ کے بارے بالخصوص اس موقف کا جائزہ لے رہیں ہے کہ وہ اہل تفویض میں سے تھے یا نہیں؟
امر واقعہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ یا فقہاے محدثین اور متقدمین صوفیا کا صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے عقیدہ وہی ہے جسے آج ہم ’سلفی عقیدہ‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی ائمہ اربعہ اور فقہائے محدثین صفاتِ باری تعالیٰ کے لیے مروی الفاظ کو ان کے حقیقی معانی پر محمول کرتے ہیں لیکن ان صفات کی کیفیت بیان نہیں کرتے گویا ائمہ اربعہ یہ کہتے ہیں کہ جب قرآن نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفتِ’ید‘ کا اثبات کیا ہے تو ’ید‘ کے حقیقی معنیٰ ہاتھ کا اللہ تعالیٰ کے لیے اثبات کیا جائے گا،لیکن اللہ کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کریں گے اورنہ ہی اس کے بارے قیل وقال میں پڑیں گے۔
امام ابن تیمیہ ( متوفی ۷۲۸ھ) سے جب یہ سوال ہوا کہ دو اشخاص کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے اور ان میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کے آسمان میں ہونے کا اعتقاد نہ رکھے تو وہ گمراہ ہے اور دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ میں منحصر نہیں ہے تو اس بارے امام شافعی (متوفی ۲۴۰ھ) کا عقیدہ کیا ہے؟ توامام صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’امام شافعی رضی اللہ عنہ اور سلف صالحین امام مالک، امام اوزاعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، امام اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو ان مشائخ کا ہے جن کی لوگوں نے پیروی کی ہے جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابو سلیمان دارنی اور سہیل بن عبد اللہ تستری رحمہم اللہ وغیرہ ۔ ان تمام ائمہ میں اُصولِ دین یعنی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے یعنی توحید اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے جو عقیدہ ثابت ہے، وہ وہی عقیدہ ہے جو مذکورہ بالا ائمہ کا ہے۔ اور ان ائمہ کا عقیدہ وہی ہے جوصحابہ اور تابعین کا ہے۔ اور صحابہ و تابعین کا عقیدہ وہی ہے جو کتاب وسنت میں صراحتاً بیان ہوا ہے۔‘‘الحمد ﷲ، اعتقاد الشافعي رضي اﷲ عنه واعتقاد سلف الإسلام کمَالك والثوري والأوزاعي وابن المبارك وأحمد بن حنبل وإسحٰق بن راهویه وهو اعتقاد المشایخ المقتدٰی بهم کالفُضیل بن عیاض وأبي سلیمان الداراني وسهل بن عبد اﷲ التستري وغیرهم، فإنه لیس بین هؤلاء الأئمة وأمثالهم نزاع في أصول الدین وکذٰلك أبو حنیفة رحمة اﷲ علیه فإن الاعتقاد الثابت عنه في التوحید والقدر ونحو ذلك موافق لاعتقاد هؤلاء واعتقاد هؤلاء هو ما کان عليه الصحابة والتابعون لهم بـإحسان وهو ما نطق به الکتاب والسنة
علامہ نواب صدیق حسن خان (متوفی ۱۳۰۷ھ) ایک جگہ سلف صالحین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمارا مسلک اس بارے وہی ہے جو سلف صالحین کا تھا اور وہ یہ کہ اللہ کی صفات کا اثبات کیا جائے لیکن اُنہیں مخلوق سے تشبیہ نہ دی جائے اور اللہ کی صفات کو کیفیات وغیرہ سے تو پاک قرار دیا جائے لیکن یہ پاک قرار دینا اس طرح نہ ہو کہ اس سے صفات ہی باطل ہو جائیں (یعنی ان کا ظاہری اور حقیقی معنی ہی باطل قرار پائے)۔ یہی مسلک امام مالک، امام شافعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ؒ وغیرہ کا ہے۔ ان ائمہ میں اُصولِ دین میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ سے جو عقیدہ ثابت ہے وہ وہی عقیدہ ہے جس کے قائل یہ ائمہ تھے اور اسی عقیدہ کا اثبات قرآن وسنت سے ہوتا ہے۔‘‘فمذهبنا مذهب السلف إثبات بلا تشبیه وتنزیه بلا تعطیل وهو مذهب أئمة الإسلام کمالك والشافعي والثوري وابن المبارك والإمام أحمد وغیرهم فـإنه لیس بین هؤلاء الأئمة نزاع في أصول الدین وکذلك أبو حنیفة رضي اﷲ عنه فإن الاعتقاد الثابت عنه موافق لاعتقاد هؤلاء وھو الذي نطق به الکتاب والسنة
امام ابو حنیفہ کا عقیدہاب ہم نسبتاً تفصیل سے امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ کا عقیدہ بنیادی مصادر سے نقل کررہے ہیں:
فخر الاسلام امام بزدوی (متوفی ۴۸۲ھ) فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے اعتقادی مسائل میں ’فقہ اکبر‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جس میں اُنہوں نے صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کیا تھا اور صفات کے اثبات کا یہی منہج متقدمین فقہاے حنفیہ کا ہے۔ بزدوی لکھتے ہیں:
’’علم دو قسم کا ہے: ایک توحید اور صفاتِ باری تعالیٰ کا علم اور دوسرا شرائع اور احکام کا علم ہے۔پہلی قسم کے علم میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور ہواے نفس اور بدعتی مناہج سے دور رہنا اور اہل سنت والجماعت کے منہج کو مضبوطی سے پکڑ لیناہی اصلاً مقصود ہے۔ اہل سنت والجماعت کا منہج وہی تھا جوصحابہؓ و تابعین کا ہے اور جو سلف صالحین کا ہے اور اسی منہج پر ہم نے اپنے مشائخ حنفیہ اور متقدمین حنفیہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف، امام محمد اور ان کے اصحابؒ کو پایا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ نے ایک کتاب ’فقہ اکبر‘ کے نام سے لکھی ہے اور اس کتا ب میں اُنہوں نے صفات کا اثبات کیا ہے۔‘‘العلم نوعان: علم التوحید والصفات وعلم الشرائع والأحکام والأصل في النوع الأول هو التمسک بالکتاب والسنة ومجانبة الهوٰی والبدعة ولزوم طریق السنة والجماعة الذي علیه الصحابة والتابعون ومضٰی علیه الصالحون وهو الذي کان علیه أدرکنا مشایخنا وکان علی ذلك سلفنا أعني أبا حنیفة وأبا یوسف ومحمد أو عامة أصحابهم رحمهم اﷲ وقد صنّف أبو حنیفة رضي اﷲ عنه في ذلك کتاب الفقه الأکبر وذکر فیه إثبات الصفات
امام بزدوی کی اس عبارت میں چند بنیادی باتیں بیان ہوئی ہیں:
4۔امام ابو حنیفہ نے اعتقادی مسائل میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’فقہ اکبر‘ ہے۔
5۔اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے وہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور کبار حنفی علما و مشائخ کا ہے۔
6۔اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے، وہی صحابہ وتابعین کا عقیدہ ہے۔
7۔اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہو اہے، وہ اہل سنت والجماعت کا ہے۔
اب ہم امام ابو حنیفہ کی اس کتاب میں بیان شدہ عقیدہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے؟ کیاوہ تاویل کا عقیدہ ہے جیسا کہ ماتریدیہ حنفیہ کا عقیدہ ہے ؟ یا وہ تفویضِ مطلق کاعقیدہ ہے جیسا کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ ہے؟ یا صفات کو ان کے حقیقی معنی پرباقی رکھنے اور کیفیت نہ بیان کرنے کا عقیدہ ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے؟
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ ، چہرہ او ر نفس ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا قرآن میں اِثبات کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے لیے ہاتھ، چہرہ اور نفس کی جو صفات بیان کی ہیں تو وہ بلا کیفیت ہیں اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد اس کی قدرت ہے یا اس کی نعمت ہے کیونکہ اس طرح کے قول سے اللہ کی صفت باطل قرار پاتی ہے اور ایسا کام (یعنی صفات میں تاویل کرنا) معتزلہ اور قدریہ کرتے ہیں۔لیکن ’ید‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے بلا کیفیت کے، اور اللہ کا غضب اور اس کی رضا اس کی صفات ہیں بلا کیفیت ۔‘‘
وله ید و وجه ونفس کما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن، فما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن من ذکر الوجه والید والنفس فهو له صفات بلا کیف، ولایقال إن یده: قدرته أو نعمته لأن فیه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولکن یده صفته بلا کیف وغضبه ورضاه من صفات اﷲ تعالىٰ بلا کیف
اس عبارت میں ایک طرف تو امام ابو حنیفہ نے صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے اور دوسری طرف ان صفات میں تاویل سے منع کیا ہے اور تاویل کو معتزلی منہج قرار دیا ہے۔ گویا صفاتِ باری تعالیٰ میں تاویل کا مذہب تو قطعی طور پر ردّ ہو گیا یعنی تاویل والا مسلک امام صاحب اوراہل سنت والجماعت کا نہیں ہے۔
اب امام صاحب نے اللہ کی صفات کا جو اثبات کیا ہے تو کیا اس اثبات سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ ان صفات کا حقیقی معنی بھی بیان نہیں کرتے اور اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات لیتے ہیں جیسا کہ مفوضہ کا عقیدہ ہے یا اُن کی مراد یہ ہے کہ وہ صفات کا حقیقی معنی تو بیان کرتے ہیں لیکن کیفیت بیان نہیں کرتے اور اثباتِ صفات سے ان کی مراد حقیقی معنیٰ کا اثبات ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ امام ابو حنیفہ کی یہ عبارت مفوضہ کا ردّ کر رہی ہے او ر سلفی عقیدے کو بیان کر رہی ہے کیونکہ امام صاحب نے جب صفات کا اثبات کیا تو کیفیت کی نفی کی ہے جو اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ صفات کے حقیقی معنی کے قائل ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان شدہ صفاتِ باری تعالیٰ کے اثبات سے مراد اگر لفظوں کا اثبات لیا جائے تو اس کا انکار قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کلام ماننے والا کوئی مسلمان نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن کے الفاظ کا انکار تو کوئی کافر کر سکتا ہے۔یا وہ شخص جو قرآن کے اللہ کی کلام لفظی ہونے کا منکر ہے کیا امام صاحب اپنی عبارت ولکن یده صفة بلا کیفسے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کا انکار نہ کرنا؟کیا امام صاحب یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ بھی ثابت ہیں؟ یعنی امام صاحب اہل علم کو وہ عقیدہ بتلانا چاہتے ہیں جس سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے۔ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ امام صاحب کا اس عبارت سے مقصود یہ ہے کہ صفات اپنی حقیقی معنیٰ کے ساتھ ثابت ہیں لیکن بغیر کیفیت کے ہیں۔اگر امام ابوحنیفہ کے لیے مفوضہ یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ لیں تو پھر صفات کے اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات ہو گا کیونکہ تفویض کی صورت میں تو کوئی بھی معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا۔
اب ہم اس طرح آتے ہیں کہ کبارحنفی علما نے امام ابو حنیفہ کی ان عبارات سے تفویضِ مطلق کا عقیدہ سمجھا ہے یا صفات کے حقیقی معنی کے اثبات کا سلفی عقیدہ؟