محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
کیا فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کیا جاسکتا ہے؟؟؟
من گھڑت اور غیر منصوص فضائل اعمال کے قائلین کا دعویٰ ہے کہ :
ترغیب و ترہیب کے باب میں ضعیف حدیثوں پر عمل کرنا جائز ہے ۔
مگر ان کے اس دعویٰ کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے ۔
کیونکہ ترغیب و ترہیب یا دوسرے الفاظ میں فضائل اعمال بھی اُسی طرح کے دینی امور ہیں جس طرح فرائض و واجبات اور تاکیدی سنن ۔
ہر دینی اور شرعی معاملہ ، چاہے وہ فرض ہو یا سنت یا مستحب یا حرام ہو یا مکروہ ۔۔۔ اپنے ثبوت کے لیے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صریح بیان اور ارشاد کا محتاج ہے ۔
جبکہ ضعیف حدیث کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یا تو صحیح نہیں ہے یا مشکوک ہے یا پھر محض ظن و گمان ۔۔۔ اس لیے کہ ضعیف ایک مبہم لفظ ہے ۔ اس کی متعدد قسمیں ہیں ۔
ضعیف حدیث کے نام پر بعض لوگ جن اعمال کو دینی اعمال کہہ کر رواج دے رہے ہیں وہ درحقیقت اُن کے اپنے اعمال ہیں جن میں سے بیشتر ، دین میں اضافہ ، یعنی بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس مبہم اور غیر واضح دعویٰ کہ :
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے ۔
1)۔ کبار محدثین و اصولین (رحمہم اللہ عنہم) ، ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو نہ تو احکام میں جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی فضائل اعمال میں ۔
ان محدثین کے گروہ میں :
امام یحییٰ بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابن حبان ، امام ابن حزم ، امام ابن العربی المالکی ، امام ابو شامہ المقدسی ، امام ابن تیمیہ ، امام شاطبی ، امام خطیب بغدادی اور علامہ شوکانی ۔۔۔
جیسی عظیم الشان ہستیاں شامل ہیں ۔
بحوالہ : علامہ محمد جمال الدین قاسمی کی قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ۔ صفحہ : 113
2)۔ امام یحییٰ بن معین کے متعلق ابن سید الناس کہتے ہیں کہ امام صاحب ضعیف حدیث پر عمل کو مطلقاََ جائز نہیں سمجھتے تھے ، نہ تو احکام میں اور نہ ہی فضائل میں ۔
بحوالہ : ابن سید الناس کی عیون الاٴثر
3)۔ امام ابوبکر ابن العربی کے متعلق علامہ سخاوی کہتے ہیں کہ امام صاحب ضعیف حدیث پر عمل کو مطلقاََ جائز نہیں سمجھتے تھے ، نہ تو احکام میں اور نہ ہی فضائل میں ۔
بحوالہ : علامہ سخاوی کی فتح المغیث
4)۔ امام بخاری کا اپنی صحیح میں شرط اور امام مسلم کا ضعیف راویوں پر تشنیع کرنا اور صحیحین میں ان سے کسی روایت کی تخریج نہ کرنا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں ائمہ کے نزدیک ضعیف روایت پر عمل مطلق طور پر جائز نہیں ۔
5)۔ امام ابن حزم اپنی کتاب الملل و النحل میں فرماتے ہیں :
وہ روایت جس کو اہلِ مشرق و مغرب نے یا گروہ نے گروہ سے یا ثقہ نے ثقہ سے نقل کیا ، یہاں تک کہ سند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تک پہنچ گئی ۔۔۔ لیکن اگر کسی طریق میں کوئی ایسا راوی ہے جو کذب یا غفلت یا مجہول الحال ہونے کے ساتھ ساتھ مجروح ہے ۔۔۔ تو اُس روایت کا بیان کرنا یا اُس کی تصدیق کرنا یا اس سے کچھ اخذ کرنا حلال نہیں ہے ۔
6)۔ ضعیف روایت کو مطلق طور پر نہ لینے کا ذکر درج ذیل ائمہ و محدثین بھی اپنی کتب میں رقم کرتے ہیں :
(1)۔ مشہور حنفی عالم محمد زاہد کوثری ۔( مقالاتِ کوثری ، ص : 45 ، 46 )
(2)۔ علامہ احمد شاکر ۔( الباعث الحثیت شرح اختصار علوم الحدیث ، ص : 86 ، 87 )
(3)۔ علامہ شوکانی ۔( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ، ص : 283 )
(4)۔ امام ابن تیمیہ ۔( قاعدہ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلۃ ، ص : 112 ، 113 )
(5)۔ علامہ ناصر الدین البانی ۔( صحیح جامع الصغیر ، ص : 51 )
دین کو صحیح طریقے سے ہم مسلمانوں تک پہنچانے والے متذکرہ بالا ائمہ و محدثین کی کاوشوں کے خلاف اگر آج کے چند علمائے دین فتوے دے کر ضعیف احادیث پر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔
اور جو لوگ اس قسم کے فتووں کو معاشرے میں رائج کرنے پر زور دیتے ہیں ۔۔۔ ان کا معاملہ بھی اللہ ہی کے سپرد کیا جانا چاہئے ۔
ترغیب و ترہیب کے باب میں ضعیف حدیثوں پر عمل کرنا جائز ہے ۔
مگر ان کے اس دعویٰ کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے ۔
کیونکہ ترغیب و ترہیب یا دوسرے الفاظ میں فضائل اعمال بھی اُسی طرح کے دینی امور ہیں جس طرح فرائض و واجبات اور تاکیدی سنن ۔
ہر دینی اور شرعی معاملہ ، چاہے وہ فرض ہو یا سنت یا مستحب یا حرام ہو یا مکروہ ۔۔۔ اپنے ثبوت کے لیے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صریح بیان اور ارشاد کا محتاج ہے ۔
جبکہ ضعیف حدیث کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یا تو صحیح نہیں ہے یا مشکوک ہے یا پھر محض ظن و گمان ۔۔۔ اس لیے کہ ضعیف ایک مبہم لفظ ہے ۔ اس کی متعدد قسمیں ہیں ۔
ضعیف حدیث کے نام پر بعض لوگ جن اعمال کو دینی اعمال کہہ کر رواج دے رہے ہیں وہ درحقیقت اُن کے اپنے اعمال ہیں جن میں سے بیشتر ، دین میں اضافہ ، یعنی بدعت میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس مبہم اور غیر واضح دعویٰ کہ :
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے
سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے ۔
1)۔ کبار محدثین و اصولین (رحمہم اللہ عنہم) ، ضعیف حدیث پر عمل کرنے کو نہ تو احکام میں جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی فضائل اعمال میں ۔
ان محدثین کے گروہ میں :
امام یحییٰ بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابن حبان ، امام ابن حزم ، امام ابن العربی المالکی ، امام ابو شامہ المقدسی ، امام ابن تیمیہ ، امام شاطبی ، امام خطیب بغدادی اور علامہ شوکانی ۔۔۔
جیسی عظیم الشان ہستیاں شامل ہیں ۔
بحوالہ : علامہ محمد جمال الدین قاسمی کی قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ۔ صفحہ : 113
2)۔ امام یحییٰ بن معین کے متعلق ابن سید الناس کہتے ہیں کہ امام صاحب ضعیف حدیث پر عمل کو مطلقاََ جائز نہیں سمجھتے تھے ، نہ تو احکام میں اور نہ ہی فضائل میں ۔
بحوالہ : ابن سید الناس کی عیون الاٴثر
3)۔ امام ابوبکر ابن العربی کے متعلق علامہ سخاوی کہتے ہیں کہ امام صاحب ضعیف حدیث پر عمل کو مطلقاََ جائز نہیں سمجھتے تھے ، نہ تو احکام میں اور نہ ہی فضائل میں ۔
بحوالہ : علامہ سخاوی کی فتح المغیث
4)۔ امام بخاری کا اپنی صحیح میں شرط اور امام مسلم کا ضعیف راویوں پر تشنیع کرنا اور صحیحین میں ان سے کسی روایت کی تخریج نہ کرنا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں ائمہ کے نزدیک ضعیف روایت پر عمل مطلق طور پر جائز نہیں ۔
5)۔ امام ابن حزم اپنی کتاب الملل و النحل میں فرماتے ہیں :
وہ روایت جس کو اہلِ مشرق و مغرب نے یا گروہ نے گروہ سے یا ثقہ نے ثقہ سے نقل کیا ، یہاں تک کہ سند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تک پہنچ گئی ۔۔۔ لیکن اگر کسی طریق میں کوئی ایسا راوی ہے جو کذب یا غفلت یا مجہول الحال ہونے کے ساتھ ساتھ مجروح ہے ۔۔۔ تو اُس روایت کا بیان کرنا یا اُس کی تصدیق کرنا یا اس سے کچھ اخذ کرنا حلال نہیں ہے ۔
6)۔ ضعیف روایت کو مطلق طور پر نہ لینے کا ذکر درج ذیل ائمہ و محدثین بھی اپنی کتب میں رقم کرتے ہیں :
(1)۔ مشہور حنفی عالم محمد زاہد کوثری ۔( مقالاتِ کوثری ، ص : 45 ، 46 )
(2)۔ علامہ احمد شاکر ۔( الباعث الحثیت شرح اختصار علوم الحدیث ، ص : 86 ، 87 )
(3)۔ علامہ شوکانی ۔( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ، ص : 283 )
(4)۔ امام ابن تیمیہ ۔( قاعدہ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلۃ ، ص : 112 ، 113 )
(5)۔ علامہ ناصر الدین البانی ۔( صحیح جامع الصغیر ، ص : 51 )
دین کو صحیح طریقے سے ہم مسلمانوں تک پہنچانے والے متذکرہ بالا ائمہ و محدثین کی کاوشوں کے خلاف اگر آج کے چند علمائے دین فتوے دے کر ضعیف احادیث پر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔
اور جو لوگ اس قسم کے فتووں کو معاشرے میں رائج کرنے پر زور دیتے ہیں ۔۔۔ ان کا معاملہ بھی اللہ ہی کے سپرد کیا جانا چاہئے ۔