نواب صاحب اہل الحدیث تھے ...!
ان حوالاجات کے بعد تو نواب صاحب رحمہ اللہ کا مقلد ہونا بعید از امکان ہے۔اور ان کا مجتہد مطلق نہ ہونا بھی خود ان ہی کی تحریر سے ثابت کیا جاچکا ہے۔ مذکورہ تفصیل کے بعد ایک طرف تو ان پر غیروں کا لگایا ہوا یہ الزام کے نواب صاحب رحمہ اللہ حنفی تھے، غلط اور جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ سوال بھی پید ا ہوتا ہے کہ جب وہ مقلد نہیں تھے اور نہ ہی مجتہد تھے تو پھر کون تھے؟!
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے میرے والد کو خالص سنی و محمدی بنایا۔اس ملک میں اہل حدیث بہت کم ہوئے ہیں۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ116)
صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی صراحت کے مطابق ان کے والد بزرگوار اہل حدیث تھے اور خود صدیق حسن خان رحمہ اللہ بھی اسی مسلک پر کاربند تھے جیسا کہ خود ان کی تحریروں سے جابجا اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:
- مجھے وہ مذہب پسند ہے جو دلائل کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح، قوی اور احوط ہو۔ اور اس بات کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اہل علم کے اقوال کے مقابلہ میں کتاب و سنت کے دلائل کو ترک کر دیا جائے۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 64)
- قصہ مختصر یہ کہ میں متبع ہوں مبتدع نہیں ،اور یہ بھی دلیل کے اعتبار سے کہہ رہا ہوں۔ اس لئے کہ امت کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔اور اللہ کے رسول کے سوا کوئی متبوع نہیں ہے۔ امت کے جس قدر علماء و مشائخ ہیں ، ان کے اقوال مقبول بھی ہیں اور مردود بھی ۔ اگر کوئی بات رد نہیں کی جاسکتی تو وہ صرف خداکا ارشاد اور حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے۔ پس متبع سنت بلا شک و شبہ افضل ہے اور مقلد(اگر مشاقق خدا و رسول نہیں تو)مفضول ہے۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 66)
- میں اظہار حق میں کسی یار و اغیار کا لحاظ نہیں کرتا ۔ میرا دل اتباع سنن پر مطمئن ہے اور شک و شبہ کی کوئی گرد میرے دامن خاطر پر نہیں جمتی۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ 73)
- میری اہل علم و دین کی خدمت میں گزارش ہے کہ میری کتاب کا جو مسئلہ کتاب و سنت کی صحیح نص کے خلاف ہو اسے اٹھا کر دیوار پر مار دیں اور جو مسئلہ قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے قبول کرلیں۔میں ان شاء اللہ اس رد سے خوش دل ہوں گا۔ (ابقاء المنن ، صفحہ 132)
دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا یہ کلام کسی حنفی کا ہوسکتا ہے؟؟؟!!! حاشا وکلا بلکہ یہ توایک متبع سنت یعنی ایک اہل حدیث کا کلام ہے۔نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے مسلکاً اہل حدیث ہونے کا ایک قوی ثبوت یہ بھی ہے کہ ان پر مقلدوں کی جانب سے وہی الزامات عائد کئے گئے جو عام طور پرکسی اہل حدیث پر عائد کئے جاتے ہیں:
- امام شوکانی رحمہ اللہ کی تقلید کا الزام
- ائمہ اربعہ خصوصاًامام ابوحنیفہ کی گستاخی کی تہمت
- تہمت وہابیت
- اولیا اللہ کے منکرہونے کا بہتان
ان تمام الزامات کا انکاراورسخت تردید کر کے نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے انہیں بالکل بے بنیاد قرار دیاہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابقاء المنن بالقاء المحن یعنی خود نوشت،سوانح حیات نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ، صفحہ نمبر 200, 193, 191, 190
اب آخر میں ایک فیصلہ کن دلیل عرض ہے جو تمام شکوک شبہات اور بے بنیاد الزامات کی جڑکاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ مگر اس سے پہلے عرض ہے کہ انسان کی ذات سے متعلق کسی مسئلہ میں خود اسی شخص کا بیان و اقرار ہی حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے اوراس شخص کے بارے میں دوسروں کی گواہی خصوصاً جب وہ اس متعلقہ شخص کے بیان کے خلاف ہو، ناقابل قبول اور ناقابل التفات ٹھہرتی ہے۔ جیسا کہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اپنی خود نوشت تحریر کرنے کی دو مقاصد میں سے ایک وجہ اورمقصدیہ بتاتے ہیں: اپنے متعلق لوگوں کے بعض اوہام کا ازالہ مطلوب ہے۔ کیوں کہ ہر انسان کو اپنے متعلق جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یقینی ہوتا ہے اور جو کوئی دوسرا بیان کرتا ہے وہ ظنی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہ (سورہ القیامۃ:۱۴)
بلکہ انسان کو اپنے آپ کا خوب پتا ہے اگرچہ کتنے عذر پیش کرتا رہے ۔
اور حدیث میں آیا ہے۔
''فلیقل احسبہ کذا او اوظنہ کذا ولا یزکی علی اللہ احدا ھو اعلم بمن اتقی''
پس انسان کو دوسر ے کے بار ے میں یہ کہنا چاہیے کہ میں اسے ایسا خیال یا گمان کرتا ہوں اور اسے اللہ کے ہاں کسی کی (یقینی) صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔وہ خود ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔متفق علیہ (ابقاء المنن، صفحہ 16 تا 17)
صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا مسلک کیا تھا؟ کیا وہ ہمیشہ حنفی مذہب کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے جیسا کہ ان پر الزام ہے؟ چونکہ یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا لہذا اس معاملے میں خود نواب صاحب رحمہ اللہ کا اقرار اور گواہی ملاحظہ فرمائیں: مجھے ان کی حرکات بے برکات پر تعجب ہے کہ یہ اپنی جہالت، خباثت اور شرک و بدعت میں کس موحد کو پھانسنا چاہتے ہیں۔ ان احمقوں نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں تو مشہور اہل حدیث ہوں۔ (ابقاء المنن، صفحہ 216)
الحمدللہ۔نواب صاحب رحمہ اللہ جب خود اپنے آپ کو اہل حدیث قرار دے رہے ہیں تو کسی غیر کی گواہی صدیق حسن خان رحمہ اللہ کے حق میں کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے؟؟؟ اور خاص بات تو یہ ہے کہ خود صدیق حسن خان کی تحریر سے اس بات کا ثبوت تو دور کی بات ہے شائبہ تک نہیں ملتا کہ وہ متبع سنت کے بجائے حنفی تھے۔ پھر حنفی ہونے کا بہتان ان پر کیسے درست ہوسکتا ہے؟!
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں: واللہ باللہ اگر میں اصطلاحی معنوں میں وہابی ہوتا تو کبھی بھی اسے نہ چھپاتا خواہ مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹو ٹ پڑتا لیکن جب میں خالص محمدی اور صرف سنی ہوں تو مجھے جھوٹ بولنا کب روا ہے! (ابقاء المنن، صفحہ 195)
اس عبارت سے واضح ہے کہ اگر نواب صاحب رحمہ اللہ حنفی ہوتے تو یقیناًاس کا کھل کر اظہار فرماتے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتے۔ لیکن جب وہ حنفی تھے ہی نہیں تو اس کا اقرار چہ معنی دارد؟!