- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
فورم کے ایک محترم رکن جناب @abu khuzaima
نے درج ذیل سوال کیا ہے ؛
جواب :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلی بات تو یہ جان لیجئے کہ نکاح بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جن سے فقر و تنگدستی دور ہوتی ہے؛
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ) النور/32 )
اور تم میں سے جو لوگ مجرد (بغیر شوہر یا بیوی کے) ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔ ٌ
توضیح ::۔آیہ مبارکہ میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض بیواؤں کے نہیں ہیں بلکہ ان مردوں اور عورتوں کے ہیں جو مجرد ہوں یعنی وہ مرد جن کی بیویاں نہ ہوں اور وہ عورتیں جن کے شوہر نہ ہوں۔"
یعنی نکاح کے معاملہ میں تنگ دستی مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس مبارک کام کو انجام دینا چاہیے۔ جو شخص اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اللہ اسے ضرور اپنے فضل سے نوازے گا۔ اور یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد کتنے ہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور کتنے ہی لوگ خوشحال ہو گے ہیں۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری طرح محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلہ میں اس کی ممد و معاون بن جاتی ہے۔ کبھی بیوی کے کنبہ والے اس سلسلہ میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی مرد کے کئے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جس کا اسے پہلے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا گویا پیدا ہونے والے بچے اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں جس کا ذریعہ ان کا والد بنتا ہے۔ لہذا نہیں یقین رکھو کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے پر۔ لہذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہ کرنا چاہئے۔
مگر موجودہ دور کے نوجوانوں کا حال بھی عجیب ہے جو جدید تہذیب کے زیر اثر ازدواج کی ذمہ داریوں سے کتراتے رہتے ہیں۔ پچیس سال کی عمر تک تو وہ حصول تعلیم میں مشغول رہتی ہیں اس کے بعد پانچ سال معاشی جدوجہد میں اس طرح صرف کرتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی قائم ہوجائے اور اتنا پس انداز ہو کہ وہ ٹھاٹ باٹ سے شادی کرسکیں۔ اس طرح ان کی جوانی تجرد میں گزرتی ہے اور آدھی عمر کے بعد وہ رشتہ تلاش کرتے ہیں۔ تہذیب جدید نے ایک طرف نا بالغوں کو بالغ بنا دیے والا ہیجان انگیز ماحول بنایا ہے اور دوسری طرف شادی کی ذمہ داریوں سے کترانے کا رجحان پیدا کردیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بیشتر نوجوان بری طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کو رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شادی کی عمریں ضائع ہو رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال اصلاح طلب ہے اور قرآن کی ہدایت پر عمل کی متقاضی۔
(مزید فرمایا ) اللہ بڑی وسعت والا ہے اس لیے اس سے امید رکھو کہ وہ رزق میں کشائش اور فراخی پیدا کرے گا۔ وہ علم والا ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون عفت کی زندگی چاہتا ہے اور تنگ دست ہونے کے باوجود ازدواج کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گا۔
اور رسول مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ : الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ)
رواه الترمذي (1655) وصححه ابن العربي في "عارضة الأحوذي" (5/3) ، وحسنه الألباني في "صحيح الترمذي"
ترجمہ :
تین آدمیوں کی مدد اللہ کے ذمہ ہے ،(1) مجاہد فی سبیل اللہ (2)وہ غلام جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئے معاہدہ کر رکھا ہو ،(3 ) اور وہ شادی کرنے والا جس کا نکاح کرنے کا مقصد پاکدامنی ہو "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن جو حدیث بھائی نے پوچھی ہے وہ تاریخ بغداد میں درج ذیل الفاظ سے مروی ہے :
( أخبرنا محمد بن الحسين القطان، قال: حدثنا عبد الباقي بن قانع، قال: حدثنا محمد بن أحمد بن نصر الترمذي، قال: حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم، قال: حدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج "
یعنی سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ،اور اس نے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی ،تو آپ نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا "
تو واضح رہے کہ یہ روایت انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ،کیونکہ اس کا راوی " سعید بن محمد " ناکارہ راوی ہے
علامہ الذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
قال أبو حاتم: ليس حديثه بشئ.
وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به.
آگے انہوں اس کی یہی مذکورہ حدیث نقل فرمائی ہے
نے درج ذیل سوال کیا ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے غربت کی شکایت کی تو آپ نے اس صحابی کو تین مرتبہ نکاح کرنے کا حکم دیا اور۔ (تاریخ بغداد)
جواب :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلی بات تو یہ جان لیجئے کہ نکاح بھی ان اسباب میں سے ایک ہے جن سے فقر و تنگدستی دور ہوتی ہے؛
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ) النور/32 )
اور تم میں سے جو لوگ مجرد (بغیر شوہر یا بیوی کے) ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔ ٌ
توضیح ::۔آیہ مبارکہ میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض بیواؤں کے نہیں ہیں بلکہ ان مردوں اور عورتوں کے ہیں جو مجرد ہوں یعنی وہ مرد جن کی بیویاں نہ ہوں اور وہ عورتیں جن کے شوہر نہ ہوں۔"
یعنی نکاح کے معاملہ میں تنگ دستی مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس مبارک کام کو انجام دینا چاہیے۔ جو شخص اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اللہ اسے ضرور اپنے فضل سے نوازے گا۔ اور یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد کتنے ہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور کتنے ہی لوگ خوشحال ہو گے ہیں۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری طرح محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلہ میں اس کی ممد و معاون بن جاتی ہے۔ کبھی بیوی کے کنبہ والے اس سلسلہ میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی مرد کے کئے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جس کا اسے پہلے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا گویا پیدا ہونے والے بچے اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں جس کا ذریعہ ان کا والد بنتا ہے۔ لہذا نہیں یقین رکھو کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے پر۔ لہذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہ کرنا چاہئے۔
مگر موجودہ دور کے نوجوانوں کا حال بھی عجیب ہے جو جدید تہذیب کے زیر اثر ازدواج کی ذمہ داریوں سے کتراتے رہتے ہیں۔ پچیس سال کی عمر تک تو وہ حصول تعلیم میں مشغول رہتی ہیں اس کے بعد پانچ سال معاشی جدوجہد میں اس طرح صرف کرتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی قائم ہوجائے اور اتنا پس انداز ہو کہ وہ ٹھاٹ باٹ سے شادی کرسکیں۔ اس طرح ان کی جوانی تجرد میں گزرتی ہے اور آدھی عمر کے بعد وہ رشتہ تلاش کرتے ہیں۔ تہذیب جدید نے ایک طرف نا بالغوں کو بالغ بنا دیے والا ہیجان انگیز ماحول بنایا ہے اور دوسری طرف شادی کی ذمہ داریوں سے کترانے کا رجحان پیدا کردیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بیشتر نوجوان بری طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کو رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شادی کی عمریں ضائع ہو رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال اصلاح طلب ہے اور قرآن کی ہدایت پر عمل کی متقاضی۔
(مزید فرمایا ) اللہ بڑی وسعت والا ہے اس لیے اس سے امید رکھو کہ وہ رزق میں کشائش اور فراخی پیدا کرے گا۔ وہ علم والا ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون عفت کی زندگی چاہتا ہے اور تنگ دست ہونے کے باوجود ازدواج کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گا۔
اور رسول مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ : الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ)
رواه الترمذي (1655) وصححه ابن العربي في "عارضة الأحوذي" (5/3) ، وحسنه الألباني في "صحيح الترمذي"
ترجمہ :
تین آدمیوں کی مدد اللہ کے ذمہ ہے ،(1) مجاہد فی سبیل اللہ (2)وہ غلام جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئے معاہدہ کر رکھا ہو ،(3 ) اور وہ شادی کرنے والا جس کا نکاح کرنے کا مقصد پاکدامنی ہو "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن جو حدیث بھائی نے پوچھی ہے وہ تاریخ بغداد میں درج ذیل الفاظ سے مروی ہے :
( أخبرنا محمد بن الحسين القطان، قال: حدثنا عبد الباقي بن قانع، قال: حدثنا محمد بن أحمد بن نصر الترمذي، قال: حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم، قال: حدثنا محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج "
یعنی سیدنا جابر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ،اور اس نے اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کی ،تو آپ نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا "
تو واضح رہے کہ یہ روایت انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ،کیونکہ اس کا راوی " سعید بن محمد " ناکارہ راوی ہے
علامہ الذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
قال أبو حاتم: ليس حديثه بشئ.
وقال ابن حبان: لا يجوز أن يحتج به.
آگے انہوں اس کی یہی مذکورہ حدیث نقل فرمائی ہے
Last edited: