• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا يُونُسُ کو وہم ہوتا تھا

شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِىِّ أَخْبَرَنِى سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا قَامَ فِى الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ » . وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِى السُّجُودِ . أطرافه 735 ، 738 ، 739 - تحفة 6979 - 188/1
محمد بن مقاتل، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں کے برابر تک اٹھاتے اور جب آپ رکوع کے لئے تکبیر کہتے یہی (اس وقت بھی) کرتے اور یہی جب آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے اس وقت بھی کرتے اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے (لیکن) سجدہ میں آپ یہ عمل نہ کرتے تھے۔
الكتاب : صحيح البخارى
المؤلف : محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله
کیا اس حدیث کے راوی یونس کوتہذیب میں وہم ہوتا تھا کہا گیا ہے۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
وہم کس انسان کو نہیں ہوتا ہے؟
محض وہم کے شکار ہونے سے کوئی راوی ضعیف نہیں ہوتا ہے۔
اصول حدیث کا بنیادی قانون غالب حالت کا اعتبار ہے ۔ اگر کسی راوی کی غالب حالت وھم کے شکار کی ہے یعنی وہ بہت زیادہ وھم کا شکار ہوتا ہے تو وہ ضعیف ہوگا لیکن کبھی کبھار کوئی راوی وھم کا شکار ہوگیا تو وہ ضعیف نہیں ہوتا بلکہ وھم سے محفوظ کوئی بھی انسان نہیں ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو چیلنج کیا ہے کہ کوئی ایک محدث بتاؤ جو کبھی وہم کا شکار نہ ہوا ہو ،چنانچہ:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وأنا أشتهى أن تعرفني من هو الثقة الثبت الذي ما غلط ولا انفرد بما لا يتابع عليه،
میں چاہتاہوں کہ اے عقیلی تو مجھے بتا کہ کون ایسا ثقہ راوی ہے جس نے کبھی غلطی نہٰیں کی اور جس نے ایسی منفرد روایت نہیں بیان کی جس کی متابعت کسی نے نہیں کی؟[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 140]

امام ذہبی کے مکمل الفاظ یہ ہیں:
أفما لك عقل يا عقيلي، أتدرى فيمن تتكلم، وإنما تبعناك في ذكر هذا النمط لنذب عنهم ولنزيف ما قيل فيهم، كأنك لا تدرى أن كل واحد من هؤلاء أوثق منك بطبقات، بل وأوثق من ثقات كثيرين لم توردهم في كتابك، فهذا مما لا يرتاب فيه محدث، وأنا أشتهى أن تعرفني من هو الثقة الثبت الذي ما غلط ولا انفرد بما لا يتابع عليه، بل الثقة الحافظ إذا انفرد بأحاديث كان أرفع له، وأكمل لرتبته، وأدل على اعتنائه بعلم الاثر، وضبطه دون أقرانه لأشياء ما عرفوها، اللهم إلا أن يتبين غلطه ووهمه [في] الشئ فيعرف ذلك، فانظر اول شئ إلى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الكبار والصغار، ما فيهم أحد إلا وقد انفرد بسنة، فيقال له: هذا الحديث لا يتابع عليه، وكذلك التابعون، كل واحد عنده ما ليس عند الآخر من العلم، وما الغرض هذا، فإن هذا مقرر على ما ينبغي في علم الحديث.وإن تفرد الثقة المتقن يعد صحيحا غريبا.وإن تفرد الصدوق ومن دونه يعد منكراً. وإن إكثار الراوي من الأحاديث التي لا يوافق عليها لفظا أو إسنادا يصيره متروك الحديث، ثم ما كل أحد فيه بدعة أو له هفوة أو ذنوب يقدح فيه بما يوهن حديثه، ولا من شرط الثقة أن يكون معصوما من الخطايا والخطأ، ولكن فائدة ذكرنا كثيرا من الثقات الذين فيهم أدنى بدعة أولهم أوهام يسيرة في سعة علمهم أن يعرف أن غيرهم أرجح منهم وأوثق إذا عارضهم أو خالفهم، فزن الأشياء بالعدل والورع. وأما علي بن المديني فإليه المنتهى في معرفة علل الحديث النبوى، مع كمال المعرفة بنقد الرجال، وسعة الحفظ والتبحر في هذا الشأن، بل لعله فرد زمانه في معناه. ۔۔۔[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 141]


یادرہے کہ مذکورہ روایت صحیح بخاری کی ہے۔
رواہ کے بعض وہم کی وجہ سے صحیح بخاری کی روایت پر تنقید کرنا بہت بڑی ہٹ دھرمی اور گمراہی ہے ۔ ان عقل کے اندھوں کو ابوحنیفہ پر محدثین کی جرح نہیں دکھائی دیتی، اگر بعض وہم کی وجہ کسی کی روایت ہی معتبر نہیں تو ابوحنیفہ تو کثیر الاوھام بلکہ شنیع الاوھام تھے۔
کثیر الاوھام اور فحش غلطیاں کرنے والے ابوحنیفہ کو ثقہ باور کرنا اور معمولی سے وہم کی وجہ سے صحیح بخاری کے راوی پر نقد کرنا یہ بہت بڑا ظلم ہے۔
 
Top