• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا چہلم ◇ تیجا ◇ ساتواں کا کهانا کها سکتے ہیں؟؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرواور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩

تو اس تنازع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلانا اسلام و ایمان ہے اب کون مسلمان ہے جو اس اسلام و ایمان کا انکار کرے سوائے منافق اور کافر کے
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرواور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩

تو اس تنازع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلانا اسلام و ایمان ہے اب کون مسلمان ہے جو اس اسلام و ایمان کا انکار کرے سوائے منافق اور کافر کے
والسلام
میرے بھائی میں آپ کی وضاحت علماء کی طرف ٹیگ کر دیتا ہو -

@انس بھائی
@خضر حیات بھائی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@علی بہرام بھائی اس کا معطالہ کریں آپ کو سمجھ آ جائے گا باقی آپ کی پوسٹ کی وضاحت علماء کر دے گے-

بدعت و شرك كے متعلق مثالوں كے ساتھ مفيد تفصيل

كيا بدعت و شرك كے مرتكب لوگوں كو مسلمان كا نام دينا ممكن ہے ؟


الحمد للہ:

اس سوال كى دو شقيں ہيں:

پہلى شق:

بدعت.

دوسرى شق:

شرك.

پہلى شق يا مبحث:

اس كے تين جزء ہيں:

1 ـ بدعت كا ضابط اور اصول.

2 ـ بدعت كى اقسام.

3 ـ بدعت كے مرتكب كا حكم آيا وہ كافر ہے يا نہيں ؟

پہلا جزء:

بدعت كى تعريف اور ضابط:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بدعت كى شرعى تعريف يہ ہے كہ: اللہ كى عبادت اس كے ساتھ كى جائے جسے اللہ نے مشروع نہيں كيا.

اور اگر چاہيں تو آپ اس طرح كہہ سكتے ہيں:

اس طرح عبادت كرنا جس طريقہ پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے خلفاء راشدين اور صحابہ كرام نہ تھے "

چنانچہ پہلى تعريف درج ذيل فرمان بارى تعالى سے ماخوذ ہے:

{ كيا انہوں نے كوئى ايسے شريك بھى بنا ركھے ہيں جو ان كے ليے دين كى احكام مشروع كرتے ہيں جن كى اللہ نے اجازت نہيں دى }.

اور دوسرى تعريف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے ماخوذ ہے:

" تم ميرى اور ميرے بعد ميرے خلفاء راشدين المھديين كى سنت كو لازم پكڑو، اسے مضبوطى سے تھامے ركھو اور نئے نئے امور سے اجتناب كرو "

اس ليے ہر وہ شخص جس نے كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كى عبادت كى جسے اللہ نے مشروع نہيں كيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس پر نہ تھے، اور نہ ہى خلفاء راشدين اس پر تھے وہ شخص بدعتى ہے، چاہے وہ تعبد اللہ كے اسماء يا صفات سے متعلق ہو يا پھر اس كے احكام شرع كے.

ليكن عادى امور جو عادات اور عرف كے تابع ہوتے ہيں انہيں دين ميں بدعت كا نام نہيں ديا جائيگا، اگرچہ لغت ميں اسے بدعت كہا جاتا ہے، ليكن وہ دين ميں بدعت نہيں ہونگے اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے بچنے كا كہا ہے.

اور پھر دين ميں بالكل كوئى بدعت حسنہ ہو ہى نہيں سكتى " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 2 / 291 ).

دوسرا جزء:

بدعت كى اقسام:

بدعت كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

بدعت مكفرہ.

دوسرى قسم:

بدعت غير مكفرہ.

اگر آپ كہيں كہ بدعت مكفرہ اور غير مكفرہ كيا ہے ؟

تو اس كا جواب يہ ہے:

شيخ حافظ الحكمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بدعت مكفرہ يعنى كفريہ بدعت كى تعريف يہ ہے كہ: جس كسى نے بھى كسى ايسے امر كا انكار كيا جو متفق عليہ ہے اور شريعت سے متواتر ثابت ہے اور دين ميں جس كا معلوم ہونا ضرورى ہے، چاہے وہ كسى فرض كا انكار ہو، يا پھر كسى ايسى چيز كو فرض كرنا جو فرض نہ تھى، يا حرام كو حلال كرنا، يا حلال كو حرام كر لينا، يا پھر جس سے اللہ منزہ ہے يا كتاب ميں اس كى تنزيہ بيان ہوئى ہے يا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تنزيہ كى ہے چاہے وہ اثبات ہو يا نفى اس كا اعتقاد ركھنا، كيونكہ اس ميں كتاب اور اس كے رسول كى تكذيب ہوتى ہے.

مثلا جہميہ كا اللہ كى صفات سے انكار كرنا، اور قرآن مجيد كو اللہ كى مخلوق ماننا، يا اللہ كى كوئى صفت مخلوق ماننا، اور اسى طرح قدريہ فرقہ كى بدعات مثلا اللہ كے علم اور اس كے افعال كا انكار، اور اسى طرح مجسمہ فرقہ جو اللہ تعالى كو مخلوق سے مشابہت ديتے ہيں كى بدعات وغيرہ.

دوسرى قسم:

بدعت غير مكفرہ يعنى بدعت غير كفريہ:

اس كى تعريف يہ ہے كہ: جس سے كتاب كى تكذيب لازم نہ آئے اور نہ ہى اللہ كے رسولوں كے لائے ہوئے دين كى تكذيب لازم آتى ہو.

مثلا: مروانى فرقہ كى بدعات ـ جن كو كبار صحابہ كرام نے برا كہا اور انہيں اس سے روكا اور نہ ہى ان كے ان اعمال كا اقرار كيا اور نہ ہى انہيں اس كى بنا پر كافر قرار ديا اور نہ ہى انہوں نے اس كى بنا پر ان كى بيعت كرنے سے ہاتھ كھينچا ـ مثلا: كچھ نمازوں كو ميں تاخير كر كے آخر وقت ميں ادا كرنا، اور نماز عيد سے قبل ہى خطبہ عيد دينا، اور جمعہ وغيرہ كے خطبہ ميں ان كا بيٹھنا "

ديكھيں: معارج القبول ( 2 / 503 - 504 ).

تيسرا جزء:

بدعت كا ارتكاب كرنے والے كا حكم آيا وہ كافر ہے يا نہيں ؟

اس كے جواب ميں تفصيل ہے:

اگر تو بدعت مكفرہ ہے تو اس ميں دو حالتيں ہونگى:

پہلى حالت:

يہ معلوم ہو جائے اس سے اس كا مقصد دين كے اصول و قواعد كو ختم كرنا اور اہل اسلام ميں شك پيدا كرنا ہے تو يہ شخص قطعى طور پر كافر ہو گا، بلكہ وہ شخص دين سے اجنبى ہے اس كا دين سے كوئى تعلق نہيں اور وہ دين كا دشمن ہے.

دوسرى حالت:

وہ اس كے دھوكہ ميں ہو اور اس پر وہ معاملہ خلط ملط ہو تو ايسے شخص كو دلائل و حجت ديكر اس كا الزام كرانے كے بعد كافر قرار ديا جائيگا.

اور اگر بدعت غير مكفرہ ہو تو وہ شخص كافر نہيں ہو گا بلكہ اپنے اسلام پر باقى ہے ليكن اس نے عظيم برائى كا ارتكاب ضرور كيا ہے.

اگر آپ يہ كہيں كہ بدعتيوں كے ساتھ ہميں كيا سلوك كرنا چاہيے ؟

تو جواب يہ ہے:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دونوں قسموں ہمارے ليے واجب و ضرورى ہے كہ ہم ان لوگوں كو جو اسلام كى طرف منسوب ہيں ليكن وہ بدعت مكفرہ كے مرتكب ہو رہے ہيں اور اس كے علاوہ بھى انہيں حق كى دعوت ديں؛ اور ان ميں جو بدعات پائى جاتى ہيں ان پر حملہ كرنے كى بجائے ان كے سامنے حق واضح كريں اور حق بيان كريں، ليكن اگر وہ تكبر كرتے ہوئے حق قبول كرنے سے انكار كر ديں تو پھر ہم ان ميں جو كچھ ہے اسے بيان كريں.

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور تم ان لوگوں كو برا مت كہو جو اللہ كے علاوہ دوسروں كو پكارتے ہيں، تو وہ دشمنى ميں آكر بغير علم كے اللہ كو برا كہنے لگيں گے }.

اس ليے جب آپ ان ميں عناد و تكبر پائيں تو پھر ہم ان كے باطل كو بيان كرينگے كيونكہ ان كے باطل كو بيان كرنا واجب ہو جائيگا.

ليكن ان كے ساتھ بائيكاٹ كرنا، تو يہ ان كى بدعت پر موقوف ہو گا، اگر تو ان كى بدعت مكفرہ ہے يعنى كفريہ بدعت ہے تو ان سے بائيكاٹ كرنا واجب ہو جائيگا، ليكن اگر بدعت مكفرہ نہيں تو پھر ہم ان سے بائيكاٹ نہيں كرينگے؛ ليكن اگر ان سے بائيكاٹ كرنے ميں مصلحت پائى جائے تو بائيكاٹ كرينگے.

اور اگر اس ميں كوئى مصلحت نہ ہو، يا پھر بائيكاٹ كرنے سے وہ اور زيادہ برائى اور زيادتى كا شكار ہو تو ہم بائيكاٹ نہيں كرينگے؛ كيونكہ جس ميں كوئى مصلحت نہ پائى جائے اس كا ترك كرنا ہى مصلحت ہے.

اور اس ليے بھى كہ اصل ميں مومن كے ساتھ بائيكاٹ اور قطع تعلقى كرنا حرام ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى بھى آدمى كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے بھائى سے تين راتوں سے زيادہ تعلق ختم كرے " اھـ

ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 2 / 293 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ

دوسرى شق:

شرك اور اس كى اقسام، اور ہر قسم كى تعريف.

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

شرك كى تو قسميں ہيں:

1 ـ شرك اكبر جو دين اسلام سےخارج كر ديتا ہے.

2 ـ شرك اصغر جو اس سے كم ہو اور اسلام سے خارج نہ كرے.

پہلى قسم:

شرك اكبر يہ ہے كہ:

" ہر وہ شرك جس كا شارع نے اطلاق كيا ہو جس سے انسان اپنے دين سے خارج ہو جاتا ہے "

مثلا: عبادت كى كسى بھى قسم كو غير اللہ كے ليے جائز سمجھنا، يعنى غير اللہ كے ليے نماز پڑھنا، يا غير اللہ كے ليے روزہ ركھنا، يا غير اللہ كے ليے ذبح كرنا، اور اسى طرح اللہ كے علاوہ كسى اور كو پكارنا بھى شرك اكبر ہے، مثلا كسى قبر والے سے فرياد كى جائے اور اسے پكارا جائے، يا كسى غائب كو ايسے امر ميں مدد كرنے كے ليے پكارا جائے جس پر اللہ كے علاوہ كوئى قدرت نہ ركھتا ہو.

دوسرى قسم: شرك اصغر:

يہ ہر قولى عمل يا فعلى عمل ہے جس پر شريعت نے شرك كے وصف كا اطلاق كيا ہے، ليكن يہ مخرج عن الملۃ نہيں يعنى ايسا كرنے سے دين سے خارج نہيں ہو گا مثلا: غير اللہ كى قسم اٹھانا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے كہ جس نے بھى غير اللہ كى قسم اٹھائى اس نے كفر يا شرك كيا "

لہذا غير اللہ كى قسم اٹھانے والے كا اگر يہ اعتقاد نہ ہو كہ اس كى بھى عظمت اس طرح ہے جس طرح اللہ كى عظمت ہے تو وہ مشرك اور شرك اصغر كا مرتكب ٹھرےگا، چاہے جس كى قسم اٹھائى جا رہى ہے وہ انسانوں ميں قابل تعظيم ہو يا قابل تعظيم نہ اس ليے نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قسم اٹھانى جائز ہے اور نہ ہى كسى سردار اور بادشاہ كى اور نہ كعبہ كى اور نہ جبريل كى كيونكہ يہ شرك ہے، ليكن يہ شرك اصغر كہلائيگا اس سے دين اسلام سے خارج نہيں ہو گا.

شرك اصغر كى انواع ميں رياء كارى شامل ہے، رياء يہ ہے كہ كوئى عمل اللہ كے ليے نہيں بلكہ لوگوں كو دكھلانے كے ليے كيا جائے.

عبادت كو تباہ اور باطل كرنے كے اعتبار سے رياء كى دو قسميں ہيں:

پہلى:

رياء كارى اصل عبادت ميں ہو، يعنى جو وہ عبادت كر رہا ہے وہ صرف رياء كے ليے ہى ہو تو اس كا يہ عمل باطل اور مردود ہو گا؛ كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى مرفوع حديث ميں ہے:

اللہ تعالى كا فرمان ہے: ميں شرك كرنے والوں كے شرك سے غنى ہوں، جس كسى نے بھى كوئى عمل كيا اور ميرے ساتھ اس ميں كسى دوسرے كو بھى شريك كيا تو ميں اس كے عمل اور اس كے شرك كو چھوڑ دونگا قبول نہيں كرونگا"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2985 ).

دوسرى:

عبادت ميں رياء اچانك پيدا ہو جائے، يعنى عبادت اصل ميں اللہ كے ليے ہو ليكن اس ميں اچانك رياء پيدا ہو جائے اس كى دو قسميں ہيں:

اول:

وہ اس رياء كو ختم اور دور كر دے، تو يہ اسے كوئى نقصان نہيں ديگى اس كى مثال درج ذيل ہے:

ايك شخص نے ايك ركعت نماز ادا كر لى اور دوسرى ركعت شروع كى تو كچھ لوگ آ گئے تو نمازى كےدل ميں كچھ آ گيا كہ وہ ركوع يا سجود لمبا كر لے، يا پھر جان بوجھ كر رونے لگے يا اس طرح كا كوئى اول عمل اگر تو وہ اس كو دور اور ختم كر دے تو يہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں ديگا، كيونكہ اس نے جھاد اور كوشش كى ہے، اور اگر وہ اس ميں بہہ جائے اور اسى طرح جارى ركھے تو ہر وہ عمل جس ميں رياء ہو وہ باطل ہے، مثلا اگر اس نے قيام لمبا كيا اور سجدہ لمبا كيا يا لوگوں كو ديكھتے ہى رونےلگے تو يہ سب اس كے عمل كو باطل كر دينگے، ليكن كيا يہ اس كے سارے عمل كو باطل كر ديگا يا نہيں ؟

ہم كہينگے: اس ميں دو حالتيں ہيں:

پہلى:

عبادت كا آخر عبادت كے شروع پر مبنى ہو اور آخرى حصہ فساد پر ہو تو يہ سارى عبادت ہى فاسد ہو گى، يہ نماز كى مثل ہے مثلا نماز كا آخر فاسد ہونا اور نہ ہى اس كا اول فاسد ہونا ممكن ہے لہذا نماز سارى ہى باطل ہو گى.

دوسرى حالت:

عبادت كا اول حصہ آخرى حصہ سے منفصل اور عليحدہ ہو وہ اس طرح كہ پہلا حصہ صحيح ہو ليكن آخرى صحيح نہ ہو، لہذا جو رياء سے پہلے والى عبادت ہے وہ صحيح ہو گى اور جو رياء كے بعد والى ہے وہ باطل ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك شخص كے پاس سو ريال ہيں تو وہ صحيح اور خالص نيت كے ساتھ پچاس ريال صدقہ كرتا ہے، اور پھر باقى پچاس ريال رياء كى نيت سے صدقہ كرتا ہے تو پہلے پچاس ريال كے صدقہ والى عبادت قبول ہو گى، اور دوسرى مقبول نہيں كيونكہ اس كا آخر پہلى سے عليحدہ ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين اور القول المفيد شرح كتاب التوحيد ( 1 / 114 ) طبعہ اولى.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/10843
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرواور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩

تو اس تنازع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلانا اسلام و ایمان ہے اب کون مسلمان ہے جو اس اسلام و ایمان کا انکار کرے سوائے منافق اور کافر کے
والسلام

چاليسواں منانا فرعونى عادت ہے

چاليسواں منانے كى اصل حقيقت كيا ہے، اور كيا مردے كے اوصاف اور محاسن بيان كرنے كے مشروعيت ميں كوئى دليل ہے ؟


الحمد للہ :

اول:

اس كى اصل حقيقت يہ ہے كہ يہ فرعونى عادت ہے، اسلام سے قبل فراعنہ كے ہاں يہ معروف تھا، اور پھر ان سے دوسروں ميں عام ہوا اور پھيلا اور ان كے علاوہ دوسروں ميں بھى سرايت كر گيا، اور يہ ايك ايسى منكر بدعت ہے جس كى دين اسلام ميں كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى.

اور اس كى ترديد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى كرتا ہے:

" جس نے بھى ہمارے اس معاملے( يعنى دين ) ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے"

اس حديث كے صحيح ہونے پر اتفاق ہے.

دوم:

آج كے دور ميں موجودہ طريقہ پر ميت كے اوصاف اور محاسن بيان كرنے اور اس كے اجتماع كرنا ميت كى مدح ثنائى ميں غلو اور ناجائز ہے، اس كى دليل مسند احمد، ابن ماجۃ، كى مندرجہ ذيل حديث ہے جسے امام حاكم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح قرار ديا ہے:

عبد اللہ بن ابى عوفى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرثيہ خوانى سے منع فرمايا "

اور اس ليے بھى كہ ميت كے اوصاف ذكر كرنا غالب طور پر فخر ہے، اور اس سے غم كى تجديد ہوتى اور حزن زيادہ ہوتا ہے، ليكن ميت كو ذكر كرتے وقت صرف اس كى تعريف كرنا، يا اس كے جنازہ كے گزرتے وقت اس كى اچھائى بيان كرنا، يا اس كى پہچان كے ليے اس كے جليل القدر اور اچھے كام بيان كرنا وغيرہ يہ اس رثاء اور مرثيہ كے مشابہ ہے جو بعض صحابہ نے شھداء احد وغيرہ كے بارہ بيان كيے تھے تو يہ جائز ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: ايك جنازہ كے پاس سے گزرے تو اس كى اچھائى بيان كى گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" واجب ہو گئى"

پھر ايك اورجنازہ كے پاس سے گزرے تو لوگوں نے اس كے بارہ باتيں اچھيں نہ كيں بلكہ برى كيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" واجب ہو گئى"

تو عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا: كيا چيز واجب ہو گئى ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" آپ لوگوں نے اس كى اچھائى بيان كى اورتعريف كى تو اس كے ليے جنت واجب ہو گئى، اور اس كے بارہ آپ لوگوں نے برائى بيان كى تواس كے ليے آگ واجب ہو گئى، تم زمين ميں اللہ تعالى كے گواہ ہو"

اسے بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.

مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ بن باز رحمہ اللہ تعالى ( 13 / 398 )
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
درج بالا حدیث مبارکہ سے دوسروں کو کھانا کھلانے کی فضیلت بیان ہو رہی ہے، چہلم کا ثبوت ہرگز نہیں ہورہا۔ مغالطہ دینا بہرام صاحب کی پرانی عادت ہے۔ یہاں بھی انہوں نے یہی مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ کوئی عام کھانا ہو اگر اس میں فی ذاتہ کوئی خلافِ اسلام (مثلاً حرام کھانا یا اسراف وغیرہ) بات نہ ہو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن کسی مخصوص موقع کا کھانا اس کا حکم اس مخصوص موقع کا ہوتا ہے۔ یہاں صرف کھانا کھلانے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ چہلم کے کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ جیسے چہلم منانا بدعت ہے تو اس کا کھانا بھی اس بدعت کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ ہاں اگر آپ کو چہلم کے بدعت ہونے پر اعتراض ہے تو اس پر بات کریں۔ اس کو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام بشمول سیدنا علی وحسنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت کریں!

اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام کے دشمن ایک دن مقرر کرتے ہیں کہ ہم اس دن اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بکواس کیا کریں گے اور ساتھ کھانے کا اہتمام کر لیں کیا محترمی بہرام صاحب کے ہاں درج بالا حدیث کی بنا پر یہ کھانا باعث فضیلت ہوگا؟؟؟

لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان

آپ نے علامہ البانی کی سلسلہ احادیث صحیحہ سے ایک چیز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ یہ آپ نے دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ کیا درجہ بالا احادیث کی ترتیب سے علامہ البانی کا یہی مقصود ہے؟؟؟ کیا یہی ان کا موقف ہے کہ صہیب عمر سے بہتر ہیں؟؟؟ ہرگز نہیں!!

میں تو اس پر یہی تبصرہ کروں گا:

قد بدت البغضاء من أفواههم وما تخفي صدورهم أكبر

یہ وہی صحابہ بالخصوص خلفائے ثلاثہ سے دشمنی ہے جس نے تمہیں اندر تک جلا رکھا ہے۔ اور اگر اس سے توبہ نہ کی تو اللہ معاف کرے روزِ قیامت جہنم میں جلائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 
Top