• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی کے پاوں احتراما چھونا جائز ہے

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔ اس روایت میں محل استشہاد سمجھ نہیں آیا کیونکہ اس روایت میں صرف اتنی بات موجود ہے کہ امام مسلم نے امام بخاری رحمہما اللہ کی آنکھوں کے مابین بوسہ دیا اور ان سے کہا کہ مجھے آپ اپنے پاوں کو بھی بوسہ دینے کی اجازت دیں۔ یہاں عمل موجود نہیں ہے بلکہ ایک عمل کی اجازت مانگی جا رہی ہے۔
فقبَّل بين عينيه ، وقال : دعني حتى أقبِّل رجليك۔۔۔
٢۔ بہر حال ایک عمل کی اجازت سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ عمل امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک جائز تھا تو اس بارے امام حاکم رحمہ اللہ کا قول آپ نے خود ہی نقل کر دیاہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یعنی استاذ نے اپنے شاگرد امام مسلم رحمہ اللہ کواس طرف توجہ دلائی کہ یہ عمل درست نہیں ہے اور اس بارے جو ایک ہی روایت مروی ہے وہ معلول ہے۔
إن البخاري قال :لا أعلم في الدنيا في هذا الباب غير هذا الحديث الواحد المعلول۔
٣۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے البتہ امام حاکم رحمہ اللہ کے اس قول کو منکر کہا ہے اور کہا کہ اس واقعہ کی نسبت تو امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف صحیح ہے لیکن یہ معلول والا قول امام بخاری رحمہ اللہ کا نہیں ہے۔ اب یہ دو اہل علم کا اختلاف ہے ، جس میں آپ چاہیں تو ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح دیں اور اور چاہیں تو امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح دیں۔
٤۔ ہمارےخیال میں قرائن امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ عمل امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں تھا ۔
٥۔ اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ یہ عمل امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے نزدیک جائز تھا تو پھر بھی یہ اس کی حیثیت اہل علم کی ایک رائے کی سی ہے اور اگر اس کا کسی صحیح حدیث سے تعارض ثابت ہو جائے تو یہ رائے مرجوح قرار پائے گی اور ہم ایک صحیح روایت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ جب شام سے واپس آئے تو انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا تو آپ نے کہا:اے معاذ !یہ کیا کر رہے ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے شام میں دیکھا ہے کہ اہل شام اپنے علماء اور فقہاء کو تعظیما سجدہ کرتے ہیں تو میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی آپ کو سجدہ کروں۔ تو آپ نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنْ الشَّامِ سَجَدَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا هَذَا يَا مُعَاذُ قَالَ أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَفْعَلُوا فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْهُ۔سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح ، باب حق الزوج علی المراۃ۔
٦۔ اب اس روایت کی روشنی میں بتلائیں کہ پاوں کا بوسہ لینے کی اکثر صورتوں میں کیا سجدہ تعظیمی شامل نہیں ہو جاتا ہے ؟اگر تو کوئی ایسی صورت ہو مثلا استاذ صاحب بیٹھے ہوں اور شاگرد کھڑا ہو اور استاذ صاحب اپنا پاوں مارشل آرٹ کے ماہر کی طرح شاگرد کے منہ تک اوپر کریں اور شاگرد صاحب اس کو بوسہ دے دیں تو شاید ایسے بوسے کی مخالفت کوئی بھی نہیں کرے گا۔
مجھے بتائیں اگر آپ کادو سال کا بچہ بستر پر لیٹا ہو اور آپ اس کے پاس بیٹھے ہوں اور پیار آنے پر اس کے پاوں اٹھا کر چوم لیں تو اس سے کون منع کرتا ہے ؟مائیں اپنے بچوں کو ایسے ہی پیار کرتی ہیں۔ میرے بھائی !اصل بات جو ہم سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مسئلہ مجرد پاوں کو بوسہ دینے کا نہیں ہے ، سجدہ تعظیمی کا ہے ۔ اگر آپ پاوں کو بوسہ دینے کو جائز سمجھ رہے ہیں تو مطلب سجدہ تعظیمی کی بھی اجازت دے رہے ہیں۔اگر آپ غور کریں تو ڈاکٹر طاہر القادری کو بظاہر سجدہ کرنے والے سجدہ نہیں کرتے بلکہ پاوں کو بوسہ دیتے ہیں۔
٧۔ جن اہل علم نے تعظیما پاوں کے بوسہ لینے کوجائز قرار دیا ہے تو میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں ہے ۔ مجھے کم ازکم ذاتی طور ہر اس پر اطمینان نہیں ہے۔ اور میرے خیال میں پاوں کے بوسے کی جواز کی بحث کرنے سے معاشرے میں ہونے والے شرک اور مشرکانہ افعال یعنی تعظیمی سجدوں کو ایک سند جواز دینے والی بات ہے جبکہ اس عمل کے جواز کی کوئی صریح اور صحیح دلیل بھی موجود نہیں ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top