• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے؟

شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
السلام عليكم، محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظکم اللہ (معذرت!میں آپ کو تنگ کرتا رہتا ہوں)والشیخ @کفایت اللہ سنابلی حفظکم اللہ
اس حدیث کی صحت کے بارے میں علماء کی آراء درکار ہیں۔یہ حدیث مجھے سنن ترمذی میں ضعیف سند سے ملی تھی ،اب یہ پتہ چلانا ہے کہ کیا یہ کسی اور کتاب میں صحیح یا حسن سند سے موجود ہے یا نہیں ۔۔۔۔

حدیث کا پہلا حصہ تو صحیح مسلم میں ہے باقی حصے کی تحقیق درکار ہے...
حدیث یہ ہے


حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی۔ میں اس سے نکلوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی قبر سے نکلیں گے پھر عمررضی اﷲ عنہ، پھر جنت البقیع میں جاؤں گا ،وہاں جتنے مدفون ہیں ان کو اپنے ساتھ لوں گا،پھر مکہ مکرمہ کے قبرستان والوں کا انتظار کروں گا وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان آکر مجھ سے ملیں گے۔

جزاکم اللہ خیر الجزاء وادخلکم الجنۃ بسبب هذہ خدمۃ العظیمۃ۔آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
اس حدیث کی صحت کے بارے میں علماء کی آراء درکار ہیں۔یہ حدیث مجھے سنن ترمذی میں ضعیف سند سے ملی تھی ،اب یہ پتہ چلانا ہے کہ کیا یہ کسی اور کتاب میں صحیح یا حسن سند سے موجود ہے یا نہیں ۔۔۔۔
حدیث کا پہلا حصہ تو صحیح مسلم میں ہے باقی حصے کی تحقیق درکار ہے...
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الصُّوفِيُّ قثنا مُحْرِزُ بْنُ عَوْنٍ قثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ، ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، ثُمَّ أَهْلُ الْبَقِيعِ يُبْعَثُونَ مَعِي، ثُمَّ أَهْلُ مَكَّةَ، ثُمَّ أُحْشَرُ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ»
فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل ؒ 132-- 507
اور سنن الترمذی میں ہے :
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ العُمَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ آتِي أَهْلَ
البَقِيعِ فَيُحْشَرُونَ مَعِي، ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَكَّةَ حَتَّى أُحْشَرَ بَيْنَ الحَرَمَيْنِ»: قال الترمذی" هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ لَيْسَ بِالْحَافِظِ عِنْدَ أَهْلِ الحَدِيثِ

». هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
سنن الترمذي 3692 )فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل
مستدرك حاكم و صحيح ابن حبان المعجم الكيبرللطبراني فضائل الخلفاء الأربعة وغيرهم لأبي نعيم الأصبهاني 99

ترجمہ :
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی ، پھر ابوبکر ، پھر عمر ؓ ، (سے زمین شق ہو گی) پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے ، پھر میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ میرا حشر حرمین کے درمیان ہو گا “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ۲- اور عاصم بن عمر محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں ۔ ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر مذکورہ سب کتب حدیث میں اس حدیث کی اسناد میں راوی ( عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ العُمَرِيُّ) ہے جو محدثین کےہاں ضعیف ہے (دیکھئے سیر اعلام النبلاء و تھذیب وغیرہ )اور امام احمد بن حنبل ؒ بھی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں :
قال صالح بن أحمد بن محمد بن حنبل: قال أبي: عاصم بن عمر المديني ضعيف. «الجرح والتعديل» 6/ (1915)
------------------------------
اس کا پہلا جملہ ( سب سے پہلے میری قبر شق ہو گی ) صحیح مسلم اور دیگر کئی کتب میں صحیح اسناد سے مروی ہے ،صحیح مسلم کی روایت درج ذیل ہے :
حدثني أبو هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا سيد ولد آدم يوم القيامة، وأول من ينشق عنه القبر، وأول شافع وأول مشفع»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا قیامت کے دن، اور سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی ، یعنی کھلے گی، اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی۔“

اور صحیح بخاری میں حدیث ہے
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس جاء يهودي، فقال: يا أبا القاسم ضرب وجهي رجل من أصحابك، فقال: من؟ "، قال: رجل من الأنصار، قال: «ادعوه» ، فقال: «أضربته؟» ، قال: سمعته بالسوق يحلف: والذي اصطفى موسى على البشر، قلت: أي خبيث، على محمد صلى الله عليه وسلم، فأخذتني غضبة ضربت وجهه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تخيروا بين الأنبياء، فإن الناس يصعقون يوم القيامة، فأكون أول من تنشق عنه الأرض، فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا أدري أكان فيمن صعق، أم حوسب بصعقة الأولى»

ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی آیا اور کہا کہ اے ابوالقاسم ! آپ کے اصحاب میں سے ایک نے مجھے طمانچہ مارا ہے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ، کس نے ؟ اس نے کہا کہ ایک انصاری نے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ ۔ وہ آئے تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے اسے مارا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے بازار میں یہ قسم کھاتے سنا ۔ اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر بزرگی دی ۔ میں نے کہا ، او خبیث ! کیا محمد ﷺ پر بھی ! مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا دیکھو انبیاء میں باہم ایک دوسرے پر اس طرح بزرگی نہ دیا کرو ۔ لوگ قیامت میں بیہوش ہو جائیں گے ۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا ۔ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آ جائیں گے یا انہیں پہلی بے ہوشی جو طور پر ہو چکی ہے وہی کافی ہو گی ۔
 
Top