• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیپٹن مسعود الدین عثمانی کے عقائد کے متعلق سوالات:

شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
46
اسلام و علیکم برادر۔

میں دراصل کچھ عرصہ سے کیپٹن مسعود الدین عثمانی کے عقائد باطلہ پر زیر مطالعہ ہوں۔ اس سلسلے میں آپکی پوسٹس سے کافی راہنمائی ملی۔

مسئلہ عذاب قبر و اعادہ روح پر کچھ سوالات تھے۔

حدثنا محمد بن ابی یعقوب عبداللّٰہ الکرمانی قال حدثنا حسان ابن ابراھیم قال حدثنا یونس عن الزھری عن عروۃ عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت جھنم یحطم بعضھا بعضا و رأیت عمرا یجر قصبہ وھو اول من سیب السوائب (بخاری جلد ۲ عربی ص:۶۶۵ مطبوعہ دہلی

ترجمہ ... عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اُس کا بعض حصہ بعض کو برباد کئے دے رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔ (بخاری

روح کی آنتیں نہیں ہوتیں یہ جسم کی علامت ہے – اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ ان کے بیٹے ابراہیم کے لئے جنّت میں ایک دودھ پلانے والی ہے – روح کو دودھ کی حاجت نہیں یہ بھی جسم کی علامت ہے

مسلم کی حدیث میں آتا ہے

مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللّٰہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شہداء کی روحین سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور اُن کے لئے قندیلیں عرشِ الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف اُنکے رب نے جھانکا اور اِرشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے اُن کا رب اُن کو برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنا یہ ہے کہ ہماری رُوحوں کو پھر ہمارے جسموں میںلوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر اُن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔

دامانوی صاحب عذاب قبرکی حقیقت میں اس پر تبصرہ کرتے ہیں




اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہدا کو پرندوں کے اجسام دے دیئے جاتے ہیں یا وہ پرندے بن جاتے ہیں بلکہ
مطلب یہ ہے کہ سبز اجسام انہیں سواری کے لئے دیئے جاتے ہیں جس سے وہ جنت کی سیر کرتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر الطیار رضی الله تعالیٰ عنہ کو ذي الجناحين یعنی دو پر والے کا خطب دیا – عمر رضی الله تعالیٰ عنہ جب بھی ان کے بیٹے کو سلام کرتے کہتے



حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين

اگر شہدا کے پر ہیں تو سبز پرندوں والے ہوائی جہازوں کی کیا ضرورت ہے
مسروق کی روایت کے الفاظ میں ہے کہ صحابہ نے قرآن کی آیت وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ الله أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ کے بارے میں سوال کیا تھا جس میں شہید کے لئے رزق بتایا گیا ہے – روایت کے الفاظ ہیں ہیں أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ یعنی روحیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں -

مسلم کی حدیث میں شہید کے لئے رزق اسی صورت میں بنتا ہے جب یہ مانا جائے کہ شہید کی روح سبز پرندے میں ہے ورنہ یہ ماننا لازم آے گا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حدیث میں شہید کی سواری اور سواری کے رزق کا ذکر کیا اور شہید کے رزق کا ذکر نہ کیا جو اک مہمل بات ہو گی اور حدیث رسول اس عیب سے پاک ہے

ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں

بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں
(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے، اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دور گزرتا ہے۔
(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔
(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔
(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
46
ابن حبان نے کہا تھا کہ زاذان کا سماع البراء بن عازب رضي الله تعالى عنه سے ثابت نہیں


وزاذان لم يسمعه من البراء

اور زاذان نے البراء سے نہیں سنا

حاکم مستدرک میں اس اعتراض پر کہتے ہیں

لإجماع الأئمة الثقات على روايته عن يونس بن خباب عن المنهال بن عمرو
عن زاذان أنه سمع البراء

ائمہ ثقات کا اجماع ہے کہ زاذان نےالبراء سے سنا ہے یونس بن خباب عن المنھال بن عمرو کی سند سے

لیکن يونس بن خباب خود ہی شدید مجروح راوی ہے یہ کہتا تھا کہ عثمان رضی الله تعالی عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی کا قتل کیا. ایسے غالی شیعہ راویوں سے عقیدہ لیا جائے گا؟

ابن حبان کہتے ہیں

لا يحل الرواية عنه لانه كان داعية إلى مذهبه

اس سے روایت کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ اپنے مذھب کی طرف دعوت دیتا ہے

ابن قیّم نے تعليقات على سنن أبي داود – تهذيب سنن أبي داود وإيضاح علله ومشكلاته كتاب ألسنة میں اسکا رد کیا کہ

وَأَمَّا الْعِلَّة الثَّالِثَة : وَهِيَ أَنَّ زَاذَان لَمْ يَسْمَعهُ مِنْ الْبَرَاء ، فَجَوَابهَا : مِنْ وَجْهَيْنِ . أَحَدهمَا : أَنَّ أَبَا عَوَانَة الْإِسْفَرَايِينِي رَوَاهُ فِي صَحِيحه ، وَصَرَّحَ فِيهِ بِسَمَاعِ زَاذَان لَهُ مِنْ الْبَرَاء فَقَالَ سَمِعْت الْبَرَاء بْن عَازِب فَذَكَرَه

ابو عوانہ الْإِسْفَرَايِينِي نے صحیح میں صراحت کی ہے کہ زاذان نے البراء سے سنا ہے

الذہبی کہتے ہیں ابو عوانہ ، صَاحِبُ "المُسْنَدِ الصَّحِيْحِ"؛ الَّذِي خَرَّجَهُ عَلَى "صَحِيْحِ مُسْلِمٍ"، وَزَادَ أَحَادِيْثَ قَلِيْلَةً فِي أَوَاخِرِ الأَبْوَابِ.

ابو عوانہ ، صَاحِبُ "المُسْنَدِ الصَّحِيْحِ ہیں جس میں انہوں نے صحیح مسلم کی روایات کی تخریج کی ہے اور کچھ احادیث کا اضافہ کیا ہے آخری ابواب میں. یہ کتاب مستخرج أبي عوانة کے نام سے دار المعرفة – بيروت
سے چھپی ہے لیکن اس میں زاذان کی البراء سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی لہذا اس سماع کی تصدیق نہیں ھو سکی. اس کے علاوہ دیگر کتب میں زاذان نے سمعت بولا ہے لیکن وہ اسناد ضعیف ہیں جن میں يونس بن خباب ہے. جن پر شدید جرح کتابوں میں موجود ہے. اس کے علاوہ جن اسناد میں سماع کا اشارہ ہے ان میں عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ سے روایت بیان ہوئی ہے

ابن حبان اس کو بھی رد کرتے ہیں کہتے ہیں
خبر الأعمش عن المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سمعه الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو
الأعمش کی خبر ، المنهال بن عمرو عن زاذان عن البراء سے اصل میں الأعمش عن الحسن بن عمارة عن المنهال بن عمرو سے ہے
جامع التحصیل میں صلاح الدين أبو سعيد خليل بن كيكلدي بن عبد الله الدمشقي العلائي (المتوفى: 761هـ) لکھتے ہیں کہ

قلت وهذا لا يتم إلا بعد ثبوت أن من دلس من التابعين لم يكن يدلس إلا عن ثقة وفيه عسر وهذا الأعمش من التابعين وتراه دلس عن الحسن بن عمارة وهو يعرف ضعفه

یہ بات کہ التابعين صرف ثقه سے تدلیس کرتے تھے بلا ثبوت ہے اس میں مشکل یہ ہے یہ الأعمش ہے جو التابعين میں سے ہے لیکن الحسن بن عمارة سے جو ضعیف ہے تدلیس کرتا ہے

الاعمش کی تدلیس کو رد کرنے کے لئے ابو داوود کی سند پیش کی جاتی ہے


حدَّثنا هنَّادُ بنُ السَّرىّ، حدَّثنا عبدُ الله بنُ نُمير، حدَّثنا الأعمشُ، حدَّثنا المِنهالُ، عن أبي عُمَرَ زاذان، سمعتُ البراء، عن النبي-صلى الله عليه وسلم- فذكر نحوه

اس سے پہلے جس روایت کو ابو داوود کہتے ہیں ایسا ہی روایت کیا ہے اس کے متن میں ہے یعنی جس سند کو الأعمش کے سماع کی دلیل میں پیش کرتے ہیں اس میں ہے

ثمّ يقيَّضُ له أعمى أبكَمُ معه مِرْزَبَّة من حديدٍ، لو ضُرِبَ بها جَبَلٌ لصار تراباً"، قال: "فيضرِبُه بها ضربةً يسمعُها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين، فيصيرُ تراباً، ثم تُعادُ فيه الرُّوحُ

اندھا مقرر کر دیا جاتا ہے جو گرز سے مارتا ہے اگر پہاڑ پر مارے تو مٹی ھو جائے ... پھر دوبارہ عود روح ہوتا ہے

اس اضافہ کو عود روح کے قائلین نے درست مانا ہے مثلا البیہقی، ابن تیمیہ نے دو جگہ اس کو فتوی میں بیان کیا ہے اور البانی صاحب نے متعدد کہا صحیح کہا ہے



اب الأعمشُ کا سماع ثابت نہ رہا؟ دراصل یہ عقیدہ یہ بناتے ہیں کہ عود روح ایک دفعہ ہوتا ہے لیکن روایت میں دو دفعہ بیان ہوا ہے. اصل میں عذاب اب شروع ہوا ہے لہذا عود روح اب ہوتا رہے گا.

ابن قیم نے اس روایت کو ثابت کرنے کے لئے یہ بھی کہا

أَنَّ اِبْن مَنْدَهْ رَوَاهُ عَنْ الْأَصَمّ حَدَّثَنَا الصَّنْعَانِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْر عِيسَى بْن الْمُسَيِّب عَنْ عَدِيّ بْن ثَابِت عَنْ الْبَرَاء – فَذَكَرَهُ .فَهَذَا عَدِيّ بْن ثَابِت قَدْ تَابَعَ زَاذَان

عود روح والی روایت کی ایک اور سند بھی ہے جس میں عيسى بن المسيب ہے. عيسى بن المسيب کی اور روایت کے لئے البانی سلسلہ الاحادیث الضعیفہ میں کہتے ہیں

و هذا سند ضعيف من أجل عيسى بن المسيب ، ضعفه ابن معين ، و أبو زرعة و النسائي و الدارقطني وغيرهم كما في " الميزان " للذهبي ، ثم ساق له هذا الحديث و قال العقيلي : " و لا يتابعه إلا من هو مثله أو دونه " .
یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے ، عيسى بن المسيب کی وجہ سے اس کو ابن معين ، و أبو زرعة و النسائي و الدارقطني اور دیگر نے ضعیف کہا ہے جیسا کہ ذھبی کی الميزان میں ہے اور العقيلي کہتے ہیں اس کی متابعت اسی کے جسے کرتے ہیں

عيسى بن المسيب کی روایت ضعیف ہوتی ہے لیکن جسے ہی یہ عود روح والی روایت بیان کرتا ہے ساری جرح کالعدم ھو جاتی ہے. یا للعجب
ابن حزم (المتوفی ٤٥٦ ھ) جو عود روح والی روایت کو رد کرتے ہیں ان کے لئے نورپوری لکھتے ہیں کہ

ابن حزم اگرچہ مجتہد اور فقہ تھے لیکن بہر الحال وہ متاخر تھے، جرح و تعدیل میں ان کی حیثیت صرف ایک ناقل کی سی ہے
اب موصوف خود باتیں کہ ان کی لسٹ میں سے متقدمین کون ہیں. سارے متاخرین ہی ہیں. تیسری صدی کے اختتام کو اہل علم نے متقدمین اور متاخرین میں حد فاصل قرار دیا ہے دیکھئے مقدمہ سیر الاعلام النبلاء ج ١ ص ١٢٠ ،١٢١ بقلم بشار عواد المعروف. جتنے لوگ انہوں نے گنوائے ہیں سب متاخرین ہیں
ابن حزم ٣٨٤ ھ میں پیدا ہوئے اور حاکم نیشاپوری کے ہم عصر ہیں ہے اس روایت کے سخت خلاف ہیں لہذا اس روایت کو رد شروع سے ہی کیا جاتا رہا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
میرے بھائی @حافظ طاہر اسلام عسکری اور @اسحاق سلفی بھائی کیا کہیں گے یہاں -
ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے ایمان والوں کے لئے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے اور فرمانے لگے:

" ان دونوں قبر والوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور يہ عذاب انہيں كسى بڑى چيز كى بنا پر نہيں.
پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك تو غيبت اور چغلى كرتا تھا، اور دوسرا پيشاب كى چھينٹوں سے نہيں بچتا تھا "
راوى بيان كرتے ہيں كہ: پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك تازہ شاخ لى اور اسے دو حصے كر كے ہر ايك قبر پر گاڑھ ديا، اور پھر فرمايا:
" اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہيں ہونگى ان سے تخفيف اور كمى كى جائيگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1378 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے ایمان والوں کے لئے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے اور فرمانے لگے:

" ان دونوں قبر والوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور يہ عذاب انہيں كسى بڑى چيز كى بنا پر نہيں.
پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك تو غيبت اور چغلى كرتا تھا، اور دوسرا پيشاب كى چھينٹوں سے نہيں بچتا تھا "
راوى بيان كرتے ہيں كہ: پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك تازہ شاخ لى اور اسے دو حصے كر كے ہر ايك قبر پر گاڑھ ديا، اور پھر فرمايا:
" اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہيں ہونگى ان سے تخفيف اور كمى كى جائيگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1378 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).
السلام علیکم و رحمت الله -

اس حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عذاب قبر ان دونوں اشخاص کی انہی زمینی قبروں ،میں ہو رہا تھا -درخت کی ٹہنی قبروں پر لگانے کے فعل کے پیچھے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی کیا حکمت تھی یہ الله اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں- بظاھر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک نشانی کے طور پر لگائی گئی تھیں - ورنہ اگر یہی اشخاص کسی جانور کا لقمہ بنتے یا کسی دریا میں ڈوب کر مرتے تو الله کے نبی کا فعل اس بارے میں ممکن ہے کچھ مختلف ہوتا - (واللہ اعلم )

صحیح مسلم کی حدیث عائشہ رضی الله عنہ میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے جس قبر کا ذکر کیا ہے- وہ برزخی قبر معلوم ہوتی ہے -
حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ: "اس یہودی عورت کے گھر والے اس پر (یعنی اس کی میت پر) رو رہے ہیں جب کہ اس عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے -

یہاں بھی اشارہ میت کی طرف تھا جو ابھی دفن نہیں کی گئی تھی - لیکن نبی کریم کی طرف سے عذاب قبر کی نشاندہی پہلے ہی کردی گئی -اس کا مطلب ہے کہ یہ معامله عالم برزخ کا تھا (واللہ اعلم) _
 
Last edited:
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@شعیب حیدری بھائی،
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے:

"
بَاب مِنْ فَضَائِلِ بِلَالٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۳۰۷/ حدیث مرفوع
۶۳۰۷۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهٗ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَهٗ عِنْدَکَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْفَعَةً فَإِنِّي سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْکَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ بِلَالٌ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا فِي الْإِسْلَامِ أَرْجٰی عِنْدِي مَنْفَعَةً مِنْ أَنِّي لَا أَتَطَهَّرُ طُهُورًا تَامًّا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذٰلِکَ الطُّهُورِ مَا کَتَبَ اللہُ لِي أَنْ أُصَلِّيَ۔

۶۳۰۷۔ عبید بن یعیش، محمد بن علاء ہمدانی، ابواسامہ، ابو حیان۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر بواسطہ اپنے والد، ابوحیان تیمی، یحیی بن سعید، ابو زرعہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا: اے بلال !تو مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہو اور جس کے نفع کی تجھے زیادہ امید ہو؟ کیونکہ آج رات میں نے جنت میں اپنے سامنے تیرے قدموں کی آواز سنی ہے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس کے نفع کی مجھے زیادہ امید ہو ،سوائے اس کے کہ جب بھی میں رات یا دن کے وقت کامل طریقے سے وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے جس قدر اللہ نے میرے مقدر میں لکھا ہوتا ہے نماز پڑھ لیتا ہوں۔"

اس صحیح حدیث میں اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہ قدم کی آواز آپ نے جنت میں سنی، اس عبارت سے یہ دلیل پکڑنا صحیح نہیں کہ اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک نیا جسم عطا کر کہ جنت میں پہنچا دیا گیا تھا،
ایسے ہی اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ہے کہ :

میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی"

مطلب کہ اللہ تعالی نے اس حقیقت کو اپنے نبی پر واضح کر دیا کہ "عمرو (ابن لحی الخزاعی)" کی قسمت میں جہنم کا عظیم عذاب ہے، اور "حضرت بلال رضی اللہ عنہ" کی تقدیر میں جنت کے باغ ہیں۔

اور اس موقف کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے:

"
'اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا: فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔''

المومن٤٠:٤٥-٤٦"

جس عذاب پر فرعون کو صبح و شام پیش کیا جاتا ہے وہ جہنم کا نہیں، اس سے ہلکا عذاب ہے، جو اس کو اللہ اپنی صفت "علی قل شیئ قدیر" کے تحت دے رہا ہے، اور قیامت قائم ہونے کے بعد جہنم کے بد ترین عذاب میں ڈال دیا جائیگا۔

اور @محمد علی جواد بھائی نے جو لکھا کہ :
""اس یہودی عورت کے گھر والے اس پر (یعنی اس کی میت پر) رو رہے ہیں جب کہ اس عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے -

یہاں بھی اشارہ میت کی طرف تھا جو ابھی دفن نہیں کی گئی تھی"

جواد بھائی اس حدیث میں "یعنی اس کی میت پر" کے الفاظ سے ہی تو اس کا مفہوم تبدیل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا "اشارہ میت کی طرف تھا جو ابھی دفن نہیں کی گئی تھی"، مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اشارہ مدفون کی طرف ہو، مطلب کہ عورتیں اس کے دفن ہونے کے بعد اس پر رو رہی ہوں، جیسا کہ آج کل دیکھا جا سکتا ہے کے جیسے ہی مرد حضرات میت دفن کر کے واپس آتے ہیں، تو عورتیں اسی وقت دوبارہ رونے لگتی ہیں۔ بلکہ کئی کئی دن تک روتی رہتی ہیں، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ واللہ وعلم۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اسلام و علیکم برادر۔

میں دراصل کچھ عرصہ سے کیپٹن
مسعود الدین عثمانی کے عقائد باطلہ پر زیر مطالعہ ہوں۔ اس سلسلے میں آپکی پوسٹس سے کافی راہنمائی ملی۔



ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں
ابتدائی سطروں میں لکھا ’‘ عثمانی کے عقائد باطلہ ’‘
اور آخری سطروں میں لکھ دیا ’‘ ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ ’‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تکلف برطرف۔۔۔۔۔۔ذیل کا جملہ ’‘ ’‘
عقائد باطلہ پر زیر مطالعہ ہوں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
@شعیب حیدری بھائی،
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے:

"
بَاب مِنْ فَضَائِلِ بِلَالٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۳۰۷/ حدیث مرفوع
۶۳۰۷۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهٗ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَهٗ عِنْدَکَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْفَعَةً فَإِنِّي سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْکَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ بِلَالٌ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا فِي الْإِسْلَامِ أَرْجٰی عِنْدِي مَنْفَعَةً مِنْ أَنِّي لَا أَتَطَهَّرُ طُهُورًا تَامًّا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذٰلِکَ الطُّهُورِ مَا کَتَبَ اللہُ لِي أَنْ أُصَلِّيَ۔

۶۳۰۷۔ عبید بن یعیش، محمد بن علاء ہمدانی، ابواسامہ، ابو حیان۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر بواسطہ اپنے والد، ابوحیان تیمی، یحیی بن سعید، ابو زرعہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا: اے بلال !تو مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہو اور جس کے نفع کی تجھے زیادہ امید ہو؟ کیونکہ آج رات میں نے جنت میں اپنے سامنے تیرے قدموں کی آواز سنی ہے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس کے نفع کی مجھے زیادہ امید ہو ،سوائے اس کے کہ جب بھی میں رات یا دن کے وقت کامل طریقے سے وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے جس قدر اللہ نے میرے مقدر میں لکھا ہوتا ہے نماز پڑھ لیتا ہوں۔"

اس صحیح حدیث میں اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہ قدم کی آواز آپ نے جنت میں سنی، اس عبارت سے یہ دلیل پکڑنا صحیح نہیں کہ اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک نیا جسم عطا کر کہ جنت میں پہنچا دیا گیا تھا،
ایسے ہی اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ہے کہ :

میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی"

مطلب کہ اللہ تعالی نے اس حقیقت کو اپنے نبی پر واضح کر دیا کہ "عمرو (ابن لحی الخزاعی)" کی قسمت میں جہنم کا عظیم عذاب ہے، اور "حضرت بلال رضی اللہ عنہ" کی تقدیر میں جنت کے باغ ہیں۔

اور اس موقف کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے:

"
'اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا: فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔''

المومن٤٠:٤٥-٤٦"

جس عذاب پر فرعون کو صبح و شام پیش کیا جاتا ہے وہ جہنم کا نہیں، اس سے ہلکا عذاب ہے، جو اس کو اللہ اپنی صفت "علی قل شیئ قدیر" کے تحت دے رہا ہے، اور قیامت قائم ہونے کے بعد جہنم کے بد ترین عذاب میں ڈال دیا جائیگا۔

اور @محمد علی جواد بھائی نے جو لکھا کہ :
""اس یہودی عورت کے گھر والے اس پر (یعنی اس کی میت پر) رو رہے ہیں جب کہ اس عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے -

یہاں بھی اشارہ میت کی طرف تھا جو ابھی دفن نہیں کی گئی تھی"

جواد بھائی اس حدیث میں "یعنی اس کی میت پر" کے الفاظ سے ہی تو اس کا مفہوم تبدیل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا "اشارہ میت کی طرف تھا جو ابھی دفن نہیں کی گئی تھی"، مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اشارہ مدفون کی طرف ہو، مطلب کہ عورتیں اس کے دفن ہونے کے بعد اس پر رو رہی ہوں، جیسا کہ آج کل دیکھا جا سکتا ہے کے جیسے ہی مرد حضرات میت دفن کر کے واپس آتے ہیں، تو عورتیں اسی وقت دوبارہ رونے لگتی ہیں۔ بلکہ کئی کئی دن تک روتی رہتی ہیں، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ واللہ وعلم۔

زمینی قبر میں عذاب کا ثبوت اور یہودی عورت کو قبر میں عذاب

الحمد لله الذي أخرجنا من ظلمات الجهل والوهم إلى أنوار المعرفة والعلم، والصلاةُ والسلام على معلمِ البشرية
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی یا یہودیہ کی زمینی قبر پر گزرے جسے قبر میں عذاب ہو رہاتھا ،
مسلم کے رواۃ نے اس متن کو مختصر بیان کیا ،جس سے کچھ لوگوں کو غلط فہمی یا مغالطہ ہوا ،
صحیح مسلم کے جس باب کی آپ نے یہ حدیث یہاں پیسٹ کی ہے ،وہاں اسی باب میں سیدہ عائشہ وابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث دوسری سند سے اس طرح موجود ہے
(حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»
اور سنن ابی داود میں یہی حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ بسند صحیح موجود ہے
حدثنا هناد بن السري، ‏‏‏‏عن عبدة، ‏‏‏‏وأبي، ‏‏‏‏معاوية - المعنى - عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏عن أبيه، ‏‏‏‏عن ابن عمر، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه "‏‏.‏ فذكر ذلك لعائشة فقالت وهل - تعني ابن عمر - إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر فقال "‏إن صاحب هذا ليعذب وأهله يبكون عليه "‏‏.‏ ثم قرأت ‏‏‏‏{ولا تزر وازرة وزر أخرى ‏}‏ قال عن أبي معاوية على قبر يهودي ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کی قبر کےپس سے گزرے تھے۔) قال الشيخ الألباني: صحيح،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ماہنامہ ’‘ محدث ’‘
شمارہ:309 اپریل 2007۔۔۔ربیع الاول۔1428۔۔۔جلد:39
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر کا عذاب و ثواب احادیث ِنبویہؐ کی روشنی میں
محمد ارشد کمال
جس طرح قرآنِ مجید میں لفظ' قبر' کا اطلاق اسی معروف زمینی قبر پر کیا گیا ہے، ایسے ہی بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں 'قبر' کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ قبر سے مراد مردہ انسان کا مدفن ہی ہے۔ ذیل میں اسی سلسلے کی صرف چند احادیث بیان کی جارہی ہیں :

عن أبي ھریرة أن رسول اﷲ! قال: (قاتل اﷲ الیھود اتخذوا قبور أنبیاء ھم مساجد)27
'' سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' یہودیوں کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرے، انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد (سجدہ گاہ) بنا لیا۔''

عن جابر قال: (نھٰی رسول اﷲ!عن تجصیص القبور)28
''سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کوچونا گچ کرنے سے منع فرمایا۔''

عن أبي ھریرة قال: زار النبي ! قبر أمہ فبکی وأبکی من حولہ فقال: (استاذنت ربي في أن استغفرلھا فلم یؤذن لي واستاذنتہ في أن أزور قبرھا فأذن لي فزوروا القبور فإنھا تذکر الموت) 29
''سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے، خود بھی روئے اور گردوپیش لوگوں کوبھی رُلا دیا۔پھر فرمایا:''کہ میں نے اپنے ربّ سے اپنی والدہ کے حق میں استغفار کی اجازت چاہی، لیکن نہ ملی۔ پھر زیارتِ قبر کی اجازت چاہی تو اجازت مل گئی، چنانچہ قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں ۔''

لغت ِعرب، قرآنِ مجید کی آیات اور بے شمار احادیث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قبر سے مراد یہی زمینی گڑھا ہے ۔ جب قبر سے مراد یہی زمینی قبر ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ اسی قبر میں نکیرین آتے ہیں ، اسی میں سوال و جواب ہوتے ہیں ، اس کے بعد پھر اسی قبر کو اعمال کے مطابق جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔ اس قبر کے علاوہ کسی اور قبر کا دعویٰ کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں نے 'برزخی قبر' کا دعویٰ کیا ہے، سراسر کتاب و سنت کے منافی ہے اور اتنا بودا اور کمزور ہے، جیسے تارِ عنکبوت۔

عذابِ قبر کی دو اقسام
دائمی عذاب:اس سے مراد ایسا عذاب ہے جو موت سے لے کر قیامت تک کفار کو دیا جائے گا، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا آلِ فرعون کے متعلق ارشاد ہے:
وَحَاقَ بِـَٔالِ فِرْ‌عَوْنَ سُوٓءُ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ ٱلنَّارُ‌ يُعْرَ‌ضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ أَدْخِلُوٓا۟ ءَالَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ ٱلْعَذَابِ ﴿٤٦﴾...سورة غافر
''اور آلِ فرعون پر بُری طرح کا عذاب الٹ پڑا، آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا کہ )آلِ فرعون کو سخت عذاب میں ڈال دو۔''

ایسے ہی قومِ نوح کے متعلق فرمایا:
مِّمَّا خَطِيٓـَٔـٰتِهِمْ أُغْرِ‌قُوا۟ فَأُدْخِلُوا۟ نَارً‌ۭا فَلَمْ يَجِدُوا۟ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ أَنصَارً‌ۭا ﴿٢٥﴾...سورة نوح
''اور وہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈبو دیئے گئے پھر آگ میں داخل کردیئے گئے ہںٰ پس نہ پایا انہوں نے اپنے لئے اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا۔''

منافقین بھی اس دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں :
(وإن کان منافقا قال سمعت الناس یقولون فقلت مثلہ لا أدري فیقولان: قد کنا نعلم أنک تقول ذلک۔ فیقال للأرض التئمي علیہ فتلتئم علیہ فتختلف فیھا أضلاعہ فلا یزال فیھا معذبا حتی یبعثہ اﷲ من مضجعہ ذلک) 30
''اگر مرنے والامنافق ہو تو وہ(فرشتوں کے سوال کے جواب میں ) کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) کچھ کہتے ہوئے سناتھا پس میں بھی وہ کچھ کہتا تھا، اس سے زیادہ مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ فرشتے کہتے ہیں : ہمیں معلوم تھا کہ تو جواب میں یہی کچھ کہے گا۔ پھر زمین کو (اللہ کی طرف سے) حکم دیاجاتا ہے: اسے جکڑ لے۔ پس قبر اسے جکڑ لیتی ہے اس کی ایک طرف پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہوجاتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی قبر سے اُٹھا کھڑا کرے گا۔''

بعض کبائر کے مرتکب مسلمان بھی قبر کے دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے، جیسا کہ سیدنا سمرہ بن جندبؓ کی بیان کردہ ایک طویل حدیث سے ثابت ہورہا ہے۔مکمل حدیث کے بیان کرنے سے تو یہ سطور قاصر ہیں ، تاہم حدیث کا ایک ٹکڑا یہاں درج کیا جاتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لئے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو پتھر سر پر لگ کر دور جاگرتا اور وہ اسے اُٹھا کر لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی، جیسا پہلے تھا، واپس آکر وہ اسے مارتا ۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر فرشتے نے کہا کہ)
''فرجل علَّمہ اﷲ القرآن فنام عنہ باللیل ولم یعمل فیہ بالنہار یفعل بہ إلی یوم القیامة''31
''یہ وہ انسان تھا جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا، دن میں ان پر عمل نہیں کرتاتھا، اسے یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا۔''

وقتی عذاب:حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''دوسری قسم کا عذابِ قبر وقتی ہے جو ہلکے گناہ والوں پر ان کے گناہوں کے مطابق ایک مقررہ وقت تک ہوتا ہے اور پھر موقوف ہوجاتا ہے، جیسا کہ گناہ گاروں کو ایک خاص وقت تک جہنم میں عذاب ہوگا اور پھر موقوف کردیا جائے گا۔ وقتی عذابِ قبرمیت کے لئے دعاے استغفار یا اسکی اولاد کے صدقہ وغیرہ سے بھی موقوف ہوجاتا ہے۔''32

عذابِ قبر کی مختلف صورتیں
کفار اور دیگر گناہ گاروں کو قبر میں ملنے والے عذاب کی مختلف صورتیں

آگ کے لباس اور بستر کا عذاب :
سیدنا براء بن عازبؓ سے مروی لمبی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''قبر میں کافر کی روح جب لوٹائی جاتی ہے تو (ویأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري۔قال فیقولان: ما دینک؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري۔قال: فیقولان لہ: ماھذا الرجل الذي بعث فیکم؟ فیقول: ھاہ ھاہ لا أدري؟ فینادي مناد من السمآئ: أن کذب فأفرشوہ من النار (وألبسوہ من النار) وافتحوا لہ بابا إلی النار فیأتیہ من حرِّھا وسُمومھا، ویُضیَّقُ علیہ قبرہ حتی تختلف فیہ أضلاعہ، ویأتیہ رجل قبیح الوجہ قبیح الثیاب مُنتن الریح فیقول: أبشر بالذي یسوء ک ھذا یومک الذي کنت توعد فیقول: من أنت فوجھک الوجہ القبیح یجيء بالشر۔فیقول : أنا عملک الخبیث۔فیقول: رب لا تقم الساعة) 33
''اور کافر کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے بیٹھا کر پوچھتے ہیں : ''تیرا ربّ کون ہے؟'' وہ کہتا ہے : ''ہائے افسوس!میں نہیں جانتا۔'' فرشتے پوچھتے ہیں :''تیرا دین کون سا ہے؟'' کافر کہتا ہے : ''ہائے افسوس! میں نہیں جانتا۔'' فرشتے پوچھتے ہیں : ''وہ شخص جو تمہارے درمیان مبعوث کئے گئے تھے، وہ کون تھے؟'' کافر کہتا ہے : ''ہائے افسو س! میں نہیں جانتا۔'' آسمان سے منادی کی آواز آتی ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ہے۔ اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو، اسے آگ کا لباس پہنا دو، اس کے لئے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔چنانچہ جہنم کی گرم اور زہریلی ہوا اسے آنے لگتی ہے۔ اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہوجاتی ہیں ۔ پھر اس کے پاس ایک بدصورت ، غلیظ کپڑوں اور بدترین بدبووالا شخص آتا اور کہتا ہے : ''تجھے بُرے انجام کی بشارت ہو، یہ ہے وہ دن جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ کافر کہتا ہے: تو کون ہے؟ تیرا چہرہ بڑا ہی بھیانک ہے۔ تو (میرے لئے) برا ئی کا پیغام لے کر آیا ہے، وہ جواب میں کہتا ہے: ''میں تیرے اعمال ہوں ۔'' تب کافر کہتا ہے: اے میرے ربّ! قیامت قائم نہ کرنا۔''

لوہے کے ہتھوڑوں سے مارے جانے کا عذاب :
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(العبد إذا وضع في قبرہ وتُوُلِّيٍَ وذھب أصحابہ حتی أنہ لیسمع قرع نعالھم،أتاہ ملکان فأقعداہ فیقولان: ما کنت تقول في ھذا الرجل محمد ﷺ؟ فیقول : أشھد أنہ عبد اﷲ ورسولہ،فیقال: اُنظر إلی مقعدک من النار اَبدلک اﷲ بہ مقعدا من الجنة) قال النبي ! (فیراھما جمیعا، وأما الکافر أو المنافق فیقول: لا أدري کنت أقول ما یقول الناس، فیقال: لا دریت ولا تلیت، ثم یضرب بمِطرقة من حدید ضربةً بین أذنیہ فیصیح صیحة یسمعھا من یلیہ إلا الثقلین) 34
''جب بندہ قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : ''تو اس آدمی کے بارے میں کیاکہتا تھا؟'' (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) بندہ کہتا ہے :''میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں ۔'' پھراسے کہا جاتا ہے: ''دیکھ جہنم میں تیری جگہ یہ تھی جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں جگہ عنایت فرما دی۔'' چنانچہ وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور کافر یا منافق (منکرنکیر کے جواب مںی ) کہتا ہے: ''مجھے معلوم نہیں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟) میں وہی کچھ کہتا تھا جولوگ کہتے تھے۔ ''چنانچہ اسے کہا جاتا ہے: ''تو نے (قرآن و حدیث کو)سمجھا،نہ پڑھا ۔'' پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے اور وہ بُری طرح چیخ اُٹھتا ہے۔ اس کی آواز جن و انس کے علاوہ آس پاس کی ساری مخلوق سنتی ہے۔''

قبر کے شکنجے میں جکڑے جانے کا عذاب:
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی مکمل حدیث پانچ صفحات قبل ذکر ہو چکی ہے، جس میں ہے کہ
(فیقال للأرض التئمي علیہ فتلتئم علیہ فتختلف أضلاعہ)35
''پھر زمین کو (اللہ کی طرف سے) حکم دیا جاتا ہے کہ اسے جکڑلے، پس وہ اسے جکڑ لیتی ہے۔ اس کی ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف کی پسلیوں میں پیوست ہوجاتی ہیں ۔

سانپوں اور بچھوؤں کے ڈسنے کاعذاب:
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(وإن کان من أھل الشک قال: لا أدري سمعت الناس یقولون شیئا فقلتہ فیقال لہ: علی الشک حییتَ وعلیہ متَّ وعلیہ تُبعث۔ ثم یفتح لہ باب إلی النار وتسلط علیہ عقارب وتنانین لو نفخ أحدھم علی الدنیا ما أنبتت شیئا تنھشہ وتؤمر الأرض فتنضم علیہ حتی تختلف أضلاعہ) 36
''اور مردہ (اللہ اور سولؐ کے متعلق) شک کرنے والوں میں سے ہو تو وہ (منکر نکیر کے سوالوں کے جواب میں ) کہتا ہے: میں نہیں جانتا۔ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تھا اور میں نے بھی وہی بات کہی۔ اسے کہا جاتا ہے کہ شک پرتوزندہ رہا، شک پر ہی تیری موت ہوئی اور شک پر ہی تو دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔پھر اس کی قبر کے لئے جہنم کی طرف سے ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس پر اس قدر زہریلے بچھو اور اژدہا مسلط کردیے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک زمین پرپھونک مار دے تو کوئی چیز پیدا نہ ہو۔ چنانچہ وہ بچھو اور اژدہے اسے کاٹتے رہتے ہیں ۔ زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس پر تنگ ہوجا، چنانچہ (زمین اس پراس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ) اسکی ایک طرف کی پسلیاں دوسری پسلیوں میں دھنس جاتی ہیں ۔'' العیاذ باللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

27. صحیح بخاری:کتاب الصلاة،رقم:437
28. ابن ماجہ،کتاب الجنائز، رقم 1562، صححہ البانی
29. صحیح مسلم: رقم 972
30. جامع ترمذی: رقم 1071، حسنہ الالبانی
31. صحیح بخاری:رقم 1386
32. کتاب الروح، ص 165
33. مسنداحمد : 4؍288، رقم :18733 بطولہ صحّحہ الألباني
34. صحیح بخاری: رقم 1338
35. ترمذی: 1071
36. مجمع الزوائد:3؍52، الترغیب والترہیب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات: قبر وحشر
فتویٰ نمبر : 12217

عذابِ قبر کی حقیقت
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 31 May 2014 12:50 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عذاب قبر کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حساب و کتاب کےلئے قیامت کا دن رکھا ہے،اس دن میں لوگوں کا حساب ہوجائے گا تو پھر جزاوسزا کا معاملہ شروع ہوگا جب تک حساب و کتاب نہیں ہوجاتا اس وقت تک نہ کوئی سزا ہے نہ جزا قبرصرف مردوں کو دفن کرنے کےلئے ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ عذاب قبر کے متعلق قرآن و حدیث کے مطابق ہماری راہنمائی فرمائیں،واضح رہے کہ جن لوگوں کا موقف بیان ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ عذاب قبر سے متعلق احادیث صحیح نہیں ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں عذاب قبر کے متعلق ایک عنوان قائم کیا ہے،اس کے تحت ایک حدیث لاتےہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک یہودی عورت آئی اور عذاب قبر کا تذکرتے ہوئے ذکر کیا کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے ،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :‘‘عذاب قبربرحق ہے۔’’(صحیح بخاری،الجنائز:۱۳۷۲)
اس کے علاوہ امام بخاریؒ نے متعدد احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں عذاب قبر کی صراحت ہے لیکن سوال میں جن لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ احادیث کے منکر ہیں کیونکہ یہ ان کے موقف کے خلاف ہیں اس لیے ایسے لوگوں کیساتھ جزوی مسائل میں الجھنے کی بجائے بنیادی مسئلہ پر بات کرنی چاہیے کہ حدیث کی کیا حیثیت ہے؟ کیا اس کی بنیاد وحی پر مبنی ہے؟کیا ان کے بغیر تمام شریعت کو صرف قرآن پاک سے ثابت ،کیا جاسکتا ہے چونکہ سوال عذاب قبر کے متعلق ہے ،وہ بھی ان لوگوں کے حوالہ سےجو صحیح احادیث کو نہیں مانتے ،اس لئے ہم اسے قرآن سے ثابت کرتے ہیں ،اختصار کے پیش نظر صرف ایک آیت پیش خدمت ہے۔امام بخاریؒ نے تو اس سلسلہ میں متعدد آیات کا حوالہ دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اور آل فرعون خو دہی برے عذاب میں گھر گئے وہ صبح و شام آگ پر پیش کیے جاتےہیں
اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو (حکم )ہوگا کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔’’(۴۰/المؤمن:۴۶)
اس آیت میں صراحت ہےکہ آل فرعون کے غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان کی ارواح کو ہر روز صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے،جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ موت سے قیامت تک کا عرصہ ‘‘برزخ ’’کہلاتا ہے اور یہ قبر کے جملہ مراحل ہیں۔اس آیت کریمہ میں عذاب برزخ ،دوسرے الفاظ میں ‘‘عذاب قبر’’کی صراحت ہے۔جس سے منکر حدیث کو بھی انکار نہیں ،عذاب قبر عقلی لحاظ سے بھی غیر ممکن نہیں ،ہمارے ہاں ملزم کو پکڑ کر حوالات میں رکھا جاتا ہے وہاں وہ مصائب و آلام سے دوچار ہوتا ہے،اس پر مقدمہ چلایا جاتا ہے۔فیصلے کے دن کے بعد اسے حوالات سے نکال کر جیل کی کوٹھڑی میں بند کردیا جاتا ہے،جرم ثابت ہونے سے پہلے اسے جس قیدو بند میں رکھا جاتا ہے اوروہاں اسے تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے کس کھاتہ میں ڈالا جائے گا؟ عذاب قبر کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اسے ایک ملزم کی حیثیت سے قبر میں رکھا جاتا ہے اور اسے تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے،پھر قیامت کے دن اس پر فرد جرم عائد کی جائے گی اور متعدد شہادتوں سے اس کے جرم کو ٖثابت کرکے ،پھر مجرم کی حیثیت سے دوزخ کے حوالے کیا جائے گا مذکورہ آیت کریمہ میں تمام مراحل کو آسانی سےدیکھا جاسکتا ہے۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج2ص205​

محدث فتویٰ​
 
Top