شعیب حیدری
رکن
- شمولیت
- فروری 09، 2013
- پیغامات
- 11
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 46
اسلام و علیکم برادر۔
میں دراصل کچھ عرصہ سے کیپٹن مسعود الدین عثمانی کے عقائد باطلہ پر زیر مطالعہ ہوں۔ اس سلسلے میں آپکی پوسٹس سے کافی راہنمائی ملی۔
مسئلہ عذاب قبر و اعادہ روح پر کچھ سوالات تھے۔
حدثنا محمد بن ابی یعقوب عبداللّٰہ الکرمانی قال حدثنا حسان ابن ابراھیم قال حدثنا یونس عن الزھری عن عروۃ عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت جھنم یحطم بعضھا بعضا و رأیت عمرا یجر قصبہ وھو اول من سیب السوائب (بخاری جلد ۲ عربی ص:۶۶۵ مطبوعہ دہلی
ترجمہ ... عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اُس کا بعض حصہ بعض کو برباد کئے دے رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔ (بخاری
روح کی آنتیں نہیں ہوتیں یہ جسم کی علامت ہے – اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ ان کے بیٹے ابراہیم کے لئے جنّت میں ایک دودھ پلانے والی ہے – روح کو دودھ کی حاجت نہیں یہ بھی جسم کی علامت ہے
مسلم کی حدیث میں آتا ہے
مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللّٰہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شہداء کی روحین سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور اُن کے لئے قندیلیں عرشِ الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف اُنکے رب نے جھانکا اور اِرشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے اُن کا رب اُن کو برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنا یہ ہے کہ ہماری رُوحوں کو پھر ہمارے جسموں میںلوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر اُن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔
دامانوی صاحب عذاب قبرکی حقیقت میں اس پر تبصرہ کرتے ہیں
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہدا کو پرندوں کے اجسام دے دیئے جاتے ہیں یا وہ پرندے بن جاتے ہیں بلکہ
مطلب یہ ہے کہ سبز اجسام انہیں سواری کے لئے دیئے جاتے ہیں جس سے وہ جنت کی سیر کرتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر الطیار رضی الله تعالیٰ عنہ کو ذي الجناحين یعنی دو پر والے کا خطب دیا – عمر رضی الله تعالیٰ عنہ جب بھی ان کے بیٹے کو سلام کرتے کہتے
حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين
اگر شہدا کے پر ہیں تو سبز پرندوں والے ہوائی جہازوں کی کیا ضرورت ہے
مسروق کی روایت کے الفاظ میں ہے کہ صحابہ نے قرآن کی آیت وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ الله أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ کے بارے میں سوال کیا تھا جس میں شہید کے لئے رزق بتایا گیا ہے – روایت کے الفاظ ہیں ہیں أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ یعنی روحیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں -
مسلم کی حدیث میں شہید کے لئے رزق اسی صورت میں بنتا ہے جب یہ مانا جائے کہ شہید کی روح سبز پرندے میں ہے ورنہ یہ ماننا لازم آے گا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حدیث میں شہید کی سواری اور سواری کے رزق کا ذکر کیا اور شہید کے رزق کا ذکر نہ کیا جو اک مہمل بات ہو گی اور حدیث رسول اس عیب سے پاک ہے
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں
بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں
(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے، اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دور گزرتا ہے۔
(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔
(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔
(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔
میں دراصل کچھ عرصہ سے کیپٹن مسعود الدین عثمانی کے عقائد باطلہ پر زیر مطالعہ ہوں۔ اس سلسلے میں آپکی پوسٹس سے کافی راہنمائی ملی۔
مسئلہ عذاب قبر و اعادہ روح پر کچھ سوالات تھے۔
حدثنا محمد بن ابی یعقوب عبداللّٰہ الکرمانی قال حدثنا حسان ابن ابراھیم قال حدثنا یونس عن الزھری عن عروۃ عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت جھنم یحطم بعضھا بعضا و رأیت عمرا یجر قصبہ وھو اول من سیب السوائب (بخاری جلد ۲ عربی ص:۶۶۵ مطبوعہ دہلی
ترجمہ ... عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اُس کا بعض حصہ بعض کو برباد کئے دے رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔ (بخاری
روح کی آنتیں نہیں ہوتیں یہ جسم کی علامت ہے – اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ ان کے بیٹے ابراہیم کے لئے جنّت میں ایک دودھ پلانے والی ہے – روح کو دودھ کی حاجت نہیں یہ بھی جسم کی علامت ہے
مسلم کی حدیث میں آتا ہے
مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللّٰہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شہداء کی روحین سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور اُن کے لئے قندیلیں عرشِ الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف اُنکے رب نے جھانکا اور اِرشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے اُن کا رب اُن کو برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنا یہ ہے کہ ہماری رُوحوں کو پھر ہمارے جسموں میںلوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر اُن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔
دامانوی صاحب عذاب قبرکی حقیقت میں اس پر تبصرہ کرتے ہیں
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہدا کو پرندوں کے اجسام دے دیئے جاتے ہیں یا وہ پرندے بن جاتے ہیں بلکہ
مطلب یہ ہے کہ سبز اجسام انہیں سواری کے لئے دیئے جاتے ہیں جس سے وہ جنت کی سیر کرتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر الطیار رضی الله تعالیٰ عنہ کو ذي الجناحين یعنی دو پر والے کا خطب دیا – عمر رضی الله تعالیٰ عنہ جب بھی ان کے بیٹے کو سلام کرتے کہتے
حدثني عمرو بن علي حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا إسماعيل ابن أبي خالد عن الشعبي : أن ابن عمر رضي الله عنهما كان إذا سلم على ابن جعفر قال السلام عليك يا ابن ذي الجناحين
اگر شہدا کے پر ہیں تو سبز پرندوں والے ہوائی جہازوں کی کیا ضرورت ہے
مسروق کی روایت کے الفاظ میں ہے کہ صحابہ نے قرآن کی آیت وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ الله أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ کے بارے میں سوال کیا تھا جس میں شہید کے لئے رزق بتایا گیا ہے – روایت کے الفاظ ہیں ہیں أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ یعنی روحیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں -
مسلم کی حدیث میں شہید کے لئے رزق اسی صورت میں بنتا ہے جب یہ مانا جائے کہ شہید کی روح سبز پرندے میں ہے ورنہ یہ ماننا لازم آے گا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حدیث میں شہید کی سواری اور سواری کے رزق کا ذکر کیا اور شہید کے رزق کا ذکر نہ کیا جو اک مہمل بات ہو گی اور حدیث رسول اس عیب سے پاک ہے
ڈاکٹر عثمانی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں
بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں
(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے، اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دور گزرتا ہے۔
(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔
(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔
(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔