• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبق نمبر1 (گرائمر ابتدائیہ 1)

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بسم اللہ الرحمن الرحیم

عربی گرائمر
کسی بھی زبان کی گرائمر سے مراد اس زبان کے استعمال کے قواعد ہیں پس عربی زبان بولتے ہوئے جن اصول و قواعد کا خیال رکھا جاتا ہے انکے مجموعے کو عربی گرائمر کہتے ہیں جس میں صرف، نحو، تجوید، کتابت، لغۃ وغیرہ کے علوم آجاتے ہیں

عربی گرائمر سیکھنے کا مقصد
اللہ کی عبادت کے فریضے کو انجام دینے کے لئے اسکے احکامات کا علم حاصل کرنا لازمی ہے لیکن اس علم کا ماخذ چونکہ عربی زبان میں ہے تو اسکے لئے عربی گرائمر سیکھنا بہت ضروری ہے اس میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اکثر جگہوں پر گرائمر کو سیکھ کر قرآن و حدیث کی جو سمجھ پیدا ہوتی ہے وہ سادہ ترجمے سے نہیں آتی

عربی گرائمر کے لئے ضروری علوم (صرف و نحو)
ویسے تو قرآن و حدیث کی عربی عبارت کو مکمل سمجھنے کے لئے بہت سے علوم کی ضرورت پڑتی ہے جن میں صرف، نحو، تجوید، کتابت، لغۃ وغیرہ کے علوم آجاتے ہیں مگر ہمارا تقریبا سارا واسطہ چونکہ صرف و نحو کے قواعد سے پڑتا ہے پس مدارس میں گرائمر کی اصطلاح کا عمومی اطلاق صرف و نحو کی حد تک کیا جاتا ہے اور گرائمر میں انہیں دو مضامین کو ہی زیادہ پڑھایا جاتا ہے باقی کی معلومات ساتھ ساتھ ویسے ہی ملتی جاتی ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
صرف و نحو میں فرق
جب ہم کسی جملہ کا ترجمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کن چہزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اسکے جواب کے لئے ایک قرآنی مثال لیتے ہیں پہلے انگلش میں سمجھتے ہیں پھر عربی کی مثال سے اسی کی وضاحت کریں گے
Dawood killed Jaloot​

اوپر جملہ میں تین لفظ ہیں اس کا ترجمہ کرنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل دو مرحلے طے کرنے ہوں گے

1- پہلے مرحمہ میں ہر لفظ کا علیحدہ عیحدہ ترجمہ کرتے ہیں پس پہلے لفظ کا ترجمہ 'داود' ہے دوسرے کا ترجمہ مارا اور تیسرے کا ترجمہ جالوت ہے پس اس مرحلہ میں ہر لفظ کا علیحدہ ترجمہ معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں مندرجہ ذیل نامکمل ترجمہ ملے گا 'داود جالوت مارا' یعنی بات ابھی ادھوری ہے

2- ہر لفظ کا ترجمہ کر چکنے کے باوجود جب اس علیحدہ علیحدہ ترجمہ کو ملا کر مکمل جملہ نہین بنایا جا سکتا تو ہمیں کچھ اور قواعد چاہیے ہوں گے کیونکہ خالی ان الفاظ کو ملا کر 'داود جالوت مارا' کوئی جملہ نہیں بنتا- جملہ مکمل کرنے کے لئے داود اور جالوت میں سے ایک کے بعد 'نے' لگانا پڑے گا اور دوسرے کے بعد 'کو' لگانا پڑے گا یعنی داود نے جالوت کو مارا یا داود کو جالوت نے مارا- یعنی جو فاعل ہو گا اسکے بعد 'نے' کا اضافہ ہو گا اور جو مفعول ہو گا اسکے بعد 'کو' لگے گا پس اس بارے میں انگلش میں یہ قاعدہ ہے کہ پہلے فاعل آتا ہے پھر فعل اور پھر مفعول آتا ہے- پس اس انگلش کے اس قاعدہ سے پتا چلا کہ داود فاعل ہے اور جالوت مفعول ہے پس ہم داود کے بعد 'نے' اور جالوت کے بعد 'کو' لکھتے ہیں پس اس مرحلے کے قواعد لاگو کرنے کے بعد نیا مکمل ترجمہ کچھ اس طرح ہو گا داود نے جالوت کو مارا

اب اسی مثال کو عربی میں لیتے ہیں
قتل داودُ جالوتَ

1- پہلے مرحمہ میں ہر لفظ کا علیحدہ عیحدہ ترجمہ کرتے ہیں پس پہلے لفظ کا اکیلا ترجمہ ہے قتل کیا (مارا) - دوسرے کا اکیلا ترجمہ ہے داود -اور تیسرے کا اکیلا ترجمہ ہے جالوت - پس اس مرحلہ کے بعد ہمیں پھر انگلش کی طرح عربی میں بھی مندرجہ ذیل نامکمل ترجمہ ملے گا داود جالوت مارا

2- پس پتا چلا کہ عربی میں بھی ہر لفظ کا ترجمہ کر چکنے کے باوجود جب اسکو ملائیں گے تو کچھ اور قواعد چاہیے ہوں گے کیونکہ خالی ملا کرداود جالوت مارا کوئی جملہ نہیں بنتا- جملہ مکمل کرنے کے لئے داود اور جالوت میں سے ایک کے بعد نے کا اضافہ چاہیے اور دوسرے کے بعد کو لگانا پڑے گا یعنی داود نے جالوت کو مارا یا داود کو جالوت نے مارا- یعنی جو فاعل ہو گا اسکے بعد نے لگے گا اور جو مفعول ہو گا اسکے بعد کو لگے گا پس اس سلسلے میں انگلش کے برعکس عربی میں یہ قاعدہ ہے کہ فاعل پر ضمہ (پیش) آتا ہے اور مفعول پر فتحہ (زبر) - پس اس قاعدہ سے پتا چلا کہ داود پر پیش ہونے کی وجہ ہے وہ فاعل ہو گا پس اسکے بعدترجمہ میں نے کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ جالوت فتحہ کی وجہ سے مفعول بنے گا پس جالوت کے بعد کو کا اضافہ ہو گا پس اس مرحلے کے بعد نیا مکمل ترجمہ اس طرح ہو گا داود نے جالوت کو مارا

جہاں تک پہلے مرحلہ کا تعلق ہے یعنی علیحدہ علیحدہ کسی لفظ کا ترجمہ کرنا تو اس میں علم الصرف اور علم اللغۃ کا استعمال ہوتا ہے مگر ہم یہاں صرف علم الصرف پڑھیں گے علم اللغۃ پریکٹس سے خود بخود آتی جائے گی- پس علم الصرف پڑھنے کے بعد ہم پہلے مرحلے کوآسانی سے طے کر لیں گے
جبکہ دوسرے مرحلے کو طے کرنے کے لئے ہمیں علم النحو پڑھنا پڑھے گا اوپر مثالوں سے ہمیں یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ دوسرے مرحلے میں انگلش میں جو کام جگہ سے لیا جا رہا ہے عربی میں وہ حرکات سے لیا جا رہا ہے اور اردو میں وہ حروف (یعنی نے اور کو) سے لیا جا رہا ہے

اب دونوں مرحلوں کی باری باری مثالوں کے ساتھ وضاحت آگے دیکھتے ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پہلا مرحلہ(علم الصرف)
اسکے لئے ایک سادہ سی مثال لیتے ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ بھٹہ پر اینٹیں اور ٹائلیں بنانے کے لئے مختلف سانچے استعمال ہوتے ہیں ان سانچوں میں جو مادہ بھرا جاتا ہے اسکو مٹی کہتے ہیں پس اینٹ کے سانچے میں مٹی بھر کر پکائیں تو وہ مٹی کی اینٹ بن جاتی ہے اور ٹائل کے سانچے میں مٹی بھر کر پکائیں تو وہ مٹی کی ٹائیل بن جاتی ہے
اب اگر ہم گھر میں ان سانچوں میں مٹی کی جگہ دودھ ڈال کر فریزر میں پکائیں تو وہ دودھ کی اینٹ یا ٹائیل بن جائے گی
پس اس سے پتا چلتا ہے کہ جو چیز تیار ہو گی اس کا نام دو حصوں پر مشتمل ہو گا ایک حصہ بتائے گا کہ اس میں کیا بھرا گیا ہے اور دوسرا حصہ بتائے گا کہ سانچہ کون سا تھا

پس مساوات یوں بنے ھی
table equatn.jpg

اسی طرح عربی میں الفاظ بھی دو چیزوں سے مل کر بنے ہوتے ہیں یعنی مادہ اور سانچہ-
پس جب اکیلے لفظ کا ترجمہ (نام) لکھا جاتا ہے تو اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لفظ میں مادہ کون سا استعمال ہوا ہے اور سانچہ کون سا چنا گیا ہے

دو سانچوں اور چار مادوں سے وضاحت
وضاحت کے لئے ہم عام استعمال ہونے والے چار مادوں اور دو سانچوں کو لیتے ہیں ہمارے پاس عبد (عبادت)، سجد(سجدہ)، قتل(قتل)، نصر(مدد) چار مختلف مادے ہیں جو تین حرفوں پر مشتمل ہیں اسکے ساتھ ساتھ ہمارے پاس فاعل اور مفعول کے دو سانچے ہیں
سانچوں کو پہلے خالی بریکٹوں سے ظاہر کرتے ہیں جس میں خالی بریکٹیں مادہ کو ظاہر کر رہی ہیں بعد میں مادہ بھر دیا جائے گا

1-فاعل کا سانچہ = ( َ ) ا ( ِ) ( )
یعنی پہلے حرف پر زبر + آگے الف زائد + دوسرےحرف پر زیر + آگے تیسرا حرف
اس سانچہ کا معنی= کرنے والا

2-مفعول کا سانچہ = مَ ( ) (ُ)و()
یعنی پہلے میم زائدہ پر زبر+ آگے پہلا حرف ساکن+ آگے دوسرے حرف پر پیش+ آگے واو زائدہ+ آگے تیسرا حرف
اس سانچہ کا معنی= کیا جانے والا

اب ہر سانچے میں باری باری چاروں مادے بھرنے کو ٹیبل کی مدد سے سمجھتے ہیں جس میں ہر لفظ کا معنی اوپر وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے

پہلے سانچے کا چاروں مادوں کے ساتھ ٹیبل
table subject.jpg

اوپر ٹیبل سے پتا چلتا ہے کہ اس میں سانچہ ایک ہونے کی وجہ سے سانچے کا معنی ہر لفظ میں ایک ہی آ رہا ہے البتہ مادہ بدلنے کی وجہ سے معنی بدل رہا ہے

دوسرے سانچے کا چاروں مادوں کے ساتھ ٹیبل
ScreenHunter_09 Apr. 11 09.09.jpg

اس میں بھی سانچہ ایک ہونے کی وجہ سے سانچے کا معنی ہر لفظ میں ایک ہی آ رہا ہے البتہ مادہ کا معنی تبدیل ہو رہا ہے
پس پہلے مرحلے میں ہمیں دو چیزیں چاہیں یعنی مادے کا معنی اور سانچہ کا معنی- مادہ کے معنی کا تعلق علم اللغۃ سے ہے اور سانچے کا معنی کا تعلق علم الصرف سے ہے
علم اللغۃ ہمیں پڑھنے کی ضرورت اس لئے نہیں پڑے گی کہ ایک تو عربی کے بہت سے الفاظ کا مادہ اردو میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا اسکے کو یاد کرنے کے لئے کوئی آسان اصول نہیں بلکہ رٹا لگانا ہوتا ہے جو لاکھوں الفاظ کا نہیں لگایا جا سکتا اسکے لئے ہر زبان میں ڈکشنریاں استعمال ہوتی ہے جیسے انگلش میں vocabulary کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے انگلش میں اس کی استعطاعت کوبڑھانے کے لئے اسباق کی ریڈنگ کروائی جاتی ہے اور مدارس میں جب بچے عربی میں احادیث وغیرہ پڑھتے ہیں تو انکی یہ استطاعت خود بخود بنتی جاتی ہے
البتہ سانچوں کا علم جاننا ضروری ہے کیونکہ وہ کچھ قواعد کے تحت چلتا ہے جسکو سمجھ لینا آسان ہوتا ہے
ان سانچوں کو عربی میں صیغہ کہتے ہیں اور علم الصرف میں انہیں صیغوں کے معانی کو ایک سسٹمیٹک طریقے سے یاد کیا جاتا ہے کہ فلاں سانچے کا یہ معنی ہے فلاں سانچے کا یہ معنی ہے وغیرہ
ہم سونے کے بازار کو صرافہ بازار کہتے ہیں کیونکہ وہاں صراف (پھیرنے والے) ہوتے ہیں جو ایک مادہ (سونا) کو مختلف سانچوں (انگوٹھی، ہار، کنگن وغیرہ) میں پھیرتا ہے اسی مناسبت سے سانچوں میں کسی مادے کو پھیرنے کو علم الصرف کہتے ہیں
یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کچھ چیزیں تو مختلف سانچوں میں پھر سکتی ہیں مثلا مٹی کو اینٹ کے سانچے میں ڈالنے سے وہ اینٹ بن جائے گی مگر پتھر کو اینٹ کے سانچے میں ڈالنے سے وہ نہیں بدلے گا
اسی طرح عربی کے تمام مادے مختلف سانچوں میں نہیں پھرتے پس علم الصرف میں ہم صرف انکو پڑھیں گے جن میں پھرنے کی صلاحیت ہوتی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دوسرا مرحلہ(علم النحو)
دوسرے مرحلے میں بتایا گیا کہ جیسے انگلش میں مختلف الفاظ کے علیحدہ معانی جان لینے کے باوجود ترجمہ مکمل نہیں ہوتا بلکہ انکو جوڑکر جملہ بنانے کے وقت کچھ مزید قواعد چاہیے ہوتے ہیں (مثلا فاعل اور مفعول کی پہچان جگہ کو دیکھ کر کرنا)

اسی طرح عربی میں بھی ہر لفظ کا علیحدہ معنی جان لینے کے باوجود کچھ اور قواعد کا علم درکار ہوتا ہے جن کے تحت انکو جوڑ کر بات مکمل کی جا سکے (مثلا فاعل اور مفعول کی پہچان اعراب یعنی زبر زیر پیش سے کرنا)
مثلا اوپر مثال ہے قَتَلَ داودُ جالوتَ
اس میں چونکہ داود پر پیش ہے اور جالوت پر زبر ہے اور دوسرے مرحلہ (علم النحو) میں اوپر ہم نے پڑھا کہ فاعل پر پیش ہوتا ہے اور مفعول پر زبر تو ترجمہ میں ہم داود کے ساتھ نے اور جالوت کے ساتھ کو کا اضافہ کریں گے
اگر یہ الٹ ہوتا یعنی قتل داودَ جالوتُ
تو ترجمہ الٹ بنتا کہ داود کو جالوت نے قتل کیا

ان قواعد بارے بحث علم النحو میں کی جاتی ہے پس علم النحو میں پڑھا جاتا ہے کہ کلمہ کی آخر کی حرکت کیا ہے اور کیوں ہے یعنی وہ زبر ہے یا زیر ہے یا پیش یا سکون- انہیں کو اعراب کی علامات کہا جاتا ہے-
پس نحو کی تعریف یہ ہے کہ
ایسا علم جس کے ذریعے کلمہ (اسم فعل حرف) کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی کے اعتبار سے پہچاننے اور انکو آپس میں جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو
 
Top