• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گمنام اجتمائی قبریں اور بھارت میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کی پراسرار ہلاکتیں !!!!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
مقبوضہ کشمیر میں ہنوز گمنام اجتماعی قبروں کی دریافت اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے مظاہرے جاری ہیں۔ یہ گمنام اجتماعی قبریں وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں دریافت ہو رہی ہیں گذشتہ روز بیروہ بڈگام میں ایک اور اجتماعی قبر ملی جس میں 6 سربریدہ اور 20 جھلسی ہوئی نعشوں سمیت 150 بے گناہ شہیدوں کی باقیات ملی ہیں۔ یہ ان ہزاروں بے نام کشمیریوں میں شامل ہیں۔ جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا۔ بھارتی سکیورٹی افواج کے ہاتھوں نہایت بے رحمی سے شہید ہونے والے ان کشمیریوں میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ عام بے گناہ شہری بھی شامل ہیں جنہیں آزادی مانگنے کے جرم میں ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ اور اس میں کسی بڑے چھوٹے کی تخصیص نہیں کی گئی۔ اسی طرح لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی حیران و سرگرداں ہیں کہ ان کے پیاروں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بھارتی فوجی اٹھا کر لے گئے ہیں اور گذشتہ کئی برسوں سے ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ انہیں مار دیا گیا ہے یا وہ کسی بھارتی جیل میں سڑ رہے ہیں۔ اس غم انگیز صورتحال سے کشمیری پریشان تھے ہی کہ اب 2 ماہ سے ایک نیا ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس بار یہ سلسلہ وادی کشمیر کے اندر نہیں بلکہ باہر بھارت میں شروع ہوا ہے۔ اور اس کا شکار بھی کشمیری ہیں۔ کشمیر کے سینکڑوں طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہیں۔ انہیں وہاں کے مقامی طلبہ اور شہریوں کی طرف سے اکثر تنگ کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں لڑائی مار کٹائی، ہوسٹل میں یا ہوٹلوں میں رہائش کے لئے جگہ نہ دینا عام بات ہے اور کشمیری طلبہ ان مسائل سے اکثر و بیشتر نبرد آزما رہتے ہیں۔ انہیں کھلے عام واپس جانے اور تعلیم چھوڑنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ پولیس اور سکیورٹی والے بھی آئے روز انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں۔ پوچھ گچھ کے نام پر پولیس سٹیشن بلانا، ڈرانا دھمکانا اور ان سے پیسے بٹورنے کی شکایات بھی عام ہیں مگر اب جس چیز نے ان کشمیری طلبہ کو پریشان اور خوفزدہ کرکے رکھ دیا ہے وہ ہے مارچ 2013ءسے یکے بعد دیگرے پراسرار حالات میں کشمیری طالب علموں کا قتل۔ اس سلسلہ وار قتل نے کشمیری طلبہ تو خوفزدہ تھے ہی ان کے ساتھ کشمیر میں مقیم اہلخانہ بھی شدید پریشان ہیں۔روزنامہ نوائے وقت ،دی نیشن اور دیگر موقر اخبارات کے مطابق مارچ کی 2تاریخ کو حیدر آباد دکن کی یونیورسٹی آف لینگویج میں پی ایچ ڈی کرنے والے 29سالہ کشمیری سکالر مدثر کامران کی لاش یونیورسٹی ہاسٹل میں ان کے کمرے میں لٹکتے ہوئے پائی گئی۔ اس کے بعد اپریل کی 2 تاریخ کو پونا مینجمنٹ کالج میں (بی بی اے) بزنس ایڈمنسٹریشن کے تعلیم حاصل کرنے والے 22 سالہ طالب علم کبیر بٹ کی لاش اس کے ایک دوست کے فلیٹ سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد اب ایک اور کشمیری طالب علم ریسرچ سکالر گلشن احمد ڈار کی نعش بھی اس کے کرایہ پر حاصل کئے کمرے سے برآمد ہوئی ہے جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ایم فل کر رہا تھا۔ یہ واقعہ 14جون کو 2013ءکو پیش آیا ہے۔ پولیس آفیسر کے مطابق وہ ان واقعات کی تحقیقات کر رہے ہیں سول سوسائٹی' انسانی حقوق کی تنظیموں کی بارہا اپیلوں کے باوجود پولیس ان کیسوں کی تفتیش کے سلسلہ میں روایتی بے حسی اور تساہل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اور بھارت سرکار بھی اس سلسلے میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں پہلو تنی برت رہی ہے۔ کشمیری طلبہ اور ان کے اہلخانہ کے مطابق ان تمام واقعات کی ذمہ دار دراصل بھارتی خفیہ سکیورٹی ایجنسیاں ہیں اور پراسرار ہلاکتوں کا براہ راست تعلق کشمیر کے حالات و واقعات سے ہے۔ کیونکہ اس سے قبل بھی اکثر کشمیری تاجروں اور طلبہ کو حریت پسندوں سے رابطے یا ان کی امداد کے نام پر گرفتار کرکے لاپتہ کیا جا چکا ہے۔ ورنہ بظاہر ایسی کوئی اور وجہ معلوم نہیں ہوئی کہ جس کے سبب ان طالب علموں کو قتل کیا ہو۔ وجہ کوئی بھی ہو اس سیریل کلنگ کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں' کاروبار کرنے والے تاجروں اور محنت مزدوری کرنے والوں کی زندگیوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اور کشمیر کی تحریک آزادی کی وجہ سے ان سب کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔​
 
Top