کراچی(رپورٹ: محمد نعیم ، صلاح الدین اولکھ)
مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں بھی توہم پرستی کی وباءشدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پڑھے لکھا لیکن دینی تعلیم سے دور معاشرتی طبقہ بھی توہمات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے۔ عام افراد کے علاوہ پاکستان کے حکومتی ایوان بھی توہمات پر یقین رکھنے والوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بڑی تعداد میں سیاست دان ستاروں کی چال اور پیروں و عاملوں کی ہدایت کے مطابق ہی اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں توہم پرستی کو فروغ دینے میں میڈیا اور علماءکی غفلت کا اہم کردار ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہندوستان کے مشرکانہ رسوم رواج اور عقائد پر مبنی ڈرامے اور مختلف شوزدیکھا رہا ہے جس میں بھارت ثقافتی یلغار کے نام سے شرک و توہمات کا پرچار کیا جاتا ہے۔ ان پروگرامات کے بعد بھارت کی طرح اب پاکستان میں بھی کالی بلی کاراستہ کاٹنا، گھر کے باہر بلیوں کا رونا اور چیخنادونوں کو نحوست سمجھا جاتا ہے۔ اگر چھت پر کوا بولے یا آٹا گوندھنے کے دوران تھوڑا سا آٹا برتن سے باہر گر جائے تو اس مہمانوں کی آمد اور بائیں ہاتھ پر خارش کو مال خرچ ہونے کا اشارہ سمجھا جاتا ہے کچھ لوگ علم نجوم پر بہت زیادہ اعتقاد رکھتے ہیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات "آج کا دن کیسا گزرے گا" پڑھ کر ترتیب دیتے ہیں۔اخبارات اور رسائل و جرائد میں ایسے اشہتارات کی بھرمار ہوتی ہے جو لوگوں کو جادو ٹونا اور توہمات کی جانب راغب کرنے والے ہوتے ہیں۔ اسی طرح دودھ کے جل جانے اور بیمار شخص کے پاس کتے کے بھونکنے کو برا تصور کیا جاتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے شیشے میں منہ دیکھنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ جمعہ اور منگل کے روز کپڑے دھوناآمدن میںکمی کا باعث اور زمین پر گرم پانی گرانا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مختلف قسم کے پتھر اور رنگینیوں کو باعث برکت سمجھ کر پہنا جاتا ہے اسی طرح عصر اور مغر ب کے وقت یا کھانے کے بعد جھاڑو دینے ، چوٹی کرنے، ناخن تراشنے کو بے برکتی سمجھنا محض توہم پرستی ہے،جو اب معاشرے کے ہر طبقے اور کے لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے، خواتین، نوجوان، اور عام آدمی، کوئی بھی توہم کے اثر سے باہر نہیں رہا۔ اسلامی تعلیمات میں توہمات کی کوئی گنجائش نہیں۔ معاشرے میں بے یقینی، ملی ہوئی کامیابی کھونے کا خوف اور عدم تحفظ کا احساس اتنا شدید ہے کہ مسلمان مسنون اذکار کے بجائے بچوں کے نظر بد سے بچانے کے لیے کالے دھاگے، نئی گاڑی پہ کالا کپڑا لگایا جاتا ہے یا گندی جوتی لٹکاکراور گھر کو برے اثرات سے بچانے کے گھوڑے کے نعلکا سہارا لیتے ہیں، اس کے علاوہ اسلامی شعار کے خلاف انگلیوں، ہاتھوں اور گلے میں بھی بری روحوں اور پریشانیوں سے بچانے والی انگوٹھیاں اور گنڈے و تعویذ نظر آنا معمول کی بات ہے۔ ایک پڑھے لکھے اور با شعور معاشرے میں ایسی چیزوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ، خاص طور پر آج کے نوجوان ان چیزوں کی حقیقت کو سمجھیں اور ان کو اپنے قریب بھی مت آنے دیں۔علماءپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کے عقائد کی اصلاح کریں اور درست اور غلط میں تمیز کروائیں۔