• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارا جہاد خالص اللہ کے لئے کفار سے ہے ہم مسلمانوں پر حملہ نہیں کرتے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہاد كا حكم
سوال نمبر 2 - فتوی نمبر 7122

س 2: کیا ہم پر اب جہاد فرض عین ہوگیا ہے جبکہ مسلمانوں کے حقوق اجنبی جنگوں کے ذرریعہ پامال کئے جا رہے ہیں؟ اور بغیر عذر کے جہاد چھوڑنے والوں کا کیا حکم ہے، جب کہ انہیں چاہئے تھا کہ جب نکلنے کے لئے کہا گیا تو قبول کرتے، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے، بس انہیں ان حالات نے روک رکھا ہے جن سے مسلمان دو چار ہیں، اور وہ یہ کہ حکومت غیر اللہ کی چل رہی ہے، دلیل کے ساتھـ فتوی دیجئے?

ج 2: جہاد اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے، اور دین اسلام کی حفاظت، اور اس کی نشر واشاعت کو ممکن بنانے، اور اس کے تقدس کی حفاظت کے لئے اس کی قدرت اور استطاعت رکھنے والوں پر فرض ہے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ لشکر کی تشکیل اور تنظیم کی جائے؛ بدنظمی سے بچنے، اور ناقابل ستائش انجام سے بچنے کی خاطر؛ اس لئے اس کی ابتدا، اور شروعات مسلمان کے ولی امر کا کام ہے، لہذا علماء کو چاہئے کہ اس کے لئے بیداری پیدا کریں، اور جب جہاد شروع ہو جائے اور مسلمانوں سے نکلنے کو کہا جائے، تو جسے اس کی قدرت ہے اس پر ضروری ہے کہ اس پکار پر لبیک کہے، خالص اللہ کی رضا جوئی کے لئے، اور نصرتِ حق کی امید رکھتے ہوئے، اور اسلام کی حفاظت کا مقصد لئے ہوئے، اور جو ضرورت کے باوجود بغیر کسی عذر کے اس پکار پر لبیک کہنے سے پیچھے رہے، تو وہ گنہگار ہوگا۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر کمیٹی صدر:

عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=4287&PageNo=1&BookID=3
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہاد کی مشروعیت
فتوى نمبر:6426

س: کیا دارالحرب میں جہاد کرنے کا مطلب حکومت وسلطنت حاصل کرنے کے لئے جہاد کرنا اور غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے قتال کرنا ہے؟

ج: اللہ تعالی نے اسلام کو پھیلانے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جہاد کو مشروع کیا ہے جو حق کی دعوت کے راستہ میں داعیوں اور مبلغین کے آڑے آتے ہیں، اسی طرح ان لوگوں کا ہاتھہ پکڑنے کے لئے جہاد مشروع کیا ہے جن کا نفس ان داعیان کو تکلیف دینے اور ان پر ظلم کرنے پر آمادہ کرتا ہے، جہاد کی مشروعیت اس وجہ سے ہے تاکہ روئے زمین پر فتنہ وفساد نہ رہے، امن عام ہوجائے، اللہ کا کلمہ بلند ہو، اور کفر کا کلمہ ذلیل ورسوا ہو، اور لوگ جوق درجوق اللہ کے دین میں داخل ہوں،

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

" وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ "
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗک ﻟﮍﻭ ﻛﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻓﺴﺎﺩ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ اللہ ﮨﯽ کا ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﺎ ﺯ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﻥ کے ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻛﻮ ﺧﻮﺏ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﮨﮯ
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:

" وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ " ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺸﺮﻛﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﺩ ﻛﺮﻭ ﺟﯿﺴﮯ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺗﻢ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻟﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻥ ﺭﻛﮭﻮ ﻛﮧ اللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﺘﻘﯿﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎتھـ ﮨﮯ-
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:

" هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "
ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﯾﻦ ﻛﮯ ﺳﺎﺗھ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﻛﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﮨﺒﻮﮞ ﭘﺮﻏﺎﻟﺐ ﻛﺮ ﺩﮮ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﺸﺮﻙ ﺑﺮﺍ ﻣﺎﻧﯿﮟ ۔

( جلد کا نمبر 12، صفحہ 14)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاد لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لانے، اور لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل کرنے کی وجہ سے مشروع کیا گیا ہے، تاکہ فتنہ وفساد نہ ہو، اور اسی طرح اسلام کا دفاع بھی کیا جاسکے-

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=4288&PageNo=1&BookID=3
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اللہ تعالی كے یہاں افضل ترین اعمال
فتوى نمبر 5828

س 2: کون سا عمل اللہ سبحانہ تعالی کے نزدیک زیادہ افضل ہے؟
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 15)

ج 2: رسول الله صلى الله عليه وسلم سے سوال کیا گیا


:کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ركهنا، کہا گیا: پهر کیا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہا دكرنا، کہا گیا: پهر کیا؟ فرمایا: حج مبرور ہے۔
یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=4290&PageNo=1&BookID=3
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہاد کے لئے والدین کی اجازت

سوال نمبر 1 - فتوی نمبر 2461

س 1: اللہ کی راہ میں جہاد سے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں، اور میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے، اور میری ماں زندہ ہیں، میری بیوی اور بچے ہیں، میں نے والدہ سے جہاد کی اجازت مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا، تو کیا میرے لئے جہاد ہے؟
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 16)

ج 1: جہاد افضل ترین اعمال میں سے ہے، اور اسی طرح والدین کی فرماں برداری بھی، تو جب کوئی شرعی جہاد کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ والدین کی اجازت لے لے، اگر ان کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ جہاد کے لئے نہ جائے، بلکہ ان دونوں کے ساتھـ رہے، اس لئے کہ ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھـ رہنا بھی جہاد کی ایک قسم ہے-

اور اس سلسلے میں اصل حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کی یہ روایت ہے:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے نزدیک کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز جو اپنے وقت پر ادا کی جائے، میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا والدین کی فرماں برداری، میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان باتوں کی خبر دی ہے، اور اگر میں آپ سے مزید چاہتا تو آپ مزید بتاتے۔
بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنهما نے روایت کیا ہے:

ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے جہاد کی اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت ہی تمہارا جہاد ہے۔ اسے روايت كيا ہے امام بخاری اور نسائی اور ابو داود اور ترمذی نے اور اس كو ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اور ايک روايت ميں ہے:
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 17)
ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول: میں آپ کے ساتھـ جہاد میں شریک ہونے کے ارادے سے آیا ہوں، اور جب میں آ رہا تھا تو میرے والدین رو رہے تھے، آپ نے فرمایا: ان کی طرف لوٹ جاؤ اور انہیں ہنساؤ جیساکہ تم نے انہیں رلایا ہے۔
اسے روايت كيا ہے احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ نے۔
اور ابو سعيد رضی الله عنہ سے روایت ہے:

ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟ اس نے کہا: میرے والدین ہیں، آپ نے فرمایا کیا انہوں نے تم کو اجازت دی؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ان کی طرف لوٹ جاؤ، اور ان سے اجازت طلب کرو، اگر ان دونوں نے تم کو اجازت دے دی تو جہاد کرو ورنہ ان کی اطاعت کرو۔
اسے روايت كيا ہے ابو داود نے۔


اور معاويہ بن جاهمہ سلمی سے روایت ہے:

کہ جاهمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول میں جنگ کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ کے لئے آیا ہوں، آپ نے فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہا ہاں، فرمایا: ان کے ساتھـ رہو، کیونکہ جنت ان کے قدموں کے پاس ہے۔
اسے روايت كيا ہے احمد اور نسائي نے۔
یہ تمام دلیلیں اور اس مفہوم کی دیگر دلیلیں اس شخص کے لئے ہیں جس پر جہاد فرض نہیں ہے،
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 18)

اور اگر کسی پر جہاد فرض ہے تو اس کا چھوڑنا گناہ ہے، اور خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، اور فرض جہاد یہ ہے کہ آدمی دو صف (مسلمانوں اور کافروں کی صف) کے درمیان حاضر ہو یا امام اسے جہاد میں نکلنے کے لئے کہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=4291&PageNo=1&BookID=3
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شہید سے مراد
سوال نمبر 2 - فتوی نمبر 6564

س 2: شہداء سے کون مراد ہیں، اور حدیث میں ان کی تعداد کیا ہے، اور کیا جسے مرگی کا مرض ہو وہ ان میں سے ہے؟ جیساکہ اس عورت کی حدیث میں ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرگی سے شفا کے لئے دعا کی درخواست کی تھی، اور اس میں یہ بھی ہے کہ جب ان پر مرگی کا حملہ ہوتا تو ان کا جسم کھل جاتا، تو کیا یہ حکم امت محمد کے لئے عام ہے یا اسی عورت کے ساتھـ خاص تھا؟

ج 2: حقیقی شہید وہ ہے جس کی موت اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئے آئی ہو، یا اس میں زخمی ہوا اور اس کے اثر سے مرگيا، اس کے علاوہ کو بھی شہید کہا گیا ہے، جیساکہ بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:شھید پانچ ہیں: طاعون سے مرنے والے اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والے اور ڈوب کر مرنے والے اور دب کر مرنے والے اور اللہ کی راہ میں شہيد ہونے والے ہيں۔
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 19)

اور امام بخاری نے شہداء کے لئے ایک باب اس طرح باندھا ہے:

(اس کا باب کہ قتل کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں) اور اس باب میں جو تعداد مذکور ہے اس کا ذکر اس حدیث میں ملتا ہے جسے امام مالک نے جابر بن عتیک سے روایت کیا ہے-

کہ نبی صلى الله عليہ وسلم عبد الله بن ثابت کی عیادت کے لئے تشریف لائے، پوری حدیث ذکر کی اور اس میں یہ ہے:۔۔ تم اپنے آپ میں سے کس کو شھید شمار کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جسے اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو۔اور اسی میں آگے یہ ہے:اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے علاوہ سات شہید ہیں۔تو اس میں حضرت ابو ہریرہ کی سابقہ حدیث کی بہ نسبت اتنا اضافہ ہے:آگ میں جهلس کر ہلاک ہونے والا اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا اور وہ عورت جس کی موت زچکی کی حالت میں ہوجائے۔ اور صحاب سنن کی ایک روایت ہے جسے امام ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے جوکہ حضرت سعید بن زید سے مرفوعًا مروی ہے:جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے دین کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے خون کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔ اور امام نسائی نے حضرت سويد بن مقرن سے
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 20)
مرفوعًا روایت کیا ہے:

جو اپنى مظلوميت كى وجہ سے قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحدید کا قصد نہیں کیا ہے، حافظ ابن حجر نے فتح الباري میں کہا: جید طرق (عمدہ سندوں) سے ہمارے پاس بیس سے زیادہ صفات جمع ہوگئی ہیں، بہرحال اس عورت کی حدیث جسے مرگی آتی تھی اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ حکم اسی کے لئے خاص ہے، بلکہ امید کی جاتی ہے کہ یہ حکم اس جیسے تمام لوگوں کے لئے عام ہے جنہیں مرگی کی بیماری ہو جائے اور وہ اس پر صبر وتحمل کریں اور اسی حالت میں ان کی موت ہو جائے، اور جہاں تک اس عورت کو شہداء میں شمار کرنے کی بات ہے تو ہم نہیں سمجھتے کہ حدیث میں ایسی کوئی دلیل ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود - عبدالرزاق عفیفی - عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=4292&PageNo=1&BookID=3
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اللہ كی راہ میں پہرا دینا
فتوى نمبر 12570

س: الله كى راه میں پہرا دینے سے کیا مراد ہے؟ اور اللہ کے نزدیک اس کی کیا فضیلت ہے؟ میری طرف سے شکریہ اور ادب واحترام قبول کرتے ہوئے بتائیں؟

ج: اللہ کے راستے میں پہرا دینے کا مطلب ہے: فوجیوں كا دشمن کے مقابلے میں مسلم ممالک کی سرحدیں اور اس کے حدود کی حفاظت کے لئے پہرا دینا اور اسلامی ممالک میں دشمنوں کی دراندازی سے ان سرحدوں کی حفاظت کرنا، اور اللہ کے راستے میں پہرا دینے کی فضیلت میں بہت ساری احادیث آئی ہیں-

چنانچہ صحيح بخاری میں حضرت سھل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا:

اللہ کی راہ میں ایک دن پہرا دینا (سرحد کی حفاظت کرنا) دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 33)
اور صحيح مسلم میں حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے روايت كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا:ایک دن اورايک رات کی پہرا داری ایک ماہ کے ( نفلی) روزے اور (نفلی) نماز سے بہتر ہے۔
اور مسند امام احمد میں، نیز صحيح ابن حبان وسنن ابو داود اورترمذی میں حضرت فضالہ بن عبيد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں:

ميں نے رسول الله صلى الله عليہ وسلم كو يہ كہتے ہوئے سنا کہ:ہر مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھـ ختم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جو الله کی راہ میں پہرا دے، تو اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔اور امام ترمذی نے کہا:
یہ حدیث حسن اور صحيح ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر کمیٹی صدر
عبد اللہ بن غدیان - عبدالرزاق عفیفی - عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=4302&PageNo=1&BookID=3
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم بھائی موضوع کے حساب سے آپ کی کچھ پوسٹیں تھوڑی سی شاہد ہٹ گئی ہیں اور مجھے آپ کا مقصد بھی سمجھ نہیں آیا وہ اس طرح کہ کل ہی میں نے اپنی فیس بک پر اس پوسٹ کی پہلی تصویر کو لگایا ہے تو کیا آپ نے اسکی وضاحت طلب کی ہے یا کوئی اور بات ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم بھائی موضوع کے حساب سے آپ کی کچھ پوسٹیں تھوڑی سی شاہد ہٹ گئی ہیں اور مجھے آپ کا مقصد بھی سمجھ نہیں آیا وہ اس طرح کہ کل ہی میں نے اپنی فیس بک پر اس پوسٹ کی پہلی تصویر کو لگایا ہے تو کیا آپ نے اسکی وضاحت طلب کی ہے یا کوئی اور بات ہے
نہیں بھائی میں موضوع سے نہیں ھٹا بلکہ پہلے جہاد کیا ہے اس کی وضاحت ہو جائے تا کہ لوگوں کو سمجھ آ سکے-

اھل علم اس موضوع پر روشنی ڈالے-
ہمارا جہاد خالص اللہ کے لئے کفار سے ہے ہم مسلمانوں پر حملہ نہیں کرتے !!!
 
Top