محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ہمارا جہاد خالص اللہ کے لئے کفار سے ہے ہم مسلمانوں پر حملہ نہیں کرتے !!!
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
" وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ "
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗک ﻟﮍﻭ ﻛﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻓﺴﺎﺩ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ اللہ ﮨﯽ کا ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺑﺎ ﺯ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ اللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﻥ کے ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻛﻮ ﺧﻮﺏ ﺩﯾﻜﮭﺘﺎ ﮨﮯ
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:
" وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ " ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺸﺮﻛﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﮩﺎﺩ ﻛﺮﻭ ﺟﯿﺴﮯ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺗﻢ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻟﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻥ ﺭﻛﮭﻮ ﻛﮧ اللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻣﺘﻘﯿﻮﮞ ﻛﮯ ﺳﺎتھـ ﮨﮯ-
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:
" هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "
ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﮯ ﺩﯾﻦ ﻛﮯ ﺳﺎﺗھ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﻛﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﮨﺒﻮﮞ ﭘﺮﻏﺎﻟﺐ ﻛﺮ ﺩﮮ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﺸﺮﻙ ﺑﺮﺍ ﻣﺎﻧﯿﮟ ۔
:کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ركهنا، کہا گیا: پهر کیا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہا دكرنا، کہا گیا: پهر کیا؟ فرمایا: حج مبرور ہے۔
یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنهما نے روایت کیا ہے:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے نزدیک کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز جو اپنے وقت پر ادا کی جائے، میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا والدین کی فرماں برداری، میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان باتوں کی خبر دی ہے، اور اگر میں آپ سے مزید چاہتا تو آپ مزید بتاتے۔
بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے جہاد کی اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان دونوں کی خدمت ہی تمہارا جہاد ہے۔ اسے روايت كيا ہے امام بخاری اور نسائی اور ابو داود اور ترمذی نے اور اس كو ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اور ايک روايت ميں ہے:
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 17)
اور ابو سعيد رضی الله عنہ سے روایت ہے:ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول: میں آپ کے ساتھـ جہاد میں شریک ہونے کے ارادے سے آیا ہوں، اور جب میں آ رہا تھا تو میرے والدین رو رہے تھے، آپ نے فرمایا: ان کی طرف لوٹ جاؤ اور انہیں ہنساؤ جیساکہ تم نے انہیں رلایا ہے۔
اسے روايت كيا ہے احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ نے۔
ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟ اس نے کہا: میرے والدین ہیں، آپ نے فرمایا کیا انہوں نے تم کو اجازت دی؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ان کی طرف لوٹ جاؤ، اور ان سے اجازت طلب کرو، اگر ان دونوں نے تم کو اجازت دے دی تو جہاد کرو ورنہ ان کی اطاعت کرو۔
اسے روايت كيا ہے ابو داود نے۔
کہ جاهمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول میں جنگ کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ کے لئے آیا ہوں، آپ نے فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہا ہاں، فرمایا: ان کے ساتھـ رہو، کیونکہ جنت ان کے قدموں کے پاس ہے۔
اسے روايت كيا ہے احمد اور نسائي نے۔
مرفوعًا روایت کیا ہے:کہ نبی صلى الله عليہ وسلم عبد الله بن ثابت کی عیادت کے لئے تشریف لائے، پوری حدیث ذکر کی اور اس میں یہ ہے:۔۔ تم اپنے آپ میں سے کس کو شھید شمار کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جسے اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو۔اور اسی میں آگے یہ ہے:اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے علاوہ سات شہید ہیں۔تو اس میں حضرت ابو ہریرہ کی سابقہ حدیث کی بہ نسبت اتنا اضافہ ہے:آگ میں جهلس کر ہلاک ہونے والا اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا اور وہ عورت جس کی موت زچکی کی حالت میں ہوجائے۔ اور صحاب سنن کی ایک روایت ہے جسے امام ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے جوکہ حضرت سعید بن زید سے مرفوعًا مروی ہے:جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے دین کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے خون کی حفاظت میں قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے، اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔ اور امام نسائی نے حضرت سويد بن مقرن سے
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 20)
خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تحدید کا قصد نہیں کیا ہے، حافظ ابن حجر نے فتح الباري میں کہا: جید طرق (عمدہ سندوں) سے ہمارے پاس بیس سے زیادہ صفات جمع ہوگئی ہیں، بہرحال اس عورت کی حدیث جسے مرگی آتی تھی اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ حکم اسی کے لئے خاص ہے، بلکہ امید کی جاتی ہے کہ یہ حکم اس جیسے تمام لوگوں کے لئے عام ہے جنہیں مرگی کی بیماری ہو جائے اور وہ اس پر صبر وتحمل کریں اور اسی حالت میں ان کی موت ہو جائے، اور جہاں تک اس عورت کو شہداء میں شمار کرنے کی بات ہے تو ہم نہیں سمجھتے کہ حدیث میں ایسی کوئی دلیل ہے۔جو اپنى مظلوميت كى وجہ سے قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔
اللہ کی راہ میں ایک دن پہرا دینا (سرحد کی حفاظت کرنا) دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
( جلد کا نمبر 12، صفحہ 33)
اور مسند امام احمد میں، نیز صحيح ابن حبان وسنن ابو داود اورترمذی میں حضرت فضالہ بن عبيد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں:اور صحيح مسلم میں حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے روايت كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا:ایک دن اورايک رات کی پہرا داری ایک ماہ کے ( نفلی) روزے اور (نفلی) نماز سے بہتر ہے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔ميں نے رسول الله صلى الله عليہ وسلم كو يہ كہتے ہوئے سنا کہ:ہر مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھـ ختم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جو الله کی راہ میں پہرا دے، تو اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔اور امام ترمذی نے کہا:
یہ حدیث حسن اور صحيح ہے۔
نہیں بھائی میں موضوع سے نہیں ھٹا بلکہ پہلے جہاد کیا ہے اس کی وضاحت ہو جائے تا کہ لوگوں کو سمجھ آ سکے-محترم بھائی موضوع کے حساب سے آپ کی کچھ پوسٹیں تھوڑی سی شاہد ہٹ گئی ہیں اور مجھے آپ کا مقصد بھی سمجھ نہیں آیا وہ اس طرح کہ کل ہی میں نے اپنی فیس بک پر اس پوسٹ کی پہلی تصویر کو لگایا ہے تو کیا آپ نے اسکی وضاحت طلب کی ہے یا کوئی اور بات ہے