• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہماری جیت۔۔۔۔۔۔۔

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ہماری جیت یہ نہیں کہ ہم نے کسی کو "دلائل" دیے اور وہ لاجواب ہوگیا۔ ہماری جیت یہ ہے کہ ہم نے کسی کو" دلائل" دیے اور وہ قائل ہوگیا۔
دعوت میں سامنے والے کو ہرانا نہیں اس کو جیت جانا ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ہماری جیت یہ نہیں کہ ہم نے کسی کو "دلائل" دیے اور وہ لاجواب ہوگیا
لیکن دلائل دینے کے بعد مخالف کا ان دلائل کے جواب نہ دے سکنا بھی ایک طرح کی جیت ہے۔​
ابراہیم علیہ السلام نے ایک کافر کو کہا:​
إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ۔۔۔سورۃ البقرۃ​
ترجمہ:جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے،
اس نے جواب میں کہا:​
قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ۔۔۔سورۃ البقرۃ​
ترجمہ:وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں
حالانکہ یہ اس کافر کا دعویٰ تھا حقیقت میں وہ زندگی اور موت کا مالک نہیں تھا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے کہا:​
قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ
ترجمہ: ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ
اس پر وہ کافر لا جواب ہو گیا، نہ صرف لا جواب بلکہ:​
فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ۔۔۔سورۃ البقرۃ​
ترجمہ: اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا
تو لہذا اس سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی حق پر ہے اور اس کا مخالف حق بات کے مقابلے میں لاجواب ہے تو یہ حقیقی جیت ہے۔​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ہماری جیت یہ ہے کہ ہم نے کسی کو" دلائل" دیے اور وہ قائل ہوگیا۔
اگر ہر طرح کے عقلی و نقلی دلائل دینے کے بعد بھی کوئی ان دلائل سے قائل نہ ہو، تو کیا اس کو اپنی ہار سمجھیں گے، ہرگز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کون زیادہ دلائل دے سکتا ہے۔ لیکن بہت سارے لوگ قائل نہیں ہوئے (ایمان نہیں لائے) اور کیفیت یہ تھی کہ:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦﴾۔۔۔سورة الكهف
ترجمه: پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دعوت میں سامنے والے کو ہرانا نہیں اس کو جیت جانا ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔
دعوت احسن انداز سے ضرور دینی چاہئے، لیکن جب حق و باطل کا ٹاکرا ہو تو پھر باطل کو اللہ کے فضل سے ہرانا چاہئے، اور باطل کا ہارنا ہی اصل مقصد ہونا چاہئے۔
وَقَالَ مُوسَىٰ يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٠٤﴾حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿١٠٥﴾ قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿١٠٦﴾ فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴿١٠٧﴾ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ﴿١٠٨﴾ قَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَـٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٩﴾ يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ ﴿١١٠﴾ قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ ﴿١١١﴾ يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿١١٢﴾ وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿١١٤﴾ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ ﴿١١٥﴾ قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ﴿١١٦﴾ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴿١١٧﴾ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿١١٩﴾ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿١٢٠﴾قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٢١﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٢﴾۔۔۔سورة الاعراف
ترجمه: اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں (104)میرے لیے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے اللہ کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل بھی ﻻیا ہوں، سو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے (105) فرعون نے کہا، اگر آپ کوئی معجزه لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے! اگر آپ سچے ہیں (106) پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا، سو دفعتاً وه صاف ایک اﮊدھا بن گیا (107) اور اپنا ہاتھ باہر نکالا سو وه یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہو گیا (108) قوم فرعون میں جو سردار لوگ تھے انہوں نے کہا کہ واقعی یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے (109) یہ چاہتا ہے کہ تم کو تمہاری سرزمین سے باہر کر دے سو تم لوگ کیا مشوره دیتے ہو (110) انہوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو مہلت دیجئے اور شہروں میں ہرکاروں کو بھیج دیجئے (111) کہ وه سب ماہر جادو گروں کو آپ کے پاس ﻻ کر حاضر کر دیں (112) اور وه جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے، کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا؟ (113) فرعون نے کہا کہ ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہو جاؤ گے (114) ان ساحروں نے عرض کیا کہ اے موسیٰ! خواه آپ ڈالئے اور یا ہم ہی ڈالیں؟ (115) (موسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم ہی ڈالو، پس جب انہوں نے ڈاﻻ تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا (116) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنا عصا ڈال دیجئے! سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا (117) پس حق ﻇاہر ہوگیا اور انہوں نے جو کچھ بنایا تھا سب جاتا رہا (118) پس وه لوگ اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوکر پھرے (119) اور وه جو ساحر تھے سجده میں گر گئے (120)کہنے لگے کہ ہم ایمان ﻻئے رب العالمین پر (121) جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے (122)
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ہماری جیت یہ نہیں کہ ہم نے کسی کو "دلائل" دیے اور وہ لاجواب ہوگیا۔ ہماری جیت یہ ہے کہ ہم نے کسی کو" دلائل" دیے اور وہ قائل ہوگیا۔
دعوت میں سامنے والے کو ہرانا نہیں اس کو جیت جانا ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔


باکمال شحص لا جواب الفاظ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ارسلان بھائی ! میں دعوت کی بات کررہاہوں اور آپ مناظرہ کی ۔
دعوت میں مدعو کو لاجواب کرنا نہیں اس کو قائل کرلینا ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔
اس کو ہرا دینا نہیں اس کو جیت جانا ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
حضرت ابراہیم ہی کے واقعہ پر غور کریے ۔ انہوں نے پہلی دلیل دعوت کے لیے دی ۔ لیکن نمرود اڑ گیا۔ اس کے ذہن میں مناظرہ کرنا تھا۔ بات سمجھتی ہوتی تو بات سمجھ میں آجاتی ۔ اس نے دعوت کی دلیل کا جواب مناظرہ کے اسلوب میں دیا۔ حضرت ابراہیم نے اس سے پھر دوبارہ اس دلیل پر بات نہیں کی ۔ دوسری دلیل جو حضرت ابراہیم نے دی وہ مناظرہ والی دلیل تھی ۔جس نے اس کو لاجواب کردیا۔

تو پہلےدعوت ہے ۔ اگر وہ کارگر نہیں تو پھر باطل کا منہ بند کرنے کےلیے مناظرہ ۔
ہمارے یہاں سارے کے سارے مناظر ہیں ۔ داعیوں کی بڑی شدید قلت ہے ۔ اللہ رحم فرمائے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی ! میں دعوت کی بات کررہاہوں اور آپ مناظرہ کی ۔
بھائی اوپر دیکھیں آپ نے مطلقا طور پر "دلائل" کا ذکر کیا ہے، آپ کی بات میں "دعوت" کی کہیں وضاحت نہیں ہے۔ آپ نے لکھا (ہماری جیت یہ نہیں کہ ہم نے کسی کو "دلائل" دیے اور وہ لاجواب ہوگیا۔) یہاں واضح طور پر ہے کہ ہم نے کسی کو دلائل دئیے اور وہ لاجواب ہو گیا تو اس کو جیت شمار نہیں کیا جا سکتا، جس پر میں نے لکھا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی دلائل دئیے اور وہ نمرود کافر لاجواب ہو گیا تو یہ ایک طرح کی جیت ہے، اور اس واقعے کو نصیحت کے طور پر قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
نوٹ: "ٹیگ" کرتے وقت پورا آئی ڈی نام لکھیں۔ یعنی "محمد ارسلان"
دعوت میں مدعو کو لاجواب کرنا نہیں اس کو قائل کرلینا ہمارا مقصد ہونا چاہیے ۔اس کو ہرا دینا نہیں اس کو جیت جانا ہماری کوشش ہونی چاہیے ۔
جب آپ دعوت دیں گے تو آپ کا مخالف بھی آپ کو اپنے دلائل دے گا اور اس صورتحال میں آپ کا اس کے دلائل کا مطمئن جواب دینا لازم ہے، مثلا آپ عیسائی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ عیسی علیہ السلام کی الوہیت کا کفریہ عقیدہ چھوڑ کر اکیلے اللہ کی عبادت کا موحدانہ عقیدہ اپنا لے، تو وہ آگے سے آپ کو دلائل دے گا اور تب آپ کا اس کے دلائل کا جواب دینا اور اسے لاجواب کرنا ہر صورت لازم ہے۔ آپ دلائل دیں گے وہ آپ کے دلائل کے سامنے لاجواب ہو گا تب جا کر وہ "قائل" ہو گا، اور اس صورت میں قائل کرنا ہمارا مقصد ہونا چاہئے، ہرائے بغیر جیت جانا محل نظر ہے۔ جب تک کوئی ہارے گا نہیں آپ جیت نہیں سکتے، اوپر دیکھیں جب موسی علیہ السلام اور جادوگروں کے مابین مقابلہ ہوا تو جادوگروں کی ہار کی صورت میں موسی علیہ السلام کی جیت ہوئی۔ الحمدللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حضرت ابراہیم ہی کے واقعہ پر غور کریے ۔ انہوں نے پہلی دلیل دعوت کے لیے دی ۔ لیکن نمرود اڑ گیا۔ اس کے ذہن میں مناظرہ کرنا تھا۔ بات سمجھتی ہوتی تو بات سمجھ میں آجاتی ۔ اس نے دعوت کی دلیل کا جواب مناظرہ کے اسلوب میں دیا۔ حضرت ابراہیم نے اس سے پھر دوبارہ اس دلیل پر بات نہیں کی ۔ دوسری دلیل جو حضرت ابراہیم نے دی وہ مناظرہ والی دلیل تھی ۔جس نے اس کو لاجواب کردیا۔

تو پہلےدعوت ہے ۔ اگر وہ کارگر نہیں تو پھر باطل کا منہ بند کرنے کےلیے مناظرہ ۔
ہمارے یہاں سارے کے سارے مناظر ہیں ۔ داعیوں کی بڑی شدید قلت ہے ۔ اللہ رحم فرمائے ۔
دعوت او دلائل علیحدہ علیحدہ چیز نہیں ہیں، بلکہ دعوت وہی اثر انداز ہوتی ہے جو دلائل سے بھرپور ہو، اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھی "برھان" قرار دیا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ﴿١٧٤﴾۔۔۔سورة النساء
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے (174)
توحید کے معاملے میں بھی دلائل ضروری ہیں:
وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ ﴿١١٧﴾
جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بےشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں (117)
یہی وجہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے دلیل کے طور پر اللہ تعالیٰ کے مشرق سے سورج نکال کر مغرب میں غروب کرنے کے اختیار کا ذکر نمرود سے کیا، اور اس کے برعکس مغرب سے مشرق کی طرف سورج کو لے جانے کی بات کی تو بے اختیار ہونے کے سبب وہ کافر بھونچکا رہ گیا۔​
ہر مسئلے میں دلیل لانا ضروری ہے۔​
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ​
ترجمہ: ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو (111)
اور تو اورجو ہلاک ہو یا زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ ہی ہلاک اور زندہ رہے​
وَلَـٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٤٢﴾۔۔۔سورۃ الانفال​
ترجمہ: لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو، دلیل پر (یعنی یقین جان کر) ہلاک ہو اور جو زنده رہے، وه بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زنده رہے۔ بیشک اللہ بہت سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے (42)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
بھائی اوپر دیکھیں آپ نے مطلقا طور پر "دلائل" کا ذکر کیا ہے، آپ کی بات میں "دعوت" کی کہیں وضاحت نہیں ہے۔
ارسلان بھائی ! کیا واقعی میری بات میں دعوت کی کہیں وضاحت نہیں ۔ آپ نے شاید میری پوسٹ غور سے پڑھی بھی نہیں اور مجھ سے مناظرہ شروع کردیا۔
 
Top