• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم پاکستان میں جہاد کیوں نہیں کرتے

شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
ہم پاکستان میں جہاد کیوں نہیں کرتے
علمی استفادہ از: فضیلۃ الشیخ محمد رفیق طاہر
بظاہر یہ شبہہ بڑا خوشنما ہے لیکن در حقیقت یہ انتہائی عامیانہ مغالطہ ہے ۔ کیونکہ جہاد جنگی جنون کا نام نہیں بلکہ یہ حکمت وبصیرت کے ساتھ سرانجام دیا جانے والا اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ۔ مانا کہ پاکستان میں بھی اس وقت اللہ تعالی کی بغاوت اور نافرمانی سر عام کی جارہی ہے ۔حدود اللہ کا نفاذ نہیں ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود پاکستان میں جہاد کرنا ہم درست نہیں سمجھتے کیونکہ :

اولا: ::::یہ ہمارے لیے میدان دعوت ہے ، اور ہم اگر یہاں جہاد شروع کر دیں تو دعوت کو نقصان پہنچتا ہے ۔ جبکہ جہاد تو دعوت کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ہوتا ہے ، نہ کہ دعوت کے راستے مسدود کرنے کے لیے ! ۔ ہم یہاں دعوت دے کر کتنے ہی لوگوں کو اسلام سے روشناس کرواچکے ہیں اور کتنے ہی لوگوں کے باطل عقائد ونظریات کی اصلاح ہو چکی ہے اور بحمد اللہ تعالی یہ سلسلہ تاحال جاری وساری ہے اوران شاء اللہ جاری رہے گا ۔

اور نبی کریم کی سیرت طیبہ سے بھی اس بارہ میں ہمیں رہنمائی ملتی ہے ۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں منافقین کے خلاف جہاد وقتال نہیں کیا ۔ بلکہ آپ نے تو مدینہ کے قرب وجوار میں موجود یہودیوں سے بھی امن معاہدے فرمائے ہیں تاکہ میدان دعوت میں کھل کر کام کیا جائے اور اہل مکہ کے ساتھ آپ مسلسل بر سر پیکار رہے ہیں ۔بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی آیا ہے کہ آپ نے اہل مکہ سے بھی امن معاہدہ فرمایا جسے دنیا صلح حدیبیہ کے نام سے جانتی ہے ۔ اور کسے نہیں معلوم کہ اہل مکہ سے اس امن معاہدہ کے بعد نبی
نے دنیا بھر میں موجود ائمۃ الکفر کو دعوتی خطوط لکھے ، انہیں اسلام کی دعوت دی ، دین کی طرف بلایا اور ساتھ ہی نہ ماننے کی صورت میں اعلان جنگ بھی فرما دیا ۔

اور ہم تو سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان اپنی غلطیوں اور کمیوں کوتاہیوں کے باوجود ہمارے لیے میدان دعوت اور میدان جہاد میں ممدومعاون ہے ۔ہم کھل کر جہاد سیکھ سکتے ہیں اور دعوت دے سکتے ہیں ۔ جبکہ بصورت دیگر ہمارے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے اور ہماری کھری دعوت بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتی ہے ۔ لہذا ہم نے جہادی حکمت عملی کے تحت پاکستان کو میدان دعوت منتخب کیا ہے اور پاکستان سے باہر ملت کفر کے سرداروں کے ساتھ لڑنے کے لیے کئی میادین جہاد سجا رکھے ہیں ۔ اور ہم یہ حکمت عملی سمجھتے ہیں کہ جب کفر کے بڑے بڑے سر دار گریں گے اور بڑے بڑے طواغیت سرنگوں ہونگے تو ان طاغوتی حکومتوں کی کٹھ پتلی یہ جمہوری حکومتیں خود بخود سیدھی ہو جائیں گی۔ ان شاء اللہ ۔

ثانیا :::::: میدان جہاد کے انتخاب کے لیے مجاہدین کے تمام تر گروہ اپنا اپنا اجتہاد پیش کر سکتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ تمام تر ملت کفر کے ساتھ ایک ہی وقت میں ٹکر لے لی جائے ۔ بلکہ جہاد حکمت عملی اور مضبوط تدابیر کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اور بسا اوقات بہت سے میدان خالی چھوڑ کر بعض دوسرے میدان گرم کیے جاتے ہیں ۔ اور ہم نے پاکستان کو مؤخر رکھا ہے اور امید کرتے ہیں کہ یہاں قتال کی نوبت آئے بغیر ہی کام سدھر جائے گا ۔ ہم نے اپنے اجتہاد سے پاکستان سے باہر جہاد کو مناسب سمجھا ہے اور اسے بحمد اللہ تعالی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اور اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے ، مجتہدین کو اجتہاد سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ لہذا اگر ہم پاکستان میں جہاد نہیں کر رہے ہیں تو یہ ہمارے اجتہاد اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے ہم بہت بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ۔ وللہ الحمد والمنۃ

ثالثا::::: پاکستان میں جہاد کے نام پر جو فسادات ہو رہے ہیں ، ان کی بنیاد فتنہء تکفیر ہے ۔ خودکش حملہ آواران تمام تر پاکستانی فوج ، پاکستانی حکام ، بلکہ تمام تر سرکاری ملازمین کو کافر ومرتد سمجھتے ہیں ۔ جبکہ یہ نظریہ ہمارے ہاں بالکل باطل ہے ۔ کیونکہ اس سے تکفیر معین لازم آتی ہے اور کسی بھی شخص کی معینا تکفیر کے لیے کچھ اصول وقوانین ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ۔ تکفیر مطلق کسی خاص کفریہ فعل کی بناء پر ہوتی ہے ۔ لیکن اس خاص فعل کا مرتکب خاص شخص اس وقت تک کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس میں تکفیر کی شرطیں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔ لہذا پہلے تکفیر مطلق اور تکفیر معین کا فرق سمجھنا ضروری ہے ۔

تکفیر مطلق :
کسی بھی فعل کو کتاب وسنت میں کفر یا مخرج عن الملۃ قرار دیا گیا ہو تو اسکے بارہ میں کہنا جس نے بھی یہ کام کیا وہ کافر ہے ۔ تکفیر مطلق کہلاتا ہے ۔ مثلا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی کا انکار کرنے سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لہذا ہم کہیں گے کہ جس نے بھی شرک کیا اسکا اسلام ختم ہوگیا اور جس نے بھی اللہ کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔ اور اسے تکفیر مطلق کا نام دیا جاتا ہے ۔ اور ایسی تکفیر کی صورت میں جن افراد پر یہ تکفیر صادق آتی ہے ان سے کفار والا معاملہ نہیں کیا جاتا نہ ہی انہیں مرتد قرار دیا جاتا ہے ۔ بلکہ انہیں مرتد قراردینے کے لیے انکی معینا تکفیر کی جاتی ہے ۔

تکفیر معین
تکفیر معین یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ایسے کا م کے مرتکب شخص کو جس کام کو کفر یا شرک قرار دیا ہے نام لے کر کافر قرار دینا ۔مثلا : زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا تو یہ کہنا کہ زید کافر ہے اسے تکفیر معین کہا جاتا ہے ۔ اور اسلام کی کسی بھی شخص کی معینا تکفیر کی جاسکتی ہے لیکن اسکے لیے اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں :

١۔ علم
اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ کام کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو اس آدمی کو کفریہ کام کا ارتکاب کرلینے کے باوجود کافر نہیں کہا جائے گا ۔ مثلا زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں کہ ایسے کرنے سے انسان مرتد ہو جاتا ہے تو اسے مرتد یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "إن اللہ تجاوز عن امتی الخطأ والنسیان" میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)

جہالت کی بنا پر، بھول کر، بندہ کام کرلیتا ہے۔ جاہل ہے، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں گے ۔ہم دنیا میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا سکتے۔ جب تک اس کی جہالت رفع نہ ہو۔ بلکہ جہالت کی وجہ سے کفریہ کام سر انجام دینے والے کو تو اللہ تعالی نے معاف فرما دیا تھا ، ملاحظہ فرمائیں :
[FONT=al_qalam tehreeri]عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلَی نَفْسِہِ فَلَمَّا حَضَرَہُ المَوْتُ قَالَ لِبَنِیہِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی، ثُمَّ اطْحَنُونِی، ثُمَّ ذَرُّونِی فِی الرِّیحِ، فَوَاللَّہِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہِ ذَلِکَ، فَأَمَرَ اللَّہُ الأَرْضَ فَقَالَ: اجْمَعِی مَا فِیکِ مِنْہُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا ہُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ، فَغَفَرَ لَہُ "
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی بہت گہنگار تھا۔ تو جب اسکی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر رکھ بنا دینا اور پھر مجھے ہوا میں اڑا دینا ، اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھے جمع کر لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ جیسا اس نے کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ تو جب وہ فوت ہو گیا تو اسکے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ جوکچھ تیرے اندر ہے اسے جمع کر تو زمین نے اسکی خاک کو جمع کردیا اور وہ اللہ کے حضور پیش ہوا تو اللہ تعالی نے پوچھا تجھے یہ کام کرنے پر کس نے ابھارا تھا ۔ تو وہ کہنے لگا اے رب تیرے ڈر نے ہی مجھے اس کام پر مجبور کیا تھا ۔تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا ۔

یعنی اس بیچارے نے اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ شاید اللہ کے پاس اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ذروں کو جمع کر کے مجھے دوبارہ کھڑا کر سکے ۔البتہ وہ شخص مؤمن تھا اسے یقین تھا کا مرنے کے بعد حساب دینا پڑے گا ۔ اللہ تعالی پر اسے یقین تھا ۔ لیکن اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کر بیٹھا کہ اگر میں راکھ ہو جاؤں گا اور میرے ذرات بکھر جائیں گے تو شاید اللہ تعالی کی گرفت سے بچ جاؤں گا ۔ اور اس نے یہ کام صرف اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے کیا تھا ۔ تو اللہ رب العزت نے اسے معاف فرما دیا کہ اس شخص میں جہالت کا عذر تھا ۔

٢۔قصد وعمد
یعنی کوئی بھی شخص جو کفریہ کام کا مرتکب ہوا ہے ، وہ اگر جان بوجھ کر کفر کرے گا توہم اسکا نام لے کر اسے کافر کہیں گے اور اس پر مرتد ہونے کا فتوی لگے گا ۔ اور اگر وہ کفریہ کام اس سے کسی غلطی کی وجہ سے سرزد ہوا ہے تو اسے کافر یا دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں [FONT=al_qalam tehreeri]"إن اللہ تجاوز عن امتی الخطأ والنسیان"[/FONT] میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)

٣۔ اختیار
تیسری شرط یہ ہے کہ وہ آدمی مختار ہو، یعنی اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے کرے، اگر کوئی آدمی اس کو کہتا ہے کہ تو کفریہ کلمہ کہہ، نہیں تو تجھے ابھی قتل کرتا ہوں ۔ تو وہ اس کے جبر ، تشدد وظلم کے ڈر سے کوئی کفریہ بول بول دیتا ہے تو ایسے آدمی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے :
[FONT=al_qalam tehreeri]مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ[/FONT] (النحل : ١٠٦)
جو آدمی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے( اللہ کو ہرگز یہ گوارا نہیں ہے)۔ہاں وہ بندہ جس کو مجبور کردیا گیا(تو اس آدمی پر کوئی وعید نہیں ہے) لیکن جس نے شرح صدر کے ساتھ ، دل کی خوشی کے ساتھ کفر کیااس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے،اوران کےلئے بہت بڑا عذاب ہے۔

یعنی اگر جان بوجھ کر ، اپنے اختیا ر کے ساتھ، جبرواکراہ کے بغیر، وہ ایسا کفریہ بول بولتا ہے، یا کفریہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ قابل مؤاخذہ ہے۔ لیکن اگر کسی کے ڈرسے وہ کفریہ کام سرانجام دیتا ہے تو وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔

ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا : "[FONT=al_qalam tehreeri]لا تشرک باللہ شیأا وان قطعت وحرقت [/FONT]" تجھے جلا دیا جائے ، تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں، اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرنا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء ح4034)
عزیمت پر محمول ہے ، یعنی موت کے خوف سے ، جان بچانے کی غرض سے کفریہ یا شرکیہ کام کرنا پڑتا ہے، کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہنا پڑتا ہے تو آدمی کو رخصت ہے کہ کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہہ سکتا ہے، شرکیہ یا کفریہ کام کرسکتا ہے، لیکن عزیمت یہی ہے کہ بندہ اس وقت بھی کفریہ کلمہ نہ کہے ، کفریہ بول نہ بولے۔ اور اگر وہ رخصت کو اپنالیتا ہے تو بھی شریعت نے اسکی اجازت دی ہے ۔

٤۔ تأویل
چوتھی شرط یہ ہے کہ جو شخص کفر کا ارتکاب کر رہا ہے وہ مؤول نہ ہو ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ کسی شرعی دلیل کا سہارا لے کر اس کام کو جائز سمجھتا ہو ۔قرآن وحدیث کی غلط تفسیر وتاویل کرکے کسی بھی کفریہ کام کو اپنے لیے جائز سمجھنے والے کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے ۔ مثلا آج کل بہت سے لوگ غیر اللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگتے ہیں ۔ تو ہم مطلقا کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے اور جو بھی غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے وہ مشرک وکافر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر زید نامی شخص غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے تو ہم اسے اسوقت تک کافر قرار نہیں دیں گے جب تک اس پر حجت قائم نہ کر لیں اسکی تحقیق نہ کر لیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے غلط تاویل وتوجیہہ کرنے والوں کے ایسے کاموں سے درگزر فرمایا ہے نبی کریم
[/FONT]
کا فرمان ہے :
[FONT=al_qalam tehreeri]إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَہُ أَجْر ٌ
( صحیح مسلم : ١٧١٦)
جب فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرتا ہے ، اگر تو اسکا فیصلہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر اسکا اجتہاد اسے غلطی پر پہنچا دے توبھی اسے ایک اجر ملتا ہے ۔

اور ہمارے یہاں پائے جانے والے بہت سے ایسے افراد جو کفریہ وشرکیہ کام کرتے ہیں وہ اجتہادی خطأ کا شکار ہوتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص کی غلط تاویل وتفسیر کرکے اسے ہی حق سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ لہذا کیسے ممکن ہے کہ ایسے شخص کی تکفیر کردی جائے جسے اللہ تعالی ایک اجر عطا فر ماتے ہیں ؟!

اس مقدمہ کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم آتے ہیں دوبارہ اسی اعتراض کے جواب کی طرف کہ ہم پاکستان میں خود کش دھماکوں اور کاروائیوں کو کیوں درست نہیں سمجھتے ؟ ۔ جیسا کہ ہم نے پہلے واضح کیا کہ ایسی کاروائیاں کرنے والوں کے ہاں تمام تر پاکستانی قوم ، اور بالخصوص حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد یعنی فوج ، عدلیہ ، مقننہ ، سرکاری ملازمین وغیرہ سب کافر ہیں اور انکی جان ومال سب کچھ اہل اسلام کے لیے حلال ہے ۔ اسکا سبب یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے ۔ لہذا مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے کیوجہ سے حکومت کافر ہوگئی ہے ۔ اور فوج چونکہ اس حکومت کی دفاع کرتی ہے لہذا وہ بھی کافر ہے اور مقننہ وعدلیہ چونکہ غیر اسلامی قوانین کانفاذ کرتے ہیں لہذا یہ سب لوگ بھی کافر ہیں ۔ اور اسی طرح سرکاری ملازمین چونکہ حکومت کی باڈی کا حصہ ہیں لہذا حکومت کے معاون ہونے کی وجہ سے وہ بھی کافر ہیں !!!

جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے افغان جنگ میں مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی مدد کرکے ایک کفریہ کام کا ارتکاب ضرور کیا ہے ۔لیکن اسکی وجہ سے حکومت میں شامل تمام تر افراد کو کافر نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ۔کیونکہ اسوقت سے لے کر اب تک حکومتی عہدوں پر براجمان بہت سے لوگ اس معاملہ میں حکومتی فیصلہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے غلط اجتہاد کی وجہ سے اس غلطی کاشکار ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے امریکہ کاساتھ نہ دیا تو ہمیں بھی پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا ۔ اور اس امریکی مطالبہ کو وہ اپنے لیے جبرواکراہ قرار دے کر ایک معقول مانع کفر سمجھتے تھے ۔

اور کچھ تو ایسے بھی ہیں کہ جنہیں یہی معلوم نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی ایسی مدد انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتی ہے ۔ اور کسے نہیں معلوم کہ پاکستانی حکومت کے عہدیداران علم دین سے بالکل ناآشنا ہیں ۔اور اسی طرح عدلیہ ومقننہ میں شامل بہت سے لوگ احکامات اسلامیہ سے جاہل ہیں یا وہ تاویل کا شکار ہیں ۔ لہذا ہم مطلق طور پر تو یہ کہتے ہیں کہ جمہوری نظام حکومت ، طاغوتی نظام حکومت ہے ۔ لیکن اس جمہوریت میں شامل ہونے والے افراد میں سے ایک ایک فرد کی تکفیر نہیں کرتے ۔ کیونکہ کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو جمہوریت میں اس غرض سے شامل ہوتے ہیں کہ ہم آگے بڑھ کر دین مخالف قوانین کا خاتمہ کریں گے ۔ اسمبلیوں اور سینٹ میں پہنچ کر ایسی تمام تر قرار داود کی مخالفت کریں گے جن سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہو یا جو اللہ اور اسکے رسول [/FONT]
e کے احکامات کے منافی ہوں ۔

اسی جواب سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جماعت نے جمہوریت کے بارہ میں اپنے موقف سے کوئی یو ٹرن نہیں لیا ہے ۔ بلکہ اسی طرح اپنے موقف پر قائم ہے ۔ لیکن اللہ کالاکھ شکر ہے کہ تکفیری فتنہ کی زد میں آکر تمام تر اراکین پارلیمنٹ واسمبلی وسینٹ کی تکفیر کرنے سے جماعت پہلے بھی باز تھی اور اب بھی ہے ۔ کیونکہ ان تمام تر افراد کے معین تکفیر کے لیے جن شروط وموانع کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ ہم اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں ملحوظ رکھتے ہیں ۔اور ظاہرا اسلام پر عمل پیرا ہونے والے سے اگر کوئی کفر سرزد ہوتا ہے تو تحقیق کیے بغیر اسکی تکفیر نہیں کرتے ۔


 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
لیکن اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہیں جو قرآن وحدیث کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے لاکھ آپ اُن کو اس کے درست ہونے کے دلائل پیش کردیں۔۔۔ اُن لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو قرآن کی آیات کا تو سیدھے سے انکار نہیں کرتے مگر اُن لوگوں کو تعن وتشنع کا شکار بناتے ہیں جن کے اعلٰی کردار اور سابقوں الاولون کے خطاب سے نوازہ گیا؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
لیکن اُن لوگوں کے بارے میں کیا کہیں جو قرآن وحدیث کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے لاکھ آپ اُن کو اس کے درست ہونے کے دلائل پیش کردیں۔۔۔ اُن لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو قرآن کی آیات کا تو سیدھے سے انکار نہیں کرتے مگر اُن لوگوں کو تعن وتشنع کا شکار بناتے ہیں جن کے اعلٰی کردار اور سابقوں الاولون کے خطاب سے نوازہ گیا؟؟؟۔۔۔
ان کے لئے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں
 

Abu Muhammad

مبتدی
شمولیت
اپریل 01، 2013
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
0
وہ سبحان اللہ!جس کی گردن اتارنے کا حکم ہو اور جہاں تلبیسی استدلال ممکن نہ ہو تو وہاں صرف "دعا"سے کام چلانے کا مشورہ دیا جاتاہے؟
مشرف سات سال تک شعائر دینی کا اعلانیہ استہزاء اور تمسخر کرتا رہا۔۔۔۔داڑھی پردے کا مذاق اڑاتا رہا۔۔۔۔ موسیقی کو حرام سمجھنے والوں سے لڑنے کی باتیں کرتا رہا۔۔۔خلافت کو ناقبل عمل قرار دیتا رہا۔۔۔۔ اور اب ایک رافضی بلکہ رافضیوں کی فوج وزیروں اورمشیروں کی صورت میں برجمان رہی ۔۔۔۔ اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔۔ مگر یہ لوگ صرف "دعا" سے کام چلائیں گے اور مرغی فرائی اور بریانی کھاتے رہیں گے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اور کچھ جماعتیں’’پرویز مشرف‘‘کو امیر المومنین کے لقب سے نوازتی رہیں گی۔۔۔۔۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
جنہوں نے جس کو امیرالمومینین مانا ان سے بات کریں،نہتے عوام کا خون کس

کی گردن پر ھے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اور کچھ جماعتیں’’پرویز مشرف‘‘کو امیر المومنین کے لقب سے نوازتی رہیں گی۔۔۔۔۔
علماء کہاں ہیں؟؟؟۔۔۔
اس طرح کے القابات سے نوازنے والوں کے خلاف دیوار تو علماء کو بننا چاہئے۔۔۔
ایرےغیرے نتھوخیروں کو نہیں۔۔۔میں اپنی بات کررہا ہوں کسی کی نہیں۔۔۔
ارسلان بھائی بالکل درست فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء ہی مخلص نہیں ہیں۔۔۔
تو جب علماء یعنی نائب رسول ﷺ کا یہ حال ہے تو اُمت تو پسے کی چکی کے دونوں پاٹوں میں۔۔۔
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
پاکستان ایک کلمہ پڑھنے والوں کا ملک ہے،جس میں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے حکمران موجود ہیں۔
اس لیے ان کو دعوت دی جائے گی۔
ہاں جس جماعت نے ان کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہاتھ پکڑ کر تنہائی میں دعوت دے کر ان کے تمام دلائل کا رد اور ان کی ہر تاویل کا توڑ پیش کر دیا ہے۔
اور ان پر حجت تمام کر دی ہے۔اور اس قدر سکت رکھتا ہے کہ اگر ان کے خلاف جہاد کرے گا تو بے گناہوں کی جان،مال اور عزت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
تو اس پر پاکستان میں جہاد فرض ہے۔وہ لازمی کرے۔اور ہمیں بھی بتائے تاکہ ہم بھی اس جہاد کا حصہ بن سکیں۔اور دنیا میں نفاذ شریعت کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔
 
Top