• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہٹلر، صدام حسین، بش اور پوٹن

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
ہٹلر، صدام حسین، بش اور پوٹن

ہفت روزہ جرار
آج سے دس برس پہلے 19 مارچ 2003ء کو سامراجی ملکوں امریکہ اور برطانیہ نے اپنے بحری بیڑوں، بمبار طیاروں، ٹینکوں اور تباہ کن میزائلوں کے ذریعے مسلم ملک عراق پر حملے کے لئے یہ جھوٹ گھڑا تھا کہ صدر صدام حسین عراق میں ایٹمی اور کیمیائی اسلحے کے ڈھیر لگا کر عالمی امن کے لئے خطرہ بن گئے ہیں، لہٰذا صدام حکومت کو نیست و نابود کر کے عراق کو ’’آزادی‘‘ دلانا ضروری ہے۔ سامراجی طاقتوں کی اس وحشیانہ کارروائی اور خونریزی کا پس منظر جاننے کے لئے ہم آپ کو پون صدی پیچھے لئے چلتے ہیں۔
3 ستمبر 1939ء کو جب دوسری جنگ عظیم (1939-45ئ) کا آغاز ہوا تو نازی جرمنی اور سوویت روس نے دو طرفوں سے پولینڈ پر حملہ کر کے اسے باہم بانٹ لیا تھا اور پھر برطانیہ اور فرانس نے پولینڈ کے حق میں جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا، اس لئے سمجھا یہی جا رہا تھا کہ جرمنی اور روس کے مابین اتحادیوں (برطانیہ اور فرانس) کے خلاف ایک طرح کی مفاہمت برقرار رہے گی۔ ادھر روسی آمر جوزف کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ دو سال کے اندر اندر ہٹلر کی نازی فوجیں روس پر چڑھائی کر دیں گی۔ چنانچہ جب روسی جاسوسوں نے اسے بتایا کہ جرمن فوج 1941ء کی گرمیوں میں سوویت یونین (روس) پر حملہ کرنے والی ہے تو سٹالن نے اس پر یقین ہی نہ کیا۔ دراصل وہ بری طرح اس شک میں مبتلا تھا کہ برطانیہ اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسے ہٹلر سے لڑا دے، چنانچہ اسے یقین نہیں تھا کہ ہٹلر برطانیہ کا صفایا کرنے سے پہلے روس پر حملہ آور ہو گا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ہٹلر کے لئے دو محاذوں پر جنگ چھیڑنا ممکن ہی نہیں۔ نازی حکومت اب تک اس سے پہلوتہی کرتی آئی تھی۔ لیکن سٹالن کا خیال غلط نکلا، ہٹلر نے ہوس ملک گیری میں جون 1941ء میں روس پر اچانک ہلا بول کر اسے ششدر کر دیا۔ یوں روس اتحادیوں کا ساتھی بن گیا۔ ادھر دسمبر 1941ء میں جاپان نے جو جرمنی کا حلیف تھا، بحرالکاہل میں امریکی بحری اڈے (پرل ہاربر) پر حملہ کر کے امریکہ کو اتحادی طاقتوں کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا۔ یوں روس اور امریکہ کے بے پناہ افرادی اور مادی وسائل نے برطانیہ اور فرانس کو مکمل تباہی سے بچانے اور فرانس اور باقی یورپ کو نازیوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور آخر کار ہٹلر نے عالم مایوسی میں 30 اپریل 1945ء کو برلن کے اندر اپنے بنکر میں اپنی محبوبہ ایوا برائون کے ہمراہ خود کشی کر لی۔
کچھ ایسی ہی غلط فہمیوں کا شکار عراقی آمر صدام حسین تھا۔ اسے عالمی سیاست اور عالمی طاقتوں کے عزائم کا کچھ شعور نہیں تھا۔ وہ صرف اندرون ملک اپنے مخالفین سے نمٹنا جانتا تھا یا ہمسایوں پر چڑھ دوڑنے میں دلیر تھا جیسا کہ 1980ء میں اس نے ایران پر یا دس برس بعد کویت پر حملہ آور ہو کر عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا، چنانچہ جب عراق کے کویت پرحملے سے آٹھ دن پہلے عیار اور عشوہ طراز امریکی سفیرہ اپریل گلاسپی نے صدام حسین سے دو گھنٹے کی ملاقات کی تو عراقی صدر نے اس ملاقات میں کوئی اشارہ نہیں کیا کہ وہ چند روز بعد کویت پر چڑھائی کر دے گا۔ ان دنوں گلاسپی پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے یہ کہہ کر صدام حسین کو کویت پرحملے کے لئے اکسایا تھا کہ ’’یہ عراق اور کویت کا دو طرفہ معاملہ ہے اور امریکہ اس میں دخل نہیں دے گا‘‘۔ لیکن اب وکی لیکس نے جو امریکی سفارتی مواد افشا کر دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی لیڈر نے کوئی عندیہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ امارت، کویت کو عراق کے 19 ویں صوبے کی حیثیت سے عراق میں شامل کرنے کی سوچ رہا ہے، چنانچہ اس وقت ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ کویت کو صدر صدام کی دھمکیاں اسے 14ارب ڈالر کے قرضے کی وصولی سے دستبردار کرانے کا شاخسانہ ہیں۔ کسی کی بھی یہ سوچ نہیں تھی کہ صدام حسین کویت پر بھرپور حملہ کر کے قبضہ کرنے والا ہے۔ یوں دنیا کو اچنبھے میں ڈالنا اور عاقب نااندیشی سے ہمسایوں پر حملہ کرنا ایسا وصف تھا جو ہٹلر اور صدام حسین میں مشترک تھا۔
اپریل گلاسپی سے صدام کی جو گفتگو شائع ہوئی ہے اس میں وہ غیر ملکی میڈیا کی تنقید کے بارے میں بہت حساس اور سیخ پا نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے خلاف عالمی سطح پر اقدامات کو اپنے خلاف ایک عظیم سازش کا حصہ گردانتا تھا اور یہ سوچ اس پرحاوی ہو چکی تھی۔ گلاسپی نے صدام کو کویت پر حملہ کرنے سے باز رہنے کو نہیں کہا تھا کیونکہ صدام کی طرف سے یہ اقدام اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صدام حسین کو گلاسپی نے حملے کے لئے نہیں اکسایا تھا تو پھر اب تک واشنگٹن نے اس پر لگنے والے الزام کی صفائی کیوں نہ دی؟ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ صدام کویت سے انخلاء سے انکاری تھا اور امریکی صدر بش سینئر تیل کے مفادات کے تحفظ کیلئے عراق کے خلاف فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس لئے امریکی سفیرہ کی صدام سے نرم گرم گفتگو کی اشاعت یہ تاثر پیدا کر سکتی تھی کہ امریکہ صدام کی اس جارحیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ نے ایران عراق جنگ میں صدام کی مدد کر کے عراق کو ایک علاقائی طاقت بنا دیا تھا اور پھر اسے مٹانے کے لئے امریکہ و برطانیہ نے 1990-91ء میں کویت کی آزادی کا بہانہ بنایا اور 13 سال بعد عراقی ایٹمی اسلحے کا افسانہ تراش کر مارچ اپریل 2003ء میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بش ابن بش کی امن خونریز کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے آس پاس کوئی اسلامیہ ملک طاقتور نہ ہونے پائے اور خلیج کائیل بھی مغرب کی طرف بہتا رہے۔
مغربی طاقتیں کمزور ممالک پر چڑھائی کے لئے کیسے کیسے جواز تراشتی ہیں، اس کی ایک مثال آزاد مسلم ملک چیچنیا پر روس کا سامراجی حملہ (1999ئ) ہے، جس نے 1784ء سے اکتوبر 1991ء تک روس کی بدترین غلامی میں گرفتار رہنے کے بعد جنرل جوہر دائود شہید کی قیادت میں آزادی حاصل کر لی تھی۔ انہی دنوں اگست میں صدر گوربا چوف کے خلاف فوجی انقلاب کی ناکامی کے بعد روس کے حصے بخرے ہونے شروع ہوئے اور دسمبر تک 14 ریاستیں سوویت روس سے الگ ہو گئیں اور آخر کار 24 دسمبر 1991ء کو گوربا چوف نے سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان کر کے حریم اقتدار بورس یلسن کے لئے خالی کر دیا۔ آزاد شدہ ریاستوں میں ترکستانی وسطی ایشیا کی 5 مسلم ریاستوں ازبکستان، کرغیزستان، تاجکستان، قازقستان اورترکمانستان کے علاوہ کوہ قاف کی مسلم ریاست آذر بائیجان اور اس کی ہمسایہ مسیحی ریاستیں جارجیا اور آرمینیا بھی شامل تھیں۔ نیز مشرقی یورپ میں روسی غلامی سے آزاد ہونے والی 6 مسیحی ریاستیں یو کرین، مالڈووا، سفید روس (بیلو رس) لتھوانیا، اسٹونیا اور لیٹویا تھیں۔ آذر بائیجان اور جارجیا کے شمال میں مسلم اکثریت کے علاقے چیچنیا، انگوشیتا اور داغستان تھے، چنانچہ چیچنیا اور انگوشیتا نے متحد ہو کر آزاد حاصل کر لی (یاد رہے قازاق یا قزاق قوم کے نام پر ملک کا درست نام ’قازاقستان‘ ہے نہ کہ ’قازقستان‘۔ ترکی اردو لغت (شائع کردہ کراچی یونیورسٹی) میں ’’قازاق‘‘ یا ’’قزاق‘‘ قوم درج ہے۔ اسی سے ترکی، فارسی اور اردو میں ’’قزاق‘‘ بمعنی لٹیرا کی اصطلاح نکلی کیونکہ قبل اسلام اس قوم کا پیشہ زیادہ تر لوٹ مار تھا)۔
سرخ روسی سامراج کے وارثوں نے چودہ ریاستوں کی آزادی تو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لی مگر چیچنیا انگوشیتا کی آزادی ان سے ہضم نہیں ہو رہی تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کی پیروی میں داغستان، باشکیریہ اور تاتارستان کے مسلم علاقے بھی آزادی حاصل کرنے کے آرزو مند ہوں گے۔ چنانچہ بھرپور فوجی کارروائی سے چیچنیا کو سرنگوں کرنے کی کوشش کی گئی، نیز کچھ عرصہ بعد ایک سازش کے تحت انگوشیتا کو چیچنیا سے الگ کر کے ماسکو نے اپنی تحویل میں لے لیا تاہم روس چیچنیا کے حریت پسندوں کو مطیع نہ کر سکا۔ اپریل 1996ء میں صدر جو ہر دائود سیٹلائٹ گائیڈڈ میزائل حملے میں شہید ہو گئے کیونکہ موبائل استعمال کرتے ہوئے ان کو ٹریس کر لیا گیا تھا۔ پھر اگست 1996ء میں روسی نائب صدر الیگزینڈر، لیبڈ نے چیچن صدر سالم یاندر بائے کے ساتھ ایک معاہدے پردستخط کر دیے، جس کے تحت جنگ بندی عمل میں آئی اور پانچ سال بعد چیچنیا کی آزادی تسلیم کرنے کی شرط رکھی گئی لیکن اس کی نوبت نہ آئی اور 1999ء میں سوویت دور کی انٹیلی جنس (KGB) کے سابق چیف ولاڈی میر پوٹن نے ماسکو میں تباہ کن بم دھماکے کرادیے جن کا الزام چیچنیا پر لگا کر ستمبر 1999ء میں اس چھوٹے سے پہاڑی مسلم ملک پر پھر چڑھائی کر دی گئی۔ وحشیانہ بمباری سے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کو دوسری بارکھنڈر بنا دیا گیا اور آخر کار جنوری 2000ء میں امام منصورؒ اور امام شاملؒ کے وارثوں کا یہ ملک ایک بار پھر روسی تسلط میں چلا گیا۔ مغرب کی لونڈی اقوام متحدہ اور نیٹو اس ننگی جارحیت کو خاموشی سے دیکھتے رہے اور اسلامی ممالک میں چیچنیا کی مدد کرنے کا دم خم ہی نہ تھا۔ 1999ء میں ماسکو بم دھماکوں کے فوراً بعد مغربی صحافی پیٹرک کاک برن ماسکو پہنچا تو وہاں ہر حلقے میں یہی بات زبان پر تھی کہ یہ دھماکے کریملن (ماسکو کا ایوان حکومت) نے خود کرائے ہیں۔ فتح چیچنیا کی کامیابی کے نتیجے میں اسلام دشمن پوٹن صدر مملکت بن گیا اور اب وہ بطور وزیراعظم برسر اقتدار ہے۔
 
Top