حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کا جواز:سلف صالحین کے آثار،فقہاء و محدثین اور اہل حدیث علماء کے فتاوی کی روشنی میں
ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت سے زائد کاٹنے کو حرام قرار دینا بدعت ہے،جس کے دلائل درج ذیل ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَفِرُّوا اللِّحٰى وَاَحْفُوا الشَّوَارِبَ))
"مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔"
بخاری و مسلم میں ہی دوسری روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمرر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
((اَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَاَعْفُوا اللِّحٰى))
"مونچھوں کو کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ"
ایک روایت میں ہے:
((أنهكوا الشوارب واعفوا اللحى))
"مونچھیں ختم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ"
(إن أهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فاعفوا اللحى وأحفوا الشوارب)
"بے شک مشرکین مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو۔۔۔ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ" اسے بزاز نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے:
( قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَالِفُوا الْمَجُوسَ لِاَنَّهُم كَانُوا يُقَصِّرُونِ لِحَاهُمْ وَيُطَوِّلُونَ الشَّوَارِبَ)
"تم مجوسیوں کی مخالفت کرو، کیونکہ وہ اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں لمبی کرتے ہیں"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
(إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ)
" بے شک وہ اپنی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کرو۔"
وجوبِ لحیہ پر دلالت کرنے والے الفاظ کی لغوی تشریح:
داڑی کے بارے جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں سب کا معنی قریب قریب ہے اور وہ پانچ الفاظ ہیں :
''أوفوا، وأرخوا، وأرجوا، ووفروا، واعفوا''
ان میں سے کسی بھی لفظ کا معنی یہ نہیں ہے کہ داڑی کو بالکل ہی چھوڑ دو بلکہ یہ کثرت اور زیادہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں،اور یہ پانچوں الفاظ روایات میں اس طرح وارد ہوئے ہیں :
ان سب الفاظ کا معنی قریب قریب ہے ،اگر ہم لغت کی کتابوں پر غور وفکر کرتے ہیں تو یہ سب الفاظ کثرت اور بہتات پر دلالت کرتے ہیں،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(أوفوا) کا لفظ ایفاء سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہيں :پورا ہو جانا اور کثیر ہو جانا، چناں چہ تاج العروس میں لکھا ہے :
''وفى الشيء أي تمَّ وكثُر'' (219/40)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں:
(أَوْفُوا أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِيَةً) (فتح الباری:350/10)
یعنی داڑی کو اس حد تک چھوڑ دو کہ وہ پوری ہوجائے۔
اور دوسرا لفظ (أرخوا) وارد ہوا ہے جس کے معنی لٹکانا کے ہیں، صاحب تاج العروس رقم طراز ہیں :(وأرخى الستر أسدله) یعنی اس نے پردہ لٹکایا
اور تیسرا لفظ (أرجو) ہے جس کا معنی تاخیر ہے،حافظ ابن حجر نے اس كے معنی لمبا کرنے کے کیے ہیں۔ (فتح الباری:350/10)
اسی طرح حديث ميں چوتھا لفظ (وفروا) بولا گیا ہے جس کے معنی ہيں : کثرت اور بہتات ہے ،جیسا کہ اس کی وضاحت تمام اہل لغت نے اس طرح کی ہے :
قال ابن فارس في مقاييس اللغة:
(وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام)
(129/6)
وفي القاموس المحيط: (وفره توفيراً: كثَّره) (493/1
اسی طرح احادیث میں ''اعفاء'' کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،اس کے معنی بھی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)
ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں: تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً) (فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:
(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
مندرجہ بالا دلائل ، ماہر لغت اور شارحین حدیث کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اعفاء کا معنی ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ ڈاڑھی کی مقدار کو بڈھانا مراد ہے، اس کے وہی معنی معتبر مانے جائیں گے جن کو صحابہ کرام ،تابعین عظام،محدثین،ائمہ دین اور شارحین حدیث درست قرار دیا ہے۔ کیا صحابہ کرام کو رسول اللہ کے حکم اعفاء کے معنی کو علم نہیں تھا؟یہ ہو ہی نہین سکتا کہ صحابہ کرام کو اس کے معنی معلوم نہ ہوں کیوں کہ وہ ماہر لغت اور فصیح و بلیغ تھے۔
داڑی والی روایات میں صحابہ نے بھی ان الفاظ کےمعنی کثرت اور بہتات ہی کے لیے ہیں
رسول اللہﷺ کی ڈاڑھی کی مقدار:ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت سے زائد کاٹنے کو حرام قرار دینا بدعت ہے،جس کے دلائل درج ذیل ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَفِرُّوا اللِّحٰى وَاَحْفُوا الشَّوَارِبَ))
"مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔"
بخاری و مسلم میں ہی دوسری روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمرر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
((اَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَاَعْفُوا اللِّحٰى))
"مونچھوں کو کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ"
ایک روایت میں ہے:
((أنهكوا الشوارب واعفوا اللحى))
"مونچھیں ختم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ"
(إن أهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فاعفوا اللحى وأحفوا الشوارب)
"بے شک مشرکین مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو۔۔۔ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ" اسے بزاز نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے:
( قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَالِفُوا الْمَجُوسَ لِاَنَّهُم كَانُوا يُقَصِّرُونِ لِحَاهُمْ وَيُطَوِّلُونَ الشَّوَارِبَ)
"تم مجوسیوں کی مخالفت کرو، کیونکہ وہ اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں لمبی کرتے ہیں"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
(إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ)
" بے شک وہ اپنی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کرو۔"
وجوبِ لحیہ پر دلالت کرنے والے الفاظ کی لغوی تشریح:
داڑی کے بارے جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں سب کا معنی قریب قریب ہے اور وہ پانچ الفاظ ہیں :
''أوفوا، وأرخوا، وأرجوا، ووفروا، واعفوا''
ان میں سے کسی بھی لفظ کا معنی یہ نہیں ہے کہ داڑی کو بالکل ہی چھوڑ دو بلکہ یہ کثرت اور زیادہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں،اور یہ پانچوں الفاظ روایات میں اس طرح وارد ہوئے ہیں :
ان سب الفاظ کا معنی قریب قریب ہے ،اگر ہم لغت کی کتابوں پر غور وفکر کرتے ہیں تو یہ سب الفاظ کثرت اور بہتات پر دلالت کرتے ہیں،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(أوفوا) کا لفظ ایفاء سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہيں :پورا ہو جانا اور کثیر ہو جانا، چناں چہ تاج العروس میں لکھا ہے :
''وفى الشيء أي تمَّ وكثُر'' (219/40)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں:
(أَوْفُوا أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِيَةً) (فتح الباری:350/10)
یعنی داڑی کو اس حد تک چھوڑ دو کہ وہ پوری ہوجائے۔
اور دوسرا لفظ (أرخوا) وارد ہوا ہے جس کے معنی لٹکانا کے ہیں، صاحب تاج العروس رقم طراز ہیں :(وأرخى الستر أسدله) یعنی اس نے پردہ لٹکایا
اور تیسرا لفظ (أرجو) ہے جس کا معنی تاخیر ہے،حافظ ابن حجر نے اس كے معنی لمبا کرنے کے کیے ہیں۔ (فتح الباری:350/10)
اسی طرح حديث ميں چوتھا لفظ (وفروا) بولا گیا ہے جس کے معنی ہيں : کثرت اور بہتات ہے ،جیسا کہ اس کی وضاحت تمام اہل لغت نے اس طرح کی ہے :
قال ابن فارس في مقاييس اللغة:
(وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام)
(129/6)
وفي القاموس المحيط: (وفره توفيراً: كثَّره) (493/1
اسی طرح احادیث میں ''اعفاء'' کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،اس کے معنی بھی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)
ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں: تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً) (فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:
(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
مندرجہ بالا دلائل ، ماہر لغت اور شارحین حدیث کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اعفاء کا معنی ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ ڈاڑھی کی مقدار کو بڈھانا مراد ہے، اس کے وہی معنی معتبر مانے جائیں گے جن کو صحابہ کرام ،تابعین عظام،محدثین،ائمہ دین اور شارحین حدیث درست قرار دیا ہے۔ کیا صحابہ کرام کو رسول اللہ کے حکم اعفاء کے معنی کو علم نہیں تھا؟یہ ہو ہی نہین سکتا کہ صحابہ کرام کو اس کے معنی معلوم نہ ہوں کیوں کہ وہ ماہر لغت اور فصیح و بلیغ تھے۔
داڑی والی روایات میں صحابہ نے بھی ان الفاظ کےمعنی کثرت اور بہتات ہی کے لیے ہیں
اگر كوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہﷺ سے ڈاڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے،اس لیے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو،ہمارے فہم کے مطابق آپ ﷺ کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی،لہذا ان کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،اس کی دلیل عبد اللہ بن عباس کی وہ حدیث ہے جسے امام احمد بن حنبل نے المسند میں بیان کیا ہے:
جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا)
(رواه أحمد في " المسند " (5/389) طبعة مؤسسة الرسالة .)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے: (فتح الباري شرح صحيح البخاري:657/6 )
علامہ ہیثمی نے بھی اس حدیث کے رواۃ کے بارے لکھا ہے: ''رجاله ثقات''
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 / 272 :
امام زرقانی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
''إسناد حسن'' ( شرح الزرقاني على الموطأ: (4 / 439)
محمد بن صالح العثیمین اس حدیث کی سند کے بارے میں رقم طراز ہیں:
وهذا الحديث يختلف حكمه بسبب الاختلاف في يزيد الفارسي ، فذهب علي بن المديني وأحمد بن حنبل إلى أنه هو نفسه يزيد بن هرمز الثقةجناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا)
(رواه أحمد في " المسند " (5/389) طبعة مؤسسة الرسالة .)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے: (فتح الباري شرح صحيح البخاري:657/6 )
علامہ ہیثمی نے بھی اس حدیث کے رواۃ کے بارے لکھا ہے: ''رجاله ثقات''
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 / 272 :
امام زرقانی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
''إسناد حسن'' ( شرح الزرقاني على الموطأ: (4 / 439)
محمد بن صالح العثیمین اس حدیث کی سند کے بارے میں رقم طراز ہیں:
یزید فارسی کے اختلاف کی وجہ سے اس حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے متعلق اختلاف ہے،لیکن جناب علی بن مدینی اور امام احمد بن حنبل کا ماننا ہےکہ اس راوی سے مراد یزید بن ہرمز ثقہ راوی ہے۔
اسی طرح امام ابو حاتم نے اس راوی کے متعلق لا بأس به کہہ کر اس کی جہالت کو ختم کر دیا ہے: ذهب إليه أبو حاتم في " الجرح والتعديل " (9/293) من قوله فيه : لا بأس به)
بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے مندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سے اس حدیث کا معنی درست قرار پاتا ہے۔
محمد بن صالح عثیمین رسول اللہ کی داڑی مبارک کی مقدار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
أن لحيته الشريفة عليه الصلاة والسلام لم تكن طويلة تملأ صدره ، بل تكاد تملأ نحره ، والنحر هو أعلى الصدر ، وهذا يدل على اعتدال طولها وتوسطه
(فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167
آپ علیہ السلام کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی جو سینے کو ڈھانپ دیتی ہو بلکہ آپ کی داڑی اتنی کہ جو سینے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی داڑی معتدل اور متوسط تھی۔
امام طبرانی ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی:224ھ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی بیان کرتے ہیں: أن تكون ''اللحية غير دقيقة ، ولا طويلة ، ولكن فيها كثاثة من غير عِظَمٍ ولا طول ( المعجم الكبير " (22/159)
یعنی آپ کی داڑی نہ کم بالوں والی تھی اور نہ لمبی تھی،بلکہ اس میں گھنے بال تھے جو بڑے اور لمبے نہ تھے۔
امام ابو العباس قرطبی آپ کی داڑی مبارک کے متعلق رقم طراز ہیں:
''لا يفهم من هذا – يعني قوله ( كثير شعر اللحية ) - أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ".
''المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (6/135)
آپ کی داڑی کے بال زیادہ تھے اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کی آپ کی داڑی لمبی تھی، یہ بات تو بکل درست ہے کہ آپ کی داڑی کے بال گھرے تھے،یعنی زیادہ بالوں والی جو لمبی نہ تھی۔
حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں: فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة
آپ کی داڑی میں گھنے بال اور گولائی تھی اور آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی۔ (فتح الباری:178/I
علامہ ابن منظور افریقی رسول اللہ کی داڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:أنه كان كث اللحية : أراد كثرة أصولها وشعرها وأنها ليست بدقيقة ولا طويلة ، وفيها كثافة
آپ گھنی داڑی والے تھے،اس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ کی داڑی میں بہت زیادہ بال تھے، آپ کی داڑی باریک اور لمبی نہیں تھی،آپ کی داڑی میں کثافت تھی۔
179/2
امام سیوطی آپ کی داڑی کے متعلق لکھتے ہیں: الكثوثة أن تكون غير دقيقة ولا طويلة ولكن فيها كثافة ) الديباج على مسلم ( 3/160)
کثافت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی داڑی لمبی اور باریک نہیں تھی۔ بلکہ بالوں سے بھری ہوئی تھی۔
علامہ مناوی فیض القدیر میں رقم طراز ہیں:
كثيف اللحية لا دقيقها ولا طويلها ، وفيها كثافة۔( فيض القدير 5/81)
یعنی آپ کی داڑی گھنی تھی جو باریک اور لمبی نہ تھی،اس میں بال بہت زیادہ تھے۔
یہ دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی مبارک معتدل و متوسط تھی،اس لیے آپ کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
اور جن روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی تھی وہ ساری ساری کی ضعیف ہیں،اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب محمد بن صالح العثیمین رقم طراز ہیں:
(وأما وصف لحيته صلى الله عليه وسلم بأنها كانت تملأ صدره الشريف عليه الصلاة والسلام : فهذا لم نقف عليه مسندا مأثورا)
اور جہاں تک رسول اکرم کی ڈاڑھی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ اتنی لمبی تھی کہ آپ کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی،اس بارے میں ہمیں کوئی مستند چیز نہیں ملی۔
) فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167
آثار صحابہ و تابعین:اسی طرح امام ابو حاتم نے اس راوی کے متعلق لا بأس به کہہ کر اس کی جہالت کو ختم کر دیا ہے: ذهب إليه أبو حاتم في " الجرح والتعديل " (9/293) من قوله فيه : لا بأس به)
بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے مندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سے اس حدیث کا معنی درست قرار پاتا ہے۔
محمد بن صالح عثیمین رسول اللہ کی داڑی مبارک کی مقدار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
أن لحيته الشريفة عليه الصلاة والسلام لم تكن طويلة تملأ صدره ، بل تكاد تملأ نحره ، والنحر هو أعلى الصدر ، وهذا يدل على اعتدال طولها وتوسطه
(فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167
آپ علیہ السلام کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی جو سینے کو ڈھانپ دیتی ہو بلکہ آپ کی داڑی اتنی کہ جو سینے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی داڑی معتدل اور متوسط تھی۔
امام طبرانی ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی:224ھ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی بیان کرتے ہیں: أن تكون ''اللحية غير دقيقة ، ولا طويلة ، ولكن فيها كثاثة من غير عِظَمٍ ولا طول ( المعجم الكبير " (22/159)
یعنی آپ کی داڑی نہ کم بالوں والی تھی اور نہ لمبی تھی،بلکہ اس میں گھنے بال تھے جو بڑے اور لمبے نہ تھے۔
امام ابو العباس قرطبی آپ کی داڑی مبارک کے متعلق رقم طراز ہیں:
''لا يفهم من هذا – يعني قوله ( كثير شعر اللحية ) - أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ".
''المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (6/135)
آپ کی داڑی کے بال زیادہ تھے اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کی آپ کی داڑی لمبی تھی، یہ بات تو بکل درست ہے کہ آپ کی داڑی کے بال گھرے تھے،یعنی زیادہ بالوں والی جو لمبی نہ تھی۔
حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں: فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة
آپ کی داڑی میں گھنے بال اور گولائی تھی اور آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی۔ (فتح الباری:178/I
علامہ ابن منظور افریقی رسول اللہ کی داڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:أنه كان كث اللحية : أراد كثرة أصولها وشعرها وأنها ليست بدقيقة ولا طويلة ، وفيها كثافة
آپ گھنی داڑی والے تھے،اس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ کی داڑی میں بہت زیادہ بال تھے، آپ کی داڑی باریک اور لمبی نہیں تھی،آپ کی داڑی میں کثافت تھی۔
179/2
امام سیوطی آپ کی داڑی کے متعلق لکھتے ہیں: الكثوثة أن تكون غير دقيقة ولا طويلة ولكن فيها كثافة ) الديباج على مسلم ( 3/160)
کثافت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی داڑی لمبی اور باریک نہیں تھی۔ بلکہ بالوں سے بھری ہوئی تھی۔
علامہ مناوی فیض القدیر میں رقم طراز ہیں:
كثيف اللحية لا دقيقها ولا طويلها ، وفيها كثافة۔( فيض القدير 5/81)
یعنی آپ کی داڑی گھنی تھی جو باریک اور لمبی نہ تھی،اس میں بال بہت زیادہ تھے۔
یہ دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی مبارک معتدل و متوسط تھی،اس لیے آپ کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
اور جن روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی تھی وہ ساری ساری کی ضعیف ہیں،اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب محمد بن صالح العثیمین رقم طراز ہیں:
(وأما وصف لحيته صلى الله عليه وسلم بأنها كانت تملأ صدره الشريف عليه الصلاة والسلام : فهذا لم نقف عليه مسندا مأثورا)
اور جہاں تک رسول اکرم کی ڈاڑھی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ اتنی لمبی تھی کہ آپ کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی،اس بارے میں ہمیں کوئی مستند چیز نہیں ملی۔
) فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167
قربانی کرنے کے بعد سر کے بالوں کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زیادہ بالوں کو بھی کاٹا جائے گا،اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عباس کی وہ تفسیر ہے جو انھوں ولیقضو تفثهم کی تفسیر کرتے ہوئے کی ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں:
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار)
(معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح)
ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. تفسیر الطبری:612/18،سنده صحیح)
أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ»
مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سنده صحيح،سلسلة الأحاديث الضعيفة،376/5رقم الحديث: 2355،
گویا کہ سیدناعبد اللہ بن عباس کے نزدیک قربانی کرنے کے بعد سر منڈوایا جائے گا، یاسر کے کچھ بال کاٹے جائیں گے،اس کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زائد بال،مونچھ کے بال اور زیر ناف بال بھی کاٹے جائیں گے،رمی،جانور ذبح کرنااور ناخن کاٹنا وغیرہ بھی تفث میں شامل ہے۔
یہ عبد اللہ بن عباس سے تفث کی منقول تفسیر ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے،امت مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دیا ہے، آپ کی فضیلت میں بیان ہوئی صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا:
اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما !
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : ذكر ابن عباس رضى الله عنهما ، حدیث : 3801
کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔
گويا ان كو رسول اكرم ﷺ نے تفسير قرآن كا سرٹيفكيٹ ديا تھا۔ آپ کے شاگردوں نے آپ سے علم تفسیر حاصل کرکے دور دراز علاقوں تک پہنچایا، ہر دور میں آپ کے تفسیری اقوال کی اہمیت مسلم رہی ہے، مشکل آیات کی تفسیر کے لئے آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ سعید بن جبیراور حضرت مجاہد جیسی شخصیات آپ کے شاگرد ہیں۔
یہی ابن عباس ہیں کہ جن کی تفسیر کو حدیث مرفوع کے برابر سمجھا جاتا ہے،جب عورت کے چہرے کی بات ہوتی ہے تو ان کی تفسیر کو سند کے ضعیف ہونے کے باوجود حدیث مرفوع کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اسی طرح محمد بن کعب اور مفسر شہیر جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بھی اس آیت (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) کی ایسی ہی تفسیر منقول ہے۔( طبری لابن جرير:(17/149) و(17/149)بسند حسن.
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر کا یہ عمل تو بخاری اور موطا میں موجود ہے: (( وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث: 5892)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج یا عمرہ کا ارادہ کرتے تو اپنی داڑھی مبارک مٹھی میں لیتے جو مٹھی سے زیادہ ہوتی تو اس کو کاٹ ڈالتے ۔
(( أن عبد الله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيأ حتى يحج )) (موطأ امام مالک:رقم الحدیث: 1396
سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رمضان المبارک سےفارغ ہوتے اور حج کا ارادہ بھی ہوتا تو اپنی داڑھی اور سر کے بال نہ کاٹتےتھے یہاں تک کہ حج مبارک سے فارغ ہوتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شوال اور ذی قعدہ اور عشرہ ذی الحج تک نہیں کتراتے تھے ،باقی مہینوں میں قبضے سے اگر زائد ہوجاتی تھی تو کتراتے تھے۔
چوں کہ ابن عمر،ابن عباس،عبد اللہ بن جابر اور ابو ہریرہ اس حدیث کے رواۃ ہیں ،لہذا وہی اس حدیث کا معنی بہتر سمجھتے ہیں،اصول فقہ کی کتابوں میں یہ اصول موجود ہے : الرَّاوِي أدرى بِمَا يرويهِ وَأعرف
(إجابة السائل شرح بغية الآمل، امير صنعاني:419)
یعنی راوی اپنی بیان کردہ روایت کا معنی دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ چناں چہ اس روایت کے راوی عبد اللہ بن عمر ہیں اور وہ اس معنی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ا یک مشت کے ہیں،یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔
حافظ ابن عبد البر عبد اللہ بن عمر کے اس عمل کے متعلق لکھتے ہیں:
(( وفي أخذ بن عُمَرَ مِنْ آخِرِ لِحْيَتِهِ فِي الْحَجِّ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ فِي غَيْرِ الْحَجِّ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ غَيْرُ جَائِزٍ مَا جَازَ فِي الْحَجِّ لِأَنَّهُمْ أُمِرُوا أَنْ يَحْلِقُوا أَوْ يُقَصِّرُوا إِذَا حَلُّوا مَحَلَّ حَجِّهِمْ مَا نهوا عنه في حجهم، وابن عُمَرَ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم أعفوا اللحا وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى فَكَانَ الْمَعْنَى عِنْدَهُ وَعِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ الْأَخْذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا تَطَايَرَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ)) (ابن عبد البر ،الاستذكار:4/317)
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایام حج میں اپنی داڑھی کے آگے سے بال لینا اس بات پر دلیل ہے کہ غیر ایام حج میں بھی یہ فعل جائز ہے، کیونکہ اگر یہ فعل تمام اوقات میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی جائز ناہوتا، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو تو یہ حکم تھا کہ جب وہ حج سے فارغ ہوں تو وہ اپنے بال منڈوادیں یا کتروادیں جس سے ان کو احرام کی حالت میں روکا گیا تھا اورعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے: اعفوا اللحی (داڑھیوں کو بڑھاؤ) اور خود مٹھی سے بال زیادہ لیتے تھے۔ اس حدیث کا مطلب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ خوب جانتے ہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے کہ وہ بال ليے جائيں جو زائد اور پراگندہ ہوں اور بُرے معلوم ہوں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے ان لوگوں(امام کرمانی وغیرہ) کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ابن عمر کا یہ عمل حج کے ساتھ خاص تھا: ''أَن بن عُمَرَ كَانَ لَا يَخُصُّ هَذَا التَّخْصِيصَ بِالنُّسُكِ''
(فتح الباری:350/1o)
یعنی ابن عمر اس عمل(ڈاڑھی کٹانے) کو صرف حج کے خاص نہیں کرتے تھے۔
نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلاء میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں لکھتےہیں:
"واز فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ است کہ گفتہ ابن عمر روى حديث اعفاء اللحية وكان مع ذلك يمسك لحية فما فضل عن القبضة أخذه انه لما ذكر رسول الله صلي الله عليه وسلم اعفاء اللحية كلمه أصحابه فقال يمسك قبضة فما جاوز ذلك جزه ان شاء فلعل ابن عمر بلغه هذا من حديث رسول الله صلي الله عليه وسلم فذهب اليه وإلا فالا عفاء يابي ذلك ولكن لما رواه ابن عمر وأخذ ما جاوز القبضة مع شدة تحريه وورعه واتباعه للسنة دل على أن عنده من ذلك عما بالرخصة )) (اتحاف:ج10ص:373)
''فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعفاء اللحية کی حدیث روایت کی ہے :
اس کے بادجود وہ مشت سے زائد بال کاٹ دیتے تھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعفاء اللحية اور (وغیرہ)کا امر فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس بارے میں گفتگو کی( کہ زیادہ بھاری لمبی داڑھی میں تکلیف ہوتی ہے)تو آپ نے فرمایا : داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو زائد بال ہوں ان کےکٹانے کا اختیار ہے، شاید ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) یہ حدیث پہنچی ہو گی اسی بنا پر وہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے ورنہ اعفاءاللحیۃ (وغیرہ) کی حدیث اس (کٹانے) سے روکتی ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف کس طرح کر سکتے تھے حالانکہ وہ بڑے محتاط بڑے پرہیز گار اور متبع سنت تھے ۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ان کو مٹھی سے زائد کٹانے کی حدیث کا علم تھا۔
ابو ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے: عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
قال الألباني في (الضعيفة): (إسناده صحيح على شرط مسلم:رقم الحدیث: 6203)
اسی طرح جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود: (4 / 136)
یعنی ہم(صحابہ) صرف حج یا عمرے کے موقع پر داڑی کٹاتے تھے۔
اس حدیث کی سند پر ابو زبیر کی تدلیس کا اعتراض ہے،لیکن ہم دیگر صحابہ کرام عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،سیدنا ابو ہریرہ وغیرہم کے عمل کو اس حدیث کی سند کے لیے شاہد بنا سکتے ہیں۔مزید اس حدیث کی سند کی صحت کے لیے یہ آثار بھی دلیل ہیں:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ (کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں)اس صورت میں سوائے اس کے کہ ان کے فعل او ر روایت میں تطبیق دی جائے،اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
جن احادیث میں داڑیوں کو بڑھانےاور پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان احادیث کے راویوں میں عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن جابر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے نام قابل ذکر ہیں اور ان تمام صحابہ کرام سے بسند صحیح مشت سے زائد داڑی کٹانا ثابت ہے۔
کیا داڑی کے معاملے میں صحابی کا عمل حجت ہے؟حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار)
(معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح)
ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. تفسیر الطبری:612/18،سنده صحیح)
أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ»
مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سنده صحيح،سلسلة الأحاديث الضعيفة،376/5رقم الحديث: 2355،
گویا کہ سیدناعبد اللہ بن عباس کے نزدیک قربانی کرنے کے بعد سر منڈوایا جائے گا، یاسر کے کچھ بال کاٹے جائیں گے،اس کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زائد بال،مونچھ کے بال اور زیر ناف بال بھی کاٹے جائیں گے،رمی،جانور ذبح کرنااور ناخن کاٹنا وغیرہ بھی تفث میں شامل ہے۔
یہ عبد اللہ بن عباس سے تفث کی منقول تفسیر ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے،امت مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دیا ہے، آپ کی فضیلت میں بیان ہوئی صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا:
اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما !
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : ذكر ابن عباس رضى الله عنهما ، حدیث : 3801
کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔
گويا ان كو رسول اكرم ﷺ نے تفسير قرآن كا سرٹيفكيٹ ديا تھا۔ آپ کے شاگردوں نے آپ سے علم تفسیر حاصل کرکے دور دراز علاقوں تک پہنچایا، ہر دور میں آپ کے تفسیری اقوال کی اہمیت مسلم رہی ہے، مشکل آیات کی تفسیر کے لئے آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ سعید بن جبیراور حضرت مجاہد جیسی شخصیات آپ کے شاگرد ہیں۔
یہی ابن عباس ہیں کہ جن کی تفسیر کو حدیث مرفوع کے برابر سمجھا جاتا ہے،جب عورت کے چہرے کی بات ہوتی ہے تو ان کی تفسیر کو سند کے ضعیف ہونے کے باوجود حدیث مرفوع کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اسی طرح محمد بن کعب اور مفسر شہیر جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بھی اس آیت (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) کی ایسی ہی تفسیر منقول ہے۔( طبری لابن جرير:(17/149) و(17/149)بسند حسن.
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر کا یہ عمل تو بخاری اور موطا میں موجود ہے: (( وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث: 5892)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج یا عمرہ کا ارادہ کرتے تو اپنی داڑھی مبارک مٹھی میں لیتے جو مٹھی سے زیادہ ہوتی تو اس کو کاٹ ڈالتے ۔
(( أن عبد الله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيأ حتى يحج )) (موطأ امام مالک:رقم الحدیث: 1396
سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رمضان المبارک سےفارغ ہوتے اور حج کا ارادہ بھی ہوتا تو اپنی داڑھی اور سر کے بال نہ کاٹتےتھے یہاں تک کہ حج مبارک سے فارغ ہوتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شوال اور ذی قعدہ اور عشرہ ذی الحج تک نہیں کتراتے تھے ،باقی مہینوں میں قبضے سے اگر زائد ہوجاتی تھی تو کتراتے تھے۔
چوں کہ ابن عمر،ابن عباس،عبد اللہ بن جابر اور ابو ہریرہ اس حدیث کے رواۃ ہیں ،لہذا وہی اس حدیث کا معنی بہتر سمجھتے ہیں،اصول فقہ کی کتابوں میں یہ اصول موجود ہے : الرَّاوِي أدرى بِمَا يرويهِ وَأعرف
(إجابة السائل شرح بغية الآمل، امير صنعاني:419)
یعنی راوی اپنی بیان کردہ روایت کا معنی دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ چناں چہ اس روایت کے راوی عبد اللہ بن عمر ہیں اور وہ اس معنی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
عبد اللہ بن عمر کے نزدیک اعفاء کے معنی ہی ا یک مشت کے ہیں،یہی بات امام خلال نے کتاب الترجل میں بیان کی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے اعفاءکے بارے میں سوال ہوا تو انہوں جواب دیا :کان هذا عنده الإعفاء،عبد الله بن عمر کے نزدیک ایک مشت داڑی ہی اعفاء ہے۔
حافظ ابن عبد البر عبد اللہ بن عمر کے اس عمل کے متعلق لکھتے ہیں:
(( وفي أخذ بن عُمَرَ مِنْ آخِرِ لِحْيَتِهِ فِي الْحَجِّ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ فِي غَيْرِ الْحَجِّ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ غَيْرُ جَائِزٍ مَا جَازَ فِي الْحَجِّ لِأَنَّهُمْ أُمِرُوا أَنْ يَحْلِقُوا أَوْ يُقَصِّرُوا إِذَا حَلُّوا مَحَلَّ حَجِّهِمْ مَا نهوا عنه في حجهم، وابن عُمَرَ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم أعفوا اللحا وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى فَكَانَ الْمَعْنَى عِنْدَهُ وَعِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ الْأَخْذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا تَطَايَرَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ)) (ابن عبد البر ،الاستذكار:4/317)
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایام حج میں اپنی داڑھی کے آگے سے بال لینا اس بات پر دلیل ہے کہ غیر ایام حج میں بھی یہ فعل جائز ہے، کیونکہ اگر یہ فعل تمام اوقات میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی جائز ناہوتا، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو تو یہ حکم تھا کہ جب وہ حج سے فارغ ہوں تو وہ اپنے بال منڈوادیں یا کتروادیں جس سے ان کو احرام کی حالت میں روکا گیا تھا اورعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے: اعفوا اللحی (داڑھیوں کو بڑھاؤ) اور خود مٹھی سے بال زیادہ لیتے تھے۔ اس حدیث کا مطلب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ خوب جانتے ہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے کہ وہ بال ليے جائيں جو زائد اور پراگندہ ہوں اور بُرے معلوم ہوں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے ان لوگوں(امام کرمانی وغیرہ) کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ابن عمر کا یہ عمل حج کے ساتھ خاص تھا: ''أَن بن عُمَرَ كَانَ لَا يَخُصُّ هَذَا التَّخْصِيصَ بِالنُّسُكِ''
(فتح الباری:350/1o)
یعنی ابن عمر اس عمل(ڈاڑھی کٹانے) کو صرف حج کے خاص نہیں کرتے تھے۔
نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلاء میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں لکھتےہیں:
"واز فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ است کہ گفتہ ابن عمر روى حديث اعفاء اللحية وكان مع ذلك يمسك لحية فما فضل عن القبضة أخذه انه لما ذكر رسول الله صلي الله عليه وسلم اعفاء اللحية كلمه أصحابه فقال يمسك قبضة فما جاوز ذلك جزه ان شاء فلعل ابن عمر بلغه هذا من حديث رسول الله صلي الله عليه وسلم فذهب اليه وإلا فالا عفاء يابي ذلك ولكن لما رواه ابن عمر وأخذ ما جاوز القبضة مع شدة تحريه وورعه واتباعه للسنة دل على أن عنده من ذلك عما بالرخصة )) (اتحاف:ج10ص:373)
''فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعفاء اللحية کی حدیث روایت کی ہے :
اس کے بادجود وہ مشت سے زائد بال کاٹ دیتے تھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعفاء اللحية اور (وغیرہ)کا امر فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس بارے میں گفتگو کی( کہ زیادہ بھاری لمبی داڑھی میں تکلیف ہوتی ہے)تو آپ نے فرمایا : داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو زائد بال ہوں ان کےکٹانے کا اختیار ہے، شاید ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) یہ حدیث پہنچی ہو گی اسی بنا پر وہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے ورنہ اعفاءاللحیۃ (وغیرہ) کی حدیث اس (کٹانے) سے روکتی ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف کس طرح کر سکتے تھے حالانکہ وہ بڑے محتاط بڑے پرہیز گار اور متبع سنت تھے ۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ان کو مٹھی سے زائد کٹانے کی حدیث کا علم تھا۔
ابو ہریرہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں اس طرح بیان ہوا ہے: عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
قال الألباني في (الضعيفة): (إسناده صحيح على شرط مسلم:رقم الحدیث: 6203)
اسی طرح جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود: (4 / 136)
یعنی ہم(صحابہ) صرف حج یا عمرے کے موقع پر داڑی کٹاتے تھے۔
اس حدیث کی سند پر ابو زبیر کی تدلیس کا اعتراض ہے،لیکن ہم دیگر صحابہ کرام عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،سیدنا ابو ہریرہ وغیرہم کے عمل کو اس حدیث کی سند کے لیے شاہد بنا سکتے ہیں۔مزید اس حدیث کی سند کی صحت کے لیے یہ آثار بھی دلیل ہیں:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ (کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں)اس صورت میں سوائے اس کے کہ ان کے فعل او ر روایت میں تطبیق دی جائے،اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
جن احادیث میں داڑیوں کو بڑھانےاور پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان احادیث کے راویوں میں عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن جابر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے نام قابل ذکر ہیں اور ان تمام صحابہ کرام سے بسند صحیح مشت سے زائد داڑی کٹانا ثابت ہے۔
میرے خیال میں یہی وہ اہم بات ہے جس کو سمجھنا انتہائی اہم ہے،صحیح بات تو یہی ہے کہ شریعت میں کسی صحابی کا کوئی عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی قول شریعت سازی کر سکتا ہے۔لیکن یہاں بات نہیں ہے کہ صحابی کا قول و فعل حجت ہے یا نہیں ہے،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا فہم اور معنی معتبر ہے،وہ فہم جو چودہویں پندروھویں صدی کا ایک عالم پیش کرکرہا ہے یا وہ فہم جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت ہے؟
ہم تو وہی فہم معتبر سمجھتے ہیں جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے،ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی،تابعی یا تبع تابعی سے بسند صحیح نے ایک مٹھی سے زائد داڑی کٹوانے کو حرام یا ناجائز قرار نہیں دیا۔
حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سلف کاخلاف جائز نہیں ہے،کیوں کہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے۔(فتاوی اہل حدیث:111/1
اہم فوائد:ہم تو وہی فہم معتبر سمجھتے ہیں جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے،ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی،تابعی یا تبع تابعی سے بسند صحیح نے ایک مٹھی سے زائد داڑی کٹوانے کو حرام یا ناجائز قرار نہیں دیا۔
حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سلف کاخلاف جائز نہیں ہے،کیوں کہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے۔(فتاوی اہل حدیث:111/1
راوی کی روایت کو لیا جائے گا اور اس کی رائے کو ترک کردیا جائے گا:''العبرة برواية الراوي لا برأيه'' بعض علماء فقہ کے اس اصول کویک مشت سے زائد ڈاڑھی کے کاٹنے پر لاگو کرتے ہیں،حالاں کہ یہ اصول اس جگہ نافذ نہیں ہوتا کیوں یہاں راوی کی رائے نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام نے شریعت کی مراد کو ہم تک اپنے فہم وعمل کے ذریعے پہچایا ہےاور یہ ایک صحابی کا فہم وعمل نہیں ہے بلکہ ان تمام(چاروں) صحابہ کرام کا فہم وعمل ہے جو ڈاڑھی کی حدیث کے رواۃ ہیں،کیا ان تمام صحابہ نے اس روایت کو بیان کرکے اس کی مخالفت کی ہے،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام ایک عمل کو رسول اکرم سے بیان کریں کہ یہ مجوس اور مشرکین کا عمل ہے اور پھر خود ہی حج و عمرہ کے مقدس موقع پر مجوس و مشرکین کے اس عمل کو انجام دیں اور مستزاد یہ کہ وہ سنت پر تمام صحابہ سے بڈھ کر عمل کرنے والے ہوں،ان پر کوئی نکیر بھی نہ کرے،جب کہ کبار صحابہ کرام بھی وہاں موجود ہوں،ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی یا تابعی سے اس کام کی نکیر یا حرمت ثابت نہیں ہے۔جب کہ اس برعکس متعدد صحابہ اور تابعین کی رائے موجود ہے۔
فائدہ:اگر کسی صحابی کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنا حرام ہے،بعض علماء کرام نے سیدنا علی کے حوالے سے لکھا ہے ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی،لیکن ہمارے علم کے مطابق سیدنا علی سے یہ بات صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں کہ ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی۔
بعض علمائے کرام نے سیدنا عمر بن خطاب کے تین طلاقوں کے نفاذ کے معاملے دلیل بنا کر یہ کہا کہ اگر ہم ڈاڑھی کے مسئلہ میں صحابہ کرام کی رائے کو تسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں سیدنا عمر بن خطا ب تین طلاقوں کے نفاذ کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے،ہم یہ کہتے ہیں ڈاڑھی کے کاٹنے کے مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ وہ ایک جز وقتی تعزیری معاملہ تھا،اس تعزیر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس عمل سے باز آجائیں۔تین طلاقوں کو نافذ کرتے وقت خلیفہ راشد اور دیگر اصحاب کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گیااورعملی طور اس کا وقوع رسول اللہ کے دور میں ابن رکانہ کی طلاق کی صورت میں ہوگیا تھا۔
کیا شارحین حدیث میں سے کسی شارح نے اعفاء اللحیہ کو مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ کے مسئلے پر قیاس کیا ہے۔برصغیر کے اہل حدیث علماء داڑھی کاٹنے کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے ایسی چیزوں کو دلیل بناتے ہیں جنھیں اس دور سے پہلے کبھی کسی نے بھی دلیل نہ بنایا ہو۔
اسی طرح عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کا جواز( ان سے اس کی حرمت بھی ثابت ہے) اور سیدنا ابو ہریرہ کا کتے کےچاٹے ہوئے برتن کو تین بار دھونے سے پاک قرار دینا،سیدنا عمر بن خطاب کا حج قران سے منع کرنا(حالاں کہ اس معاملے میں عبد اللہ بن عمر کی نکیر بھی موجود ہے)سیدہ عائشہ کا سفر میں چار رکعتیں پڈھنا( جب کہ سفر میں قصر نہ کرنا بھی جائز ہے) اور ان کا بلوغت کے بعد رضاعت کو ثابت کرنا،یہ تمام مسائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تفردات ہیں،ان تفردات کو ڈاڑھی کے راویوں کے اجتماعی فہم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
فقہی قاعدہ:بعض علمائے کرام نے سیدنا عمر بن خطاب کے تین طلاقوں کے نفاذ کے معاملے دلیل بنا کر یہ کہا کہ اگر ہم ڈاڑھی کے مسئلہ میں صحابہ کرام کی رائے کو تسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں سیدنا عمر بن خطا ب تین طلاقوں کے نفاذ کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے،ہم یہ کہتے ہیں ڈاڑھی کے کاٹنے کے مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ وہ ایک جز وقتی تعزیری معاملہ تھا،اس تعزیر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس عمل سے باز آجائیں۔تین طلاقوں کو نافذ کرتے وقت خلیفہ راشد اور دیگر اصحاب کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گیااورعملی طور اس کا وقوع رسول اللہ کے دور میں ابن رکانہ کی طلاق کی صورت میں ہوگیا تھا۔
کیا شارحین حدیث میں سے کسی شارح نے اعفاء اللحیہ کو مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ کے مسئلے پر قیاس کیا ہے۔برصغیر کے اہل حدیث علماء داڑھی کاٹنے کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے ایسی چیزوں کو دلیل بناتے ہیں جنھیں اس دور سے پہلے کبھی کسی نے بھی دلیل نہ بنایا ہو۔
اسی طرح عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کا جواز( ان سے اس کی حرمت بھی ثابت ہے) اور سیدنا ابو ہریرہ کا کتے کےچاٹے ہوئے برتن کو تین بار دھونے سے پاک قرار دینا،سیدنا عمر بن خطاب کا حج قران سے منع کرنا(حالاں کہ اس معاملے میں عبد اللہ بن عمر کی نکیر بھی موجود ہے)سیدہ عائشہ کا سفر میں چار رکعتیں پڈھنا( جب کہ سفر میں قصر نہ کرنا بھی جائز ہے) اور ان کا بلوغت کے بعد رضاعت کو ثابت کرنا،یہ تمام مسائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تفردات ہیں،ان تفردات کو ڈاڑھی کے راویوں کے اجتماعی فہم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
'' كل جزئية من الدليل العام لم يجري عليها عمل السلف فالأخذ بها بدعة''
'' اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے۔''
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلف صالحین کتاب و سنت کی دلالت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،چناں چہ سلف کسی نص آنے پر اس کے عموم پر عمل نہ کیا، بلکہ انھوں نے صرف اس نص کے بعض افراد پر عمل کیا ہو تو ایسے میں اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے،اگر اس نص کے عموم پر عمل مشروع ہوتا تو سلف اس پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوتے۔
اس موقع پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ واعفوا اللحى ایک عام نص ہے لیکن سلف صالحین نے اس کے عموم پر عمل نہیں کیا،بلکہ اس کے خاص افراد پر عمل کیا،لہذا اگر اس نص کے عموم پر عمل کیا جائے تو یہ غیر مشروع ہوگا،بلکہ بعض نامور محقق علماء نے تو یک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کی حرمت والے قول کو بدعات اضافیہ میں شامل کیا ہے۔یہ ایسی بدعت کا نام ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی طرف منسوب کی جاتی ہے، لیکن شریعت نے اس امر کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے، یہ اس سے متجاوز ہو جاتی ہے۔
داڑھی کے بارے میں بعض روایات میں 'أَعْفُوا اللِّحٰی' اور 'وَفِّرُوا اللِّحٰی' اور 'أَرْخُوا اللِّحٰی' کے جوا لفاظ آئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امر مطلق ہے؟اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے 'لیکن کیامطلق طور پر داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے یا کسی حد تک چھوڑنا واجب ہے؟ صحابہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے ایک مشت سے زائداپنی داڑھی کی تراش خراش کی ہے' جس سے ثابت ہوا کہ ان صحابہ کے نزدیک آپ کا داڑھی رکھنے کا حکم تو وجوب کے لیے تھا، لیکن وہ حکم اپنے اطلاق میں واجب نہ تھا۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ) وَکَانَ ابْنُ عُمَرَا ِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَته فَمَا فَضْلَ أَخَذَه)
''مشرکین کی مخالفت کرو 'داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کم کرو'' ۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر جب حج یا عمرہ'کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے تھے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوتے تھے ان کو کاٹ دیتے تھے۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے ۔
ایک مشت سے زائد داڑی کٹانے كی ایک دلیل وہ اثر بھی ہے جس میں تابعین عظام نے داڑی کٹانے کے عمل کو صحابہ کرام اور تابعین کی جانب منسوب کیا ہے،جس کے الفاظ محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جلیل القدر تابعی جناب امام طاؤوس بھی(مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے قائل تھے۔
(الترجل للخلال:ص:96،سنده صحيح)
سيدنا ابو بكر كے پوتےقاسم بن محمد بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور(مشت سے زائد) داڑی کے بال کاٹتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ:رقم الحدیث:25476،سندہ صحیح)
محمد بن کعب القرظی نامور تابعی اور ثقہ عالم حج میں داڑی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔
(تفسیر ابن جریر طبری:109/17،سندہ حسن)
ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:110/17،سندہ صحیح)
اور موطا امام مالک میں ہے:
ائمہ اربعہ اور داڑی:
وقد روى ابن القاسم عن مالك: لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية وشذ ، قيل لمالك فإذا طالت جدا قال : أرى أن يؤخذ منها وتقص
(المنتقى شرح الموطأ:حديث رقم :1488)
جناب ابن قاسم نے امام مالک سے بیان کیا ہے کہ زیادہ بڈھی ہوئی داڑی کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔امام مالک سے سوال ہوا جب داڑی بہت زیادہ بڑی ہو جائے تو ؟انھوں جواب دیا کہ میرے خیال میں اس کو
کاٹ دیا جائے۔
جناب قاضی عیاض کا قول ہے: أما الأخذ من طولها و عرضها فحسن
(الإكمال في شرح مسلم:1/120)
جہاں تک داڑی کے طول و عرض سے کاٹنے کا مسئلہ ہے تو یہ پسندیدہ ہے۔
امام ابو یوسف نے جناب ابراہیم نخعی سے ان کو قول نقل کیا ہے: لا بأس أن يأخذ الرجل من لحيته مالم يتشبه بأهل الشرك۔ (كتاب الأثر:ص:235)
جتنی مقدار سے اہل شرک سے مشابہت نہ ہو تو اتنی مقدار میں داڑی کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دیگر احناف کا بھی داڑی کو کاٹنے کے حوالے سے یہی موقف ہے، بلکہ ایک مشت داڑی کاٹنے کو سنت لکھا ہے: ''القص سنة فيها '' (الفتاوى الهندية)(5/358)
امام شافعی نے الام میں داڑی کو کاٹنے کے بارے میں لکھا ہے:
''فمن توضأ ثم أخذ من أظفاره ،ورأسه و لحيته، و شاربه، لم يك عليه إعادة وضوء، وهذا زيادة نظافة و طهارة'' (الأم :1/21)
جس نے وضو کیا اور پھر اس نے اپنے ناخن،سر، داڑی اور مونچھوں کے بال کاٹے،اس پر دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ تو مزید طہارت و صفائی ہے۔
حافظ ابن حجر نے تو امام شافعی کے بارے یہاں تک لکھا ہے: الشافعي نص على استحبابه الأخذ منها في النسك (فتح الباري)(10/350)
امام شافعی نے حج و عمرہ کے موقع پر(یک مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے مستحب ہونے پر نص بیان کی ہے۔
علامہ ذہبی نے ابو ابراہیم مزنی سے بیان کیا ہے: مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ وَجْهاً مِنَ الشَّافِعِيِّ -رَحِمَهُ اللهُ- وَكَانَ رُبَّمَا قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَلاَ يَفْضُلُ عَنْ قَبْضَتِهِ
میں نے امام شافعی کے چہرے سے زیادہ خوب صورت چہرہ نہیں دیکھا،وہ بعض اوقات اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے تھے تو وہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
جناب ابن ہانی نے امام احمد بن حنبل سےلکھا ہے:
''الأخذ بما زاد عن القبضة '' (ابن هاني في مسائله للأمام أحمد :2/15)
جو داڑی مشت سے زائد ہو اسے کاٹ دیا جائے۔
ابو بکر خلال نے لکھا ہے کہ اسحاق بن حنبل کہتے ہیں:
سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنِ الرَّجُلِ يَأْخُذُ مِنْ عَارِضَيْهِ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا فَضُلَ عَنِ الْقَبْضَةِ.قُلْتُ: فَحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:((أَحِفُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى)) ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنْ طُولِهَا وَمِنْ تَحْتِ حَلْقِهِ.
)الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد بن حنبل ،ابو بکر الخلال:ص:130
میں نے امام احمد سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے آپ کیا خیال ہے جو اپنی داڑی کو کاٹتا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا:جو داڑی قبضے سے زائد ہو وہ اسے کاٹ سکتا ہے،جناب اسحاق نے بیان کیا ہے کہ میں نے کہا کہ حدیث رسول تو یہ ہے کہ مونچھوں کو پست کرو اور داڑیوں کو بڈھاؤ تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑی کو لمبائی اور اپنے حلق کے نیچے سے کاٹا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
وأما إعفاء اللحية، فإنه يترك، ولو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره، نص عليه'' ( شرح العمدة في الفقه :1/236)
داڑی کو بڈھانے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر ایک مشت سے زائد داڑی کو کاٹ لیا جائے تو یہ جائز ہے،کیوں کہ اس پر نص موجود ہے۔
داڑی اور اہل حدیث علماء'' اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے۔''
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلف صالحین کتاب و سنت کی دلالت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،چناں چہ سلف کسی نص آنے پر اس کے عموم پر عمل نہ کیا، بلکہ انھوں نے صرف اس نص کے بعض افراد پر عمل کیا ہو تو ایسے میں اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے،اگر اس نص کے عموم پر عمل مشروع ہوتا تو سلف اس پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوتے۔
اس موقع پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ واعفوا اللحى ایک عام نص ہے لیکن سلف صالحین نے اس کے عموم پر عمل نہیں کیا،بلکہ اس کے خاص افراد پر عمل کیا،لہذا اگر اس نص کے عموم پر عمل کیا جائے تو یہ غیر مشروع ہوگا،بلکہ بعض نامور محقق علماء نے تو یک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کی حرمت والے قول کو بدعات اضافیہ میں شامل کیا ہے۔یہ ایسی بدعت کا نام ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی طرف منسوب کی جاتی ہے، لیکن شریعت نے اس امر کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے، یہ اس سے متجاوز ہو جاتی ہے۔
داڑھی کے بارے میں بعض روایات میں 'أَعْفُوا اللِّحٰی' اور 'وَفِّرُوا اللِّحٰی' اور 'أَرْخُوا اللِّحٰی' کے جوا لفاظ آئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امر مطلق ہے؟اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے 'لیکن کیامطلق طور پر داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے یا کسی حد تک چھوڑنا واجب ہے؟ صحابہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے ایک مشت سے زائداپنی داڑھی کی تراش خراش کی ہے' جس سے ثابت ہوا کہ ان صحابہ کے نزدیک آپ کا داڑھی رکھنے کا حکم تو وجوب کے لیے تھا، لیکن وہ حکم اپنے اطلاق میں واجب نہ تھا۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ) وَکَانَ ابْنُ عُمَرَا ِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَته فَمَا فَضْلَ أَخَذَه)
''مشرکین کی مخالفت کرو 'داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کم کرو'' ۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر جب حج یا عمرہ'کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے تھے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوتے تھے ان کو کاٹ دیتے تھے۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے ۔
ایک مشت سے زائد داڑی کٹانے كی ایک دلیل وہ اثر بھی ہے جس میں تابعین عظام نے داڑی کٹانے کے عمل کو صحابہ کرام اور تابعین کی جانب منسوب کیا ہے،جس کے الفاظ محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جلیل القدر تابعی جناب امام طاؤوس بھی(مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے قائل تھے۔
(الترجل للخلال:ص:96،سنده صحيح)
سيدنا ابو بكر كے پوتےقاسم بن محمد بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور(مشت سے زائد) داڑی کے بال کاٹتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ:رقم الحدیث:25476،سندہ صحیح)
محمد بن کعب القرظی نامور تابعی اور ثقہ عالم حج میں داڑی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔
(تفسیر ابن جریر طبری:109/17،سندہ حسن)
ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:110/17،سندہ صحیح)
اور موطا امام مالک میں ہے:
ائمہ اربعہ اور داڑی:
وقد روى ابن القاسم عن مالك: لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية وشذ ، قيل لمالك فإذا طالت جدا قال : أرى أن يؤخذ منها وتقص
(المنتقى شرح الموطأ:حديث رقم :1488)
جناب ابن قاسم نے امام مالک سے بیان کیا ہے کہ زیادہ بڈھی ہوئی داڑی کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔امام مالک سے سوال ہوا جب داڑی بہت زیادہ بڑی ہو جائے تو ؟انھوں جواب دیا کہ میرے خیال میں اس کو
کاٹ دیا جائے۔
جناب قاضی عیاض کا قول ہے: أما الأخذ من طولها و عرضها فحسن
(الإكمال في شرح مسلم:1/120)
جہاں تک داڑی کے طول و عرض سے کاٹنے کا مسئلہ ہے تو یہ پسندیدہ ہے۔
امام ابو یوسف نے جناب ابراہیم نخعی سے ان کو قول نقل کیا ہے: لا بأس أن يأخذ الرجل من لحيته مالم يتشبه بأهل الشرك۔ (كتاب الأثر:ص:235)
جتنی مقدار سے اہل شرک سے مشابہت نہ ہو تو اتنی مقدار میں داڑی کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دیگر احناف کا بھی داڑی کو کاٹنے کے حوالے سے یہی موقف ہے، بلکہ ایک مشت داڑی کاٹنے کو سنت لکھا ہے: ''القص سنة فيها '' (الفتاوى الهندية)(5/358)
امام شافعی نے الام میں داڑی کو کاٹنے کے بارے میں لکھا ہے:
''فمن توضأ ثم أخذ من أظفاره ،ورأسه و لحيته، و شاربه، لم يك عليه إعادة وضوء، وهذا زيادة نظافة و طهارة'' (الأم :1/21)
جس نے وضو کیا اور پھر اس نے اپنے ناخن،سر، داڑی اور مونچھوں کے بال کاٹے،اس پر دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ تو مزید طہارت و صفائی ہے۔
حافظ ابن حجر نے تو امام شافعی کے بارے یہاں تک لکھا ہے: الشافعي نص على استحبابه الأخذ منها في النسك (فتح الباري)(10/350)
امام شافعی نے حج و عمرہ کے موقع پر(یک مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے مستحب ہونے پر نص بیان کی ہے۔
علامہ ذہبی نے ابو ابراہیم مزنی سے بیان کیا ہے: مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ وَجْهاً مِنَ الشَّافِعِيِّ -رَحِمَهُ اللهُ- وَكَانَ رُبَّمَا قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَلاَ يَفْضُلُ عَنْ قَبْضَتِهِ
میں نے امام شافعی کے چہرے سے زیادہ خوب صورت چہرہ نہیں دیکھا،وہ بعض اوقات اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے تھے تو وہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
جناب ابن ہانی نے امام احمد بن حنبل سےلکھا ہے:
''الأخذ بما زاد عن القبضة '' (ابن هاني في مسائله للأمام أحمد :2/15)
جو داڑی مشت سے زائد ہو اسے کاٹ دیا جائے۔
ابو بکر خلال نے لکھا ہے کہ اسحاق بن حنبل کہتے ہیں:
سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنِ الرَّجُلِ يَأْخُذُ مِنْ عَارِضَيْهِ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا فَضُلَ عَنِ الْقَبْضَةِ.قُلْتُ: فَحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:((أَحِفُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى)) ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنْ طُولِهَا وَمِنْ تَحْتِ حَلْقِهِ.
)الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد بن حنبل ،ابو بکر الخلال:ص:130
میں نے امام احمد سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے آپ کیا خیال ہے جو اپنی داڑی کو کاٹتا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا:جو داڑی قبضے سے زائد ہو وہ اسے کاٹ سکتا ہے،جناب اسحاق نے بیان کیا ہے کہ میں نے کہا کہ حدیث رسول تو یہ ہے کہ مونچھوں کو پست کرو اور داڑیوں کو بڈھاؤ تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑی کو لمبائی اور اپنے حلق کے نیچے سے کاٹا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
وأما إعفاء اللحية، فإنه يترك، ولو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره، نص عليه'' ( شرح العمدة في الفقه :1/236)
داڑی کو بڈھانے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر ایک مشت سے زائد داڑی کو کاٹ لیا جائے تو یہ جائز ہے،کیوں کہ اس پر نص موجود ہے۔
اسی طرح موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کے اکابرعلمائے کرام کے فتاویٰ میں بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کی صراحت مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو:
فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:
”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء)
فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟
جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)
اسی کتاب میں ایک مشت سے زائدڈاڑھی کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو:
”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)
صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں ۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔
حافظ زبیرعلی زئی داڑھی کے بارے میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا اور قینچی نہ لگانا افضل ہے تاہم ایک مشت سے زیادہ کو کاٹنا جائز ہے۔واللہ اعلم۔ (موطاامام مالک،صفحہ 605)
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں:
گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
(اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک )
’’داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے۔ ‘‘
حضرۃ العلام مفتی عبید اللہ عفیف خان صاحب سے سوال ہوا کہ داڑھی کی مقدار طول کیا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک مٹھی ڈارھی رکھنا واجب ہے،اس سے کم داڑھی رکھنامونڈوانے کے مترادف ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں:داڑھی منڈوانا اور مٹھی سے کم داڑھی کو کتروانا فسق ہے اور داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے۔
(فتاوی محمدیہ،ص:758-759)
جناب عبد اللہ محدث روپڑی رقم طراز ہیں:
اس لیے( سیدناعبد اللہ بن عمر) صحابہ کرام میں اتباع نبوی میں خصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں،ان کے اس فعل سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ انھوں نے ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سند لی ہے،ورنہ داڑھیاں بڈھانے کی حدیث کے راوی ہو کر ایک ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرتے،اس لیے اگر کوئی شخص مٹھی سے زائد داڑھی کٹا لے تو اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔
) فتاوی اہل حدیث:جلد:2،ص578)
جناب حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ بھی ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانے کو جائز قرار دیتے ہیں،تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاوی ثنائیہ:ص789،ہفت روزہ الاعتصام،۱۱ نومبر،۱۹۹۴
حد سے زیادہ بڈھی ہوئی داڑی:فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:
”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء)
فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟
جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)
اسی کتاب میں ایک مشت سے زائدڈاڑھی کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو:
”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)
صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں ۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔
حافظ زبیرعلی زئی داڑھی کے بارے میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا اور قینچی نہ لگانا افضل ہے تاہم ایک مشت سے زیادہ کو کاٹنا جائز ہے۔واللہ اعلم۔ (موطاامام مالک،صفحہ 605)
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں:
گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
(اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک )
’’داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے۔ ‘‘
حضرۃ العلام مفتی عبید اللہ عفیف خان صاحب سے سوال ہوا کہ داڑھی کی مقدار طول کیا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک مٹھی ڈارھی رکھنا واجب ہے،اس سے کم داڑھی رکھنامونڈوانے کے مترادف ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں:داڑھی منڈوانا اور مٹھی سے کم داڑھی کو کتروانا فسق ہے اور داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے۔
(فتاوی محمدیہ،ص:758-759)
جناب عبد اللہ محدث روپڑی رقم طراز ہیں:
اس لیے( سیدناعبد اللہ بن عمر) صحابہ کرام میں اتباع نبوی میں خصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں،ان کے اس فعل سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ انھوں نے ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سند لی ہے،ورنہ داڑھیاں بڈھانے کی حدیث کے راوی ہو کر ایک ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرتے،اس لیے اگر کوئی شخص مٹھی سے زائد داڑھی کٹا لے تو اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔
) فتاوی اہل حدیث:جلد:2،ص578)
جناب حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ بھی ایک مشت سے زائد داڑھی کٹوانے کو جائز قرار دیتے ہیں،تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاوی ثنائیہ:ص789،ہفت روزہ الاعتصام،۱۱ نومبر،۱۹۹۴
ہم نے متعدد ایسے علماء کو سنا اور پڈھا ہے جو کہتے ہیں کہ مشت سے زائد تو دور کی بات ہے ڈاڑھی کا ایک بال کاٹنا بھی حرام ہے،داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے،ڈاڑھی کو قیچی لگانا حرام ہے،اگر ان سے یہ سوال پوچھا جائے کہ ایک شخص کی ڈاڑھی اتنی لمبی ہے کہ رانوں تک چلی جاتی ہے،کیا وہ شخص اپنی ڈاڑھی کو کٹوا سکتا ہے؟ تو وہ جواب میں لکھ دیتے ہیں کہ ایسا شخص ڈاڑھی کٹوا سکتا ہے،ان کے دلائل اوپر ذکر کردہ آثار صحابہ ہیں۔
اس کی مثال فضیلۃ الشیخ عبد الستار حماد صاحب کے فتاوی میں مل جائے گی۔
ان سے میرا یہ سوال ہے کہ جب آپ کے بقول ڈاڑھی کو مطلق چھوڑ دینا چاہیے تو اب یہ جواز کہاں سے پیدا ہوگیا، جب آپ یہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ڈاڑھی کو کبھی نہیں چھیڑا،اور اس کو معاف کرنے کا حکم دیا ہے،اب آپ حد سے بڑھی ہوئی ڈاڑھی کو کاٹنے کی اجازت دے رہے ہیں،حالاں کہ بقول آپ کے اس نص پر عمل تو اسی صورت میں ہوگا ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے،چاہے وہ گھٹنوں اور پاؤں تک چلی جائے ۔
ان تمام دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے جو مسلمان اس سے کم ڈاڑھی رکھتا ہے وہ رسول اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے،اس کا یہ عمل خلاف سنت ہے،دوسری جانب اس میں محتاط موقف یہ ہے کہ مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانے کو حرام قرار نہ دیا جائے،کیوں کہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔اگر کوئی شخص مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانے کو حرام کہتا ہے تو اس کا یہ فعل شریعت میں اضافہ ہے اور شریعت میں اضافہ بدعت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
اس کی مثال فضیلۃ الشیخ عبد الستار حماد صاحب کے فتاوی میں مل جائے گی۔
ان سے میرا یہ سوال ہے کہ جب آپ کے بقول ڈاڑھی کو مطلق چھوڑ دینا چاہیے تو اب یہ جواز کہاں سے پیدا ہوگیا، جب آپ یہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ڈاڑھی کو کبھی نہیں چھیڑا،اور اس کو معاف کرنے کا حکم دیا ہے،اب آپ حد سے بڑھی ہوئی ڈاڑھی کو کاٹنے کی اجازت دے رہے ہیں،حالاں کہ بقول آپ کے اس نص پر عمل تو اسی صورت میں ہوگا ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے،چاہے وہ گھٹنوں اور پاؤں تک چلی جائے ۔
ان تمام دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے جو مسلمان اس سے کم ڈاڑھی رکھتا ہے وہ رسول اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے،اس کا یہ عمل خلاف سنت ہے،دوسری جانب اس میں محتاط موقف یہ ہے کہ مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانے کو حرام قرار نہ دیا جائے،کیوں کہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔اگر کوئی شخص مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانے کو حرام کہتا ہے تو اس کا یہ فعل شریعت میں اضافہ ہے اور شریعت میں اضافہ بدعت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
Last edited: