محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
یہ امت تہتر فرقوں پر بٹ جائے گی
فتوى نمبر:830
سوال :
مجھے اس حدیث شریف سے اگہی ہوئی جسے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتاب [مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم] میں درج کیا ہے؛ اور وہ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ہے: یہ امت تہتّر فرقوں میں بٹے گی سارے جہنم میں ہوں گے سوائے ایک کے۔ پوچهنے والا یہاں پر اس مسئلہ کی وضاحت چاہتا ہے جس میں امام محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتاب
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 221)
سابق الذکر: (یہ مسئلہ مسائل کی خاطر ہے جس نے اس کو سمجھا تو وہ فقیہ ہے اور جس نے اس پر عمل کیا تو وہ مسلمان ہے، ہم لطف وکرم والے اللہ سے دعا گو ہیں کہ ہم پر اس کو سمجھنے اور عمل کرنےمیں اپنا فضل فرمائے) علاوہ ازیں پوچهنے والا یہ چاہتا ہے کہ اس مذکور حدیث کے گرد گھومنے والے درج ذیل سوالوں کا بھی جواب دیا جائے اور وہ یہ ہیں:
1 - حدیث میں جس فرقہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ کون ہے؟
2 - اور کیا اہل حدیث کےعلاوہ دوسرے فرقے بھی اس میں داخل ہو سکتے ہیں؟
جیسا کہ شیعہ اور شافعيہ اور حنفیہ اور تيجانيہ وغيرہ بہتر فرقوں میں جس کے بارے میں رسول کریم نے بتایا کہ وہ جہنم میں جائیں گے؟
3- اور یہ فرقے جہنمی ہیں سوائے ایک تو آپ ان کو بیت اللہ الحرام کی زیارت کی کیسے اجازت دیتے ہیں؟
کیا بڑا امام کى غلطی پر تھا یا پھر آپ کو سنجیدہ سیدھا طریقہ مل گیا؟
جواب :
اول:
جو امام شیخ محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتاب [مختصر السيرة] میں مشہور صحیح حدیث کے ضمن میں ذکر کیا جسے روایت کیا اصحاب سنن اور مسانید نے مثلا ابو داود، نسائی، ترمذی اور ان کے علاوہ نے کئی الفاظ کے ساتھـ یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے سارے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹ گئے سارے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے،
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 222)
اور ايک روايت ميں ہے: تہتر گروہوں میں۔ اور ايک روايت ميں: انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول، ان میں کون سا فرقہ نجات پانے والا ہے؟ فرمایا: جو اس پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابی ہیں۔ اور ایک روایت میں کہا: وہ جماعت ہے، اللہ کا ہاتھـ جماعت پر ہے۔
دوم:
نجات پانے والے فرقے کے بارے میں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے سوال کے جواب میں حدیث کی بعض روایات میں اس کی صفت اور خوبیوں کی وضاحت بھی بیان فرما دی: نجات پانے والا فرقہ کون ہے؟ فرمایا: جو ہوگا (اس راستے پر) جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا: وہ جماعت ہے، اللہ کا ہاتھـ جماعت پر ہے۔
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 223)
آپ نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عقیدے، قول، عمل اور اخلاق کے اعتبار سے اس پر ہوگا جس پر نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں، اور ہر بات میں اس کا منہج کتاب اور سنت ہوگا، اور مسلمانوں کی جماعت کے طریقے کی پابند ہوگا اور وہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں، کیونکہ ان کا کوئی پیشوا نہیں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اپنی خواہش سے کچھـ نہیں کہتے، بلکہ ان کی گفتگو سراپا وحی ہوتی ہے، پس جو کتاب وسنت کی اپنے قول، عمل اور اجماع امت کی پیروی کرے گا اور جھوٹے گمان اور گمراہ خواہشات، باطل تاویلات جو عربی زبان کے مخالف ہیں- اور عربی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان، جس میں قرآن کریم نازل ہوا- اور اسی پر شریعت اسلامیہ کے اصولوں کا دارو مدار ہے، ہر وہ جو اس طرح ہوگا تو وہ نجات پانے والے فرقے اہل سنت وجماعت میں سے ہوگا۔
سوم:
جس نے خواہش کو اپنا رب بنا لیا اور کتاب وسنت صحیح سے اپنی رائے اور اپنے امام کے رائے یا کسی شخص اس كو پسند اور تعصب کے تحت وه اعراض کیا، یا کتاب وسنت کی نصوص کی تاویل جسے عربی زبان مسترد کرتی ہے اور شریعت اسلامیہ کے اصول اسے قبول نہیں کرتے تو وہ جماعت سے نکل گیا اس طرح وہ ان بہتر فرقوں میں سے ہوگا جن کا رسول معصوم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ وہ سارے جہنمی ہیں، تب اس فرقے کی نشانی یہ ہے جسے تم جان گئے ہو: کتاب وسنت اور اجماع سے دور بغیر تاویل جو قرآن واصول شریعہ کی زبان کے مطابق ہو اور اس کا تاویل کرنے والا اپنی غلطی میں معذور سمجھا جائے جس میں اس سے خطا ہوئی۔
چہارم:
وہ مسئلہ جو امام دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 224)
نے ذکر کیا وہ مسائل کی وجہ سے ہے، اور جس نے اسے سمجھا اس نے دین کو سمجھا، جس نے اس پر عمل کیا تو وہ مسلمان ہے اس کا بیان دوسرے فقرے میں جواب کے ساتھـ گزر چکا ہے، نجات پانے والے فرقے کی تمیز اور اس کی خصوصیت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دے، اور دوسرے فرقے اس کے الٹ ہیں، پس نجات پانے والے فرقے اورہلاک ہونے والے فرقوں کے مابین فرق جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا، تو یہ وہ فرقے ہیں جو ان کی تفصیل کے مطابق جماعت کے ساتھـ رہنا واجب ہے اور جو جماعت سے اجتناب کرنے والا اصل میں شیر سے بھاگنے والے کی طرح بھاگتا ہے، اور جس نے صحیح سمجھـ سے اس پرعمل کیا تو وہ ہدایت اور حق والی جماعت اور اس کے امام کو مضبوطی سے پکڑنے والا ہوگا اور وہ مسلمان ہے؛ کیونکہ علم، عقیدہ، قول اور فعل کے اعتبار سے فرقہ ناجیہ کی صفت اس پرمنطبق ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ سب کچھـ مسائل کی خاطر ہے اور اس کا فائدہ بہت بڑا اور عام ہے، اللہ تعالی نےامام شیخ محمد بن عبدالوہاب پر رحم فرمائے، دین کی نصوص اور اس کے مقاصد کے لئے کھلی بصیرت اور بلند نظر وفھم مقاصد کا مالک تھا، انہوں نے مسلمانوں کو اپنے دینی معاملات میں کبھی اشارے سے بھی متنبہ کیا جیسا کہ یہاں ہے، اور کبھی عبارت سے، بیان اور کبھی دوسرے طریقے سے بھی اپنی اکثر تصانيف میں موجود ہے۔
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 225)
پنجم:
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ایسے القاب نہیں رکھتے جو اسلام سے تعلق رکھنے والے بعض گروہوں میں مشہور ہیں ایسی نشانیاں جن سے بہتر فرقوں کی پہجان ہوتی ہے، اور نہ ہی ایسا عنوان جو بعض کو بعض سے نمایاں کرتا ہے، بلکہ ایسی نشانیاں رکھیں جو کتاب، سنت اور اجماع خلفاء راشدین اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے الگ کرنے والی ہیں، گمان اور نفسانی خواہش کی پیروی کرتے ہوئے، اور اللہ تعالی پر بغیر علم قول خواه اور اپنے پیشوا كى بات کے لئے تعصب ركهتے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اس کو دہراتے اور اس سے لگاؤ جیسا کہ نجات پانے والے فرقے کے لئے شعار بنا دیا کہ وہ کتاب وسنت کی پیروی اور مسلمان جماعت کے ساتھـ رہیں گے، اور اس کے لئے وہ اپنے ادراک، گمان اور خواہشات کی قربانی دیں گے، اور ان کی خواہش شریعت اسلام کی تعلیمات کے تابع ہوگی، اسی کے لئے ان کی دوستی اور دشمنی ہو گی، جس نے یہ ترازو پکڑ لیا تو فرقوں کا اس میں وزن کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا اور وہ اپنے فرقے کو پہچانتا بھی ہو تاکہ وہ ہلاک ہونے والے فرقوں سے نجات پانے والے فرقے کی تمیز کر سکے جس نے بغیر علم وحکمت سے فرقوں کے بارے میں گفتگو کی تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا، اوراسلام سے نسبت رکھنے والے گروہوں کے ساتھـ بھی، اور جس نے نجات پانے والے اور ہلاک ہونےوالے فرقوں کے درميان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے مطابق تمیز کو دہرایا تو اس نے اپنے حکم اور معرفت کے ساتھـ انصاف کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ امت کی جماعتوں میں درجات مختلف ہیں، ان میں سے کچھـ شریعت اسلام کی پیروی میں دلچسپی رکھتے ہیں بہت کم لوگ ایسے بھی ہیں جو دین میں نئی چیزیں پیدا کرنے اور اس کی نصوص میں تحریف کرنے والے ہیں، ان میں زیادہ یا کم لوگ وہ ہیں جو سعادتمند نجات پانے والے فرقے میں ہوں گے، حدیث کے علماء اور کتاب وسنت ميں فقہ کے آئمہ میں سے بعض اہل اجتہاد ہیں وہ شریعت اسلامیہ پر حریص رہتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کر رکھا ہے بعض نصوص کی تاویل میں کبھی غلطی بھی کر جاتے ہیں لیکن وہ اپنی اس خطا میں معذور سمجھے جائیں گے کیونکہ یہ اجتھاد کا موقع ہے، اور ان میں سے بعض شرعی نصوص کا انکار کردیتے ہیں، یا تو وہ اسلام میں نیا نیا داخل ہوا، یا پھر اس لئے کہ اس نے اسلامی ملکوں سے دور پرورش پائی اور اس تک وہ بات نہیں پہنچی جس کا وہ انکار کر رہا ہے، ان میں سے بعض معصیت یا کسی نئی چیز کی ایجاد کا ارتکاب کرتا ہے لیکن اس وجہ سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا، وہ مؤمن اللہ کا فرمانبردار ہے، معصیت اور بدعت کے ارتکاب کی وجہ سے خطاکار ہے اور اس كے حكم اللہ کی مرضی اگر چاہے تو اس كومعاف کردے اور چاہے تو اسے عذاب دے،
الله تعالى نے فرمايا:
ﯾﻘﯿﻨﺎﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﺮﯾﻚ ﻛﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻛﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺨﺸﺘﺎﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺳﻮﺍ ﺟﺴﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔
اور کہا:
ﺍﻭﺭ ﻛﭽھ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻄﺎ ﻛﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻠﮯ ﺟﻠﮯ ﻋﻤﻞ ﻛﯿﮯ ﺗﮭﮯ، ﻛچھ ﺑﮭﻠﮯﺍﻭﺭکچھ ﺑﺮﮮ ۔ ﺍللہ ﺳﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ۔
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 226)
تاویل كى غلطى یا جحود کی وجہ سے یہ لوگ کافر نہیں ہیں بلکہ معذور سمجھے جائیں گے اور ان کا شمار نجات پانے والے فرقے میں ہوگا اگرچہ ان کی حیثیت کم ہوگی، ان میں سے بعض نے ضرورت دین کی معلومات کا انکار کیا اور بات واضح ہونے کے بعد اس نے اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کی یا بعض شرعی نصوص کے خلاف پہلی مسلمان جماعت سے ہٹ کر تاویل کی، اور جب ان پر حق واضح ہوگیا اور مناظروں وغیرہ کے ذریعے سےحجت قائم ہو گئی پھر بھی انہوں نے رجوع نہیں کیا تو وہ کافرہے اور اسلام سے مرتد ہیں اگرچہ یہ گمان ہی کرتے رہیں کہ وہ مسلمان ہیں، اور اگر انہوں نے اپنے عقیدے اور طریقے میں دعوت کی کوشش کی، مثلا احمد قادیانی کی جماعت جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا انکار کیا اور یہ گمان کیا کہ غلام احمد قادیانی الله کا نبی اور اور اس کا رسول ہے، یا وہ مسیح عیسی بن مریم ہے، یا حضور اكرم محمد یا حضرت عیسی کی روح اس کے جسم میں حلول کر گئی ہے تو وہ نبوت اور رسالت کے مقام پر فائز ہے۔
ششم:
اہل سنت وجماعت دلائل کے ساتھـ پختہ ہیں اور انہی پر فروعات مبنی ہیں، کسی جزوی مسئلہ پر استدلال کے لئے وہ اصول کی جانب رجوع کرتے ہیں اور احکام کو اپنے اور دوسروں پر نافذ کرتے ہیں۔
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 227)
اور انہی ميں: ایمان قول، عمل اور عقیدہ کا نام ہے اور اس میں اطاعت سے زیادتی اور نافرمانی سے کمی واقع ہوتی ہے، جب بھی مسلمان کی اطاعت میں اضافہ ہوتا ہے اس کے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اس کے نقص ایمان کی وجہ سے بات صریح کفر تک نہیں پہنچتی، اہل سنت کے نزدیک ایمان کے درجات ہیں اور نجات پانے والا فرقے مختلف طبقات ہیں جو دلیلوں کے اعتبار اور کسب اقوال واعمال ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
اور ان ميں: وہ کسی معین شخص یا اہل قبلہ میں سے کسی معین فرقےکی تکفیر نہیں کرتے بلکہ اس میں غور وفکر کرتے ہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید بن حارثہ سے کہا جب انہوں نے کفار میں سے ایک شخص کو یہ كلمہ طيبہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑهنے کے باوجود اس كو قتل کردیا تھا: تو آپ نے اسامہ سے اس شخص کو قتل کرنے کا عذر قبول نہ کیا تاکہ وہ اپنے آپ کو بری کر سکیں، بلکہ اس نے فرمایا: کیا تو نے اس کے دل کو چیرا تھا کہ تو نے جانا کہ اس نے کلمہ پڑھا تھا یا نہیں۔ يعنی کیا تم جانتے ہو اس كو خلوص دل سے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں۔
ہاں جب وہ واضح کفر کا مرتکب ہو، مثال کے طور پر دین میں ضروری معلومات کا انکار یا قطعی اجماع کی مخالفت اور نصوص صریحہ کی تاویل جو قبول نہ کرتی ہوں پھر وضاحت کے بعد بھی اپنی بات سے رجوع نہ کرے۔
اورامام دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمه الله نے اہل سنت وجماعت کے طریقے کی پابندی کی
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 228)
اور ان کے اصول پر چلے، انہوں نے کسی معین شخص اور نہ ہی اہل قبلہ میں سے کسی معین گروہ کی نافرمانی یا تاویل یا بدعت کی وجہ سے تکفیر کی سوائے جب دلیل اس کے کفر پر قائم ہو جائے، اوراس تک بات اور اس کی تفصیل کا پہنچنا ثابت ہو جائے، سعودی حکومت نے اس سے اختلاف نہیں کیا- اللہ اس کی نگرانی کرے اور اس معاملے میں اس کی رعایا اور حکمرانون کی توفیق کے ساتھـ اس کی مدد کرے، اور نہ ہی مسلمان عير ملكوں کے ساتهـ اس کے موقف میں کوئی تبدیلی آئی بالخصوص ان کے بارے میں جو مناسک حج یا عمرہ کی ادائگی کے لئے خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں، وہ ان کے ساتهـ حسن ظن رکھتی ہے اور سہولت مہیا کرنے میں ان کےساتھـ تعاون کرتی اور ان کے حقوق کی حفاظت اور ان کی مسلوب چیزیں انہیں لوٹانے میں ان کی مدد کرتی ہے، آنے والوں کا خیر مقدم کرتی اور مناسک کی ادائگی یا اپنے کاموں کی انجام دہی میں ان کو سہولیات مہیا کرتی اور ان کے ساتھـ لطف ومہربانی سے پیش آتی ہے، جو اس کے احوال اور معاملات اور عام مسلمانوں کے اصلاح کےطریقوں پر اور بیت اللہ شریف کے حجاج کے ارام کے لئے سہولتیں بہم پہنچانے میں کوششیں اور مال خرچ کرتی ہے جو اس سے واقف ہے وہ یہ سب جانتا ہے۔
اور اسی لئے وہ بغیر کسی چھان بین کے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو بیت اللہ شریف کی زیارت کا موقع فراہم کرتی ہے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے عقائد میں جو کچھـ پوشیدہ ہے باطن میں جانچ پڑتال نہیں کرتی، اللہ تعالی راز جاننے والا ہے، جب اس پر کسی شخص یا معین گروہ کا کفر واضح ہوجائے مثال کے طور پرقادیانی گروہ اور اسلامی ملکوں کے علماء محققین کے سامنے یہ ثابت ہو جائے تو اس کے کفر کی وجہ سے اسے حج وعمرہ کی ادائیگی اور بیت اللہ شریف کی حفاظت کی خاطر اسے روکنا ضروری ہو جاتا ہے؛ تاکہ اپنے نجس دل کے ساتھـ اس کے قریب نہ جائے اللہ تعالی کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے:
ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺑﮯ ﺷﻚ ﻣﺸﺮﻙ ﺑﺎﻟﲁ ﮨﯽ ﻧﺎﭘﺎﻙ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﻛﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﮭﭩﻜﻨﮯ ﭘﺎﺋﯿﮟ
( جلد کا نمبر 2; صفحہ 229)
اور الله تعالى كا فرمان:
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻛﻮ ﻃﻮﺍﻑ ﻗﯿﺎﻡ ﺭﻛﻮﻉ ﺳﺠﺪﮦ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻙ ﺻﺎﻑ ﺭﻛﮭﻨﺎ ۔
جو پہلے گزرا اس سے عظیم مسئلہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس کی جانب اپنے عہد کے امام دعوت شیخ محمد بن عبدالوہاب نے اشارہ کیا اور سوال میں اس کی وضاحت کا مطالبہ کیا گیا، علاوہ ازیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ رحمہ اللہ پرامن راستے پر چلا اور اہل سنت وجماعت کے اصول کی پاسداری کی، نیز سعودی حکومت نے دنیا کے مسلمانوں کے ساتھـ اپنے تعامل میں سنجیدگی کی حد کو پار نہیں کیا، بلکہ اس نے اہل سنت وجماعت کے اصول کی پابندی کی اور امام دعوت کو بھی لازم پکڑے رکھا، مسلمانوں کے ظاہری احوال کو دیکھا ان کے دلوں کی چھان بین نہیں کی، جس کا معاملہ پوشیدہ رہا اس کے جرم میں درگزر سے کام لیا، اور اس کی واپسی کے لئے پہ در پہ مناظرات اور لگاتار وضاحت پر مصر رہی۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبداللہ بن سلیمان بن منیع عبدالرزاق عفیفی ابراہیم بن محمد آل شیخ
http://alifta.com/Search/ResultDetails.aspx?languagename=ur&lang=ur&view=result&fatwaNum=&FatwaNumID=&ID=598&searchScope=3&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&highLight=1&SearchType=exact&SearchMoesar=false&bookID=&LeftVal=0&RightVal=0&simple=&SearchCriteria=allwords&PagePath=&siteSection=1&searchkeyword=217129216177217130219129#firstKeyWordFound