• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ لوگ سیاست میں کیوں ہیں؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521

یہ لوگ سیاست میں کیوں ہیں؟​
[SUP] دی نیوز ٹرئب ٣٠ اپریل ٢٠١٣ :Umar Farook[/SUP]

جن لوگوں کو آپ اور ہم ووٹ دیتے ہیں کیا کبھی آپ نے اُن کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ یہ لوگ سیاست میں کیوں ہیں؟

ان کا سیاست میں آنے اور سیاست میں رہنے کا کیا جوازہے،اِن لوگوں کی منزل کیا ہے؟

اگر کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے سے پہلے ہم اپنے آپ سے یہ سوال کر لیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

آپ کے سامنے حقیقت کھل کر آ جائے گی کہ ہم کن لوگوں کو اپنے قیمتی ووٹ سے نوازتے رہے ہیں۔ اس کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ طاقت کا نشہ ان لوگوں کو سیاست میں آنے پر مجبور کرتا ہے اورجب طاقت کا نشہ لگ جائے تو پھر اُس سے جان چھڑانی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔

کیا نواز شریف، زرداری ، الطاف حسین اور چوہدری برادران کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ اگر وہ ساری زندگی بیٹھ کر سکون سے کھاتے رہیں تو پھر بھی اُن کی سات نسلوں تک یہ دولت ختم نہیں ہو گی ! تو پھر کون سی ایسی بات ہے جو انہیں لوگوں سے گالیاں کھانے اور بددعائیں لینے پر مجبور رکھتی ہے؟ وہ ہے طاقت کا نشہ ۔۔۔۔! ورنہ میاں نواز شریف کو کیا مسئلہ تھا اگر وہ سعودی محل میں آرام سکون سے زندگی بسر کرتے رہتے اور پھر مشرف کو بھی یہی طاقت کا نشہ دوبارہ کھینچ کر واپس لایا لیکن اُس کا اندازہ نہ ہو سکا کہ پاکستان اب بدل رہا ہے۔

ایک لمحہ میں تبدیلی کی امید تو ہم نہیں کر سکتے کیونکہ ملکوں اور قوموں کو تبدیل ہوتے کئی سال لگ جاتے ہیں لیکن مثبت بات یہ ہے کہ تبدیلی کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ ہم دوبارہ اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ ہمارے نمائندے کس شوق میں مبتلا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہم سے ووٹ مانگنے آتے ہیں اور پھر ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچنے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔

کیا یہ سب عوام کے بہتری کے کام کرنے کے لیے اتنے بے تاب رہتے ہیں یا اس کے پیچھے اُن کے ذاتی مقاصد ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے اُس کے بارے میں کچھ باتوں پر دھیان دیں۔ سب سے پہلے تو جو امیدوار آپ کے علاقہ میں انتخابات لڑ رہا ہے وہ نیک نام آدمی ہے، کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے؟ اس کے بعد سوچیں کے وہ کتنے عرصے سے سیاست میں ہے، باپ کے وقت سے یا دادا کے وقت اور اُس وقت اُن کی معاشی حالت کیا تھی اور آج وہ کہاں پہ کھڑا ہے۔

اگرآپ مزدور ہیں تو آپ یہ سوچیں کے آپ کا نمائندہ کہیں کوئی سرمایہ دار یا مل اونر تو نہیں ہے؟ اس کے بعد یہ بھی سوچ لیں کہ وہ نمائندہ پہلے کتنی دفعہ منتخب ہو چکا ہے اور منتخب ہونے کے بعد آپ کے حلقے میں وہ کتنی دفعہ تشریف لایا اور اُس کے زیر قیادت آپ کے علاقے میں کون سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔

ان سب سوالوں پر غور پر آپ کے کچھ منٹ صرف ہوں گئے لیکن ان کے جوابات سے آپ کو فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو جائے گی اور آپ اپنے ضمیر کی آواز سننے کے قابل ہو جائیں گے۔ اگر سب لوگ یہی فیصلہ کر لیں کہ اس دفعہ ہم نے کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دینا جو ٹیکس چور ہو، جس نے وسائل کا ناجائز استعمال کیا ہو، جس نے ٹھیکوں میں سے کمیشن کھایا ہو، جس نے پراپرٹی مافیا کو استعمال کیا ہو جس نے آپ کے پیسوں سے ٹیکسٹائل ملیں، شو گر ملیں، دوبئی اور لند ن میں فلیٹ خریدے ہوں اور جن کے بچے بھی نسل در نسل جعلی لیڈر پیدا ہو رہے ہوں۔ ان سب لوگوں کو ان انتخابات میں آپ ووٹ نہیں ڈالیں گے تو تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا۔

اس وقت ہم اُن کی بات کر رہے ہیں جو حقیقی ووٹر ہیں ہم اُن لوگوں کی بات نہیں کر رہے جو کسی ’’صاحب‘‘ کے سپورٹر ہیں اور آپ کو ذات برادری یا کسی نوکری کا لالچ دے کر ووٹ دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ سپورٹر ٹائپ لوگ تو ہر دور میں فائدے میں رہتے ہیں، جب ان کے ’’صاحب‘‘ ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ لوگ اُن کی کوٹھی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں، پولیس کے نوکری کے ایک لاکھ ، تبادلے کے لئے پچاس ہزار اور کسی سے زمین چھڑوانے کیلئے بیس فیصد کمیشن اور گلی محلوں کی گلیوں کے ٹھیکوں میں کمیشن سے ان کا کاروبار خوب چمکنے لگتا ہے۔

باقی بچ جاتے ہیں غریب اور بے وقوف عوام جنہوں نے ان لوگوں کے جھوٹے وعدوں میں آ کر ووٹ دیئے ہوتے ہیں وہ پھر لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتتے ہیں ، وہ بے روزگاری کے الاؤ میں جلتے ہیں ، وہ مہنگائی کے کلہاڑے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں اور وہ بچوں کی تعلیم کے لیے اپنے آپ کو گروی رکھ کر نسل در نسل غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔ پھر نہ ووٹ لینے والا ’’صاحب‘‘ کبھی مڑ کر واپس حلقے میں آتا ہے اورنہ اُس کا سپورٹرروپوں کے علاوہ کوئی بات سننے کو تیار ہوتا ہے۔

اگر لوگ ووٹ دینے کے لیے ذات برادری سے اوپر اٹھ کر نہیں سوچیں گے تو پھر فرشتے تو اُن کے حالت بدلنے کیلئے آسمان سے اتریں گے نہیں، اور عوام کو پھر اسی مافیا کی چکی میں پسنا ہو گا اور اپنی خون پسینے کی کمائی اُن پر خرچ کرنی ہو گی جو واٹر بیڈ پر سوتے ہیں، جن کی بیویوں لاکھوں پاؤنڈ جوا خانے میں ہار کر بھی خوش ہوتی ہیں اور جو بلاول ہاؤس اور رائے ونڈ جیسے محلوں میں رہتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے فارم میں کاروبار کے خانے میں بھی سیاست ہی لکھتے ہیں۔
 
Top